WE News:
2025-04-22@14:33:53 GMT

گرداس پور سے وزیرآباد       

اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT

گرداس پور سے وزیرآباد       

گرداس پور کے پنڈ مچھرائی کی وسیع و عریض حویلی کے عقبی حصے میں واقع سید خیرالدین شاہ کا آستانہ مغرب کی اذان سے قبل سنسان پڑا تھا۔ روزہ کھلنے میں چند ہی لمحے باقی تھے کہ آستانے کا متولی تیزی سے اندر داخل ہوا اور مؤدبانہ لہجے میں عرض کی، ’پیر صاحب! بھولے چک سے گرپریت سنگھ اپنی اہلیہ کے ساتھ دعا کے لیے حاضر ہوا ہے۔ اس کی بیوی امید سے ہے‘۔

سید خیرالدین شاہ نے تسبیح کے دانے گھماتے ہوئے لمحہ بھر سوچا، پھر سر ہلاتے ہوئے انہیں اندر بھیجنے کا اشارہ کیا۔

گرپریت سنگھ عقیدت و احترام سے آگے بڑھا اور پھر مؤدب انداز میں گویا ہوا،

’پیر صاحب! بابا گرو نانک کی کرپا سے ہمارے 4 بچے ہوئے، مگر افسوس، کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا۔ آپ کی دعاؤں کی برکت کے متعلق سن کر حاضر ہوئے ہیں۔ چند دنوں میں میری بیوی ماں بننے والی ہے، بچہ جننے اپنے ماں پیو کے گھر وزیرآباد جانے سے پہلے ہم آپ سے دعا کروانے کی غرض سے آئے ہیں کہ ہمارا یہ بچہ سلامت رہے اور اسے ہماری عمر بھی لگ جائے‘۔

یہ بھی پڑھیں: بدمست ہاتھی اور ایڈونچرازم

  اذان کی صدا فضاؤں میں گونجنے لگی، مگر سید صاحب تسبیح کے دانے تھامے بدستور دعا میں محو رہے۔ چند لمحوں بعد انہوں نے آنکھیں کھولیں، نگاہوں میں بردباری نمایاں تھی ۔ نرم لہجے میں گویا ہوئے:

’جاؤ، اپنے گھر جاؤ۔۔۔ تمہارا بچہ زندہ رہے گا، عمر پائے گا‘۔

گرپریت سنگھ اور اس کی اہلیہ کی آنکھوں میں عقیدت کے چراغ جل اٹھے۔ دل شکرگزاری کے جذبات سے لبریز تھے۔ وہ ادب و احترام کے ساتھ آستانے سے رخصت ہوئے، امید اور آس ان کے چہروں پر جھلک رہی تھی۔

عید کا چاند خوشیوں کی بشارت لے کر ابھرا، عید کے دن گرپریت سنگھ کے آنگن میں امید کا سورج طلوع ہوا۔ اس کی بیوی نے ایک تندرست و توانا بیٹے کو جنم دیا تھا جسے محبت سے بلبیر سنگھ کا نام دیا گیا۔

پرکھوں سے سید خیرالدین شاہ کا خانوادہ گرداس پور میں عزت و وقار کی علامت تھا۔ اس در پر  ہندو، مسلم،  سکھ عقیدت مند دور دراز سے اپنی دعائیں اور امیدیں لے کر حاضر ہوتے، منتوں کے چراغ جلاتے، مرادوں کے پھول نچھاور کیا کرتے تھے۔

مزید پڑھیے: سماج کے کمزور طبقات اور جینڈر بجٹنگ

مگر فضا میں اب تبدیلی کی سرگوشیاں تھیں۔ ملک کے افق پر آزادی کا سورج طلوع ہونے کو تھا۔ انگریزوں کی پہنائی زنجیریں توڑنے کی تحریک ہر دل میں انگارے بھر رہی تھی، اور گرداس پور کی ہواؤں میں بھی بغاوت کی سرگوشیاں گونجنے لگی تھیں۔

