گزشتہ روز افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق خان نے نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار سمیت وزارتِ خارجہ کے سینئر افسران کو اپنے 3 روزہ دورہ کابل کے بارے میں بریفنگ دی۔

تفصیلات کے مطابق محمد صادق خان نے کابل میں افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی، وزیرتجارت اور دیگر اعلٰی حکام سے ملاقات کی۔

سفارتی ذرائع کے مطابق اِن ملاقاتوں کے دوران افغانستان کے ساتھ سیکیورٹی، تجارتی اُمور، خاص طور پر طورخم بارڈر مینجمنٹ بہتر کرنے کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا گیا اور افغان حکام کو پاکستان میں موجود غیرقانونی افغان باشندوں کی غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے حوالے سے ثبوت بھی دکھائے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اِن غیر قانونی افغان باشندوں کی وطن واپسی کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔ فریقین نے دونوں ممالک کے باہمی فائدے کے لیے علاقائی تجارت اور رابطوں کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیےامریکی وفد اچانک کابل پہنچ گیا، ٹرمپ طالبان سے کیا چاہتے ہیں؟

افغان اُمور کے ماہرین کے مطابق پاک افغان تعلقات میں ایک بڑی رکاوٹ دونوں ملکوں کے مابین تجارتی رکاوٹیں اور بارڈر کراسنگ کا بند ہونا ہے۔ پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق نے اس بارے میں بھی افغان وزیرتجارت اور دیگر اعلٰی حکام سے بات چیت کی ہے۔

گزشتہ روز دفترِخارجہ سے جاری ایک بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے اور دوطرفہ تعلقات کو ٹھیک کرنے کے لیے افغان عبوری حکومت کے ساتھ مسلسل مذاکرات پر زور دیا۔ دونوں فریقوں نے دوطرفہ تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے اعلیٰ سطحی روابط اور بات چیت کو بڑھانے پر اتفاق کیا۔

زلمے خلیل زاد کا دورہ

جہاں ایک طرف پاک افغان مذاکرات کے حوالے سے پیش رفت ہوئی، وہیں امریکا اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری کے حوالے سے بھی پیش رفت ہوئی ہے۔ افغانستان میں سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد کا دورہ اور امریکی نژاد قیدی جارج گلیزمین کی رہائی امریکا اور افغان عبوری حکومت کے درمیان بڑھتے ہوئے اعتماد کا پتہ دیتے ہیں۔ اس مفروضے کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ امریکی قیدی کی رہائی کے بعد امریکا نے سراج الدین حقانی سمیت 2  اور سنیئر طالبان لیڈروں کے سروں کی قیمت کا اعلان بظاہر منسوخ کر دیا ہے اور اب ایف بی آئی کو مطلوب دہشتگردوں کی فہرست میں اُن کا نام نہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق زلمے خلیل زاد کے دورے کے موقع پر افغانستان میں رہ جانے والے امریکی ہتھیاروں کی واپسی پر بات چیت کی گئی۔

امریکا افغانستان تعلقات کی بہتری ،کیا پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے؟

خارجہ اُمور پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی متین حیدر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ ماہ ایک انتہائی مطلوب افغان نژاد دہشتگرد شریف اللہ کو گرفتار کر کے امریکا کے حوالے کیا۔ اور اُس کے بعد ہم نے دیکھا کہ امریکی حکومت نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کے حوالے سے امریکی روّیے میں بہتری کے آثار نظر آئے۔ لیکن زلمے خلیل زاد کے دورۂ افغانستان کے بعد جس طرح سے افغانستان اور امریکا کے تعلقات میں قربت بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے پاکستان کو اِسے بغور دیکھنا چاہیے۔

اگر کابل اور واشنگٹن کے تعلقات میں بہتری آتی ہے اور اگر امریکا  کابل کو اِس بات پر قائل کرتا ہے کہ اُس کی سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہ ہو تو یہ پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے۔

یہ بھی پڑھیےزلمے خلیل زاد پاک فوج اور قوم کے درمیان تقسیم کی سازشوں میں مصروف ہے، طاہر محمود اشرفی

پاکستان اگر اس صورتحال پر نظر نہیں رکھتا تو یہ نہ ہو کہ پاکستان کو سارے معاملات سے باہر کر دیا جائے۔

برگیڈیئر آصف ہارون

سی ڈی ایس تھنک ٹینک کے پیٹرن اِن چیف اور تھنکرز فورم کے رُکن برگیڈیئر آصف ہارون نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو افغانستان اور امریکا کے اچھے ہوتے تعلقات کو بہت غور سے دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس خطے میں امریکا کی موجودگی اور دلچسپی کی بنیادی وجہ سی پیک اور چینی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔

