میدان جنگ کی امریکہ کے قریب منتقلی
اشاعت کی تاریخ: 9th, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ہولمز نے اس صورتحال کو نیپولین کے "اسپینش زخم" سے تشبیہہ دی ہے جس میں برطانیہ نے چھوٹی سی فوج کی مدد سے فرانس کے فوجی وسائل ختم کر دیے۔ یہ "کیریبین زخم" بھی امریکہ کے چھوٹے بحری بیڑے پر زیادہ دباو ڈال کر جنوبی کمان کے ڈراونے خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔ چین اپنے دنیا کے سب سے بڑے جنگی بحیر بیڑے کو مزید وسعت دینے میں مصروف ہے جو امریکی بحیر بیڑے "جیرالڈ آر فور" کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سیٹلائت سے لی گئی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کا چوتھا جنگی بحری بیڑہ "ٹائپ 004" دالیان میں کشتی سازی کے کارخانے میں تیار کیا جا رہا ہے اور اس میں جوہری ایندھن استعمال ہو گا۔ یہ جنگی بحری بیڑہ چار کاٹاپولٹ رن گراوںد کی مدد سے زیادہ جنگی طیارے اڑانے کی قابلیت رکھے گا اور یوں فضائیہ کی طاقت کے لحاظ سے امریکہ کے سب سے بڑے بحری بیڑے کا مقابلہ کر سکے گا۔ تحریر: رسول قبادی
اکیسویں صدی میں امریکہ اور چین کے درمیان مقابلہ بازی جاری ہے اور بین الاقوامی نظام کے تعین میں فیصلہ کن سبب کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ یہ مقابلہ بازی مختلف شعبوں میں چل رہی ہے جن میں اقتصاد اور ٹیکنالوجی کے شعبے سے لے کر سیاسی اور فوجی اثرورسوخ کا میدان شامل ہیں۔ اس مقابلے بازی کا ایک اہم پہلو چین کی جانب سے بین الاقوامی پانیوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور امریکہ کے اردگرد "جزائر کا ایک سلسلہ" ایجاد کرنے کی کوشش ہے۔ یہ اقدام اکثر ماہرین کی نظر میں امریکہ کے گھر میں اس کے اثرورسوخ کو چیلنج کرنے کی کوشش ہے۔ نیشنل انٹرسٹ کی رپورٹ کے مطابق سمندری امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ چین ذہانت آمیز اور بامقصد سرمایہ کاری کے ذریعے بحیرہ کیریبین اور خلیج میکسیکو میں فوجی اڈوں کا ایک مجموعہ ایجاد کر سکتا ہے۔
اس اقدام کا قدرتی نتیجہ یہ نکلے گا کہ امریکہ اپنے تمام تر فوجی وسائل ایشیا سے نکال کر مغرب کی جانب واپس لانے پر مجبور ہو جائے گا جس کے باعث چین کے قریب امریکہ کی فوجی موجودگی کمزور ہو جائے گی۔ امریکہ کی جنوبی کمان کے نیوی کمانڈر ایلون ہولزے نے خبردار کیا ہے کہ چین اپنی توجہ بحیرہ کیریبین پر مرکوز کر کے "جارحانہ جزائر کا ایک سلسلہ" ایجاد کرنا چاہتا ہے جو مختلف سمتوں سے امریکہ کے قومی مفادات کو خطرے کا شکار کر سکتے ہیں۔ گذشتہ تین عشروں کے دوران چین نے سمندری امور کے ماہر الفرڈ تایر ماہان کے نظریات سے متاثر ہو کر ایک بڑی سمندری طاقت میں تبدیل ہونے کے لیے مرحلہ وار حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ دنگ شیاو پنگ کی اصلاحات انجام پانے کے بعد چین نے سب سے پہلے اندرونی مصنوعات، کشتی سازی اور بیرونی بندرگاہوں تک رسائی پر توجہ مرکوز کی۔
چین کی بحریہ (PLA Navy) نے بحری جہاز ڈیزائن کرنے کے مسلسل تجربات انجام دیے اور اس ڈیزائننگ میں ترقی لا کر چین اس وقت دنیا میں سب سے بڑے بحری بیڑے کا مالک بن چکا ہے۔ اس بحری بیڑے کو میزائلوں اور ساحلی جنگی طیاروں کی مدد حاصل ہے جس کے باعث وہ دور دراز علاقوں تک اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ چین کئی عشروں تک اس سمندری سلامتی سے بہرہ مند رہا ہے جو امریکہ کی بحریہ نے فراہم کر رکھی تھی۔ امریکہ کی بحریہ نے تجارتی راستوں کی سیکورٹی اپنے ذمے لے رکھی تھی جس کے نتیجے میں چین ایک طاقتور جنگی بحری بیڑے کے بغیر ہی دنیا بھر میں اپنی تجارت میں توسیع لاتا رہا۔ لیکن اب چین کی بحریہ اس قدر طاقتور ہو چکی ہے کہ اسے امریکہ سمیت کسی اور طاقت کی ضرورت نہیں رہی اور وہ اپنے طور پر سمندری سرگرمیاں انجام دے سکتا ہے۔