وزیرآباد

دریائے چناب کے کنارے بسا وزیرآباد، جہاں گرو کوٹھے والی گلی کے ایک پرانے مگر آباد کوچے میں گرپریت سنگھ کا پورا سسرال رہتا تھا۔ انہی گلیوں میں بلبیر سنگھ نے اپنی نانی کے گھر آنکھ کھولی تھی۔

یہ وہی گلیاں تھیں جہاں اس کے بچپن کی ہنسی دیواروں میں گونجتی تھی، جہاں اس کی نانی کی محبت ہوا میں گھلی رہتی تھی۔

اب وہ 20 برس کا ہونے کو آیا تھا، مگر اس گلی سے اس کی نسبت ویسی ہی تھی جیسی دریا کی روانی سے کنارے کیـ  سال میں ایک بار ماں باپ کے ساتھ ننھیال کی یاترا اس کی زندگی کا دستور تھی، جیسے کوئی پرندہ ہر موسم میں اپنے پرانے آشیانے کی طرف پلٹتا ہے۔

مزید پڑھیں: الٰہی بخش جھلا ہوگیا!

آج کا دن بھی عقیدت اور دعا کا تھا۔ پورا پریوار گرو کوٹھا گردوارے میں گرنتھ صاحب کے حضور ماتھا ٹیکنے کے لیے جمع تھا۔ مگر مقدس شبدوں کے بیچ بھی ایک بےنام سا خوف دلوں میں سرسرانے لگا تھا۔

گرپریت سنگھ نے جیسے ہی دل کا بوجھ لفظوں میں ڈھالا، فضا میں ایک خاموشی در آئی، ’ملک کا بٹوارا ہونے جا رہا ہے‘۔

پل بھر کو سنّاٹا چھا گیا، مگر پھر کسی نے قہقہہ لگایا، ایک بےفکری میں ڈوبی آواز ابھری،

پرا ! وزیرآباد تو سکھوں کا شہر ہے، ہمیں یہاں سے نکالنے والا کون ہے بھلا؟

سب نے سر جھکایا، گرنتھ صاحب کے حضور ہاتھ باندھے، اور کوئی زیرِ لب بولا،

’گرو نانک کی کرپا سے ایسا ہی ہو!‘

گرداس پور

رات کی سیاہی دھیرے دھیرے دھندلا رہی تھی۔ دریائے راوی کے کنارے، دوآب کی سرسبز فصلوں میں ہلکی سی سرسراہٹ ہوئی، جیسے ہوائیں کسی راز کی چادر سرکانے لگی ہوں۔

غیاث الدین خاموشی کی چادر اوڑھے دم سادھے بیٹھا تھا کہ یکایک ایک سرگوشی ہوا کے دوش پر ابھری، پرا غیاث!

یہ بلبیر سنگھ کی آواز تھی، دھیمی مگر گمبھیر۔ وہ قریب آ بیٹھا، دونوں نے سر جوڑ لیے، راز بھری سرگوشیاں اندھیرے میں گم ہونے لگیں۔

بلبیر کی سانسیں تیز تھیں، اس کی آواز میں اضطراب تھا،

یہ پڑھیے: دادیوں والا گاؤں      

’اگلے ہفتے گرداس پور پر حملے کی افواہیں ہیں ـ باپو نے بھیجا ہے کہ آپ سب کو خبردار کر دوں ـ اُس سمے سرکش لوگوں کو قابو میں رکھنا ممکن نہ ہوگا۔ جو کچھ کرنا ہے، ترنت کرنا ہوگا!‘

اس نے سب کچھ ایک ہی سانس میں کہہ ڈالا، جیسے وقت کی ریت مٹھی سے پھسلی جا رہی ہو۔

سید خیرالدین کا چہرہ غصے سے سرخ تھا، ان کے ہاتھ بےاختیار لرز رہے تھے، مگر لہجے میں صدیوں کی گونج تھی۔ اپنے بیٹے غیاث الدین کی زبان سے گرداس پور چھوڑنے کی بات سن کر جیسے ان کے وجود میں آگ سی بھر گئی تھی ۔

’ہماری پرکھوں کی جڑیں اس مٹی میں صدیوں سے پیوست ہیں ، گرداس پور میں کس کی مجال کہ ہماری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے؟‘

