ٹرمپ کا حکومت پاکستان کا شکریہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, March 2025 GMT
امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین کے خطاب میں اپنی تمام پالیسی بیان کی ہے۔ابھی تک کی ٹرمپ پالیسی سے پاکستان نہ تو متاثر ہوتا ہے اور نہ ہی یہ پالیسی اس کے لیے کسی مفاد کی ہے۔
ابھی تک تو نہ ہمارا کوئی نقصان ہے اور نہ ہی ہمارا کوئی فائدہ ہے۔ ہم ٹیرف کی لڑائی کا بھی کوئی حصہ نہیں۔جن ممالک کے ساتھ ٹیرف جنگ شروع ہوئی ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان اور امریکا کا تجارتی حجم بہت کم ہے بلکہ دیکھا جائے تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے ہم کہیں نہیں ہیں۔ اسی طرح امریکا کے یورپ کینیڈا اور دیگر ممالک کے ساتھ تنازعات میں بھی پاکستان کوئی فریق نہیں۔ اس لیے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
امریکی صدر ٹرمپ کے صدارتی خطاب میں داعش کے ایک دہشت گرد کی گرفتاری میں مدد دینے پر صدر ٹرمپ نے حکومت پاکستان کا خصوصی شکریہ ادا کیا ہے۔ اس دہشت گرد نے افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے وقت دہشت گردی کے واقعہ میں امریکی فوجیوں کو نشانہ بنایا تھا۔ اس دہشت گرد کو پاک افغان سرحد پر گرفتار کیا گیا۔ یہ اتنی اہم گرفتاری ہے کہ امریکی صدر نے اپنے صدارتی خطاب میں اس کا نہ صرف ذکر کیا ہے بلکہ اس پر حکومت پاکستان کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے حساس اداروں نے اس کو گرفتار کر کے امریکی حکام کو آگاہ کیا تھا۔ جس کے بعد امریکا نے اس کو امریکا لیجانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جس کو حکومت پاکستان نے تسلیم کر لیا۔ اور امریکی حکام کی خواہش پر اس کو امریکا روانہ کر دیا گیا ہے۔ اس کی گرفتاری مکمل طو پر پاکستان کے حساس اداروں کا کریڈٹ ہے۔ گرفتاری کے بعد امریکا کو مطلع کیا گیا۔
امریکی صدر ٹرمپ کا حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کرنا ان تمام افواہوں اور پراپیگنڈہ کو ختم کرتا ہے جس کے تحت ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ ٹرمپ موجودہ حکومت پاکستان اور اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے۔
تحریک انصاف نے تمام امریکی انتخابات کے دوران یہ پراپیگنڈا جا ری رکھا کہ ٹرمپ آئے گا اور پاکستان میں موجودہ حکومت کو ختم کر دے گا۔ ٹرمپ آئے گا اور اڈیالہ کا قیدی رہا ہو جائے گا۔ ٹرمپ صرف بانی تحریک انصاف کو جانتا ہے اور صرف بانی تحریک انصاف کے ساتھ کام کرے گا۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہو گیا۔ ٹرمپ نے موجودہ حکومت پاکستان کا شکریہ ہی ادا کر دیا ہے۔سارا منظر نامہ ہی الٹ گیا ہے۔ تحریک انصاف کے دوستوں کی تو ساری مہم ہی ضایع ہو گئی۔ سارا پراپیگنڈہ ہی فیل ہو گیا ہے۔
