فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
غزہ کی صورتحال، فلسطین کی صورتحال، دن بدن نہیں لمحہ بہ لمحہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل تمام اخلاقیات، تمام قوانین، تمام معاہدات کو پامال کرتے ہوئے اس درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس پر دنیا کی خاموشی بالخصوص عالمِ اسلام کے حکمرانوں پر سکوتِ مرگ طاری ہے۔ مجھے تو بغداد کی تباہی کا منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے، جب تاتاریوں کے ہاتھوں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوا تھا، بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی، اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی، آج پھر ’’بغداد‘‘ کی تباہی کا منظر ہمارے سامنے ہے، اسرائیل اور اس کے پشت پناہ، آج وہ چادر جو انہوں نے اوڑھ رکھی تھی، مغرب نے، امریکہ نے، یورپی یونین نے، عالمی طاقتوں نے، انسانی حقوق کی، بین الاقوامی معاہدات کی، انسانی اخلاقیات کی، وہ آج سب کی چادر اسرائیلی درندگی کے ہاتھوں تار تار ہو چکی ہے۔لیکن اس سے زیادہ صورتحال پریشان کن، اضطراب انگیز یہ ہے کہ مسلم حکمران بھی اسی مصلحت کا، مصلحت نہیں بے غیرتی کا شکار ہو گئے ہیں۔ آج او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کو، عرب لیگ کو، مسلم حکمرانوں کو، جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ اس کے لیے مل بیٹھ کر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور امتِ مسلمہ، عالمِ اسلام سناٹے کے عالم میں اپنے حکمرانوں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ ہمارے ہی حکمران ہیں، کون ہیں یہ؟لے دے کے دینی حلقوں کی طرف سے دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ آواز اٹھ رہی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ملتِ اسلامیہ بحیثیت ملتِ اسلامیہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ نہیں، اپنی دینی قیادتوں کے ساتھ ہے جو کسی نہ کسی انداز میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں، اس آواز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔میں اس موقع پر دنیا بھر کے دینی حلقوں سے، علماء کرام سے، یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ آج کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے تاتاریوں کی یلغار اور بغداد کی تباہی کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کر لیں، کیا ہوا تھا؟ کس نے کیا کیا تھا؟ اور کون سے حلقے تھے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کی تباہی کی راہ ہموار کی تھی اور کون سے لوگ تھے جنہوں نے اس وقت ملتِ اسلامیہ کو سہارا دیا تھا؟ مجھے اس وقت کی دو بڑی شخصیتیں ذہن میں آ رہی ہیں (۱) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور (۲) شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ تعالیٰ، دینی قیادت تھی، سامنے آئے تھے، امت کو سنبھالا تھا، مقابلہ کر سکے یا نہ کر سکے، امت کو سنبھالنا، امت کا حوصلہ قائم رکھنا، اور اپنے مشن کے تسلسل کو قائم رکھنا، یہ تو بہرحال بہرحال دینی قیادتوں کی ذمہ داری ہے، علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ حمیت کو باقی رکھیں، غیرت کو باقی رکھیں۔تو میری پہلی درخواست تو علماء کرام سے ہے، کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی فقہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، کہ آج شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلامؒ کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو فقہاء نے لکھا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمان مظلوم ہوں، ذبح ہو رہے ہوں، تو دنیا بھر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے، ہماری فقہی صورتحال تو یہ ہے، درجہ بدرجہ ’’ علی الاقرب فالاقرب‘‘ ، ’’الاول فالاول‘‘۔ لیکن بہرحال مجموعی طور پر ہم امتِ مسلمہ پر جہاد کی فرضیت کا اصول اس وقت لاگو نہیں ہو گا تو کب لاگو ہو گا۔
