Islam Times:
2025-04-22@09:28:32 GMT

ٹرمپ کا طبل جنگ، روس اور چین کہاں کھڑے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT

ٹرمپ کا طبل جنگ، روس اور چین کہاں کھڑے ہیں؟

اسلام ٹائمز: ایران، امریکا اور اسرائیل کے مابین جنگ بدیہی ہے، تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ جنگ کب ہوگی۔ ایران بالخصوص عسکری شعبے میں جس تیزی سے ترقی اور پیشرفت کر رہا ہے، نیز اسکے اسرائیل پر میزائل حملے اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اب امریکا کے پاس مشرق وسطیٰ پر تسلط کیلئے ایران پر براہ راست حملے یا ایران میں موجود نظام کے خاتمے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا۔ یہ جنگ بدیہی ہے، تاہم یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اسکا آغاز کب ہوگا اور یہ خطے کیلئے کیا آٖفتیں اور مصیبتیں لائے گی۔ جہاں تک روس اور چین کا سوال ہے تو وہ یقیناً ایران کی خفیہ طور پر مدد کرینگے، تاہم امریکا کے مقابل کھل کر میدان میں نہیں آئیں گے۔ ان دونوں ممالک کی پالیسی دو طرح کی ہوسکتی ہے یا تو اس جنگ کو حتی المقدور روکا جائے اور اگر یہ جنگ ہو جائے تو اس میں امریکہ کو زیادہ سے زیادہ اقتصادی اور عسکری نقصان پہنچایا جائے، تاکہ سپر پاور کی دوڑ میں سے ایک حریف کا خاتمہ ہو جائے۔ تحریر: سید اسد عباس

ڈیلی ٹائمز کے کالم نویس قمر بشیر نے اپنے آج کے کالم میں ایران اور امریکا کے مابین ہونے والی متوقع جنگ کے اعداد و شمار اور لاگت کو ان الفاظ میں بیان کیا۔اتحادیوں کی حمایت کے بغیر ایران کے ساتھ مکمل پیمانے پر امریکی جنگ کی لاگت ابتدائی طور پر $300-500 بلین تک پہنچ سکتی ہے، جس میں طویل مدتی اخراجات شامل ہیں۔ بشمول سابق فوجیوں کی دیکھ بھال اور تعمیر نو۔ امریکی فوجی نقصانات 5,000 سے لے کر 10,000 تک ہوسکتے ہیں، جبکہ ایرانی شہریوں کی ہلاکتیں 250,000-500,000 سے تجاوز کرسکتی ہیں، اس کے ساتھ ممکنہ پناہ گزینوں کے بحران سے 10 ملین تک لوگ بے گھر ہوسکتے ہیں۔ جنگ کا دورانیہ چند مہینوں (محدود فضائی اور سائبر مہم میں) سے لے کر مکمل حملے اور قبضے کی صورت میں 5-10 سال تک ہوسکتا ہے، جس میں کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں اور عراق اور افغانستان کی غلطیوں کو دہرانے کا زیادہ خطرہ ہے۔ یقیناً یہ اعداد و شمار کسی مغربی جریدے کی پیداوار ہوں گے، جن کو قمر بشیر صاحب نے اپنے کالم کی زینت بنایا۔

صورتحال یہ ہے کہ امریکہ نے ایران کو ایٹمی معاملے پر مذاکرات کے حوالے سے خط لکھا۔ وزارت خارجہ ایران کے مطابق اس خط کا متناسب جواب دیا جاچکا ہے اور جوابی خط وائٹ ہاؤس پہنچ گیا ہے۔ اس جواب کے پہنچنے کے بعد امریکی صدر نے اپنے دوسرے امریکی بحری بیڑے کو مشرق وسطیٰ جانے کا حکم دے دیا ہے۔ بحر ہند میں قائم امریکہ اور برطانیہ کے خفیہ ادے ڈیاگو گارسیا میں امریکہ کے بی 52 بمبار طیاروں کی منتقلی کی اطلاعات ہیں۔ امریکی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یمن کے حوثیوں پر حملے اُس وقت تک نہیں رُکیں گے، جب تک کہ وہ جہاز رانی کے لئے خطرہ ہیں، حوثی بحری جہازوں پر حملے بند کر دیں تو امریکہ بھی حملے بند کر دے گا، ورنہ اُس نے ابھی آغاز کیا ہے، ایران میں حوثیوں اور اُن کے سہولت کاروں دونوں کے لیے اصل تکلیف ابھی باقی ہے۔ امریکہ نے چین اور متحدہ عرب امارات کی بعض کمپنیوں پر یہ کہہ کر پابندی عائد کر دی ہے کہ وہ ایران کے ڈرون پروگرام میں اُس کی مدد کر رہی ہیں اور ایران یہ ڈرون روس کو سپلائی کر رہا ہے۔