’یہ سرزمین ، یہاں کے در و دیوار ہمارے وجود کا حصہ ہیں ـ صدیوں کا بھائی چارہ چند ماہ کی نفرت پر کیسے مٹی میں مل سکتا ہے؟ اور تم ایک افواہ کو سچ مان بیٹھے ہو؟‘

وہ یکدم اٹھ کھڑے ہوئے، جیسے اپنے یقین کی مہر ثبت کر رہے ہوں،

’ہمارا گھرانا کہیں نہیں جائے گا! زندگی اور موت اوپر والے کے ہاتھ ہے۔ اگر ہمارے مقدر میں اسی دھرتی پر مرنا لکھا ہے، تو کوئی مائی کا لعل ہمیں بچا نہیں سکتا!‘

ان کی آنکھوں میں عزم تھا، مگر باہر ہواؤں میں طوفان کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔

پیر صاحب کی بے خوفی اور ان کے لہجے میں یقین کی طاقت نے ان کے گھرانے کو آنے والے وقت کی فکر سے آزاد کر دیا تھا۔

گرداس پور کی فضاؤں میں خوف کے سائے لرزاں تھے۔  چاند بھی اداسی کی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔

رمضان کی 27ویں رات کے سائے گہرے ہو چکے تھے جب پیر صاحب کی حویلی کے دروازے پر گرپریت سنگھ اپنے بیٹے بلبیر سنگھ کے ہمراہ کھڑا تھا۔ سامنے ایک بڑا ٹرک، اندھیرے کی آغوش میں چھپا، کسی فیصلے کا منتظر تھا۔

گرپریت سنگھ نے عقیدت سے آگے بڑھ کر پیر صاحب کے قدموں کو چھوا۔

آواز میں التجا تھی اور آنکھوں میں ایک جلتی ہوئی بےبسی۔

’پیر صاحب! ہم تو آپ کی دہلیز کی خاک ہیں‘،

آپ کی کرپا سے میں آج ایک بیٹے کا باپ ہوں، بلبیر سنگھ کی زندگی کا واسطہ، اپنے پریوار اور محلے کے مسلمانوں کو اس ٹرک میں بٹھائیے اور ترنت یہاں سے روانہ جائیے۔

یہ بھی پڑھیں: پیارا دشمن                           

عید کی خوشیوں سے پہلے، گرداس پور کی گلیوں میں خون بہانے کا حکم دیا جا چکا ہے، ہر دروازے پر موت دستک دینے کو تیار ہے۔

پیر صاحب! آپ کو اپنے رب کی قسم، یہاں نہ رکیں، اپنے وجود، اپنے نام، اپنی سانسوں کو اس سرزمین کی خونی پیاس سے بچا لیجیے‘۔

اس کی آواز میں انسانیت تھی، وہی انسانیت جو نفرت کے اندھیروں میں بھی چراغ جلا دیتی ہے۔

’بھولے چک اور آس پاس کے سرکش جتھے چند ہی گھنٹوں میں یہاں پہنچنے والے ہیں۔ بلبیر سنگھ آپ سب کو بحفاظت وزیرآباد تک لے جائے گا۔ اگر وہ آپ کی جان بچاتے ہوئے مارا بھی گیا، تو میں سمجھوں گا کہ کم از کم آپ کا ایک ذرہ قرض تو اتار پایا‘۔

پیر صاحب لمحہ بھر کو چپ رہے، نگاہوں میں قرنوں کا بوجھ لیے، پھر ایک گہری سانس لی اور اپنے گھرانے کے ساتھ اس ٹرک میں جا بیٹھے۔

وہ اپنی ہستی، اپنی پیری فقیری، اپنی محبت، اپنا بھائی چارہ،  سب کچھ گرداس پور کی گلیوں میں چھوڑ کر جا رہے تھے۔ ٹرک کے پہیوں نے دھیرے سے زمین کو چھوا، اور ایک پوری صدی کی داستان گرد و غبار میں لپٹتی چلی گئی۔

