Express News:
2025-04-22@06:01:25 GMT

صدر ٹرمپ اور عالمی تجارت

اشاعت کی تاریخ: 15th, February 2025 GMT

ابھی اقتدار میں آئے ہیں ٹرمپ اور انھوں نے ایسے فیصلے کردیے کہ بجائے دنیا گھومے، انھوں نے امریکا کو ہی گھما دیا۔ امریکی کالم نگاروں کی تحریروں سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکا کے جمہوریت پسند نئے سرے سے صف بندی کر رہے ہیں کہ یہ فاشزم ہے اور امریکا آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ٹرمپ کے پاس ہر بات کا جواب صدارتی فرمان ہے۔ ایک صدارتی فرمان کے ذریعے ٹرمپ نے دنیا بھر میں USAID کی تمام امدادی کارروائیوں کو روک دیا۔ انھوں نے اس بات کا ذکر بھی کردیا ہے کہ وہ تیسری بار بھی صدارتی انتخابات لڑسکتے ہیں جس کی کوئی شق امریکا کے آئین میں موجود نہیں۔ ٹرمپ نے ایک بڑا حیران کن کام کیا جب اوول آفس میں ایلون مسک کو اپنے ساتھ کھڑا کر کے وزارتِ خزانہ کا حساب کرایا۔

دنیا میں جو تجارتی جنگ چھڑگئی ہے، اس کے نتائج امریکا کے حق میں نہیں۔ غزہ کو ہتھیانے کا پلان امریکا نے بنایا تھا مگر اس پلان کی مخالفت مصر اور سعودی عرب جیسے اتحادی کر رہے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ تاریخی اعتبار سے امریکا کا طے شدہ اتحادی تھا مگر اس وقت وہ امریکا سے کچھ فاصلے پر نظر آرہا ہے۔

ایلون مسک کے نیو یارک اسٹاک ایکسچینج میں حصص کی ویلیو چار سو ارب ڈالرکم ہوگئی ہے۔ چین کے مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر نے امریکا کی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی پر اجارہ داری کو ہلا دیا ہے اور لگ بھگ ایک ہزار ارب ڈالر ایسی امریکی کمپنیوں کے حصص گر گئے ہیں۔ ایسا گمان ہو رہا ہے کہ ٹرمپ جیسے امریکا کو دنیا میں تنہا کرنے جا رہا ہے اور مستقبل میں شاید امریکا کا واحد اتحادی اسرائیل رہ جائے گا۔

جب حکومت پر آمریت کے بادل منڈلانا شروع ہو جاتے ہیں تو عدالتیں دیوار بن کر کھڑی ہوجاتی ہیں۔ ایسا ہی کچھ امریکا میں ہو رہا ہے۔ ٹرمپ کے کچھ صدارتی فرمان وہاں کی عدلیہ نے روک لیے ہیں۔ عدلیہ کے ان اقدامات پر ٹرمپ اور ان کے اتحادی ایلون مسک خاصے برہم ہیں ۔ صدر ٹرمپ نے لاطینی امریکا کی ریاستوں کو دھمکانے کی کوشش کی تھی۔ لاطینی امریکا کی ریاستوں کی حکمران بھی طیش میں ہیں۔ ایسا گمان کیا جا رہا ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک کہیں امریکا کی اشیاء کا بائیکاٹ ہی نہ کردیں۔

 اس پسِ منظر میں ایسا نظر آرہا ہے کہ دنیا کے اندر جمہوریت کو بڑے خطرات لاحق ہیں۔ چین اور روس میں تو جمہوریت نہیں ہے مگر امریکا جمہوریت پرست قوتوں کو لیڈ کر رہا تھا، مگر اس جمہوری لیڈر ملک میں خود جمہوریت ڈگمگا رہی ہے۔ دنیا میں کیپٹل ازم ایک گھناؤنی شکل اختیارکر رہا ہے اور اس کا نعم البدل اب Crony Capitalism دیکھا جا رہا ہے، جب صدر ٹرمپ الیکشن جیتے تو ایک ہی جھٹکے میں ان کے اتحادی امیر ترین شخصیات کی صف میں شامل ہوگئے۔

