بی این پی کیساتھ مذاکرات جاری ہیں، اس پر میڈیا سے بات نہیں کرینگے، حکومت بلوچستان
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی آئی جی کوئٹہ اعتزاز گورایہ، ڈی سی سعد بن اسد اور ترجمان شاہد رند نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں کو تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا۔ احتجاج سب کا حق ہے، مگر فیصلہ ہم کرینگے کہ کہاں احتجاج ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ ڈی آئی جی کوئٹہ اعتزاز گورایہ، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سعد بن اسد اور بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے کہا ہے کہ احتجاج ہر شہری کا حق ہے، مگر یہ فیصلہ ہم کرینگے کہ احتجاج کہاں ہوگا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اراکین کو تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اختر مینگل سے مذاکرات جاری ہیں، اس حوالے سے مذاکرات کی کامیابی تک میڈیا پر بات نہیں کرینگے۔ یہ بات انہوں نے سی سی پی او آفس کوئٹہ میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ ترجمان شاہد رند نے کہا کہ 11 مارچ کو جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوا، جس کے بعد تقریباً 24 گھنٹے کلیئرنس آپریشن کو لگے۔ اگلے ہی روز کوئٹہ کے قبرستان میں چند میتوں کی تدفین کے بعد بی وائی سی نے قبرکشائی کی کوشش کی اور 12 گھنٹوں تک سریاب روڈ سمیت مختلف مقامات پر احتجاج جاری رہا۔ پہلے دن حکومت بلوچستان کا موقف واضح ہے کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا حق ہے، لیکن اس نے احتجاج کرنا کہاں ہے جگہ کا تعین ضلعی انتظامیہ کریگی۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کبھی اسے تسلیم نہیں کیا۔
ڈی آئی جی کوئٹہ اعتزاز گورایہ نے کہا کہ 11 مارچ کو جعفر ایکسپر یس پر حملہ جو 12 مارچ تک چلتا رہا اور پھر سکیورٹی اداروں نے مل کر علاقے کو کلیئر کیا۔ حملے کے دوران مارے جانے والے 5 افراد کی لاشیں 14 مارچ کو سول ہسپتال لائی گئیں، 19 مارچ کو وزیراعظم میاں شہباز شریف دورہ کوئٹہ پر آئے اور اس دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اراکین لاشیں ہسپتال لینے پہنچ گئی۔ جنہیں گہا گیا کہ انکے ورثاء کو بلایا جائے۔ بی ایل اے کا وارث کون ہو سکتا ہے، مشتعل افراد نے ہسپتال کو نقصان پہنچا کر لاشیں اٹھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پرامن احتجاج کا اعلان کیا، جس میں سیف سٹی کے تحت شہر میں نصب کئے گئے 36 کیمروں، 18 پولز کو نقصان پہنچا اور جامعہ بلوچستان کا گیٹ توڑا گیا۔ پوسٹ آفس کو جلایا گیا اور بینک لوٹنے کی کوشش کی گئی۔ جس کے بعد پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس دوران بی وائی سی نے 3 افراد کی لاشیں رکھ کر سریاب روڈ پر احتجاج کیا اور موقف اختیار کیا کہ پولیس کی فائرنگ سے 3 افراد شہید ہوئے۔ اگر پولیس نے فائرنگ کرنی ہی تھی تو کیا راہ چلنے والوں کو ہی لگنی تھی۔ ورثاء نے موقف اختیار کیا کہ ہماری لاشیں ہمیں واپس کی جائیں۔ انکا بلوچ یکجہتی کمیٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مقتولین کے خاندان کو بھی بلوچ یکجہتی کمیٹی نے زور زبردستی احتجاج میں بیٹھانے کی کوشش کی۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ورثاء کو لاشیں اٹھانے کی بھی اجازت نہیں دی۔ اس دوران مشتعل افراد کی بڑی تعداد نے مقتولین کے گھروں کا بھی گھیراؤ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پرامن احتجاج سب کا حق ہے، لیکن عوام اور عوامی مقامات کو نقصان پہنچانے کا حق کسی کو نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا۔ اس دوران گرفتار ہونے والے کم عمر بچوں کو والدین کی یقین دہانی پر رہا کر دیا گیا۔ دھرنے، جلسے جلسوس اور مظاہرہ کرنے کے حوالے سے بی وائی سی اور حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا تھا۔