وزیرآباد

گرو کوٹھا گردوارہ کو جانے والی ساری راہیں مسدود تھیں، ہر گلی، ہر کوچہ بدمعاشوں کے پہرے میں تھا۔ سکھوں اور ہندوؤں کے لیے زمین تنگ کر دی گئی تھی۔ فسادات اپنی بھیانک ترین شکل اختیار کر چکے تھے۔ دریائے چناب روز لاشوں سے بوجھل ہو رہا تھا، جیسے پانی کے بہاؤ میں انسانیت کا جنازہ بہہ رہا ہو۔

ڈر کے سائے ہر در و دیوار پر لرزاں تھے۔ سکھوں نے گردواروں میں، ہندوؤں نے مندروں میں پناہ لے لی، کہ شاید مقدس مقامات کا احترام باقی رہے۔۔۔ مگر نفرت کے الاؤ میں تقدس بھی جل کر راکھ ہو گیا۔

’ہر گھر سے ایک پیالہ تیل چاہیے!  کافروں کا قلع قمع کرنا ہے‘

یہ اعلان فضا میں گونجا، اور پھر جیسے گھروں سے خاموش چیخیں بلند ہوئیں۔ تیل کے ڈونگے مسجد کے باہر اکٹھے ہونے لگے، اور دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں بےبس روحیں اور صدیاں گردوارے میں جل کر خاک ہو گئیں۔

سید خیرالدین ابھی گرداس پور کے زخموں سے سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ وزیرآباد کی وحشتوں نے ان کی رہی سہی ہمت توڑ ڈالی۔ مگر گرپریت سنگھ کا قرض باقی تھا، اور ضمیر کی عدالت میں وہ سرخرو ہونا چاہتے تھے۔

انہوں نے لرزتے ہاتھوں میں اپنی ہمت سمیٹی، اور مسجد کے ممبر پر جا کھڑے ہوئے۔ ان کی گونجتی آواز نے ہجوم کو اپنی گرفت میں لے لیا۔

’سن لو! جس کسی نے اب وزیرآباد میں بسنے والے کسی سکھ یا ہندو کا بال بیکا کیا، وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہوگا! ناحق خون بہانے والے پر عذاب یہیں، اسی دنیا میں نازل ہوگا!‘

فضا میں سکوت چھا گیا۔ سید خیرالدین کی بارعب شخصیت اور بزرگ آنکھوں کی گواہی کے آگے لوگ چپ ہو گئے۔ قتل و غارت کے جنون پر کچھ دیر کے لیے مصلحت کی چادر تن گئی ـ

مزید پڑھیے: علی چوہدری کا 2060 کا اسلام آباد   

مگر اندھیروں کے سوداگر جانتے تھے کہ ایسے چراغ کب بجھائے جاتے ہیں۔

’یہ وقت فقیروں کی مصلحت کا نہیں! بھائی چارے کے قصے ہمارے مقصد کو نقصان پہنچائیں گے! ایسے منہ زوروں کا منہ ہمیشہ کے لیے بند کرنا ہوگا!‘

اور پھر اگلی صبح، جب عید کی اذان چناب کی لہروں پر لرزی، نمازیوں نے کنارے پر ایک لاش بہتی دیکھی۔

سید خیرالدین کی سفید داڑھی پانی میں تیر رہی تھی، جیسے چناب نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا ہو، جیسے دریا نے بھائی چارے کی آخری سانسوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے اندر سمو لیا ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلبیر سنگھ پنڈ مچھرائی سید خیرالدین شاہ گرپریت سنگھ گرداس پور وزیرآباد.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلبیر سنگھ پنڈ مچھرائی سید خیرالدین شاہ گرپریت سنگھ گرداس پور سید خیرالدین شاہ گرداس پور کی گرپریت سنگھ بلبیر سنگھ پیر صاحب لہجے میں رہی تھی کی چادر کے ساتھ ہی تھی کے لیے

پڑھیں:

کراچی پیاس کا صحرا

حیات انسانی ابتدائے آفرینش ہی سے اپنے دوام کے لیے فطری طور پر ایسے لازمے کی رہین منت رہی کہ جس کے بناء اسے دھرتی پر اپنا جیون معدوم سا محسوس ہونے لگا۔