ایک ہی دن میں ان کی جائیداد میں ایک سو ارب ڈالرکا اضافہ ہوگیا۔لاطینی امریکا کی ایک ریاست کی خاتون حکمران نے امریکا کو یہ کھلے عام دھمکی دی ہے کہ امریکا یہ نہ سمجھے کہ ہم امریکا کے محتاج ہیں اور امریکا اس دن سے ڈرے کہ پوری دنیا امریکا کی برآمدات کا بائیکاٹ نہ کر دے۔ امریکا کی اجارہ داری اب کسی ٹیکنالوجی پر نہیں رہی، اس لیے دنیا کے سات ارب لوگ اگر امریکا کی برآمدات کا بائیکاٹ کر دیں تو امریکا کا مستقبل کیا ہوگا؟

دنیا اب تک گلوبلائزیشن کے دور سے گزر رہی تھی۔ سرد جنگ کے خاتمے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے اس عمل کو یقینی بنایا۔ اٹھارہویں صدی کے معاشیات کے عظیم نام Ricardo  Davis نے تھیوری دی کہ دنیا میں آزاد تجارت زیادہ ترقی کی وجہ بنے گی۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک کردیا۔ جدید بینکنگ سسٹم ایجاد ہوا، کیش ٹرانزیکشن دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک منٹوں میں ہونے لگیں۔

ہزاروں ارب ڈالرز کی منتقلی روزانہ دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے کی جاتی ہیں ۔ اس سارے عمل سے چین نے خوب ترقی کی۔ چین نے اپنی برآمدات کی لاگت سستی رکھی، اسی وجہ سے امریکا کی انڈسٹری کو دھچکہ لگا، لٰہذا امریکا کا کنزیومر، چین سے بڑا مستفیض ہوا کیونکہ ان کو اشیاء بہت سستی ملنا شروع ہوئیں۔ امریکا انفارمیشن ٹیکنالوجی میں دنیا پر اجارہ داری رکھتا تھا۔ چین،گارمنٹ مینوفیکچرنگ سے خود ہی نکل گیا اور یہ کام بنگلا دیش اور ویتنام کے سپرد کیا۔ ماسوائے Chips کے ایسی کون سی چیز ہے جو چین نہیں بناتا۔

اب چین ، امریکا اور یورپ ٹکراؤ میں ہیں۔ چین جمہوری نہیں، امریکا، یورپ جمہوری ہیں، ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں۔ ٹرمپ نے چین کی اشیاء پر ٹیکس عائد کردیا ہے اور ساتھ ہی امریکی سرمایہ کار کو موقعہ بھی دیا ہے کہ وہ ان اشیاء کی مینوفیچرنگ امریکا میں کریں مگر شاید ایسا ہو نہیں پائے گا۔ دنیا میں تیسری سرد جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور یہ ایک تجارتی جنگ ہے۔ ماضی میں سرد جنگ امریکا اور ان کے اتحادی یعنی مغرب نے جیتی تھی کیونکہ امریکا معاشی طور پر سبقت رکھتا تھا، مگرکیا آج کی سرد جنگ امریکا جیت سکے گا؟

دنیا کی دو بڑی طاقتیں ہیں۔ ایک طاقت جمہوری ہے اور معاشی طور پر بڑی طاقت بھی ہے وہ ہے امریکا۔ دنیا کی دوسری بڑی طاقت یعنی چین جمہوری نظام تو نہیں رکھتی لیکن معاشی طور پر بڑی طاقت ہے۔ امریکا نے چین کو معاشی طور پر مضبوط کر کے، اس کی نظریاتی دوستی جو سوویت یونین کے ساتھ تھی، اس میں رخنہ ڈالا۔