اسی طرح چین حتی بحر اوقیانوس اور بحیرہ کریبین میں فوجی موجودگی بھی پیدا کر سکتا ہے۔ جیمز ہولمز کہتے ہیں کہ بحیرہ کریبین میں فوجی اڈے ایجاد کرنے میں ممکنہ طور پر کیوبا اور وینزویلا چین کے اتحادی ممالک کا کردار ادا کریں گے۔ کیوبا اپنے کمیونسٹ نظام حکومت کی وجہ سے اور وینزویلا بائیں بازو کی حکومت کے باعث نظریاتی اور اقتصادی وجوہات کی بنا پر چین سے تعاون کریں گے۔ کیوبا اپنی اسٹریٹجک پوزیشن کی وجہ سے اور سمندری راستوں کے قریب واقع ہونے کے باعث جبکہ وینزویلا پاناما کینال سے قریب ہونے کی وجہ سے چین کے لیے بہترین انتخاب شمار ہوتے ہیں۔ حتی 26 DF جیسے جدید ترین بیلسٹک میزائل نصب کرنے کے لیے بھی یہ ممالک زیر غور ہو سکتے ہیں۔ بحیرہ کریبین میں چین کی فوجی موجودگی امریکہ کو اس بات پر مجبور کر دے گی کہ وہ اپنی بحریہ خلیج میکسیکو میں واپس لے آئے اور ایشیا پر توجہ کم کر دے۔
ہولمز نے اس صورتحال کو نیپولین کے "اسپینش زخم" سے تشبیہہ دی ہے جس میں برطانیہ نے چھوٹی سی فوج کی مدد سے فرانس کے فوجی وسائل ختم کر دیے۔ یہ "کیریبین زخم" بھی امریکہ کے چھوٹے بحری بیڑے پر زیادہ دباو ڈال کر جنوبی کمان کے ڈراونے خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔ چین اپنے دنیا کے سب سے بڑے جنگی بحیر بیڑے کو مزید وسعت دینے میں مصروف ہے جو امریکی بحیر بیڑے "جیرالڈ آر فور" کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ سیٹلائت سے لی گئی تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کا چوتھا جنگی بحری بیڑہ "ٹائپ 004" دالیان میں کشتی سازی کے کارخانے میں تیار کیا جا رہا ہے اور اس میں جوہری ایندھن استعمال ہو گا۔ یہ جنگی بحری بیڑہ چار کاٹاپولٹ رن گراوںد کی مدد سے زیادہ جنگی طیارے اڑانے کی قابلیت رکھے گا اور یوں فضائیہ کی طاقت کے لحاظ سے امریکہ کے سب سے بڑے بحری بیڑے کا مقابلہ کر سکے گا۔
مصنوعی ذہانت ایک سپر پاور کے طور پر چین کا مستقبل تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ جس طرح امریکہ نے بیسویں صدی میں وسیع پیمانے پر بجلی اور گاڑیوں کے ذریعے برطانوی سلطنت پر غلبہ پایا تھا اسی طرح چین بھی مصنوعی ذہانت کی مدد سے طاقت کا توازن اپنے حق میں تبدیل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس مقصد کے حصول میں چین کو متعدد رکاوٹوں کا سامنا ہے جن میں جدید ترین چپس تک رسائی اور شدید سینسرشپ شامل ہیں۔ امریکہ اور چین کے درمیان محاذ آرائی چند پہلووں پر مشتمل ہے۔ چین اپنا سمندری اثرورسوخ بڑھا کر امریکہ کے قریب جزیروں کا ایک سلسلہ ایجاد کرنا چاہتا ہے جو اس محاذ آرائی کا ایک اہم پہلو ہے اور اس کے اہم جیوپولیٹیکل اثرات ظاہر ہو سکتے ہیں۔ چین کی فوجی اور اقتصادی طاقت میں روز بروز اضافے کے پیش نظر یوں دکھائی دیتا ہے کہ عنقریب یہ محاذ آرائی جاری رہے گی اور بین الاقوامی نظام پر گہرے اثرات ڈالے گی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کا مقابلہ کر کے سب سے بڑے بحیر بیڑے امریکہ کی سے امریکہ امریکہ کے بحری بیڑے ہے کہ چین کی مدد سے ایجاد کر کی بحریہ کے باعث سکتا ہے کے قریب کرنے کی ہے اور اور اس چین کے چین کی کا ایک
پڑھیں:
یمن میں امریکہ کو بری طرح شکست کا سامنا ہے، رپورٹ
