Islam Times:
2025-04-22@18:56:04 GMT

اجتماعی زیادتی کے واقعات، اثرات اور حل

اشاعت کی تاریخ: 13th, February 2025 GMT

اجتماعی زیادتی کے واقعات، اثرات اور حل

اسلام ٹائمز: حال ہی میں اسکردو جنسی زیادتی کیس سوشل میڈیا پر شہ سرخی بنی ہوئی ہے سرزمین اہل بیت پر اسطرح کی قبیح عمل روز بہ روز کیوں رونما ہوتے جارہے ہے ؟ ا جتماعی زیادتی جو کہ ایک انتہائی سنگین جرم ہے جو نہ صرف متاثرہ فرد کی زندگی کو تباہ کرتا ہے، بلکہ اس کے معاشرتی اثرات بھی دور رس اور گہرے ہوتے ہیں۔ ایسے کیسز کے اثرات پورے معاشرتی ڈھانچے پر پڑتے ہیں اور اس سے فرد، خاندان اور پورے معاشرے میں مختلف نوعیت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ تحریر: کلثوم ایلیا شگری ایڈووکیٹ

اسلام میں فرد کی روحانیت اور اخلاقی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کا سماجی کردار بھی اہم ہے۔ جب افراد دین سے دور ہو جاتے ہیں، تو ان کے اندر انسانیت، احترام اور دوسروں کے حقوق کی قدر کم ہو سکتی ہے، جو کہ بعض اوقات جرائم کے فروغ کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ صرف دین سے دوری ہی تمام جرائم کا سبب ہے، ایک سادہ تجزیہ ہو گا۔ معاشرتی حالات، اقتصادی دباؤ، تعلیم کی کمی، ذہنی صحت کے مسائل، اور دیگر کئی عوامل بھی جرائم کی وجہ بن سکتے ہیں۔ حال ہی میں اسکردو جنسی زیادتی کیس سوشل میڈیا پر شہ سرخی بنی ہوئی ہے سرزمین اہل بیت پر اسطرح کی قبیح عمل روز بہ روز کیوں رونما ہوتے جارہے ہے ؟ ا جتماعی زیادتی جو کہ ایک انتہائی سنگین جرم ہے جو نہ صرف متاثرہ فرد کی زندگی کو تباہ کرتا ہے، بلکہ اس کے معاشرتی اثرات بھی دور رس اور گہرے ہوتے ہیں۔ ایسے کیسز کے اثرات پورے معاشرتی ڈھانچے پر پڑتے ہیں اور اس سے فرد، خاندان اور پورے معاشرے میں مختلف نوعیت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
  1۔ عوامی آگاہی اور تعلیم:  معاشرتی سطح پر اس مسئلے کے بارے میں آگاہی بڑھانا ضروری ہے۔ تعلیمی اداروں، امام بارگاہوں ، مساجید ، مدارس ، میڈیا، اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے اس جرم کی سنگینی کو اجاگر کیا جانا چاہیے تاکہ معاشرتی سطح پر اس کی روک تھام ہو سکے۔
  2۔ اجتماعی زیادتی کے کیسز کے نفیساتی اثرات: اجتماعی زیادتی کا شکار فرد شدید ذہنی اور جسمانی صدمات کا سامنا کرتا ہے۔ اس کی خود اعتمادی ٹوٹ جاتی ہے، اور اس کے ذہن پر ایک طویل عرصے تک اس واقعے کا اثر رہتا ہے۔ اکثر متاثرہ فرد ڈپریشن، اضطراب، اور PTSD (Post-Traumatic Stress Disorder) کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ ان کی روزمرہ زندگی، تعلقات اور کام کرنے کی صلاحیت پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔   3۔ خاندانی تعلقات پر اثرات: اجتماعی زیادتی کے کیسز میں خاندان کے افراد بھی شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ والدین، بہن بھائی اور دیگر عزیز متاثرہ فرد کی حالت سے متاثر ہو کر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات اس کے نتیجے میں خاندان میں آپس میں تناؤ بڑھ جاتا ہے، اور رشتہ داریوں میں دراڑ آ جاتی ہے۔   4۔ معاشرتی اعتماد کا نقصان: اس قسم کے جرم کے وقوع پذیر ہونے سے معاشرتی اعتماد میں کمی آتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر شک کرنے لگتے ہیں اور احساسِ تحفظ کم ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس بڑھتا ہے، اور وہ معاشرتی روابط سے دور ہو سکتے ہیں۔
  5۔ قانونی اور عدلیہ کے نظام پر سوالات:  اجتماعی زیادتی کے کیسز میں اگر عدلیہ اور پولیس بروقت اور موثر کارروائی نہ کریں تو لوگوں کا عدلیہ اور قانون کے نظام پر اعتماد کم ہو جاتا ہے۔ اس سے معاشرتی بے چینی پیدا ہوتی ہے اور لوگ انصاف کی امید چھوڑ دیتے ہیں۔ بعض اوقات متاثرہ افراد کو بدنامی اور عزت افزائی کے بجائے الزام کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔   6۔ سوشل میڈیا پر اثرات: سوشل میڈیا کا کردار بھی ایسے کیسز میں بہت اہم ہو جاتا ہے۔ متاثرہ فرد کی ذاتی معلومات، ویڈیوز یا تصاویر کی اشاعت اور عوامی ردعمل سے ان کے لیے مزید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر غلط معلومات یا افواہیں پھیلنے سے معاشرتی ماحول مزید بگڑ سکتا ہے اور متاثرہ فرد کی زندگی کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔   7۔ خوف اور عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ: اجتماعی زیادتی کے واقعات لوگوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس بڑھاتے ہیں۔ خواتین اور بچے خصوصاً اپنے حقوق اور حفاظت کے حوالے سے زیادہ حساس ہو جاتے ہیں۔ اس خوف کا اثر افراد کے رویوں پر پڑتا ہے، اور وہ اپنے روزمرہ کے کاموں میں خوفزدہ یا محتاط رہنے لگتے ہیں۔   8۔ اجتماعی زیادتی کے کیسز کے خلاف اقدامات: قانونی اصلاحات اور سخت سزائیں: اجتماعی زیادتی کے مجرموں کے لیے سخت سزا کا قانون نافذ کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے سزاؤں کا فوری اور مؤثر اطلاق کرنا چاہئے تاکہ ایسے جرائم کی روک تھام ہو سکے۔ ساتھ ہی، متاثرہ فرد کے ساتھ انصاف کی فراہمی میں تاخیر کو کم کرنے کے لیے عدالتوں کو تیز کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔   مجرموں کے لیے اصلاحی پروگرامز کی ضرورت: صرف سزا دینا کافی نہیں، بلکہ مجرموں کے لیے اصلاحی پروگرامز بھی ہونے چاہئیں تاکہ وہ اپنے جرائم کی سنگینی کو سمجھ سکیں اور آئندہ اس قسم کی حرکتوں سے بچ سکیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اجتماعی زیادتی کے کیسز متاثرہ فرد کی سوشل میڈیا پر ہو جاتا ہے سکتے ہیں ہوتے ہیں پیدا ہو کا شکار کیسز کے کے لیے

