تنازع فلسطین… اقوام عالم کی ذمے داری
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
غزہ میں اسرائیلی جارحیت صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے شروع ہوئی۔ جب یہ لڑائی شروع ہوئی، اس وقت جوبائیڈن امریکا کے صدر تھے۔ جوبائیڈن کی پالیسیوں پر ڈونلڈ ٹرمپ بطور صدارتی امیدوار سخت تنقید کرتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی غزہ میں جنگ بند کروا دیں گے۔
اسی طرح وہ یوکرین ک بارے میں بھی دعویٰ کرتے تھے کہ وہ وہاں بھی جنگ بند کروا دیں گے۔ انھوں نے امریکی عوام سے یہ وعدہ کر رکھا تھا کہ وہ جنگیں بند کرانے کے لیے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کی تو اس وقت امریکا کے عوام اور اقوام عالم کو یہ یقین تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنتے ہی دنیا میں قیام امن کی راہ ہموار کریں گے بلکہ غزہ میں تو فوری جنگ بند ہو جائے گی۔
لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ان کے اقدامات کی وجہ سے دنیا میں بے یقینی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ غزہ میں چند روز کے لیے جنگ بندی ہوئی اور اس کا بھی بنیادی مقصد فریقین کے پاس جو یرغمالی موجود تھے، ان کی رہائی تھا۔ اب وہاں اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر جارحیت شروع کر رکھی ہے۔
میڈیا ی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز بھی اسرائیلی بمباری سے 60 کے قریب فلسطینی باشندے شہید ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کا واحد کینسر اسپتال بھی مکمل تباہ کر دیا ہے۔ پاکستانی میڈیا نے عرب میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ غزہ کے اس اسپتال کو 2017 میں ترکیہ کی امداد سے دوبارہ تعمیر کیا تھا اور اس کی لاگت 3 کروڑ 40 لاکھ ڈالر تھی، یہ کینسر اسپتال اسرائیلی بمباری سے تباہ ہوا تھا، جسے دوبارہ تعمیر کیا گیا۔
یہاں سالانہ 10 ہزار مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ اب یہ ابک بار پھر تباہ ہو گیا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج کس وسیع پیمانے پر تباہی جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ روز کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے رفح میں بھی زمینی آپریشن کیا اور شمالی علاقوں کی طرف پیش قدمی کی جس پر فلسطینی پھر سے علاقہ چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ یوں غزہ میں عارضی جنگ بندی کی وجہ سے جو فلسطینی واپس آئے تھے، انھیں ایک بار پھر مہاجرت اختیار کرنی پڑ رہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین (انروا) کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے کہا ہے کہ اسرائیلی بمباری سے چند دنوں کے دوران اس کے 5 امدادی کارکن بھی مارے جا چکے ہیں جس سے انروا کے ہلاک شدگان ارکان کی تعداد284 ہوگئی ہے جن میںزیادہ تر اساتذہ، ڈاکٹر ز اور نرسز ہیں۔ یہ حالت وہاں پر امدادی سرگرمیاں جاری رکھنے والوں کی ہے۔
اسرائیلی فورسز کسی کا کوئی لحاظ نہیں کر رہیں۔ دنیا میں امدادی کارکنوں کی عزت کی جاتی ہے اور ان کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا جاتا ہے لیکن اسرائیل کی فوج ان اخلاقی اصولوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتی۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں تقسیم کے لیے صرف 6 دن کا آٹا رہ گیا ہے۔ ان حالات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غزہ میں جو لوگ رہ رہے ہیں، وہ کس خوف اور عذاب میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن نیتن یاہو کی انتظامیہ کو بھی کوئی خوف نہیں ہے جب کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس حوالے سے مکمل طور پر خاموش ہیں بلکہ وہ اسرائیلی حکومت کو غزہ میں کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے اپنی تائید اور حمایت دے رہے ہیں۔