لیکن بہرحال ہمیں اپنے اپنے دائرے میں امتِ مسلمہ کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے، بیدار رکھنے کے لیے، فکری تیاری کے لیے۔اور دو تین محاذ ہمارے ہیں: ایک تو یہ ہے کہ علماء کرام ہر علاقے میں ہر طبقے میں ہر دائرے میں اپنے کردار کو اپنے حوصلے کو قائم رکھتے ہوئے امت کا حوصلہ قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج ایک محاذ میڈیا وار کا بھی ہے، لابنگ کا بھی ہے، اس میں جو لوگ صلاحیت رکھتے ہیں ان کو کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور تیسرا محاذ بائیکاٹ کا ہے، اب تو یہ مرحلہ آ گیا ہے، اسرائیل نہیں، اس کے سرپرستوں کے معاشی بائیکاٹ کی بھی ضرورت پیش آ رہی ہے، اور یہ معاشی بائیکاٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معاشی بائیکاٹ حضورؐ کا بھی ہوا ہے، حضورؐ نے بھی کیا ہے۔ شعبِ ابی طالب میں حضورؐ کا ہوا تھا، غزوہ خندق میں حضورؐ نے کیا تھا۔ اور اس کی مختلف مثالیں موجود ہیں۔تو لابنگ کی جنگ، میڈیا کی جنگ، حوصلہ قائم رکھنے کی جنگ، اور معاشی بائیکاٹ، اس میں جس قدر ہم زیادہ توجہ دے سکیں۔ کوئی لکھ سکتا ہے تو لکھے، بول سکتا ہے تو بولے، خرچ کر سکتا ہے تو خرچ کرے، کوئی لوگوں کے ساتھ رابطے کر سکتا ہے تو رابطے کرے۔ جو بھی کسی میں صلاحیت ہے، آج یہ وقت ہے، جو بھی کسی کے پاس موقع ہے، توفیق ہے، صلاحیت ہے، وہ اس کو اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے، فلسطین کی آزادی کے لیے، اسرائیلی درندگی کی مذمت کے لیے، اس میں رکاوٹ کے لیے، مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی آزادی کے لیے، جو بھی کر سکتا ہے وہ کرے۔ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو ایک چڑیا چونچ میں پانی ڈالتی تھی، ایک پرندہ تھا، اس سے کسی نے پوچھا، تیرے پانی ڈالنے سے کیا ہو گا؟ اس نے کہا، ہو گا یا نہیں ہو گا، میری جتنی چونچ ہے اتنا پانی تو میں ڈالوں گی۔ یہ کم از کم کہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ تو کریں، میں دیانت داری کے ساتھ (کہوں گا) کہ مجھے، سب کو اپنے اپنے ماحول کو دیکھنا چاہیے، اپنی اپنی توفیقات کو دیکھنا چاہیے اور جو کر سکتے ہیں اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائیوں پر رحم فرمائے، ہم پر رحم فرمائے۔ مولا کریم! فلسطین کی آزادی، غزہ کے مسلمانوں کی اسرائیلی درندگی سے گلوخلاصی، اور اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی بدمعاشی سے نجات دلانے کے لیے اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائیں اور خود مہربانی فرمائیں، فضل فرمائیں کہ اس مرحلے پر عالمِ اسلام کی، امتِ مسلمہ کی دستگیری فرمائیں، ان کو اس عذاب سے نجات دلائیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: معاشی بائیکاٹ شیخ الاسلام علماء کرام حوصلہ قائم کی صورتحال سکتا ہے تو فلسطین کی کی تباہی کے ساتھ کسی بھی رہی ہے اور اس کے لیے
پڑھیں:
فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے
دنیا کے نقشے پر اگرکہیں ظلم کی سب سے بھیانک اور خوفناک تصویر نظر آتی ہے۔ زمین کے نقشے پر اگرکوئی خطہ سب سے زیادہ زخم خوردہ ہے، اگر کہیں مظلومیت روز جیتی ہے اور انسانیت روز مرتی ہے، اگرکہیں معصوم بچوں کے کٹے پھٹے جسم انسانی ضمیرکو جھنجھوڑتے ہیں اور پھر بھی دنیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تو وہ فلسطین ہے۔
آج فلسطین صرف ایک سرزمین نہیں، بلکہ قیامت زدہ قبروں کا میدان ہے، جہاں بچوں کے جنازے روزانہ اٹھتے ہیں، جہاں عورتوں کی چیخیں دیواروں سے ٹکرا کر دم توڑ دیتی ہیں، جہاں ملبے تلے کچلی ہوئی زندگی کراہ رہی ہے اور جہاں پوری دنیا کی خاموشی انسانی تاریخ کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔
یہ صرف ایک قوم کا المیہ نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کی غفلت، بے حسی اور زوال کی تصویر ہے۔ آج غزہ صرف ملبے کا ایک ڈھیر نہیں، بلکہ تاریخ انسانی کی سب سے تاریک داستانوں میں سے ایک ہے، جو ہر باشعور انسان سے سوال کر رہی ہے۔ ’’کیا تم واقعی انسان ہو؟ ‘‘
غزہ پر پچھلے ڈیڑھ سال سے جو قیامت ٹوٹی ہے، اس نے ظلم اور وحشت کی ساری حدیں پار کردی ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آئے روز ہونے والے فضائی حملے، ٹینکوں کی گولہ باری، ڈرونز سے میزائل برسائے جانے اور زمین دوز بموں نے اس علاقے کو کسی کھنڈر میں بدل دیا ہے، جہاں زندگی باقی نہیں رہی، صرف موت کا راج ہے۔
غزہ کی گلیاں اب زندگی کی نہیں، موت کی تصویر ہیں۔ ہر طرف بکھری لاشیں، خون میں نہائے بچے، روتی بلکتی مائیں اورکھنڈرات میں چھپتے بے سہارا انسان، یہ سب کچھ ہمیں صرف ایک تصویر دکھاتے ہیں کہ انسانیت ہار چکی ہے۔
ہزاروں معصوم بچے جنھوں نے ابھی دنیا دیکھی بھی نہ تھی، دنیا چھوڑگئے۔ وہ بچے جو اسکول جانا چاہتے تھے،کتابوں سے دوستی کرنا چاہتے تھے، آج ان کی کتابیں خون میں لت پت ملبے تلے دبی پڑی ہیں۔ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کے لاشے سینے سے لگائے بیٹھی ہیں اور دنیا کی بے حسی پر ماتم کر رہی ہیں۔ غزہ کے کئی علاقے مکمل طور پر نیست و نابود کردیے گئے ہیں۔
پورے محلے، بستیاں، سڑکیں، اسپتال، مساجد، اسکول اور یونیورسٹیاں ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ پینے کا صاف پانی ہے، نہ کھانے کو کچھ میسر، نہ دوا ہے، نہ علاج۔ بیمار مرتے ہیں، زخمی سسکتے ہیں اورکوئی مدد کو نہیں آتا۔
ظلم صرف غزہ میں نہیں ہو رہا، بلکہ فلسطین کے کئی علاقوں میں اسرائیلی فوجی گھروں میں گھس کر نہتے شہریوں کو مار رہے ہیں، نوجوانوں کو اغوا کیا جا رہا ہے، عورتوں کی بے حرمتی ہو رہی ہے اور مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر حملے معمول بن چکے ہیں۔
فلسطین پر ظلم کوئی نیا واقعہ نہیں۔ یہ ایک مسلسل کہانی ہے، جو پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت سے ہی فلسطینی قوم کو اپنی سرزمین سے بے دخل کیا گیا، ان کے گھروں پر قبضے کیے گئے، ان کی زمینیں چھینی گئیں اور ان کی نسل کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔
کبھی ’’نقب‘‘ کیمپوں میں، کبھی ’’ صبرا و شتیلا‘‘ میں، کبھی ’’جنین‘‘ اور کبھی ’’غزہ‘‘ میں۔ ہر جگہ اسرائیل نے ظلم کی نئی تاریخ رقم کی، لیکن جو کچھ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہوا، وہ محض ظلم نہیں، بلکہ انسانیت کا جنازہ ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ فلسطین جلتا رہا، معصوم بچے مرتے رہے، عورتیں چیختی رہیں، بوڑھے کراہتے رہے، مگر مسلم دنیا کے حکمران اپنی کرسیوں سے ہلنے کو تیار نہیں۔
