پاکستان تحریک انصاف؛ ساس بہو کی لڑائی
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف کی قیادت بانی چیرمین کی رہائی کےلیے لڑتے لڑتے آپس میں گتھم گتھا ہونے لگے ہیں۔ تحریک انصاف میں واضح طور پر گروپ بندی سامنے آچکی ہے۔
مرکزی سطح پر چیئرمین بیرسٹر گوہر اور جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجہ آمنے سامنے ہیں، تو بانی چیئرمین کی بہن حلیمہ بی بی بھی ایک گروپ کے طور سامنے آرہی ہیں۔ خیبرپختونخوا کی سطح پر بھی واضح دو گروپ سامنے آچکے ہیں، ایک گروپ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا ہے تو دوسری طرف سابق صوبائی وزیر عاطف خان کا گروپ سامنے آچکا ہے۔
بانی چیئرمین کے جیل میں ہونے کی وجہ سے اس وقت پارٹی گروپوں میں بٹتی چلی جارہی ہے۔ بانی چیئرمین کی رہائی کےلیے موثر تحریک کے بجائے مخالف گروپ اپنی طاقت دکھانے کے چکر میں ہیں۔ مرکز سے لے کر خیبرپختونخوا تک جتنے بھی گروپ ہر کوئی اپنی پاور شو کررہا ہے۔ بانی چیئرمین کی رہائی کےلیے آواز ہر کوئی زور سے ہٹا رہا ہے لیکن مستقبل میں ایسی کوئی موثر تحریک شروع ہوتے نظر نہیں آرہی جو بانی چیئرمین کی رہائی کا سبب بن سکے۔
تحریک انصاف کا احتجاج صرف خیبرپختونخوا تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں پی ٹی آئی کے ورکرز کنونشن کا انعقاد کیا جارہا ہے لیکن پی ٹی آئی کی یہ تحریک خیبرپختونخوا سے باہر نہیں نکل رہی۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے ورکرز جوشیلے تو ہیں لیکن قیادت اس وقت مفاہمتی کوششوں میں ہے۔ ورکروں کی اس مایوسی میں مراد سعید نے آواز اٹھانے کی کوشش ہے جس پر پی ٹی آئی کی قیادت نے ناراضی کا اظہار کیا ہے کہ یہ وقت آگ پر تیل ڈالنے کا نہیں، آگ بجھانے کا ہے۔
تحریک انصاف میں ایسی لڑائیاں شروع ہوچکی ہے جیسے ساس اور بہو کی لڑائیاں ہوں۔ واٹس ایپ گروپوں میں ایسی جگتیں ماری جارہی ہیں جیسے صبح صبح ساس اور بہو ناشتے کی ٹیبل پر لڑتی ہیں۔
تحریک انصاف میں ہونے والی گروپ بندی کا جائزہ لیں تو اس کےلیے 12 سال پیچھے جانا ہوگا۔ 2013 میں جب پہلی بار خیبرپختونخوا میں حکومت بنی تو اس وقت سے کھینچا تانی کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس وقت اسد قیصر پرویزخٹک گروپ ہوا کرتا تھا، جبکہ مخالف میں عاطف اور شہرام خان کا گروپ تھا۔ شہرام خان اس وقت تحریک انصاف کا حصہ نہیں تھے، ان کی اپنی جماعت تھی۔ ایک ہی علاقے کے سیاسی حریف ہونے کی وجہ سے اسد قیصر کی شہرام تراکئی سے سیاسی چقپلش تھی۔ تراکئی خاندان کی تحریک انصاف میں شمولیت کے بعد دونوں کے درمیان ناراضیاں کم ہوگئیں۔ پارٹی ڈسپلن کی وجہ سے دونوں کے درمیان دوریاں کم ہوئیں، ختم نہیں ہوئیں۔ پرویزخٹک خود بھی سیاسی داؤ پیچ کے ماہر تھے تو انھیں معلوم تھا کہ کون کیا کردار ادا کررہا ہے، کس کا کیا مقصد ہے، وہ مخالف کی واردت سے قبل ہی ان کے ارادے خاک میں ملا دیتا۔
اس وقت جب صوبائی وزیر ضیاء اللہ آفریدی اور پرویزخٹک کے درمیان تنازع آیا تو پرویزخٹک اپنی کشتی پار لگانے میں کامیاب ہوئے۔ 2018 کے تحریک انصاف دوسری بار حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تو قرعہ محمود خان کے نام نکلا۔ اس وقت اسد قیصر، پرویزخٹک، علی امین گنڈاپور، عاطف خان کے نام وزارت اعلیٰ کےلیے گردش میں تھے لیکن پارٹی قیادت نے فیصلہ کیا ہے مرکز میں حکومت بنانے کے لیے ایم این ایز کی ضرورت ہے تو خیبرپختونخوا سے جو جو قومی اسمبلی کی نشست جیتے انھیں صوبائی اسمبلی کی نشست چھوڑنے کی ہدایت کی گئی۔
اس وقت پرویزخٹک اور عاطف گروپ کے درمیان وزارت کی دوڑ کےلیے مقابلہ تھا۔ پرویزخٹک وزارت کے مضبوط امیدوار تھے۔ پرویز خٹک کے متبادل کے طور پر اسد قیصر فیورٹ تھے لیکن دونوں کے قومی اسمبلی جانے کے باعث مقابلہ محمود خان اور عاطف خان کے درمیان رہ گیا۔ اس تحریک انصاف میں پرویزخٹک مضبوط گروپ کے طور پر سامنے تھا اس لیے وہ اپنے گروپ کے امیدوار محمود خان کو وزیراعلیٰ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس وقت بھی اقتدار کی جنگ جاری رہی۔ عاطف خان گروپ نے کئی بار محمود خان کے خلاف محاز گرم کیے رکھا لیکن بانی چیئرمین نے خیبرپختونخوا میں وزارت اعلیٰ کی نشست سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ اگرچہ عاطف خان اور شہرام تراکئی کو کابینہ سے فارغ ہونا پڑا لیکن بانی چیئرمین نے اس وقت بھی حکومت کے تبدیل ہونے کی کوشش نہیں کی۔