بنیادی طور پر امریکا نے جو 7 ارب ڈالر کے ہتھیار افغانستان میں چھوڑے تھے وہ اِسی خطے کے امن کے خلاف ہی چھوڑے تھے۔ امریکا طالبان حکومت کو امداد بھی دیتا ہے جس کا بنیادی مقصد اُن کے اندر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنا ہے۔ اس لیے پاکستان کو افغانستان اور امریکا کے اچھے ہوتے تعلقات پر گہری نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان امریکا امیر خان متقی پاکستان زلمے خلیل زاد.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان امریکا پاکستان زلمے خلیل زاد افغانستان اور امریکا زلمے خلیل زاد افغانستان کے کے حوالے سے تعلقات میں پاکستان کو پاکستان کے میں بہتری امریکا کے کے مطابق بات چیت کے لیے

پڑھیں:

افغان باشندوں کی وطن واپسی میں حالیہ کمی، وجوہات کیا ہیں؟

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان کے بعد پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی وطن واپسی کے دوران ان کی سہولت اور شکایات کے ازالے کے لیے اسلام آباد میں کنٹرول روم قائم کر دیا گیا ہے۔

تاہم حکام کے مطابق تمام تر انتظامات کے باوجود بھی گزشتہ کچھ دنوں سے رضاکارانہ افغانستان واپس جانے والوں کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔

واپسی کا عمل سست روی کا شکار

پاکستان حکام کے مطابق پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی رضاکارانہ واپسی کا دوسرا مرحلہ یکم اپریل سے شروع ہوچکا ہے جس کے تحت افغان سٹیزن کارڈ کے حامل افغان باشندوں کی واپسی ہو رہی ہے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے احکامات کے بعد محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے پاک افغان مرکزی گزرگاہ طورخم کے قریب لنڈی کوتل کے مقام پر کیمپ قائم کیا ہے، محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق یکم اپریل سے عید تک روزانہ  2500 سے 3000 افغان باشندے پاکستان سے واپس افغانستان جا رہے تھے۔

لیکن عید کے بعد واپسی کے عمل میں ان میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے اور گزشتہ چند دنوں میں یہ تعداد ہزاروں سے کم ہو کر سینکڑوں میں رہ گئی ہے، جو حکام کے لیے تشویش کا باعث بن رہی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ روز 479 افراد نے افغانستان واپسی کا سفر کیا۔

واپس جانے والے افغان باشندوں کے لیے حکومتی انتظامات

پاکستان سے افغان باشندوں کی باعزت واپسی اور سہولت کے لیے پاکستان نے موثر اقدامات اٹھائے ہیں، حکام کے مطابق پنجاب سے بھی زیادہ تر افغان باشندے واپسی کے لیے طورخم کا رخ کرتے ہیں اسی بنیاد پر لنڈی کوتل کے مقام پر کیمپ قائم کیا گیا ہے، جہاں رات قیام کی بھی سہولت ہے جبکہ واپس جانے والوں کی ضروری تصدیق کے بعد مکمل سیکیورٹی میں طورخم پر لے جایا جاتا ہے۔

خصوصی کنٹرول روم قائم

حکام کے مطابق نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کے دورے افغانستان کے دوران افغان باشندوں کی جائیداد کے حوالے سے تحفظات سامنے آئے تھے، جس کے بعد ان شکایات کے ازالے کے لیے ایک کنٹرول روم قائم کرکے ہیلپ لائن نمبر بھی جاری کیے گئے ہیں، تاکہ افغان باشندوں کی شکایات کا بروقت ازالہ کیا جا سکے۔

حکام کے مطابق کنٹرول روم نیشنل کرائسس اینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سیل میں قائم کیا گیا ہے، جو 24 گھنٹے افغان شہریوں کی معاونت کے لیے کام کرے گا۔

اب تک کنتے افراد افغانستان واپس گئے؟

پاکستان میں مقیم افغان سٹیزن کارڈ کے حامل افغان باشندوں اور غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے، محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دوسرے مرحلے کے تحت گزشتہ روز 479 افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز اور 1008 غیر قانونی تارکین وطن کو طورخم بارڈر کے راستے افغانستان روانہ کیا گیا۔

دوسرے مرحلے میں یکم اپریل سے اب تک مجموعی طور پر 26083 افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے افراد رضاکارانہ طور پر واپس گئے ہیں جبکہ 17892 غیر قانونی تارکین وطن کو واپس افغانستان بھیجا جا چکا ہے، اب تک دوسرے مرحلے میں مجموعی طور پر 43496 افراد افغانستان واپس گئے۔