اور یہ کوئی دم کی حاجت نہیں بلکہ شب و روز کا دستور ٹھرا۔

ایسے میں قدرت نے اس کی راہ نمائی فرمائی، اور یہ حاجت برآری اس کے اپنے زور بازو سے مشروط کردی۔ یوں خوراک اور پانی کی کھوجنا ہی اس کا مقصد حیات قرار پائی۔

اب آتی جاتی سانس کے ضامن خورونوش پر مبنی یہ دو اجزاء، روز اول سے ہی اسے متحرک رکھ کر اس کے وجود کو مدام بخشتے رہے۔

کاروان حیات کو رواں دواں رکھنے کی خاطر وہ اگر برساتی نالوں، ندیوں، دریاؤں اور پہاڑی جھرنوں سے اپنے تشنہ لبوں کو تر کرتا ہے، تو فوراً ہی دوسرے مرحلے پر اسے شکم کی پکار کو لبیک کہنا ہے، جس کے لیے جان جوکھوں میں ڈال کر جنگلی جانوروں سے پنجہ آزمائی، جہاں چند ساعتوں میں شکار اور شکاری کی ترتیب الٹ جاتی، اور شکاری شکار کے لیے لقمۂ تر بن جانے کا اندیشہ۔

ہر نیا دن دشت بے اماں میں مقدر کے کھیل سے شروع ہوتا۔ اب مقدر کی لغت کی اپنی تفہیم ہی نرالی ہے۔ کبھی تو یہ سانجھی بن کر راہوں میں پھول بکھیر دیتا ہے، اور کبھی بیری بن کر ببول بو دیتا ہے۔

یوں کبھی پورا دن خالی ہاتھ گزر جاتا، تو شام کے سائے پھیلتے ہی بھوک کا آکٹوپس اس کے ناتواں جسم میں پنجے گاڑنے لگتا۔ اس گھاؤ کو سہتے یہ محروم رات تو ٹل جاتی، اور پھر نور کے تڑکے ایک نئی امنگ اور نئے حوصلے کے ساتھ جیت کی امید لئے میدان میں اترنا ہے، جہاں مات کی صورت اس کی اپنی زندگی داؤ پر لگی ہے۔ بڑی کٹھن ہے یہ زیست۔

غذا کا ایک لقمہ اور پانی کی دو بوندیں، کسی ایک مقام پر دستیاب ہوں۔ بس اِس مقام کے حصول کی تمنا نے اسے قریہ قریہ پھرنے پر مجبور کردیا۔

یوں فطرت نے کس قدر پریت سے اسے جہد مسلسل کا استعارہ بنا دیا۔

جیون اسی تذبذب میں گزرتا رہا کہ جب کسی مقام پر شکار کی صورت گوشت کی فراوانی ہے، تو دور دور تک پانی نایاب، اور پانی کی قربت ہے تو غذا ندارد۔

ایک عرصہ اس کٹھنائی سے نبردآزما رہ کر اس نے جانا کہ اب ذخیرہ آب کی قربت میں اسے شکم سیری کا گر اپنانا ہے۔ اس کلیے کو اپناکر قریب کی زرخیز زمین سے غذا کے قابل اجزاء کے حصول سیکھتے کئی اور صدیاں بیت گئیں۔

بالآخر اس نے ان دو ضروریات کو مربوط رکھنے میں کام یابی حاصل کرلی۔

یوں اس کی سرشت میں موجود سیلانی فطرت کا عنصر جب کچھ کم ہوا، تو دریاؤں کے قریب گروہ کی شکل میں سکونت اختیار کرنے سے رفتہ رفتہ ایک سماج تشکیل پانے لگا، اس طرح سماج کا اپنا ایک تمدن بھی وجود میں آرہا تھا۔

کھیتی و دیگر ضروریات کے لیے پانی کو اپنے مطلوبہ مقام تک لے آنے کی حکمت عملی کے باعث ان گروہوں کے قیام کا دورانیہ طویل ہونے پر آبادی وسعت اختیار کرنے لگی۔