اس موقع پر ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سعد بن اسد نے کہا کہ احتجاج کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ جس کے لئے ضلعی انتظامیہ مظاہرین کو جگہ اور وقت کا بتاتی ہے، لیکن پرامن احتجاج کے نام پر سڑکوں کو بلاک کرنے کی اجازت کسی صورت نہیں دی جاسکتی ہے۔ حکومت مسائل کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتی ہے۔ لیکن اسے ہماری کمزوری نہ سمجھی جائے۔ ایک سوال کے جواب میں ڈی آئی جی کوئٹہ اعتزاز گورایہ نے کہا ہے کہ ایم پی او کے تحت 61 افراد گرفتار اور 13 افراد ریمانڈ پر ہیں۔ جبکہ گرفتار کئے جانے والے 35 کم عمر بچوں کو انکے والدین کی یقین دہانی پر رہا کر دیا گیا ہے۔ احتجاج کے دوران جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین سے رابطے میں ہیں۔ وہ جس کے خلاف بھی مقدمہ درج کروانا چاہیں گے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران 13 پولیس کی گاڑیاں جلائی گئیں اور پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا گیا، جبکہ بی این پی کے احتجاج کے دوران کسی چیز کو نقصان نہیں پہنچایا گیا۔
ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے وڈھ سے لانگ مارچ کا اعلان کیا، جن سے حکومت رابطے میں ہے۔ امن و امان کی صورتحال سے متعلق بی این پی کے لانگ مارچ کو کوئٹہ آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ امن و امان کی صورتحال سے تاریخ میں پہلی مرتبہ ان کیمرہ اجلاس ہوا۔ جس میں بی این پی کو بھی دعوت دی گئی۔ حکومت روز اول سے ڈائیلاگ کے لئے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر انٹرنیٹ سروس معطل کی گئی۔ ڈی آئی جی کوئٹہ اعتزاز گورایہ نے کہا کہ بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ حالات خراب ہوں۔ مستونگ خودکش حملے سے متعلق تحقیقات جاری ہیں۔ اگر مستونگ حملہ کامیاب ہوتا تو اسکا نقصان پاکستان کے لئے ناقابل برداشت ہوتا۔ ایک سوال کے جواب میں اعتزاز گورایہ نے کہا کہ زہری پل کو سکیورٹی خدشات کے پیش نظر بند کیا گیا۔ دہشتگرد پہلے دہشتگرد ہیں، بعد میں وہ کچھ اور ہے۔ شاہد رند نے کہا کہ حکومت بلوچستان اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ مذاکرات ہونے کے بعد ہی اس پر بات کی جا سکتی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی لیڈرشپ کے حوالے سے حکومت کا موقف واضح ہے۔ عدالتیں موجود ہیں، اگر عدالت کسی کو ریلیف دینا چاہتی تو حکومت کو اعتراض نہیں ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بلوچ یکجہتی کمیٹی کے بلوچ یکجہتی کمیٹی نے شاہد رند نے کہا کی کوشش کی احتجاج کے بی این پی نے کہا کہ جاری ہیں انہوں نے کو نقصان کے دوران کا حق ہے مارچ کو کیا گیا کے تحت کے بعد
پڑھیں:
بلوچستان کی ترقی اور کالعدم تنظیم کے آلہ کار