یہ بھی پڑھیں: تمام صوبے آن بورڈ ہیں، افغان باشندوں کی وطن واپسی کی ڈیڈ لائن میں توسیع نہیں ہو رہی، طلال چوہدری

اعداد و شمار کے مطابق اسلام آباد سے 1982 ، پنجاب سے 16624، گلگت سے 2 جبکہ آزاد کشمیر سے 1019 افراد اور سندھ سے 44 افراد کو طورخم کے راستے افغانستان واپس بھیجا گیا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2023 سے لے کر اب تک خیبر پختونخوا کے مختلف بارڈرز سے مجموعی طور پر 5 لاکھ 15 ہزار 892 افغان باشندوں کو وطن واپس بھیجا جا چکا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ حکومت اس عمل کو مزید شفاف، منظم اور انسانی ہمدردی کے اصولوں کے تحت جاری رکھنا چاہتی ہے تاکہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو باعزت طریقے سے ان کے ملک واپس بھیجا جا سکے۔

واپسی کا عمل سست روی کا شکار کیوں؟

پاکستان حکام کے مطابق پاکستان سے افغان باشندوں کی واپسی کا عمل مرحلہ وار جاری ہے اور اس وقت طورخم سے واپس جانے والوں سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں مقیم افغان شہروں کی ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق دوسرے مرحلے میں سب سے زیادہ 16624 افغان باشندے پنجاب سے طورخم کے راستے اپنے ملک واپس گئے جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ واپسی میں کمی آنے لگی ہے۔

مزید پڑھیں: افغان تارکین وطن کی واپسی، کوئٹہ کی کاروباری صورتحال کتنی متاثر ہوئی ہے؟

افغان باشندوں کی واپسی کی نگرانی کرنے والے ایک سرکاری افیسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ دوسرے مرحلے کے آغاز پر کریک ڈاؤن اور حکومتی کاروائی کا ڈر تھا اور گرفتاری اور قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے واپسی میں تیزی آئی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ سب سے زیادہ افغان باشندے خیبر پختونخوا میں مقیم ہیں، جن کی واپسی ابھی تک شروع نہیں ہوسکی ہے،ان کے مطابق ابھی تک افغان باشندوں کی وطن واپسی بیشتر پنجاب سے ہی ہورہی ہے۔

’جن افغان شہریوں نے پاکستان میں گھر خریدا ہے یا ان کی یہاں جائیداد ہیں وہ ابھی تک وطن واپسی کا فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں، زیادہ تر افغان باشندے اپنے سامان بھی ساتھ لے کر جا رہے ہیں تاکہ وہاں ان کی زندگی آسان ہو۔‘

گھر زمین کچھ نہیں وہاں جا کر کیا کریں گے؟‘

’منی کابل‘ کہلائے جانیوالے پشاور کے بورڈ بازار میں افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے، یہاں کے سبزی فروش افغان شہری سمیع اللہ نے بتایا کہ افغان باشندے سخت پریشانی میں مبتلا ہیں اور منتظر ہیں کہ کسی بھی وقت پاکستانی حکومت یہ فیصلہ واپس لے۔

‘میری پیدائش پاکستان کی ہے، اردو بول سکتا ہوں، دوست گھر سب یہاں ہیں، واپس جا کر کیا کروں گا، وہاں نہ گھر ہے نہ زمین۔‘

سمیع اللہ نے بتایا کہ اکثر لوگ پولیس کارروائی کے ڈر سے جا رہے ہیں، خوشی سے کوئی نہیں جا رہا، انہوں نے بتایا کہ ان کا تین مرلے کا گھر بھی ہے اور اس وقت تک رہیں جب تک زبردستی نکال نہیں دیتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آزاد کشمیر اسحاق ڈار اسلام آباد افغان سٹیزن کارڈ افغان شہریوں افغانستان پنجاب تارکین وطن خیبرپختونخوا رضاکارانہ سمیع اللہ سندھ طورخم غیر قانونی کنٹرول روم گلگت لنڈی کوتل ہیلپ لائن وزیر خارجہ

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط بنیادوں رایات، پر قائم ہیں چینی سفیر
  • افغان باشندوں کی وطن واپسی میں حالیہ کمی، وجوہات کیا ہیں؟
  • معیشت، ڈرائیونگ فورس جو پاک افغان تعلقات بہتر کر رہی ہے
  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • افغان عبوری وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کر لی
  • پاکستان اور افغانستان: تاریخ، تضاد اور تعلقات کی نئی کروٹ
  • پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
  • اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا
  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل، نائب وزیراعظم، وزیر خارجہ سے ملاقاتیں: پاکستان افغانستان کا بہتر روابط، مضبوط ٰتعلقات برقرار رکھنے پر اتفاق
  • پاکستان اور افغانستان کا روابط برقرار رکھنے اور باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