اور یہ آغاز تھا کرۂ ارض کے کچھ گوشوں پر تہذیبیں اُستوار ہونے کا۔

ان تہذیبوں کے مکینوں کی پانی کو رفتہ رفتہ کو سوں دور تک منتقل کرنے کی کام یاب کاوش، انسانی سماج میں فرا ہمی آب کی ابتدائی شکل تھی۔

کئی صدیوں پر مشتمل فراہمی آب کے اس پورے تاریخی تناظر میں مشاہدہ کریں گے کہ کراچی کے باسی، شہر کے مضافات میں ہونے والی کاشت کاری اور اندرون شہر پینے کے پانی کی دستیابی کے کن ذرائع سے فیض یاب ہوتے رہے۔

پانی کی قربت سے جنم پانے والی مصر، میسو پوٹیما اور چین کی طرح سندھ کی تہذیب بھی دریائے سندھ کے کناروں پر وجود میں آئی۔ مگر اِس وادی سندھ کے شہر کراچی کے دامن میں ابتدا ہی سے دریائے سندھ کا آب شیریں نہیں بلکہ بحیرہ عرب کا آب شور موجود تھا، اور یہ شاید کراچی کی خوش قسمتی تھی کہ یہی آب شور اس کے لیے آب حیات بن گیا۔ سمندری بندرگاہ کی حیثیت نے کئی صدیوں سے میٹھے پانی کی کم یابی کے باوجود اس شہر کو مرکز نگاہ بنائے رکھا۔

برصغیر کے ایک وسیع حصے کو درآمدوبرآمد میں معاون بننے والی اس ساحلی پٹی میں ابتدا ہی سے پینے کے پانی کا کوئی باقاعدہ انتظام نہ تھا۔ اس کے باوجود کیماڑی سے ملیر کے آس پاس پھیلے ساحل پر ٹکڑیوں میں بسے لوگوں کو آباد رکھنا تجارتی نکتہ نظر سے ضروری بھی تھا۔

کراچی کے شہریوں نے پانی کی اس قلت کا قدرِ مشکل حل لیاری اور ملیر کی برساتی ندیوں کی صورت میں تلاش کر لیا تھا۔

ملیر اور لیاری ندی کے زرخیز کناروں پر بسے لوگوں نیندی کے قرب و جوار میں کنوئیں کھود کر وسیع پیمانے پر کھیتی کو فروغ دیا۔ سبزیوں کے کھیت اور پھلوں کے باغات نے کراچی کے باسیوں کو ان دو اجناس میں خود کفیل کردیا تھا۔

کراچی کی سرسبز زمین پر اُگنے والی ہمہ اقسام کی سبزی کے علاوہ موسم کے معروف پھل، امرود، پپیتا، چیکو، خربوزہ، تربوز سمیت ملیر کے رسیلے آموں کا ذائقہ چکھنے والے کراچی کے قدیم باسیوں میں شاید اب بھی کوئی بقید حیات ہو۔ ان خوش ذائقہ آموں کا شہرہ شہر سے باہر تک پھیلا ہوا تھا۔

کھیتی اور پینے کے پانی کی اس طور دستیابی کے طفیل شہر کی سانسیں کسی نہ کسی طرح چلتی رہیں۔

مگر کیا کیجیے کہ تبدُل و تغیر کے قانون سے کسی کومفر ممکن نہیں اور فطرت کے اس قانون کے تحت اب کراچی اپنا چولا بدل رہا تھا۔

اس بدلاؤ کا آغاز کچھ اس طور ہوا، جب یہاں سے کچھ میل دور حب ندی کے دہانے پر معروف بندرگاہ ’کھڑک بندر‘ جہاں بارشوں کے سبب رفتہ رفتہ ندی سے سمندر میں ریت کی منتقلی کے سبب گہرائی میں ہوتی گئی کمی، اور بالآخر 1728ء میں جب تندوتیز بادوباراں کے کارن ریت بھر جانے کے سبب یہ بندرگاہ ناقابل استعمال ہوگئی تو دوسری بندرگاہ کی تلاش کے لیے درآمد و برآمد کے معروف تاجر سیٹھ بھوجومل نے بھیجے کارندوں کی جوہرشناس نگاہوں نے اس سال کیماڑی بندر کو تلاش کرلیا۔