گوادر پورٹ پاکستان کے لیے تجارتی ترقی کا دروازہ ہے۔ خلیج فارس کے دہانے پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ بندرگاہ پاکستان کو نہ صرف خطے بلکہ بین الاقوامی سطح پر تجارتی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پر ابھرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
اس بندرگاہ کے ذریعے چین، وسطی ایشیا اور خلیجی ممالک تک بآسانی رسائی میسر آئے گی، جس سے پاکستان کو سالانہ لاکھوں ڈالرکا تجارتی فائدہ پہنچے گا۔ گوادر بندرگاہ نہ صرف پاکستان کو اقتصادی استحکام دے رہی ہے بلکہ یہ بلوچستان کی معاشی خوشحالی میں بنیادی کردار ادا کررہی ہے۔
ویژن بلوچستان 2030 پروگرام کے تحت کمیونی کیشن انفرا اسٹرکچر، ڈیموں کی تعمیر، پانی کی قلت کو دورکرنے اور فشریزکے مختلف منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے۔ خوشحال بلوچستان کی تعمیر و ترقی میں حکومتی اور عسکری کاوشوں کا کلیدی کردار ہے۔
اس طرح کے بے شمار منصوبے بلوچستان کی تقدیر بدلنے کے لیے سرگرم ہیں، جس میں ریکوڈک کا منصوبہ بھی سرفہرست ہے، اس منصوبے کے زیر اہتمام طبی سہولیات سے آراستہ انڈس اسپتال نوکنڈی کا افتتاح گزشتہ برس 25جون 2024 کو کیا جاچکا ہے۔
یہ اسپتال ضلع چاغی اور نوکنڈی جیسے پسماندہ علاقوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے، اس کے علاوہ ریکوڈک مائننگ کے تحت نوکنڈی میں قائم ہنر ٹیکنیکل انسٹیوٹ، جس میں 350 کے قریب خواتین و مرد حضرات ہنر سیکھ رہے ہیں جب کہ اس منصوبے کے تحت پانچ پرائمری اسکول، ہمائی کلی، مشکی چاہ، موکچہ، دربن چاہ اور تنگ کھچاؤ کے علاقوں میں قائم کیے جاچکے ہیں جن میں اس وقت 357 طلبا وطالبات زیر تعلیم ہیں۔
اس کے علاوہ چین اور پاکستان کا مشترکہ منصوبہ سینڈک کاپر،گولڈ مائن پراجیکٹ کے تحت سینڈک اسپتال، اسکولوں کا قیام بلوچستان کے روشن مستقبل کا اہم باب ہیں۔ سی پیک، سینڈک اور ریکوڈک منصوبوں کی وجہ سے ہزاروں افراد کو روزگار ملا ہے۔ نوجوانوں کو ترجیحی بنیادوں پر تعلیمی مواقعے فراہم کیے جا رہے ہیں، متعدد یونیوسٹیوں اور میڈیکل کالجزکا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔
بلوچستان کی ترقی سے کالعدم تنظیمیں خائف ہیں، یہ تنظیمیں نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان کے لیے خطرے کا سبب بنی ہوئی ہیں، جن سے نجات کے لیے سیکیورٹی فورسز مسلسل متحرک ہیں۔گزشتہ ماہ جعفر ایکسپریس پرکالعدم تنظیم کے حملے کے واقعے نے پوری قوم کو خوف میں مبتلا کر کے رکھا، دہشت گردوں نے 400 سے زائد مسافروں کو یرغمال بنایا اور 20 سے زائد مسافروں کی جان لی۔
بعد ازاں پاک فوج کے آپریشن نے عسکریت پسندوں کا سارا زور پسپا کیا اور 33 دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا، بعد ازاں مسافروں کو بازیاب کرایا، خیال رہے، اس ٹرین میں پنجابی بولنے والوں کی تعداد زیادہ تھی، بلوچستان میں پنجابی بولنے والوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کی ذمے داری کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی بہت فخر سے لیتی ہے۔
بلوچ قوم کی داد رسی کی باتیں بلوچستان کی بہت سی قوم پرست تنظیمیں کرتی ہیں، جس میں ایک نام بلوچ یکجہتی کونسل کا ہے، اس تنظیم کو ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ لیڈ کرتی ہیں، جو کہ غفار لانگو کی بیٹی ہیں، غفار لانگو واپڈا کا ملازم تھا،جس نے بی ایل اے جوائن کر لی تھی، جس کی وجہ سے وہ ایک آپریشن میں مارا گیا تھا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی مکمل تعلیم حکومتی وظیفے پر ہوئی، وہ سرکاری ملازم ہیں، ان کی بہن بھی سرکاری وظیفے