اسلام ٹائمز: ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی اور ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ خصوصی رپورٹ:
چینی ویب سائٹ SOHO کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کو فوجی طاقت اور وسیع فوجی سہولیات کے باوجود یمن کے انصار اللہ کے مقابلے میں بری شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ جیسا کہ کہاوت ہے کہ کاٹنے والا کتا کبھی نہیں بھونکتا اور حقیقی طاقتور اوچنا نہیں بولتا۔ امریکہ کی موجودہ فوجی طاقت کو دیکھتے ہوئے، اصولی طور پر یہ کہنا ممکن ہے کہ ایران کے ساتھ امریکہ کے تصادم پر یہ مقولہ صادق آتا ہے، جیسا کہ ابتدائی طور پر ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے طاقت کے استعمال کی بات کی، حوثیوں پر تابڑ توڑ حملے ایک ایسی ہی گھن گرج پر مبنی حکمت عملی ہے، جو امریکیوں کو معقول محسوس ہو رہی ہے، لیکن اس کے پیچھے مذکورہ مقولہ ہی سچ لگتا ہے۔
فی الحال، ریاستہائے متحدہ کے پاس دو طیارہ بردار بحری جہاز اور ان کے ساتھ بحیرہ احمر کے علاقے میں اسٹرائیک گروپس موجود ہیں، جن کے چاروں طرف تباہ کن کشتیوں اور اسکارٹ جہازوں کے بیڑے ہیں۔ اس کے علاوہ، واشنگٹن نے بڑی تعداد میں B-2 سٹیلتھ بمبار طیاروں کو اپنی سرزمین سے منتقل کر دیا ہے اور انہیں بحر ہند میں ایک اڈے پر تعینات کر دیا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر یہ فوجی تعیناتی واضح طور پر حوثیوں کے خلاف ہی ہے۔ لیکن حقیقت میں اس سے امریکہ کو بہت بڑا دھچکا لگا ہے۔ ایک ماہ سے زیادہ کی مسلسل فضائی بمباری کے باوجود حوثیوں نے ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔
وہ پہلے کی طرح (غزہ کی حمایت میں) وقتاً فوقتاً جوابی حملے کرتے رہتے ہیں۔ تہران کے ساتھ مذاکرات کے وقت، واشنگٹن نے حوثیوں کے خلاف اپنی جنگ شروع کرنے کو ترجیح دی۔ اگرچہ یہ ایران کو مذاکرات کی شرائط ماننے اور براہ راست جنگ سے بچنے کے لیے مجبور کرنے کے لیے طاقت کا مظاہرہ لگتا ہے، لیکن یہ احتیاط سے تیار کی گئی امریکی چال کارگر ثابت نہیں ہوئی اور بالآخر ایک فسانہ اور جعلی شو میں بدل گئی۔ واشنگٹن کی اعلیٰ فوجی طاقت محدود صلاحیتوں کے ساتھ "یمن کی عوامی فوج" کے خلاف غالب آنے میں ناکام رہی۔ اگر حوثی ایسے ہیں، تو امریکہ ایران سے لڑنے کا فیصلہ کریگا تو حالات کیا ہوں گے؟
ایران کو تزویراتی گہرائی اور معاشی وسائل کی فراوانی سمیت کئی حوالوں سے ہتھیاروں کی مقدار اور معیار کے لحاظ سے حوثیوں پر برتری حاصل ہے اور اس کے پاس تیز رفتار اینٹی شپ میزائل ہیں جو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کو ہلاکت خیز دھمکی دینے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بدلتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت بتدریج ختم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ وہ اب اپنے عالمی مفادات کو پہلے جیسی آسانی کے ساتھ برقرار رکھنے کے قابل نہیں رہا۔ امریکہ نے یوکرین کے بحران میں روس کا سر توڑ مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں اور وہ مشرق وسطیٰ میں یمن کی دلدل میں پھنس گیا۔
"واشنگٹن نے خطے میں اپنے سلسلہ وار اقدامات سے ایک مضبوط قوت کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن اس کے بالکل برعکس ہوا، اور آج ایسا لگتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سب کی نظریں اس طرف لگی ہوئی ہیں کہ کیا واشنگٹن اپنا کام جاری رکھے گا یا ذلت اور مایوسی میں پیچھے ہٹ جائے گا۔"