یونیسف کے مطابق اسرائیل کے حملوں میں گزرے تین روز میں کم از کم 200 بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ طبی حکام کے مطابق اس دوران چھ سو فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں حماس کے پاس بھی چھوٹی موٹی کارروائیاں کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے غزہ سے تل ابیب پر متعدد راکٹ حملے کیے ہیں، ان راکٹ حملوں کی وجہ سے اسرائیل میں خطرے کے سائرن بج گئے۔
اسرائیلی فوج نے 2 راکٹ مار گرانے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نیتن یاہو حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے اسرائیل کے شہری بھی متعدد مسائل کا شکار ہیں۔ ان پر بھی مسلسل خوف کی کیفیت طاری ہے۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتی ہے لیکن اصل مسئلہ پھر وہی آتا ہے کہ اقوام عالم خصوصاً صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کی وجہ سے اسرائیلی حکومت پوری دنیا کو چیلنج کر رہی ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے غزہ پر اسرائیل کی مہلک بمباری دوبارہ شروع کرنے اور فلسطینیوں کے اندھا دھند قتل کی مذمت کرتے ہوئے سلامتی کونسل میں اپنے خطاب میں کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی حاصل کرنے کا بہترین طریقہ جنگ بندی معاہدے پر مکمل عملدرآمد ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل پر سعودی عرب کے ساتھ مل کر مشترکہ طور پر کانفرنس بلانے کا اعلان کر دیا۔ اسرائیل کے حالات بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی شِن بیت کے سربراہ کو برطرف کر دیا گیا ہے۔
اسرائیلی کابینہ نے وزیراعظم نیتن یاہو کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔ اس برطرفی پراسرائیل میں نیتن یاہو کے خلاف مظاہرے شدت اختیار کر گئے ہیں۔ اس کی برطرفی کو اسرائیلی عدالت میں بھی چیلنج کر دیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی حکومت کے اندر بھی چپقلش چل رہی ہے جب کہ عوام بھی نیتن یاہو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف ہیں۔ غزہ جنگ بندی کے لیے مصر اور قطر نے دوبارہ مذاکرات کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
حماس کا وفد بھی قاہرہ پہنچ گیا لیکن مسئلہ تو پھر وہی ہے کہ امریکا اس حوالے سے کیا پالیسی اختیار کرتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے قریبی ساتھیوں کی سوچ تو سب کے سامنے آ چکی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ فلسطینی غزہ کو خالی کر دیں اور غزہ کا کنٹرول امریکا کے حوالے کر دیا جائے۔ جہاں وہ اس علاقے کو ایک کاروباری مرکز میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
فلسطینی اور عرب ممالک سمیت پوری دنیا اس منصوبے کے حق میں نہیں ہے۔ یوں یہ ایک الجھا ہوا مسئلہ ہے۔ البتہ شام کے حوالے سے ایک اچھی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ جرمنی کے وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے شام کے دورے کے دوران دمشق میں جرمنی کا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔
یہ سفارت خانہ 13 سال قبل شام کی خانہ جنگی کے ابتدائی دنوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ جرمنی کا شام میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنا، شام کی موجودہ حکومت کے لیے ایک بہتر فضا پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک جو ان دنوں دوسری بار شام کا دورہ کر رہی ہیں، انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ جرمنی سفارت کاروں کی ایک محدود تعداد دمشق میں اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرے گی، لیکن قونصلر کے کام، جیسے کہ ویزا جاری کرنا، پڑوسی ملک لبنان میں بیروت میں جاری رہے گا۔
یہ اقدام برلن اور دمشق میں قیادت کے درمیان تعلقات کی بحالی میں ایک اہم قدم ہے، جو بشار الاسد کے خاتمے کے بعد ملک کی تعمیر نو کی کوششوں کے دوران انسانی اور سلامتی کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے۔ دس لاکھ سے زیادہ شامی، جن میں سے بہت سے نے خونریز خانہ جنگی کے دوران اپنا وطن چھوڑ دیا تھا، اس وقت جرمنی میں مقیم ہیں۔
بیئربوک نے شام کے عبوری رہنماؤں سے بھی ملاقات کی۔ انھوں نے شامی رہنماؤں سے کہا کہ انھیں اس ماہ ہونے والے نسلی قتل عام میں ملوث انتہا پسند گروہوں کو قابو میں کرنا اور جرائم کے لیے جوابدہ بنانا چاہیے۔ انھوں نے دمشق میں عبوری صدر احمد الشرع کے ساتھ بات چیت کے بعد کہا، ’’یہ ضروری ہے کہ انتہا پسند گروہوں کو قابو میں لایا جائے اور جرائم کے ذمے داروں کا احتساب کیا جائے۔‘‘
مغربی یورپ کو غزہ میں قیام امن کے لیے بھی وہی کردار ادا کرنا چاہیے جو اس نے یوکرین کے معاملے میں کیا ہے۔ امریکا کی پالیسی تو ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اقوام عالم کے مفادات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں لیکن جب تک یورپی یونین، برطانیہ، چین، بھارت اور عرب ممالک ایک اتحاد کے ذریعے امریکا کے ساتھ معاملات آگے نہیں بڑھاتے، تنازع فلسطین کا حل ممکن نہیں ہو گا۔
روس کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ اس کی ترجیح یوکرین بن چکی ہے۔ اس بحران سے نکل کر ہی وہ فلسطین یا شام کے لیے کچھ کر سکتا ہے۔ ایسے حالات میں ضروری یہی ہے کہ یورپی یونین خصوصاً جرمنی، فرانس، اسپین، برطانیہ، چین، ترکیہ، برازیل، جنوبی افریقہ، جاپان اور سعودی عرب کے درمیان تنازع فلسطین کے حوالے سے کوئی مشترکہ لائحہ عمل نکلے، اس طریقے سے امریکا بھی فلسطین کا تنازع حل کرنے کے لیے آمادہ ہو سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے کہ اسرائیل اسرائیلی فوج اقوام عالم امریکا کے کی وجہ سے کے مطابق کے دوران انھوں نے کے حوالے حوالے سے کے لیے ا دیا گیا کے ساتھ کر دیا گیا ہے شام کے کہ غزہ کیا ہے
پڑھیں:
اسرائیلی حکومت اور معاشرے کے درمیان گہری ہوتی تقسیم
اسلام ٹائمز: فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔ خصوصی رپورٹ:
غاصب صیہونی ریاست کی فضائیہ کی پائلٹوں سے لے کر موساد کے افسران تک، جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج کی لہر اسرائیل میں اندرونی تقسیم اور دراڑ کی گہرائی کیسے ظاہر کرتی ہے؟ اس بارے میں عبرانی حلقوں کا خیال ہے کہ جنگ کے خلاف مظاہرے اور پٹیشن، جو فضائیہ کے اندر سے شروع کی گئی اور موساد جیسے حساس اداروں کے افسران میں شامل ہوتے گئے، اب نتن یاہو کی جنگی کابینہ کے خلاف اس احتجاج میں سول ملٹری اور سیاسی اشرافیہ بھی شامل ہو چکی ہے۔ یہ احتجاج اسرائیلی معاشرے میں دراڑ کی گہرائی، اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی و سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بداعتمادی کے بڑھتے ہوئے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ صیہونی آبادکاروں کے درمیان بے چینی اور اضطراب کو ظاہر کرنیوالا ایک بے مثال منظرنامہ ہے، جس میں صیہونی حکومت کی جانب سے بڑھتے ہوئے مظاہروں کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ یہ احتجاج حکومتی، فوجی اور سیکورٹی اداروں سے نکل کر ماہرین تعلیم، ڈاکٹروں، مصنفین وغیرہ سمیت اعلیٰ طبقات تک پہنچ گیا ہے، یہ سب غزہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیلی قیدیوں کی فوری واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ احتجاج کی یہ لہر 9 اپریل کو شروع ہوئی تھی۔ جب 1200 سے زائد پائلٹوں اور فضائیہ کے ریزرو دستوں نے غزہ جنگ کے جاری رہنے اور غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے خلاف احتجاج کے طور پر خدمت جاری رکھنے سے انکار کر دیا۔
معاشرے اور ریاست و حکومت کے درمیان عدم اعتماد کی فضا:
ملٹری برانچز کے مختلف افسروں اور اہلکاروں نے بھی پٹیشن پر دستخط کیے، جن میں فوج کے سابق چیف آف اسٹاف اور حکومت کے اعلیٰ افسران بھی شامل ہیں۔ بین گوریون، تل ابیب اور ایریل یونیورسٹیوں کے سابق ڈینز سمیت 1800 سے زائد افراد نے 11 اپریل کو ایک احتجاجی پٹیشن جاری کی۔ ان مظاہروں کی لہر برف کے گولے کی مانند تھی جس نے پورے صہیونی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور فضائیہ کے یونٹوں کے علاوہ بحریہ کے افسران، بکتر بند فوج، ریزرو فورسز اور ملٹری اکیڈمی کے گریجویٹ، انٹرنل سیکیورٹی وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ہم جنگ کو مسترد کرتے ہیں اور قیدیوں کی فوری واپسی چاہتے ہیں۔
لیکن ان مظاہروں میں صہیونی حکام کو سب سے بڑا جھٹکا یہ لگا کہ موساد کے اندر سے مختلف عناصر بھی جنگ کے خلاف مظاہروں کی تازہ لہر کا حصہ بن گئے۔ جہاں اسپائی سروس کے 250 سابق ملازمین بشمول اس کے تین سابق سربراہان نے ایک احتجاجی پٹیشن تیار کی اور جنگ کی مخالفت کا اعلان کیا۔ ایلیٹ یونٹس جیسے شیلڈگ، شیطت 13، اور ریٹائرڈ پولیس افسران اور سابق کمشنر بھی ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ ان پٹیشنز پر دستخط کرنیوالوں میں سب سے نمایاں موساد کے سابق سربراہان جیسے ڈینی یتوم، ابراہم حلوی اور تمیر پارڈو شامل ہیں۔
اسرائیلی محکمہ صحت کے 3000 سے زائد ملازمین، نوبل انعام یافتہ شخصیات 1700 فنکاروں، اور سینکڑوں ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ، اس سلسلے میں احتجاجی پٹیشنز پر دستخط کر چکی ہیں، جس میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پر، 3500 ماہرین تعلیم، 3000 تعلیمی شعبے کے ملازمین، اور 1000 طلباء ان احتجاجی درخواستوں میں شامل ہوئے۔ یہ پٹیشنز اب محض علامتی بیانات نہیں ہیں، بلکہ صیہونی حکومت کے لئے کئی دہائیوں سے اس کی بقا کا سب سے اہم عنصر سمجھنے والی اشرافیہ میں عدم اطمینان اور تقسیم اور دراڑ کی عکاسی ہے۔