بھو جو مل کے درآمدی و بر آمدی کاروبار کے کیماڑی منتقل ہونے کے کچھ عرصے بعد ٹھٹھہ کے قریب شاہ بندر اور لاہری بندر نامی دونوں بندرگاہوں کے تاجر بھی اپنے کا روبار یہاں لے آئے۔

یہ تمام تاجر اپنے خاندان اور عملے کے لاؤ لشکر سمیت اپنے پرانے ٹھکانوں کو چھوڑ کر کراچی آگئے، تو وہاں کے رہائشی بھی سکڑتے کاروبار سے پریشان ہوکر نئی جگہ قسمت آزمائی کے لیے اس شہر کا رخ کرنے لگے۔ یوں چند ہزار نفوس کی آبادی کا یہ شہر دیکھتے ہی دیکھتے وسیع ہونے لگا۔

اب یہ ماہی گیروں کی بستی سے تاجروں اور دوسرے پیشوں سے وابستہ افراد کے شہر میں بدل رہا تھا۔ آبادی کھارادر اور میٹھادر کی قلعہ بند فصیل کے اندر بڑھ رہی تھی۔ اِن نئے آباد ہونے والوں کی یہ خوش قسمتی تھی کہ ندی کے میٹھے پانی کے علاوہ ان کے علاقوں سے لگ بھگ ایک میل کے اندر پانی کے کچھ قدرتی چشمے موجود تھے، جن سے طویل عرصے تک یہ لوگ پینے کے پانی جیسی بنیادی ضرورت پوری کرتے رہے۔

لیاری اور ملیر ندی کے آس پاس کنوئیں اور مندرجہ بالا قدرتی چشمے یہاں کے باسیوں کی پیاس بجھاتے رہے، مگر 1839ء میں کراچی پر انگریزوں کے قبضے کے کچھ سالوں بعد شروع ہونے والے ترقیاتی کاموں سے کھلنے والے روزگار کو حاصل کرنے کے لیے آس پاس کے لوگ اس شہر کی طرف بڑھنے لگے۔ تو ان کنوؤں اور چشموں کی استعداد ختم ہونے لگی۔

1729ء کے تقریباً سو سال بعد آبادی کا ان چشموں سییہ دوسرا ریلا ان ہی چشموں کے قریب بہنے لگا۔ رفتہ رفتہ ان چشموں سے نکلنے والے پانی کی مقدار ’ایک انار سو بیمار‘ کی سی ہونے لگی تو کچھ عاقبت نااندیش لوگوں نے برسوں پیاس بجھانے والے قدرت کے اس انمول تحفے پر تعمیرات کرکے اسے بند ہی کردیا۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر ہونے والی ایسی سنگین غلطیاں اپنا خراج ضرور وصول کرتی ہیں، اور وہ بھی سود کے ساتھ۔

شاید ان لوگوں کو پانی کی حیثیت کا پتا نہیں، انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ قدیم تہذیبوں کے لوگ پانی کا پرستش کی حد تک احترام کرتے اور پینے کے پانی کے بڑے منبع یعنی دریا کی پوجا کر تے تھے۔

موہن جو دڑو کے تقریباً ہر گھر سے ایک کنواں دریافت ہوا ہے، وہ پانی کے اس ذریعے کی اپنے گھر میں موجودگی کو نیک شگون قرار دیتے تھے۔

انگریزوں کی آمد کے بعد شہر کی آبادی میں تیزرفتار اضافے نے شہری انتظامیہ کو جس مسئلے سے دوچار کیا وہ پینے کے پانی کا تھا۔

1852 ء تک بائیس ہزار نفوس تک پہنچنے والی آبادی کو سات کنوئیں اور پانچ چشمے سیراب نہ کر سکے تو مزید پانچ کنوئیں اور کھدوائے گئے، مگر کنوؤں کی کھدائی مکمل ہوتے ہوتے کراچی کے اطراف کے مزید لوگ یہاں منتقل ہوجاتے۔ اور پانی ایک مسئلہ بن کر اپنی جگہ کھڑا رہ جاتا۔