خیبرپختونخوا میں 2013 اور 2018 کی حکومتوں کا موجودہ علی امین گنڈا پور کی حکومت سے موازنہ کریں تو انتخابات سے قبل پرویزخٹک کے الگ ہونے سے صوبے میں میدان خالی تھا۔ انتخابات سے قبل تحریک انصاف کےلیے سیاسی میدان میں جو صورتحال تھی اس سے یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا تھا کہ پی ٹی آئی صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوسکے گی۔ انتخابی نشان نہ ہونا، پارٹی نام بغیر الیکشن میں آزاد حیثیت سے الیکشن میں کامیاب ہونا ناممکنات میں سے تھا لیکن اس کے باوجود اکثریت تحریک انصاف کے حمایتی جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
2018 میں اسد قیصر، عاطف خان وزارت کی دوڑ کے امیدوار تھے لیکن حالیہ انتخابات میں ان شخصیات کے صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں حصہ نہیں لیا، اور قرعہ علی امین گنڈاپور کے نام نکلا، انتخابات میں جب اکثریت پی ٹی آئی کے ارکان نے حاصل کی تو سابق اسپیکر مشتاق غنی، ارشد ایوب، بابر سلیم سواتی کے نام سامنے آئے، لیکن بانی چیئرمین نے علی امین گنڈاپور کے نام پر اتفاق کیا۔ اب علی امین گنڈاپور کے مخالف دھڑے کا یہ بیانیہ ہے کہ علی امین گنڈاپور کو وزیراعلیٰ بنانے کےلیے الیکشن سے قبل ہی منصوبہ بندی کرلی گئی تھی۔ اسد قیصر دو صوبائی اور ایک قومی اسمبلی کی نشست کےلیے الیکشن میں حصہ لینے خواہش مند تھے، جبکہ عاطف خان صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں حصہ لینا چاہتے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے بننے والے بورڈ نے بانی چیئرمین کو امیدواروں کی جو فہرست فراہم کی اس میں اسد قیصر اور عاطف خان کے نام صوبائی اسمبلی کی فہرست میں شامل نہیں کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ عاطف خان اور علی امین گنڈاپور ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ اگر اسد قیصر یا عاطف خان صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوجاتے ہیں بانی چیئرمین نے وزارت اعلی کا قرعہ عاطف خان کا نام نکالنا تھا۔
اس وقت خیبرپختونخوا میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے مخالف مضبوط گروپ بندی کی جاچکی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 35 ارکان کا فارورڈ بلاک بن چکا ہے اور بانی چیئرمین کو علی امین گنڈاپور کے خلاف مضبوط شواہد بھی فراہم کردیے گئے ہیں لیکن بانی چیئرمین علی امین کو وزرات اعلیٰ کی نشست سے ہٹانے کےلیے تیار نہیں۔ بانی چیئرمین کا موقف ہے کہ یہ وقت مزید اختلافات پیدا کرنے کا نہیں، موجودہ حکومت کے خلاف موثر تحریک چلانے کا ہے۔
حلیمہ بی بی بھی کئی بار بانی چیئرمین کو علی امین گنڈاپور کے ہٹانے کی سفارش کرچکی ہیں۔ بانی چیئرمین نے اتنا دباؤ برداشت کیا کہ علی امین گنڈاپور کو پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹادیا اور جنید اکبر کو صوبائی صدر کی ذمے داریاں دے دی گئیں۔ ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت بانی چیئرمین اس وقت پارٹی قیادت سے کافی مایوس ہوچکے ہیں اور انھیں شکوہ ہے کہ دو سال کے دوران پارٹی ان کی رہائی کےلیے حکومت اور اسٹیبلمشنٹ پر دباؤ نہیں ڈال سکی اور نہ موثر تحریک شروع کی جاسکی۔
خیبرپختونخوا میں اس وقت تحریک انصاف میں مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف کے خلاف بھی آواز اٹھ رہی ہے۔ تحریک انصاف کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بیرسٹر سیف اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہے۔ اس لیے پشاور میں ایک ورکرز کنونشن میں بیرسٹر سیف کو ہٹانے کے نعرے بھی لگے۔ خیال یہ کیا جارہا ہے بانی چیئرمین کی رہائی کےلیے اس وقت وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اس لیے ایک خیال یہ بھی ہے اس وقت خیبرپختونخوا حکومت سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جارہی۔
