جاپان کی جوہری پالیسی میں تبدیلی کے امکانات
اشاعت کی تاریخ: 12th, February 2025 GMT
نیو کلیئر ٹیکنالوجی کا شمار دنیا کے متنازع ترین موضوعات میں ہوتا ہے۔ اس کے استعمال کے حوالے سے دنیا بھر میں مختلف ممالک کے موقف اور پالیسیوں میں واضح اختلاف نظر آتا ہے۔ بعض مقامات پر تو ایک ہی خطے میں موجود دو یا دو سے زائد ممالک کا اس موضوع پر مختلف بیانیہ ملتا ہے۔ اس حوالے سے ایک کیس اسٹڈی چین اور جاپان بھی ہیں۔ دونوں ممالک نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں پیش رفت کر چکے ہیں لیکن ان دونوں ممالک کی حکمت عملی اور نقطہ نظر ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ چین نے نیو کلیئر ٹیکنالوجی کو اپنی دفاعی اور توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے جبکہ اس معاملے میں جاپان کی حکمت عملی یہ ہے کہ اسے ہمیشہ پرامن مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ جاپان کی اس معاملے میں انتہائی حساسیت کا پس منظر دوسری جنگ عظیم ہے، ایٹمی حملے کا شکار ہونے کے بعد اس معاملے میں جاپان کی حساسیت حد درجے بڑھ گئی تھی اور یہ حساسیت اس کی پالیسیوں میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ جاپان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کی نیو کلیئر پالیسی تین اصولوں پر قائم ہے۔
نمبر 1۔ جاپان جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرے گا۔
نمبر 2۔ جوہری ہتھیار تیار نہیں کرے گا۔
نمبر 3۔ اپنی سرزمین پر جوہری ہتھیار ذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
اس کے باوجود کہ ان دونوں ممالک کے درمیان تاریخی تنازعات اور کئی اختلافی امور حل طلب ہیں جاپان نے ایٹمی مسابقت کے حوالے سے انتہائی محتاط رویہ اختیار کیا۔ چین کا نیو کلیئر پروگرام 1950 کی دہائی میں شروع ہوا تھا اور 1964 میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا جس کے بعد سے چین میں جوہری توانائی کے متعدد منصوبے جاری ہیں۔ دوسری جانب جاپان نے بھی جوہری پروگرام 1950 کی دہائی میں شروع کیا اور واضح طور پر اسے پرامن مقاصد کے ساتھ مشروط رکھا۔ 1966 میں پہلے نیو کلیئر پاور پلانٹ کے قیام کے بعد سے جاپان کا شمار نیوکلیئر توانائی کے سب سے بڑے صارف کے طور پر کیا جاتا ہے۔ بدلتے ہوئے حالات اور خطے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی تبدیلیوں کے تناظر میں اب جاپان کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے کہ جاپان اپنی موجودہ نیو کلیئر پالیسی پر کار بند رہے گا یا بدلتے حالات میں کسی نئے پلان کو اپنی حکمت عملی میں شامل کرے گا۔ اس تاثر کے پیچھے جو منطق پیش کی جاتی ہے اس کے مطابق جاپان کی یہ پالیسی اس کے آئین میں موجود آرٹیکل 9 سے منسلک ہے، جو جاپان کو جنگ چھیڑنے اور جارحانہ فوج رکھنے سے روکتی ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں اس پالیسی کی نئی تشریحات اور جاپان سیلف ڈیفنس فورس (SDF) کے کردار میں تبدیلی کے بعد سے کچھ حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ جاپان کو اپنی جوہری پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