کہاں ہمیں بتایا گیا تھا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنتے ہی پہلا حکم اڈیالہ کے قیدی نمبر 804کی رہائی کا جاری کریں گے۔ وہ پاکستان کے ساتھ کوئی بات نہیں کریں گے جب تک رہائی نہیں ہو جائے گی۔ ہمیں تو ڈرایا جا رہا تھا کہ ٹرمپ پاکستان پر پابندیاں لگا دے گا ۔ لیکن سب جھوٹ ثابت ہوا ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ جھوٹے پراپیگنڈے کی ایک عمر ہوتی ہے بالآخر سچ غالب آ ہی جاتا ہے۔ ٹرمپ کے بارے میں پراپیگنڈے میں بھی یہی ہوا ہے۔ سارا پراپیگنڈا جھوٹ پر تھا۔ اور پھر ٹوٹ گیا۔ پہلے کہا گیا کہ ٹرمپ اپنی حلف برداری میں بانی تحریک انصاف کو دعوت نامہ بھیج رہے ہیں۔ پھر کہا گیا کال کریں گے۔
پھر کہا گیا پہلے خطاب میں کہیں گے۔ پھر کہا گیا پابندیاں لگائیں گے۔ لیکن دیکھیں کچھ بھی نہیں ہوا۔ الٹا ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومت پاکستان کی تعریف کر دیا۔ دیکھا جائے تو ابھی تک اگر کسی حکومت کی ٹرمپ نے تعریف کی ہے تو وہ صرف حکومت پاکستان ہے۔ ورنہ باقی دنیا سے تو ٹرمپ ابھی لڑ ہی رہا ہے۔ انھیں امریکا کے دوستوں سے بھی گلہ ہے۔ جس خطاب میں انھوں نے حکومت پاکستان کی تعریف کی ہے۔ اسی خطاب میں انھوں نے بھارت کو بھی ٹیرف پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حالانکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ابھی امریکا کا دورہ بھی کر کے گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی انھوں نے ٹیرف پر بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ بھی دیگر ممالک پر تنقید کی گئی ہے۔
میں سوچ رہا ہوں ٹرمپ کی حکومت پاکستان کی تعریف کے بعد پاکستان کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوگیا ہے۔ یقیناً ہمارے تحریک انصاف کے دوستوں کی تمام امیدیں ختم ہو گئی ہونگی۔ ٹرمپ ان کی آخری امید لگ رہا تھا، وہ بھی ٹوٹ گئی۔ اب کیا ہوگا۔ کیا اب سے ٹرمپ بھی میر جعفر اور میر صادق ہوگیا ہے۔ کیا ٹرمپ بھی ڈونلڈ لو ہو گیا ہے۔ کیا ٹرمپ بھی سائفر ڈرامہ کا حصہ ہوگیا ہے۔ ٹرمپ کو کیا ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف کے دوستوں کی اب ٹرمپ کے بارے میں کیا پالیسی ہوگی۔
اب دیکھنے کی بات ہے کہ ہائی پروفائل دہشت گرد شریف اللہ عرف جعفر کی گرفتاری کیا ثابت کرتی ہے۔ پاکستان اور صدر ٹرمپ کے درمیان زبردست تعاون قائم ہو چکا ہے اور دونوں حکومتیں انسداد دہشت گردی پر کثیر الجہتی تعاون کر رہی ہیں اور شریف اللہ عرف جعفر کی گرفتاری پاکستان اور امریکا کے درمیان کاؤنٹر ٹیرارزم کی مد میں آپس میں قریبی تعلقات کا اعادہ کرتی ہے ۔
شریف اللہ کی گرفتاری یہ بات بھی ثابت کرتی ہے کہ پاکستان کا افغانستان کے بارے میں دہشت گردی کا گڑھ ہونے کا موقف بالکل درست اور ٹھیک ہے اس سے پہلے بھی صدر ٹرمپ افغانستان سے اپنے چھوڑے گئے ہتھیار اور جنگی سازو سامان واپس لینے کا بھی اعلان کر چکے ہیں ، یہی غیر ملکی ہتھیار پاکستان کے اندر دہشت گردی پھیلانے میں فتنہ الخوارج اور افغان نژاد دہشت گردوں کی طرف سے استعمال کیے جا رہے ہیں یہ ہائی پروفائل حساس معلومات کا تعاون یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ جھوٹ اور پروپیگنڈا کے برعکس پاکستان اور امریکن اسٹبلشمنٹ کے درمیان مضبوط اور موثر تعاون ہر وقت رہا ہے، اب بھی ہے اور مستقبل میں بھی رہے گا۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان افغانستان پر وسیع تعاون نظر آرہا ہے۔ ویسے تو عمومی رائے یہی تھی کہ اس وقت امریکی صدر ٹرمپ اتنے اہم معاملات میں الجھے ہوئے ہیں کہ پاکستان نہایت غیر اہم ہے۔ رائے یہی تھی پاکستان کا تو کہیں ذکر ہی نہیں ہوگا۔ لیکن خطاب میں پاکستان کے شکریہ کی کسی کو کوئی توقع نہیں تھی۔ یقیناً حکومت پاکستان کی ساکھ بہتر ہوئی ہے۔ حکومت پاکستان مضبوط ہوئی ہے۔ اس کی عالمی ساکھ بہتر ہوئی ہے۔ عالمی ڈپلومیسی میں یہ یقیناً پاکستان کے لیے بہت مدد گار ہوگا۔ دنیا ابھی امریکا سے ہی چلتی ہے۔ اس لیے یہ تعریف دنیا کے لیے بھی ایک پیغام ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: حکومت پاکستان کا شکریہ حکومت پاکستان کی تحریک انصاف کے پاکستان اور پاکستان کے کی گرفتاری امریکی صدر امریکا کے کے درمیان کے دوستوں ہوئی ہے کے ساتھ کہ ٹرمپ ٹرمپ کے کہا گیا ہو گیا گیا ہے ہے اور
پڑھیں:
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک مجوزہ ایگزیکٹو آرڈر کے مسودے کے مطابق، محکمہ خارجہ (State Department) میں نمایاں کمی اور از سرِ نو تشکیل کی تجویز دی گئی ہے۔ بلومبرگ کے مطابق، اس 16 صفحات پر مشتمل مسودے کی کاپی امریکی سفارتکاروں میں گردش کر رہی ہے۔
اگر یہ تبدیلیاں نافذ کر دی گئیں تو 1789 میں قیام کے بعد سے محکمہ خارجہ کی یہ سب سے بڑی تنظیمِ نو ہوگی۔ حکام کے مطابق، یہ مسودہ دنیا بھر کے سفارتکاروں کو بھیجا گیا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے اتوار کے روز ایک پوسٹ میں ان اطلاعات کو ’جھوٹی خبر‘ قرار دیا۔
مجوزہ حکمنامے کے تحت درجنوں شعبے اور محکمے ختم کر دیے جائیں گے، جن میں ماحولیاتی تبدیلی، پناہ گزینوں، جمہوریت، افریقی امور اور اقوامِ متحدہ سے رابطے کے لیے کام کرنے والا ’بیورو آف انٹرنیشنل آرگنائزیشنز‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کینیڈا میں سفارتی سرگرمیوں میں بھی نمایاں کٹوتی کی جائے گی۔
مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے
یہ تجاویز ٹرمپ انتظامیہ کی اُس پالیسی کا تسلسل ہیں جس کے تحت امریکا کے کثیرالملکی عالمی نظام میں کردار کو کمزور کیا جا رہا ہے، وہ نظام جس کی تعمیر میں امریکا نے خود کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
تبدیلیوں کے تحت، محکمہ خارجہ کو 4 علاقائی بیوروز میں تقسیم کیا جائے گا، جو انڈو پیسیفک، لاطینی امریکا، مشرقِ وسطیٰ اور یوریشیا پر مشتمل ہوں گے۔ افریقہ کے صحرائے اعظم کے جنوب میں واقع کئی غیر ضروری سفارتخانوں اور قونصل خانوں کو بند کرنے کی تجاویز بھی شامل ہے۔ مجوزہ مسودے کے مطابق یہ تبدیلیاں یکم اکتوبر تک نافذ کی جائیں گی۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق مسودے کی پہلی بار خبر سامنے آئی لیکن امریکی سفارتخانے نیروبی کے ترجمان نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ واضح نہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس حکمنامے کے تمام نکات پر دستخط کریں گے یا نہیں۔ افریقہ میں موجود ایک سینئر اہلکار کے مطابق، محکمہ خارجہ میں اصلاحات سے متعلق جو معلومات گردش کر رہی ہیں وہ ممکنہ طور پر اس مسودے میں تجویز کردہ حد تک وسیع نہیں ہوں گی۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ ضمانت دیں وہ پہلے کی طرح جوہری معاہدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے، ایران