ٹرمپ ایران پر متعدد اقتصادی پابندیاں لگا چکے ہیں۔ انھوں نے اعلان کیا ہےکہ وہ ایران کی تیل کی برآمدات کو صفر پر لائیں گے، کیونکہ یہ برآمدات ایرانی ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی کو وسعت دینے نیز خطے میں مختلف مزاحمتی گروہوں کو مدد کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ مارکیٹ ڈیٹا اور ریسرچ ایجنسی ایس اینڈ پی گلوبل کی تحقیق کے مطابق 2024ء کے اوائل میں ایران تقریباً 1.

8 ملین بیرل یومیہ برآمد کر رہا تھا۔ ایجنسی کے مطابق ایران پر لگنے والی حالیہ پابندیوں نے جنوری 2025ء میں برآمدات کو اوسطاً 1.2 ملین بیرل یومیہ تک کم کر دیا۔ تجزیہ کاروں کے محتاط اندازے کے مطابق ایران اپنی تیل کی کل برآمدات کا 90 فیصد چین کو دیتا ہے۔ چین ان پابندیوں کو نہ صرف ناجائز سمجھتا ہے بلکہ انھیں یکطرفہ کہہ کر تسلیم بھی نہیں کرتا اور امریکی پابندیوں کے باوجود ایرانی تیل خریدتا ہے۔

تاہم ایس اینڈ پی گلوبل کے مطابق چین کی بندرگاہ شانڈونگ میں تیل کے ٹرمینل نے حال ہی میں امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی تیل کی وصولی بند کر دی، جس سے جنوری میں چین کی ایرانی تیل کی درآمدات 1.48 ملین بیرل یومیہ کے مقابلے میں کم ہو کر آٹھ لاکھ 51 ہزار بیرل یومیہ تک پہنچ گئی۔ امریکا نے طالبان حکومت سے بٹگرام ائیر بیس کے دوبارہ حصول کا بھی مطالبہ کیا ہے، جس کا ظاہری مقصد ایران کے قریب ایک فضائی اڈے کا حصول ہے، تاکہ ایران کی عسکری سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ فضائی کارروائی کی صورت میں قریب سے حملہ ممکن ہو۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے واضح طور پر کہا ہے کہ امریکا یا اسرائیل کی جانب سے کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

سپریم لیڈر کے مشیر سید علی لاریجانی کا کہنا ہے کہ ایران پر حملہ ہمیں ایٹمی بٹن کے حصول پر مجبور کر دے گا۔ ایرانی عسکری کمانڈرز کا کہنا ہے کہ اس وقت مشرق وسطیٰ اور خطے میں امریکہ کے کئی اڈے موجود ہیں، جن میں پچاس ہزار کے قریب امریکی فوجی تعینات ہیں، اگر امریکہ نے کوئی جارحیت کی تو ایران ان اڈوں پر حملہ کرے گا۔ ایک ایرانی کمانڈر نے تو امریکی صورتحال کو شیشے کے گھر سے تشبیہ دی اور کہا کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کو پتھر نہیں مارے جاتے۔ڈیاگو گارسیا اڈے کے حوالے سے ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ اڈہ ہمارے میزائلوں کے نشانے پر ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایران نے امریکی خط کے جواب میں واضح کیا ہے کہ ایران امریکا سے براہ راست معاہدہ نہیں کرے گا۔