پر صوبہ پنجاب میں زیر تعلیم ہیں، پھر بھی یہ لوگ ریاست کے مخالف ہیں، جس سے ان کی منافقت واضح ہوتی ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ آج کل جیل میں ہیں کیونکہ انھوں نے جعفر ایکسپریس حملے میں مارے گئے دہشت گردوں کی لاشوں کو مردہ خانے سے زبردستی اپنی تحویل میں لیا، جس پر مذمت کی گئی اور کوئٹہ کے حالات خراب ہوئے، جس کے سبب ماہ رنگ کی گرفتاری عمل میں آئی، یہاں سوال ہے کہ آخر ماہ رنگ کو کیوں ان دہشت گردوں کی لاشوں کی اس قدر ضرورت تھی کہ وہ اسے لینے کے لیے اتنی بے تاب تھیں۔
بلوچستان کے بدترین حالات میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل کا بھی بڑا اہم کردار ہے،گزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کی سیاست میں سرگرم سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اختر مینگل فروری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں خضدار سے رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے تاہم انھوں نے ستمبر 2024 میں قومی اسمبلی کی اپنی اس نشست سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ اپنی سیاسی جماعت بی این پی مینگل کے واحد منتخب رُکن قومی اسمبلی تھے۔
اختر مینگل ایم پی اے، ایم این اے اور وزیر اعلیٰ بلوچستان رہ چکے ہیں، وہ کوئلے کی کانوں کے مالک ہیں، ہمیشہ اقتدار سے وابستہ رہے ہیں، ان کی بے شمار جائیدادیں ہیں، وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کے لیے بلوچ قوم کے نام پر دھرنے دے رہے ہیں، آج سے قبل جب وہ خوب اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے جائیدادیں بنا رہے تھے تو انھیں ایک بار بھی بلوچستان کی تقدیر اور بلوچ قوم کی قسمت کے بارے میں ایک بار بھی خیال نہیں آیا، کچھ لوگ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے آلہ کار معلوم ہوتے ہیں۔
پاکستانی کالعدم جماعت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، بی ایل اے کے نسلی تشدد کے خلاف صوبہ سندھ میں مختلف مقامات پر احتجاج ہوا۔ عوام کا دعویٰ ہے کہ بی ایل اے ہندوستان کی ہدایت پرکام کررہی ہے،کالعدم تنظیم نسلی بنیادوں پر بے گناہ پاکستانیوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور قتل کر رہی ہے۔ عوام نے دہشت گردوں کو پھانسی سمیت سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔
پاکستان کے دیگر صوبوں کے لوگ بلوچ طلبا اور شہریوں کا پرتپاک استقبال کرتے ہیں، جب کہ پنجابیوں اور پشتونوں کو قتل کر کے نفرت پھیلانے پر بی ایل اے کی مذمت کرتے ہیں۔ کالعدم تنظیم کے خلاف احتجاج میں عوام نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے بلوچ بھائیوں کی حمایت کا بھی اظہارکیا اور پاکستان کی مسلح افواج کے حق میں نعرے لگائے۔
پاکستان کے باشعور عوام کا کہنا ہے کہ بی ایل اے کا احتجاجی مارچ ایک ڈھونگ ہے، جو ان کے اصل مقصد کو چھپا رہا ہے، دراصل یہ عناصر بلوچستان کی ترقی کو سبوتاژکرنا چاہتے ہیں تاکہ بلوچ قوم بنیادی سہولیات سے محروم رہے۔
ریاست مخالف عناصر نے پاکستان کے استحکام کو کافی بار متزلزل کرنے کی کوشش کی اور اللہ کے کرم سے ہر بار ناکام رہے، سیکیورٹی فورسز نے فیصلہ کن کارروائی سے ان کے ناپاک منصوبوں کوکچلا، بات واضح ہے کہ ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے والوں کو قانون کی پوری طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا، جس سے کسی کو استثنا نہیں ملے گا۔