اس معاملے کا پس منظر یہ ہے کہ 2014 میں جاپانی حکومت نے آرٹیکل 9 کی ایک نئی تشریح پیش کی، جس کے مطابق اب جاپان کو ’’اجتماعی دفاعی کارروائی‘‘ (Collective Self-Defense) میں حصہ لینے کی اجازت ہے۔ جس کے بتدریج اور پے درپے ایسے واقعات بھی ظہور پزیر ہوئے جن سے اس خیال کو تقویت ملنا شروع ہوئی کہ جاپان اپنی دفاعی پالیسیوں پر نظر ثانی کرسکتا ہے۔ مثلاً 2015 میں جاپان کے سیکورٹی قانون میں تبدیلیاں سامنے آئیں، جس کے مطابق اب جاپان اپنی دفاعی فورسز کو بیرونِ ملک بھجوا سکتا ہے، بشرطیکہ یہ قومی دفاع اور اتحادیوں کی مدد کے لیے ضروری ہو۔
مزید برآں جاپان تواتر کے ساتھ اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہا ہے، جس میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل، جدید فضائی دفاعی نظام، اور سائبر ڈیفنس سسٹم شامل ہیں۔ بین الاقوامی مبصرین اس صورتحال کو مخصوص سیاسی اور تزویراتی عوامل سے جوڑتے ہیں جن کے مطابق جاپان میں جوہری پالیسی پر نظر ِ ثانی کے امکان کو یکسر رد نہیں کیا جاسکتا۔ ان مبصرین کے مطابق ان عوامل میں چین اور شمالی کوریا کی بڑھتی ہوئی جوہری صلاحیتوں، شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کی ترقی اور بار بار کیے جانے والے میزائل تجربات کو جاپان کے لیے ایک بڑا سیکورٹی چیلنج ہیں۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ جاپان اب تک امریکی نیوکلیئر امبریلا کے تحت اپنی سلامتی کو یقینی بناتا رہا ہے، اور اب کچھ ماہرین یہ رائے بھی پیش کرتے ہیں کہ امریکا کے تزویراتی مفادات بہت غیر یقینی ہوتے ہیں، اس بات کی پیش گوئی مشکل ہے کہ ان میں تبدیلی آجائے۔ اس خدشے کے پیش نظر، کچھ جاپانی رہنما ماضی میں یہ تجویز پیش کرتے رہے ہیں کہ جاپان کو خود مختار جوہری ڈیٹرنس پالیسی بنانے پر غور کرنا چاہیے۔ اس سے قبل سابق وزیر ِ اعظم شینزو آبے اور کچھ دیگر رہنماؤں نے یہ تجویز دی تھی کہ جاپان کو ’’نیوکلیئر شیئرنگ‘‘ کے ماڈل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ (دفاعی ماہرین کے مطابق نیوکلیئر شیئرنگ ایک ایسا انتظام ہوتا ہے جس میں ایٹمی ہتھیاروں کی ملکیت اور کنٹرول تو کسی ایک ملک کے پاس ہوتا ہے، لیکن دوسرے ممالک کو ان ہتھیاروں کے استعمال اور اسٹوریج میں شامل کیا جاتا ہے۔ اگر اسے ناٹو (NATO) کے نیوکلیئر شیئرنگ پروگرام کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی ایک مثال امریکا کے وہ ایٹمی ہتھیار ہیں جو بعض یورپی اتحادی ممالک مثلاً جرمنی، بلجیم اور اٹلی میں رکھے گئے ہیں، جنہیں ضرورت پڑنے پر یہ ممالک استعمال کر سکتے ہیں، لیکن ان کا حتمی کنٹرول امریکا کے پاس ہوتا ہے۔) لیکن اس فارمولے جاپان میں داخلی طور پر شدید اختلافات موجود ہیں کیونکہ عوام کی ایک بڑی تعداد دوسری جنگ عظیم کی تباہی کے حوالے سے جوہری ہتھیاروں کی شدید مخالف ہے۔
آئیں اب ایک جائزہ لیں کہ وہ کون سے عوامل ہوسکتے ہیں جن کی بنیاد پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ جاپان اپنی جوہری پالیسی میں تبدیلی کی جانب قدم بڑھا سکتا ہے۔ ان میں سر فہرست علاقائی علاقائی خطرات ہیں۔ ہر چند کہ چین ابھی تک این پی ٹی پر کار بند ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے NFU یعنی نو فرسٹ یوز کی پالیسی پر کار بند ہے لیکن امریکا کی بڑھتی ہوئی جنگی حکمت عملی اور ساؤتھ چائنا سی میں کواڈ کی کوئی بھی ایسی پیش قدمی جس سے چین اپنے دفاع کے لیے نیو کلیئر توانائی سے کاؤنٹر کرنے کی تحریک جاپان کو بھی اپنی ڈیٹرنس پالیسی میں تبدیلی پر غور کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ دوسرا فیکٹر جو جاپان کے لیے محرک بن سکتا ہے یہ بتایا جاتا ہے کہ اگر جاپان کو امریکا کے ساتھ نیوکلیئر امبریلا پر تحفظات پیدا ہوتے ہیں، تو جاپان نیوکلیئر شیئرنگ جیسے ماڈلز پر غور کر سکتا ہے۔ اس ہائپو تھیسس کے جواب میں ایک اینٹی تھیسس بھی پیش کیا جاتا ہے جس کے مطابق اس بات کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کہ جاپان کی نیو کلیئر پالیسی میں کوئی تبدیلی لائے گا اور اس کے لیے سب سے بڑی وجہ عوامی دباؤ اور جاپان کی آئینی حدود بتائے جاتے ہیں۔ اس اینٹی تھیسس کی تیسری بڑی وجہ وہ بین الاقوامی معاہدہ (NPT) ہے جو جاپان کے جوہری ہتھیار بنانے کے امکانات کو کم کرتے ہیں۔ بہر حال غالب امکان یہی ہے کہ فی الحال، جاپان اپنی جوہری پالیسی میں کوئی فوری تبدیلی نہیں کرے گا، لیکن اگر علاقائی سیکورٹی صورتِ حال بگڑتی ہے، تو جاپان ’’نیوکلیئر ڈیٹرنس‘‘ سے متعلق متبادل آپشنز پر غور کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ چین اور جاپان مختلف عالمی فورمز پر مل جل کر کام کریں تاکہ نیو کلیئر تحفظ اور جوہری عدم پھیلاؤ کی کوششوں کو تیز کیا جاسکے۔ اس سے ایشیا پیسفک ہی میں نہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی استحکام اور ترقی کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نیوکلیئر شیئرنگ جوہری ہتھیار کے حوالے سے پالیسی میں میں تبدیلی اپنی دفاعی کے امکانات جاپان اپنی امریکا کے پالیسی پر میں جاپان اس معاملے حکمت عملی نیو کلیئر اور جاپان کے مطابق جاپان کو جاپان کے جاپان کی جاتا ہے سکتا ہے ہوتا ہے کے بعد کرے گا
پڑھیں:
بائیوڈی گریڈ ایبل پلاسٹک کی طرف تبدیلی ‘ فضلے کے مسئلے سے نمٹنے اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے.ویلتھ پاک
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔19 اپریل ۔2025 )پاکستان کا بائیو ڈی گریڈ ایبل پلاسٹک کی طرف تبدیلی اس کے بڑھتے ہوئے فضلے کے مسئلے سے نمٹنے اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے ضروری ہے وزارت موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی رابطہ کے ترجمان محمد سلیم نے ویلتھ پاک کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت میں کہا کہ یہ خود کو برقرار رکھنے والی سبز بایو پلاسٹک کی صنعت اور معاشی ترقی کا باعث بنے گا.(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ پاکستان شدید آلودگی سے دوچار ہے، خاص طور پر شہری علاقوں میں پلاسٹک کے فضلے، نکاسی آب کا نظام بند ہونے اور ندیوں کو آلودہ کرنے سے ان مسائل کو کم کرنے کے لیے، بائیو ڈی گریڈ ایبل پلاسٹک ہی حتمی حل ہیں جو طویل مدتی آلودگی کا باعث نہیں بنتے یہ پلاسٹک صحیح ماحولیاتی حالات میں چند مہینوں میں ٹوٹ جاتے ہیں. انہوں نے کہا کہ ماحول دوست مصنوعات کی بڑھتی ہوئی عالمی مانگ پاکستانی سرمایہ کاروں اور کاروباروں کے لیے ایک منافع بخش موقع ہے بائیو پلاسٹک تیار کرنے کے لیے، وافر مقدار میں پیدا ہونے والی زرعی بائیو پروڈکٹس جیسے مکئی، گنے اور گندم کو بائیو ڈی گریڈ ایبل پلاسٹک میں تبدیل کیا جا سکتا ہے، جس سے پیٹرولیم پر مبنی پلاسٹک پر انحصار کم ہوتا ہے پاکستان کو پلاسٹک کے فضلے، آلودگی اور ماحولیاتی انحطاط سے متعلق بڑھتے ہوئے چیلنجز