ظاہر ہے اس کی واحد وجہ امریکا کا ناقابل اعتبار رویہ ہے۔ بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ امریکا نے اپنے دوستوں اور اتحادیوں کو تنہاء چھوڑ دیا عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کی جن میں برجام معاہدہ بھی ایک ہے۔ ایسے میں ایران کے لیے ممکن نہیں کہ وہ امریکا سے کوئی معاہدہ کرے اور اس پر مطمئن ہو جائے۔ مسئلے کی اصل جڑ اسرائیل اور شائد خطے کے کچھ خائن حکمران ہیں، جن کے تحفظ کے لیے امریکا جنگی زبان میں بات کر رہا ہے۔ یوکرائن کے مسئلے پر روس کے ساتھ جنگ بندی پر آمادہ امریکہ ایران پر حملے کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتا۔ ایران سے نظریاتی طور پر ہم آہنگ گروہوں جو خطے کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، ان پر حملہ آور ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ایران اسرائیل اور امریکہ کے مابین کسی منصفانہ معاہدے کا ہونا قرین از قیاس نہیں ہے۔ امریکا اور اسرائیل کا واحد مطالبہ ایران کے ایٹمی پروگرام کا مکمل خاتمہ ہے، ایران اس مطالبے کو کسی صورت قبول نہیں کرسکتا، وہ بجا طور پر اسے اپنی خود مختاری کا سودا سمجھتا ہے۔ ٹرمپ کوشش کر رہا ہے کہ دنیا میں اپنی دیگر مصروفیات کو ختم کرکے اپنی پوری توجہ ایران پر دے، جس کا وہ اظہار بھی کرچکا ہے کہ ایران میری ترجیح ہے۔ راقم کی نظر میں پہلے مرحلے میں امریکا   اقتصادی اور سفارتی دباؤ بڑھائے گا، جو اس وقت اپنے عروج پر ہے۔ دوسرے مرحلے میں سائبر وار اور پراپیگنڈہ کمپین کا آغاز ہوگا، جو تقریباً ہوچکا ہے۔ عسکری تعیناتیاں اور نقل و حرکت اسی سلسلے کا حصہ ہے، تیسرا مرحلہ خطرناک ہے، اس میں یا تو ایران اور امریکا کے مابین کوئی معاہدہ ہو جائے گا یا پھر عالمی سیاست جنگ کی بند گلی میں داخل ہو جائے گی۔

ایران، امریکا اور اسرائیل کے مابین جنگ بدیہی ہے، تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ جنگ کب ہوگی۔ ایران بالخصوص عسکری شعبے میں جس تیزی سے ترقی اور پیشرفت کر رہا ہے، نیز اس کے اسرائیل پر میزائل حملے اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اب امریکا کے پاس مشرق وسطیٰ پر تسلط کے لیے ایران پر براہ راست حملے یا ایران میں موجود نظام کے خاتمے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا۔ یہ جنگ بدیہی ہے، تاہم یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا آغاز کب ہوگا اور یہ خطے کے لیے کیا آٖفتیں اور مصیبتیں لائے گی۔ جہاں تک روس اور چین کا سوال ہے تو وہ یقیناً ایران کی خفیہ طور پر مدد کریں گے، تاہم امریکا کے مقابل کھل کر میدان میں نہیں آئیں گے۔ ان دونوں ممالک کی پالیسی دو طرح کی ہوسکتی ہے یا تو اس جنگ کو حتی المقدور روکا جائے اور اگر یہ جنگ ہو جائے تو اس میں امریکہ کو زیادہ سے زیادہ اقتصادی اور عسکری نقصان پہنچایا جائے، تاکہ سپر پاور کی دوڑ میں سے ایک حریف کا خاتمہ ہو جائے، واللہ اعلم۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ہے کہ ایران بیرل یومیہ میں امریکہ امریکا کے کر رہا ہے ایران پر ایران کے نہیں کہا کے مابین کے مطابق ایران کی ہو جائے کے ساتھ نے اپنے نہیں کہ تیل کی اور اس کے لیے کیا ہے حملے ا یہ جنگ ہیں کہ

پڑھیں:

ایران کا جوہری پروگرام(3)

اسلام ٹائمز: مسقط میں ہونیوالے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟ تحریر: سید نوازش رضا

مسقط مذاکرات سے قبل ایران نے دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود سائنسی و جوہری ترقی ممکن ہے اور وہ اس میدان میں خود کفیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم ساتھ ہی ایک خاموش مگر واضح پیغام بھی دیا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جوہری پروگرام اب اُس سطح تک پہنچ چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ مزید برآں، ایران نے یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کا ردعمل نہایت سخت اور سنگین ہوگا، جس کے عالمی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔"