اسی دوران، محکمہ خارجہ کے ملازمین نے ریڈٹ کے ایک فورم پر اس حکم نامے کے نفاذ کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ ایک صارف نے لکھا کہ مجھے شک ہے کہ یہ مسودہ دراصل ایک چال ہے تاکہ جب اس سے کم سخت اصلاحات متعارف کرائی جائیں تو ہم خوشی خوشی انہیں قبول کرلیں۔
افریقہ اور کینیڈا کے امور میں تبدیلیاںحکمنامے کے تحت بیورو آف افریقن افیئرز، کلائمٹ کے لیے خصوصی ایلچی، بیورو آف انٹرنیشنل آرگنائزیشنز، اور آفس آف گلوبل ویمنز ایشوز سمیت متعدد اہم شعبے ختم کر دیے جائیں گے۔ دستاویز کے مطابق، کینیڈا سے سفارتی تعلقات کی نگرانی ایک محدود ٹیم کرے گی جو ’نارتھ امریکن افیئرز آفس ‘ (NAAO) کے تحت کام کرے گی اور اوٹاوا میں امریکی سفارتخانے کا حجم نمایاں طور پر کم کیا جائے گا۔
مزید برآں، سفارتی عملے کو علاقائی بنیادوں پر تعینات کیا جائے گا، اور انہیں اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران اسی علاقے میں خدمات انجام دینا ہوں گی۔ جو سفارتکار اس نظام کا حصہ نہیں بننا چاہیں گے، ان کے لیے 30 ستمبر تک رضاکارانہ ریٹائرمنٹ کا موقع دیا جائے گا۔ نیا فارن سروس امتحان بھی متعارف کرایا جائے گا جس میں امیدواروں کی صدارتی خارجہ پالیسی سے ہم آہنگی کو مدِنظر رکھا جائے گا۔
مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ نے سرکاری اداروں میں بھرتیوں پر پابندی مزید 3 ماہ کے لیے بڑھا دی
اس کے علاوہ، دنیا بھر کے ہونہار طلبہ کے لیے معروف فلبرائٹ اسکالرشپ پروگرام کو محدود کرکے صرف قومی سلامتی سے متعلق ماسٹرز ڈگری پروگراموں تک محدود کر دیا جائے گا، جہاں مینڈرین چینی، روسی، فارسی اور عربی جیسی زبانوں میں مہارت رکھنے والے کورسز کو ترجیح دی جائے گی۔ ہاورڈ یونیورسٹی (واشنگٹن) سے منسلک فیلوشپس بھی ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو ٹرمپ انتظامیہ کی ڈائیورسٹی، ایکوئٹی اور انکلوژن (DEI) پالیسیوں کی واپسی کی علامت ہے۔
نئے منصوبے کے تحت ’بیورو آف ہیومینیٹیرین افیئرز‘ ان تمام اہم فرائض کو سنبھالے گا جو ماضی میں یو ایس ایڈ (USAID) ادا کرتا تھا، جسے حالیہ مہینوں میں بند کرکے محکمہ خارجہ کے ماتحت کر دیا گیا ہے۔ حکمنامے میں مزید کہا گیا ہے کہ تمام عہدوں اور ذمہ داریوں کے لیے صدرِ امریکا کی تحریری منظوری لازم ہوگی۔
محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت ادارے میں قریباً 13 ہزار فارن سروس آفیسرز، 11 ہزار سول سروس ملازمین، اور دنیا بھر میں 270 سے زائد سفارتی مشنز پر 45 ہزار مقامی عملہ خدمات انجام دے رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی محکمہ خارجہ بلومبرگ نیو یارک ٹائمز