سوویت یونین معاشی بحران کے سبب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔ اس ٹوٹ پھوٹ سے امریکا یہ سمجھا کہ چین اب نظریاتی طو ر پر روس سے الگ ہو جائے گا اور امریکا کے تعلقات چین سے بہتر رہیں گے۔ اس زمانے میں سوشلسٹ بلاک معاشی کمزوری کے باعث ٹوٹا اور پھر پتا چلا کہ کارل مارکس کی پرولتاریہ ڈکٹیٹر شپ، فردی آمریت میں تبدیل ہوئی تھی۔ کمیونزم کو مذہب بنا دیا گیا تھا اور ایسی ریاست فردِ واحد کی آمریت تھی اور ایک ہی پارٹی تھی جس کی حکومت تھی۔ سماج Plural اور Inclusiveنہ رہا۔ اس کے بر عکس ڈینگ زیاؤ پینگ، ماؤزے تنگ کے فلسفے میں ترمیم لے آئے اور کنٹرولڈ مارکیٹ اکانومی متعارف کروائی۔

امریکا اور چین دنیا کی مضبوط معیشت ہیں۔ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد امریکا کو سیاسی لحاظ سے بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ امریکی تاریخ میں ٹرمپ ایک ابھرتا ڈکٹیٹر ہے، وہ ایک مضبوط صدر نہیں بلکہ Crony Capitalism کی ایک شکل ہیں۔دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے تجارت۔ معاشرے کے لیے Plural اور Inclusive ہونا یعنی سیکیولر ہونا جو اس معاشرے کی صحت کے لیے ضروری ہے۔ افراد دنیاوی حقیقتوں کے پیشِ نظر مشغول رہیں، چیزیں بنائیں اور تجارت کریں۔

Ricardo  Davis نے Comparative Advantage کی تھیوری پیش کی۔ یعنی ریاست کو اندر وہ ہی چیزیں بنیں جن پر ریاست سبقت رکھتی ہے یعنی کم لاگت میں معیاری اشیاء بن سکیں اور ریاست اس بات کی حتی الامکان کوشش کرے گی ان اشیاء کو بین الاقوامی کامپٹیشن کے لیے معیاری بنایا جائے۔ ریاست صرف وہ چیزیں درآمد کرے جو وہ معیاری نہ بنا سکے۔ صدر ٹرمپ دنیا کے تجارتی نظام کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ کیا وہ ایسا کر پائیں گے؟ میرے خیال میں بہت دیر ہوچکی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سے امریکا امریکا کی امریکا کو امریکا کے امریکا کا رہا ہے کہ امریکا ا دنیا میں بڑی طاقت ا رہا ہے دنیا کے دنیا کی ہے اور اور ان دیا ہے ا مریت

پڑھیں:

چین امریکا میں تجارتی جنگ،عالمی منڈی میں تیل مہنگا

واشنگٹن:

امریکا کی جانب سے چین پر نئی پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

غیرملکی خبر رساں ادارے کے مطابق عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں تین فیصد سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

امریکی خام تیل کی قیمت دو ڈالر بڑھ کر 64.45 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے، دوسری جانب برطانوی خام تیل کی قیمت بھی دو ڈالر اضافے کیساتھ 67.85 ڈالر فی بیرل ہوگئی۔

مزید پڑھیں: امریکا کا چینی بحری جہازوں کے لیے نئی پورٹ فیس کا اعلان

دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتوں کے درمیان جاری تجارتی جنگ میں مزید شدت آ گئی ۔ چین نے امریکا کیلئے سات نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندی عائد کر دی۔ 

یہ معدنیات جدید دفاعی ٹیکنالوجی، گاڑیوں اور ہتھیاروں میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے بغیر لڑاکا طیارے، آبدوزیں، میزائل، ریڈار سسٹمز اور ڈرونز کی تیاری ممکن نہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
  • ٹرمپ ٹیرف: چین کا امریکا کے خوشامدی ممالک کو سزا دینے کا اعلان
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
  • امریکی ٹیرف مذاکرات میں پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ممالک خوشامد سے باز رہیں، چین کا انتباہ
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کر لیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • ’ امریکا میں کوئی بادشاہ نہیں‘ مختلف شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے
  • چین امریکا میں تجارتی جنگ،عالمی منڈی میں تیل مہنگا
  • تبدیل ہوتی دنیا
  • ٹرمپ انتظامیہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی پر غور کر رہی ہے،امریکی اخبار