قیدیوں کی رہائی کے لئے مذاکرات کا اختتام اور جنگ کے خاتمے کے لیے واضح سیاسی نقطہ نظر کی عدم موجودگی صیہونی اشرافیہ کی احتجاجی مظاہروں کی لہر میں شمولیت اسرائیلی معاشرے میں گہری تقسیم کی علامت بن گئی ہے جو اسے اندر سے درہم برہم کر سکتی ہے۔ ان احتجاجی تحریکوں اور مظاہروں کی اہمیت کے حوالے سے عبرانی حلقوں کا کہنا ہے یہ رجحان اسرائیل مقتدرہ، اشرافیہ اور اداروں میں اندرونی تقسیم کی عکاسی کرتا ہے اور گہری ہوتی سماجی تقسیم کے علاوہ سیاسی پولرائزیشن میں اضافے کا سبب ہے، فوجی اور سیکورٹی یونٹس کے ارکان کی جانب سے احتجاجی پٹیشنز پر دستخط اسرائیلی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں ایک غیر معمولی تبدیلی کی نمائندگی کرتے ہیں، کیونکہ اسرائیل کے فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اندر سے اتنے بڑے پیمانے پر داخلی مظاہرے شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
سیاسی اور عسکری اداروں میں عدم اعتماد کا بحران:
یہ تجزیہ کار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جنگ کے خلاف احتجاجی پٹیشنز اسرائیل کی سیاسی قیادت اور عسکری کمانڈروں پر اعتماد میں کمی کی عکاسی کرتی ہیں اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے خصوصاً اشرافیہ کا کابینہ اور فوج سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ اسرائیلی فوج اور سول اداروں کی طرف سے جاری احتجاجی درخواستیں ڈیڑھ سال سے زائد عرصے کی بے نتیجہ جنگ کے بعد سیاسی ذرائع سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو مکمل کرنے کے لیے بینجمن نیتن یاہو کی کابینہ پر بڑھتے ہوئے احتجاج اور اندرونی دباؤ کی مثال ہیں۔ اسرائیلی فوج کے ایک ریزرو جنرل اسرائیل زیو نے اعلان کیا ہے کہ غزہ جنگ کے خاتمے اور قیدیوں کی واپسی کا مطالبہ کرنے والی درخواستیں سول نافرمانی تو نہیں، لیکن یہ اسرائیلی آبادکاروں اور جنگی کابینہ کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں اور بحران کی عکاسی کرتی ہیں۔
اس صہیونی جنرل، جو اس سے قبل انفنٹری اور پیرا ٹروپرز ڈویژن کے کمانڈر، غزہ ڈویژن کے کمانڈر اور اسرائیلی فوج کے آپریشنل شعبے کے سربراہ جیسے اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں، نے اسرائیلی ٹی وی چینل 12 کی سائیٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں تاکید کی ہے کہ جن لوگوں نے احتجاجی درخواستوں پر دستخط کیے ہیں وہ فوجی اور سیکورٹی اداروں کے اشرافیہ کے اہم لوگ ہیں، یہ اس جنگ میں اسرائیل کی سیاسی قیادت کی ناکامی پر گہری تشویش کا اظہار ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان پٹیشنز پر دستخط کرنے والے نیتن یاہو پر بھروسہ نہیں کرتے، کیونکہ وہ اپنے سیاسی ایجنڈے، ذاتی مقاصد اور مفادات کی تکمیل کے لیے اسرائیلیوں کے جذبات کا استحصال کرتے ہیں، اور وہ غزہ سے قیدیوں کی واپسی کے لیے کوشش نہیں کر رہے، اس کا مطلب ہوگا واضح قومی اور فوجی اہداف کے بغیر جنگ جاری رہے گی، جس سے اسرائیل کی سلامتی خطرے میں ہے۔
صیہونی فوج کے ریزرو کرنل ڈاکٹر عامر بلومین فیلڈ کا کہنا ہے کہ ہم اب ایسے لمحات میں ہیں جب خاموشی ایک دھوکہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن نازک لمحات کا ہم آج سامنا کر رہے ہیں وہاں خاموشی یا ہچکچاہٹ کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کے لیے کابینہ کے عزم کا فقدان تمام اسرائیلیوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری انجام دیں، جو لوگ جنگی کابینہ کیخلاف احتجاج میں شرکت نہیں کرتے اور خاموش اور لاتعلق رہتے ہیں وہ درحقیقت غدار ہیں اور انہوں نے باہمی یکجہتی کے اصول کو ترک کر دیا ہے، خاص طور پر جب اسرائیل میں اخلاقی اقدار بتدریج تباہ ہو رہی ہیں، قیدیوں کی واپسی کا مسئلہ فقط اسرائیلی معاشرے میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تقسیم نہیں، بلکہ اسرائیلی ریاست کی اپنے آباد کاروں کے ساتھ بنیادی وابستگی سے متعلق ہے۔