خیبرپختونخوا میں تبدیلی کا معاملہ ہو یا پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کے اکھاڑ پچھاڑ کا، اس وقت کچھ نہیں ہونے والا۔ تبدیلی کا نعرے لگاتے لگاتے تحریک انصاف اب خود اندرونی طور پر تبدیلیوں کے چکر میں ہے۔ بانی چیئرمین کی رہائی تک تحریک انصاف کے کرتا دھرتا پرانی تنخواہ پر کام پر جاری رکھیں گے۔ اصل تبدیلی بانی چیئرمین جیل سے باہر آکر ہی لائیں گے۔ کون کون ملا ہوا تھا، کون بانی چیئرمین کے ساتھ کھڑا تھا اور کون سازشوں میں مصروف تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بانی چیئرمین کی رہائی صوبائی اسمبلی کی نشست علی امین گنڈاپور کے لیکن بانی چیئرمین خیبرپختونخوا میں بانی چیئرمین نے تحریک انصاف میں تحریک انصاف کے کی رہائی کےلیے میں کامیاب الیکشن میں موثر تحریک کے درمیان پی ٹی آئی کے خلاف گروپ کے نہیں کی میں کا کے نام خان کے
پڑھیں:
کینالز ، سیاست نہیں ہونی چاہئے، اتحادیوں سے ملکر مسائل حل کریں گے: عطاء تارڑ
ٹوبہ ٹیک سنگھ (اے پی پی) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ اتحادیوں کے تحفظات دور کرنا ہمارا فرض ہے۔ آئین و قانون کے مطابق کسی صوبے کا پانی کسی دوسرے صوبے کو نہیں جا سکتا، پانی کی تقسیم انتظامی معاملہ ہے اس پر سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ ملکی معاشی بہتری کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ تحریک انصاف نے انتشار اور تباہی و بربادی کے سوا قوم کو کچھ نہیں دیا۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے بھی میڈیا سے گفتگو میں افہام و تفہیم سے معاملات کو حل کرنے کی بات کی جس کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کا تقاضا ہے کہ ہم مل بیٹھ کر معاملات کو حل کریں۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی تقسیم کے حوالے سے 1991ء کا معاہدہ، 1992ء کا ارسا ایکٹ اور آئین و قانون بھی موجود ہے،آئین و قانون کے مطابق کسی صوبے کا پانی کسی دوسرے صوبے کو نہیں جا سکتا، پانی کی منصفانہ تقسیم کا نظام موجود ہے۔ ہماری لیڈر شپ سمجھتی ہے کہ بات چیت سے تحفظات دور کئے جائیں۔ اتحادیوں کے تحفظات دور کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے، اس پر سیاست نہیں ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں گزشتہ ایک سال کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، اوورسیز پاکستانیز کی جانب سے مارچ کے مہینے میں پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی ترسیلات زر آئیں، ایس آئی ایف سی اور آرمی چیف کی محنت کی بدولت ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوا، ایک سال پہلے پاکستان کے دشمن شرطیں لگا رہے تھے کہ ملک ڈیفالٹ کر جائے گا، آئی ایم ایف کو خط لکھے جا رہے تھے، آج عالمی ادارے پاکستان کی معاشی ترقی کو سراہ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی سیاست تقسیم کا شکار ہو چکی ہے، پی ٹی آئی کے لیڈر ایک دوسرے کے خلاف بیانات دے رہے ہیں، تحریک انصاف نے قوم کو تقسیم کیا اور لوگوں کے ذہنوں کو زہر آلود کیا، آج وہی فصل خود کاٹ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے انتشار اور تباہی و بربادی کے سوا قوم کو کچھ نہیں دیا۔ شہباز شریف کی قیادت میں ہماری پرفارمنس نظر آرہی ہے، آج پنجاب میں ترقی کا سفر جاری ہے اور ترقی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، انشاء اللہ ملک ترقی کرے گا۔ تحریک انصاف نے مذاکرات سے راہ فرار اختیار کی ہے، آج بھی تحریک انصاف ملک کے اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہے، آرمی چیف نے حال ہی میں اپنی تقریر میں دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کو دو ٹوک پیغام دیا جبکہ تکلیف پی ٹی آئی کو ہوئی، پی ٹی آئی کو ملک میں امن و امان اور ترقی ہضم نہیں ہو رہی۔