بلوچستان میں مذاکراتی تعطل، بلوچ خواتین کی رہائی پر ڈیڈلاک برقرار
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2025ء) بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے لکپاس میں جاری احتجاجی دھرنے کے خاتمے کو گرفتار خواتین کی رہائی سے مشروط کر دیا ہے، جبکہ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے سکیورٹی خدشات اور خواتین پر عائد الزامات کی بنیاد پر ان کی رہائی سے انکار کر دیا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی اور صوبائی حکومت کے درمیان اب تک مذاکرات کے چار دور ہوئے ہیں، جن میں تاحال کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی ہے۔ گرفتار بلوچ خواتین اور الزاماتبلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، گل زادی بلوچ، بیبو بلوچ اور دیگر خواتین کو کوئٹہ کی مقامی جیل میں '3 ایم پی او‘ کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔
(جاری ہے)
ان پر سنگین الزامات کے تحت مقدمات درج ہیں، جن میں دہشت گردوں سے رابطوں اور جعفر ایکسپریس حملے میں ہلاک عسکریت پسندوں کی لاشیں لے جانے کی کوشش شامل ہیں۔بی وائی سی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حکومتی دباؤ کا ایک حربہ ہے۔ سابق وفاقی وزیر آغا حسن بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت ان خواتین کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ وہ ان پر عائد الزامات کو سنجیدہ سمجھتی ہے۔
انہوں نے کہا، ''حکومت مذاکرات تو کر رہی ہے، لیکن دھرنا ختم کرنے کا دباؤ ڈال رہی ہے۔‘‘ احتجاج اور حکومتی اقداماتدریں اثنا بی وائی سی نے گرفتار خواتین کی رہائی نہ ہونے کے خلاف 13 اپریل کو بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب، بی این پی 14 اپریل کو لکپاس میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے جا رہی ہے، جس میں 'تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کی قیادت بھی شریک ہو گی۔
بی این پی کے رہنما ثناء اللہ بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''حکومت مذاکراتی عمل میں غیر سنجیدگی دکھا رہی ہے۔ ہمارا مطالبہ واضح ہے کہ گرفتار خواتین کو رہا کیا جائے۔ سندھ میں سمی دین بلوچ اور دیگر خواتین کو رہا کیا گیا، لیکن بلوچستان حکومت اس قانون کے استعمال میں بے اختیار کیوں ہے؟‘‘ان کا مزید کہنا تھا، ''اس کشیدگی کو اس وقت تک ختم نہیں کیا جا سکتا، جب تک صوبائی اور مرکزی حکومت بلوچستان کے زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کرتی۔
‘‘آغا حسن بلوچ نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت نے قومی شاہراہوں کو خندقیں کھود کر اور رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر رکھا ہے، جس سے صوبے بھر میں خوراک کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ''بی این پی کارکنوں کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے عوام کو مشکلات سے دوچار کیا جا رہا ہے۔‘‘
حکومتی موقف کیا ہے؟صوبائی وزیر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما علی مدد جتک نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بی این پی احتجاج کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ''احتجاج قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جا سکتا ہے، لیکن بی این پی صوبے کو شورش کا شکار بنانا چاہتی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کے خلاف الزامات کا دفاع عدالتوں میں ہونا چاہیے، سڑکوں پر نہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے سکیورٹی انتظامات سخت کیے گئے ہیں اور دفعہ 144 نافذ ہے، جس کی بی این پی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
جے یو آئی (ف) کی ثالثی کی کوششجمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اسے سیاسی بصیرت سے حل کیا جا سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ہم نے سردار اختر مینگل اور وزیر اعلیٰ سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو۔ اختر مینگل کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں کہ حل نہ ہو سکے۔‘‘
انہوں نے زور دیا کہ طاقت کے بجائے دانشمندی اور دور اندیشی سے حالات بہتر کیے جائیں، کیونکہ سیاسی عدم استحکام سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے دیگر حصے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
ادارت: امتیاز احمد
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے کہا خواتین کو بی این پی کی رہائی کیا جا رہی ہے
پڑھیں:
وفاق کا کینالز منصوبے پر پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلیے مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ
کراچی:وفاقی حکومت نے دریائے سندھ پر چھ کینالز کی تعمیر کے منصوبے پر پیپلز پارٹی اور دیگر کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے ایک اعلی سطح کی مذاکراتی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق وفاقی حکومت نے دریائے سندھ سے چھ کینالز نکالنے پر پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلیے اسحاق ڈار کی سربراہی میں مذاکراتی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس کمیٹٰ میں وفاقی وزیر برائے آبی وسائل و توانائی احسن اقبال اور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ سمیت دیگر شامل ہوں گے۔
کمیٹی میں آبی و زرعی ماہرین کو شامل کیا جانے کا امکان بھی ہے۔ وفاقی حکومت کی یہ کمیٹی پیپلز پارٹی کی قیادت اور دیگر سے رابطہ کرکے مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کرے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف کی منظوری سے مذاکراتی کمیٹی کو حتمی شکل دی جائے گی اور شہباز شریف اس معاملے پر جلد صدر مملکت آصف علی زرداری اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے بھی شیڈول طے ہوتے ہی ملاقات بھی کریں گے جس میں پیپلز پارٹی کے تحفظات دور کرنے کے لیے سیاسی راستہ نکالنے کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔
حکومتی کمیٹی اس معاملے پر دیگر جماعتوں سے بھی مذاکرات کرے گی اور دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان بیٹھکیں کراچی اور اسلام آباد میں ہوں گی۔
مسلم لیگ ن کے اہم رہنما نے ایکسپریس کو بتایا کہ دریائے سندھ پر چھ کینالز منصوبے کی تعمیر پر پیپلز پارٹی و دیگر جماعتوں کے تحفظات اور صوبے میں احتجاج کے معاملے پر مسلم لیگ ن کی قیادت میں گزشتہ دنوں تفصیلی مشاورت ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس مشاورت میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف میں طے ہواتھا کہ اس معاملے کومذاکرات سے حل کیا جائے گا۔ جس کی رشنی میں مسلم ن کی وفاقی حکومت نے پیپلز پارٹی اور دیگر سے رابطوں کے لیے ایک بااختیار مذاکراتی کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
لیگی رہنما کے مطابق کمیٹی میں ارکان کو شامل کرنے کی منظوری وزیراعظم دیں گے۔ وفاقی حکومت کی کمیٹی مذاکرات کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت سے رابطے کرکے ملاقات کا وقت طے کرے گی۔
مذاکرات میں کینالز منصوبے کی افادیت سے آگاہ کیا جائے گا اور پیپلز پارٹی کے تحفظات معلوم کیے جائیں گے جبکہ اس منصوبے کی تمام پہلوؤں سے فنی جانچ بھی کی جائے گی اور معاملے کے حل کیلیے مشترکہ لائحہ عمل دے کیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ مسلم لیگ ن اس منصوبے کی پر پارلیمان کو بھی اعتماد میں لے گی۔ وزیراعظم ضرورت پڑنے پر اس منصوبے پر مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس بھی بلائیں گے۔
مسلم لیگ ن نے اس منصوبے کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس بھی طلب کرنے پر غور کررہی ہے۔ اس منصوبے پر تحفظات کو دور کرنے کے لیے مذاکرات جلد شروع ہونے کا امکان ہے۔
مسلم لیگ ن اس منصوبے پر اپنی حکمت عملی میں تبدیلی اور مذید لائحہ عمل حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے طے کرے گی۔