کا سامنا ہے وسیع پیمانے پر اپنانے سے آلودگی کے بوجھ کو کم کیا جا سکتا ہے اور ہمارے قدرتی وسائل کی حفاظت کی جا سکتی ہے تاہم، پائیدار اختراع پر زور دینے کے ساتھ، قابل تجدید وسائل سے حاصل کیے جانے والے بائیو بیسڈ پلاسٹک، بہت فرق کر سکتے ہیں. انہوں نے کہا کہ حکومت کو بائیو بیسڈ پلاسٹک کی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے لیے پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے اس میں تحقیق اور ترقی کی سبسڈی، ماحول دوست انفراسٹرکچر کا قیام، اور سبز مینوفیکچرنگ کے لیے ٹیکس مراعات شامل ہو سکتی ہیں پائیداری کی طرف عالمی رجحان اور ماحول دوست مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ پاکستان کے لیے ایک سازگار مارکیٹ بناتی ہے. ترجمان نے کہا کہ صحیح ٹیکنالوجی اور بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کرنے سے، بائیو بیسڈ پلاسٹک نہ صرف ماحولیاتی تحفظ میں حصہ ڈالے گا بلکہ ملک کو پائیدار متبادل کے عالمی سپلائر کے طور پر بھی جگہ دے گا نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر کے پرنسپل ڈاکٹر رفعت طاہرہ نے کہاکہ یہ پلاسٹک زرعی فضلہ یا بائی پراڈکٹس بشمول بیگاس، مکئی کے چھلکے، چاول کی چوکر، سبزیوں اور گندم میں تبدیل کیے جا سکتے ہیں ابال یا کیمیائی ترمیم جیسے عمل کے ذریعے بایوڈیگریڈیبل پولیمر، جس کے نتیجے میں بائیو پلاسٹکس قدرتی طور پر گل سکتے ہیں کاربن اور توانائی کے ذخیرہ کرنے کی شکل کے طور پر بیکٹیریا سمیت قدرتی طور پر مائکروجنزموں کے ذریعہ تیار کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے. انہوں نے کہاکہ نمو کے مرحلے کے دوران، بیکٹیریا مختلف کاربن ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے، ابال کے ذریعے پی ایچ اے کی ترکیب کرتے ہیں پی ایچ اے میں روایتی پلاسٹک کی طرح کی خصوصیات ہوتی ہیں جو انہیں پیکیجنگ، ٹیکسٹائل اور بائیو میڈیکل آلات سمیت گھریلو اور صنعتی ایپلی کیشنز کی وسیع رینج کے لیے موزوں بناتے ہیں پی ایچ اے مختلف ماحول میں قدرتی طور پر انحطاط پذیر ہوتے ہیں پلاسٹک کی آلودگی اور فضلہ کے انتظام کے مسائل کو کم کرتے ہیں پلاسٹک کے بڑھتے ہوئے فضلے کو متبادل کے ذریعے کم کرنے کی ضرورت ہے اور پی ایچ اے اپنی بایوڈیگریڈیبلٹی اور بائیو مطابقت کی وجہ سے ایک مضبوط دعویدار ہیں. انہوں نے کہاکہ بغیر کسی ماحولیاتی اثرات کے یہ پلاسٹک کی طرح کام کرتے ہیں اور کمپوز ایبلٹی میں بھی ناقابل یقین ہیں لہذا وہ روایتی، غیر انحطاط پذیر پلاسٹک کے ایک پائیدار متبادل کے طور پر مقبولیت حاصل کر رہے ہیں . گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے ماہر ماحولیات محمد اکبر نے کہاکہ ممکنہ طور پر بائیو پلاسٹک کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کم از کم 30 فیصد تک کم کرتے ہیں اور کاربن کے اثرات کو تقریبا 42 فیصد کم کر سکتے ہیں پیٹرولیم پر مبنی پلاسٹک کے مقابلے میں تقریبا 65 فیصد کم توانائی استعمال کرنے والی پلاسٹک بایو گرا میں استعمال ہوتی ہے ماحولیاتی تحفظ کے لیے بائیو بیسڈ پلاسٹک کی پیداوار روایتی پلاسٹک کا زیادہ پائیدار متبادل ہے محمد اکبر نے کہا کہ اس میں سرکلر اکانومی کی صلاحیت بھی ہے اور یہ فوسل فیول پر انحصار کم کرنے اور گرین ہاﺅس گیس اور کاربن فوٹ پرنٹ کو کم کرنے میں بھی مددگار ہے.