کچھ مخیر پارسی حضرات نے بھی اپنے طور پر کئی کنوئیں کھدوا کر میونسپل کمیٹی کے حوالے کئے، مگر بات نہ بن سکی تو شہری انتظامیہ نے ہنگامی بنیادوں پر ڈملوٹی کے مقام پر دس گہرے کنوئیں کھدوائے، ان سے حاصل ہونے والے پانی سے شہری اب اطمینان سے اپنی روز مرہ کی ضرورتیں پوری کرنے لگے۔ رسد اور طالب میں توازن پیدا ہوگیا۔

کنوؤں کے اس پانی کو بڑے پائپوں کے ذریعے شہر کے ذخائر آب تک پہنچایا جاتا اور پھر وہاں سے پائپوں ہی کے ذریعے شہر کے مختلف علاقوں تک یہ پانی فراہم کیا جاتا رہا۔

یہ ذخیرۂ آب شہر کے مختلف علاقوں میں تعمیر کیے گئے جن میں رام باغ، کسٹم ہاؤس اور کھوڑی گارڈن کے ذخیرہ آب (حوض) قابل ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ ایک حوض کا علاقہ اب بھی اپنے پرانے نام رتن تلاء سے معروف ہے (مقامی زبان میں حوض کو تلاء کہا جاتا ہے)

مگر دوسری جنگ عظیم کے دوران اس شہر کے فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہونے سے یہاں کی معیشت پر مثبت اثر پڑا، یوں روزگار کے مزید دروازے کھلنے پر آبادی بڑھی، تو پانی کی فراہمی اور خرچ کا توازن ڈولنے لگا، اور بالآخر 1940ء میں پانی کی بڑی مقدار میں سپلائی کے لیے ’’ہالایار‘‘ نامی اسکیم متعارف کرائی گئی۔ اس اسکیم کے تحت دریائے سندھ کے پانی کو کلری جھیل تک پہنچانے کے لیے ایک نہر نکالی جانا تھی، اور کلری جھیل سے ایک پختہ نالے کے ذریعے پانی کو گھارو تک لانا تھا، جہاں ایک فلٹر پلانٹ کے ذریعے پانی کو جراثیم سے پاک کرنے کے بعد کراچی تک پہنچانا تھا۔

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، کے مصداق اسکیمیں مکمل ہونے کے عرصے کے دوران بڑھتی آبادی ان تمام اسکیموں کو ناکامی سے دوچار کر دیتی۔

ہالایار اسکیم کی فعالیت کے ناکافی ہونے پر 1945ء میں ہالیجی اسکیم پر کام کا آغاز کیا گیا۔

1947ء میں آبادی کا دباؤ بڑھا تو 1954ء میں کے ڈی اے کے زیراہتمام ’گریٹر کراچی بلک واٹر سپلائی اسکیم‘ شروع کی گئی۔

اور رسد و طلب کا یہ توازن آج 2025ء تک زلف یار کی طرح الجھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چیٹ جی پی ٹی نے خاتون کے کمرے کا نقشہ ہی بدل دیا
  • ڈان 3 میں رنویر سنگھ کیساتھ ہیروئن کون ہوگی؟ نام سامنے آگیا
  • یوگی ٹھاکر کے راج میں ٹھاکروں کی مہابھارت
  • اقبالؒ__ کیا ہم بھول جائیں گے؟
  • رنویر الہ آبادیا کیس کی تحقیقات مکمل، پاسپورٹ واپسی کی درخواست سماعت کیلیے مقرر
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • کراچی پیاس کا صحرا
  • بی جے پی نے مجھے مارنے پر انعام رکھا ہے‘، سکھ رہنما کی نائب امریکی صدر سے دورہ بھارت میں معاملہ اٹھانے کی درخواست
  • ’بی جے پی نے مجھے مارنے پر انعام رکھا ہے‘،گرپتونت سنگھ پنوں کا امریکی نائب صدر کو خط
  • غیرمسلم فلسطینیوں کے حق میں احتجاج، مسلمان ممالک چھرا گھونپ رہے ہیں، ہرمیت سنگھ