اسرائیل کے لیے پیغام:
"ہم ٹیکنالوجی میں اتنے قریب ہیں کہ اگر چاہیں تو جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں، اس لیے حملے کی غلطی نہ کرنا۔" اسرائیل کے لیے یہ اسٹریٹیجک ڈیٹرنس (Strategic Deterrent) ہے، تاکہ اسرائیل کو باز رکھا جا سکے۔

امریکہ کے لیے پیغام:
ایران نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ اگر امریکہ نے باعزت اور برابری کی سطح پر مذاکرات نہ کیے اور عائد پابندیاں ختم نہ کیں، تو وہ اپنے راستے پر بغیر رکے آگے بڑھتا رہے گا۔ ایران نے یہ بھی باور کرا دیا کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی میں اُس مقام سے آگے نکل چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔"

اسرائیل اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟
اسرائیل:
ممکنہ طور پر ایران کے سائنسدانوں، تنصیبات یا سپلائی چین کو ہدف بنا سکتا ہے، لیکن: امریکہ براہ راست فوجی کارروائی سے اس وقت گریز کرے گا، کیونکہ: یوکرین کا محاذ ابھی کھلا ہے۔ ایران کا جوابی حملہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکتا ہے

اس تمام صورتحال میں امریکہ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے
-امریکن صدر ٹرمپ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے صرف جارحانہ بیانات دے سکتا ہے، لیکن امریکہ فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔  
-امریکی اسٹیبلشمنٹ (سی آئی اے، پینٹاگون) سفارتی حل کو ترجیح دے گی۔
یورپ اور امریکہ، خاص طور پر ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں (جیسے CIA ،MI6) ایران کی جوہری پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی آئی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ: ایران یورینیم کو 60% تک افزودہ کر رہا ہے، جبکہ 90 فیصد بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایران نے جدید IR-6 اور IR-9 سینٹری فیوجز بنائے ہیں۔ ایران نے ریسرچ ری ایکٹرز اور بھاری پانی کی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔

اس لیے مغربی انٹیلیجنس دائرے میں یہ بات اب ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک اہم مرحلہ عبور کرچکا ہے۔ البتہ وہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کرتے، تاکہ ایران پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے اور اپنے لاڈلے لونڈے اسرائیلی کے اس مطالبات سے بچا جاسکے کہ "فوری حملہ کرو۔" اب سوال یہ ہے کہ امریکہ مسقط مذاکرات میں کیا حاصل کرنا چاہتا تھا اور کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔؟ کیا وہ سفارتی ذرائع کے ذریعے JCPOA جیسے معاہدے کی جانب واپسی کا راستہ اختیار کرے گا، یا پھر اپنی سپر پاور حیثیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے مزید دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور خفیہ فوجی اقدامات کا سہارا لے گا؟"

ظاہراً امریکہ کے پاس سفارتی ذرائع کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی مؤثر آپشن نظر نہیں آتا، کیونکہ ماضی میں اقتصادی پابندیوں نے ایران پر خاطر خواہ اثر نہیں ڈالا اور فوجی اقدام دنیا کو ایک ممکنہ عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ "ایران نے جس انداز سے اب تک اپنی فوجی اور جوہری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر اب ایک طاقتور اور متوازن فریق موجود ہے۔ ٹرمپ چاہے زبان سے سخت لہجہ اختیار کریں، لیکن اندرونی طور پر انہیں لچک دکھانا پڑے گی، کیونکہ ایران اب "دباؤ" کے بجائے "ٹیکنالوجی" کی زبان میں بات کرے گا۔

مسقط میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • افریقہ میں امریکہ کا غیر ضروری سفارت خانے اور قونصل خانے بند کرنے پر غور
  • امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
  • سینئر امریکی عہدیدار کی امریکا، ایران جوہری مذاکرات میں 'بہت مثبت پیش رفت' کی تصدیق
  • امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے باشندوں کی جبری ملک بدری روک دی
  • ایران کا جوہری پروگرام(3)
  • ایران کیساتھ مذاکرات میں اہم پیشرفت ہوئی ہے، امریکی محکمہ خارجہ
  •  او آئی سی انجمن غلامان امریکہ ہے، یمن اور ایران مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، مشتاق احمد 
  • ٹرمپ انتظامیہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی پر غور کر رہی ہے،امریکی اخبار