او آئی سی، جو کہ اسلامی تعاون تنظیم کہلاتی ہے، صرف بیانات تک محدود رہی۔ عرب لیگ کے اجلاس منعقد ہوئے، لیکن ان اجلاسوں میں صرف قراردادیں منظور ہوئیں، جن کا زمین پر کوئی اثر نہ پڑا۔ کہیں سے نہ تجارتی بائیکاٹ ہوا، نہ سفارتی دباؤ، نہ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمات دائرکیے گئے۔
یہاں تک کہ مسلم دنیا اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ پر بھی متحد نہ ہو سکی۔ کیا یہ ہمارے ایمان کی کمزوری نہیں؟ کیا یہ ہمارے ضمیرکی موت نہیں؟جہاں مسلم حکمرانوں کی بے حسی شرمناک ہے، وہیں عالمی طاقتوں کا کردار اور بھی زیادہ مجرمانہ ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو مہلک ہتھیار فراہم کیے، اس کی ہر ظلم کی پشت پناہی کی اور اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کے حق میں آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ انصاف کے نہیں، مفادات کے علمبردار ہیں۔
برطانیہ، جرمنی، فرانس جیسے ممالک جو انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں، وہ بھی اسرائیل کی صف میں کھڑے نظر آئے۔ اقوام متحدہ، جو امن و انصاف کا عالمی ادارہ کہلاتا ہے، فلسطین کے معاملے میں محض تشویش، افسوس اور فوری جنگ بندی کی اپیل جیسے کمزور الفاظ سے آگے نہ بڑھ سکا۔
یہ ادارہ اگر شام، لیبیا، یوکرین یا کسی اور مغربی مفادات سے جڑے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر متحرک ہو سکتا ہے تو فلسطین کے معاملے میں اتنا بے بس کیوں ہے؟ کیا فلسطینی انسان نہیں؟ کیا ان کے خون کی قیمت کم ہے؟ یہ سب دیکھ کر دل چیخ اٹھتا ہے کہ کیا انسانیت واقعی مر چکی ہے؟ کیا اب دنیا صرف طاقتور کے حق کو تسلیم کرتی ہے؟ کیا اب معصوم بچوں کی لاشیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں رہیں؟
اس وقت پوری دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہمیں ایک عظیم سبق دے رہا ہے کہ صرف جذباتی تقریریں، روایتی احتجاج اور سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ چلانا کافی نہیں۔ اب وقت ہے کہ مسلم دنیا اپنے وسائل، اپنی طاقت، اپنی وحدت کو یکجا کرے۔
وہ ملت جو ڈیڑھ ارب سے زیادہ افراد پر مشتمل ہو، جس کے پاس بے پناہ دولت، افرادی قوت اور وسائل ہوں، وہ اگر متحد نہ ہو تو اس کا بہت بڑا جرم ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم نے فلسطینیوں کے لیے کیا کیا؟ ہم میں سے ہر فرد جواب دہ ہے۔
کیا ہم نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا؟ کیا ہم نے اپنے حلقے میں شعور اجاگرکیا؟ کیا ہم نے مظلوموں کے لیے دعا بھی کی؟ کیا ہم نے ان کے حق میں آواز بلند کی؟ کیا ہم نے قلم اٹھایا؟ کیا ہم نے بچوں کو بتایا کہ فلسطین کیا ہے؟ اگر ہم نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کیا، اگر ہم نے سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کے حق میں آواز نہیں اٹھائی، اگر ہم نے اپنی اولاد کو فلسطین کی حقیقت نہیں بتائی تو ہم بھی مجرم ہیں۔
خاموشی بھی ظلم کا ساتھ دینا ہے اور ظلم کے سامنے خاموش رہنے والا بھی ظالم کے جرم میں شریک ہوتا ہے۔ آج فلسطین ملبے تلے صرف معصوم انسانوں کی لاشیں نہیں دفن ہو رہیں، بلکہ انسانیت کی روح بھی کچلی جا رہی ہے، اگر آج ہم نے آنکھیں بند رکھیں، زبانیں بند رکھیں، ہاتھ روک لیے اور ضمیر کو سلا دیا تو کل جب ہماری باری آئے گی تو کون ہمارے لیے بولے گا؟ کون ہمارا پرسان حال ہوگا؟ یہ وقت محض تماشائی بنے رہنے کا نہیں، عملی اقدامات کا ہے۔ یہ وقت بیدار ہونے کا ہے۔ آج ہم خاموش رہے تو کل تاریخ ہم پر بھی خاموشی کا پردہ ڈال دے گی۔ آج غزہ ختم ہو رہا ہے، کل بیت المقدس پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ ظلم کو آج نہ روکا گیا تو یہ کل ہم سب کو نگل لے گا۔