پڑھیں:

راولپنڈی: 7 سالہ بچی سے مبینہ زیادتی و قتل کا ملزم پولیس مقابلے میں مارا گیا

—فائل فوٹو

راولپنڈی کے تھانہ مندرہ کے علاقے میں 7 سالہ بچی کو مبینہ زیادتی کے بعد قتل کرنے والا ملزم پولیس مقابلے میں مارا گیا۔

اس حوالے سے پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم بچی کا ماموں ہے، جس کو گزشتہ رات گرفتار کیا گیا تھا۔

پولیس نے بتایا ہے کہ ملزم کو برآمدگی کے لیے لے جایا جا رہا تھا کہ اس کے ساتھیوں نے اسے چھڑانے کے لیے پولیس پر فائرنگ کر دی۔

راولپنڈی: 7 سال کی بچی قتل

راولپنڈی کے تھانہ مندرہ کی حدود میں 7 سال کی بچی کو قتل کر دیا گیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے زخمی ہوا، اسپتال منتقلی کے دوران دم توڑ گیا۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل بچی گھر کے قریب کھیلتے ہوئے لاپتہ ہوئی تھی۔

پولیس کا کہنا تھا کہ فیملی کے ساتھ مل کر بچی کی تلاش شروع کی تو بچی کی لاش زیرِِ تعمیر گھر سے ملی۔

متعلقہ مضامین

  • 9 مئی کیسز: صنم جاوید کی بریت کیخلاف سماعت غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی
  • قتل کرنے کے بعد 7 سالہ بھانجی سے زیادتی کرنیوالے ماموں کے سنسنی خیز انکشافات
  • جعلی و غیر ضروری کیسز کا خاتمہ؛ مقدمے کیلیے درخواست گزار کا عدالت آنا لازمی قرار
  • کفار کے ساتھ نبی اکرم ﷺکا معاشرتی رویہ
  • راولپنڈی: 7 سالہ بچی سے مبینہ زیادتی و قتل کا ملزم پولیس مقابلے میں مارا گیا
  • پاکپتن: لڑکی کیساتھ مبینہ زیادتی، ملزمان گرفتار
  • معاشی استحکام کے مثبت اثرات پاکستان اسٹاک مارکیٹ پر کیسے مرتب ہورہے ہیں؟
  • فوڈ چین پر حملہ اچھی بات نہیں، عظمیٰ بخاری
  • چیف جسٹس ایس سی او جوڈیشل کانفرنس کیلئے آج چین جائیں گے
  • پیرو: جبری نس بندی سے متاثرہ لاکھوں خواتین ازالے کی منتظر