Express News:
2025-04-22@07:09:57 GMT

صدر ٹرمپ اور امریکا کا نظام

اشاعت کی تاریخ: 9th, February 2025 GMT

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں، مسلسل غیرمعمولی اقدامات کررہے ہیں۔انھوں نے ایران اور عالمی فوجداری عدالت پر پابندیاں عائد کردی ہیں، عرب میڈیا کے حوالے سے مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ امریکی محکمہ خزانہ نے ایران پر ایسی پابندیاں عائد کی ہیں جن سے اس کے تیل کے نیٹ ورک کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ 

ان پابندیوں کا جواز یہ بتایا گیاہے کہ ایران تیل کی آمدنی اپنے جوہری، میزائل اور ڈرونز پروگرامز پرخرچ کر رہا ہے، ایران اپنی تیل کی آمدنی کو دہشت گرد گروپوں کی مدد کے لیے بھی استعمال کررہا ہے لہٰذا غیرقانونی سرگرمیوں کی فنڈنگ روکنے کے لیے مزید سخت اقدامات کریں گے۔

ایران نے امریکی پابندیوں کو بحری قزاقی قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔ یوں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ محاذ آرائی کو مزید بڑھایا ہے۔ اس دوران میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے والی عالمی فوجداری عدالت پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈر جاری کر دیا ہے۔

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ دی ہیگ کی عدالت نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے۔ امریکی صدر نے آئی سی سی کے اہلکاروں، ملازمین اور ان کے اہلخانہ کے ساتھ ساتھ کسی ایسے شخص کے اثاثے منجمد کرنے اور سفری پابندیوں کا بھی حکم دیا جس نے عدالت کی تحقیقات میں مدد کی ہو۔

عالمی فوجداری عدالت نے پابندیوں کی شدید مذمت کی ہے۔ عدالت نے اپنے رکن ممالک سے متحد ہونے کی اپیل کرتے ہوئے ہرحال میں انصاف کی فراہمی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ یورپی کونسل کے سربراہ نے ایکس پر لکھا کہ آئی سی سی پر پابندیوں سے عدالت کی آزادی کو خطرہ ہے اور یہ عالمی فوجداری انصاف کے نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔یورپی کمیشن نے بھی حکم نامے پر افسوس کا اظہار کیا۔

صدر ٹرمپ پے درپے ایسے اقدامات کررہے ہیں جس سے تقریباً ساری دنیا کے ممالک متاثر ہوئے رہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق امریکا میں غیرقانونی طور پر داخل ہونیوالے زیر حراست 770 بھارتی باشندوں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے، ان افراد کو تین امریکی فوجی طیاروں کے ذریعے بھارت روانہ کیا جائے گا، اس سے پہلے بھی بھارتی تارکین وطن زبردستی بھارت پہنچائے گئے ہیں۔

ان سب کو ہتھکڑیوں میں جکڑ کر لایا گیا، بھارتی اپوزیشن مودی حکومت پر زبردست تنقید کررہی ہے۔ادھر امریکا کا نظام انصاف صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات کو روکنے کی کوشش کررہا ہے ۔ امریکی عدالت نے سرکاری اداروں میں ڈاؤن سائزنگ کے عمل کو عارضی طور پر روک دیا ہے، تاریک وطن کے حوالے سے بھی امریکی انتظامیہ اور حکومت کے درمیان اختلافات رونما ہوئے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ نے شکاگو اور ریاست الینوائے کے خلاف مقدمہ دائر کردیا ہے وہاں کی انتظامیہ تارکین وطن کی ملک بدری میں تعاون نہیں کر رہی، واشنگٹن میں نیشنل پریئر بریک فاسٹ سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا کو پہلے سے زیادہ طاقتور بنائیں گے، آزادی اظہارِ رائے کا ہر قیمت پر تحفظ کرنا ہوگا، انھوں نے اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ غزہ کے حوالے سے ان کی پیش کردہ تجویز میں امریکا کو کسی فوجی کی ضرورت نہ ہوگی۔

خطے میں استحکام آئے گا، اسرائیل غزہ کی پٹی کو امریکا کے حوالے کر دے گا، فلسطینیوں کوخطے میں نئے اور جدید گھروں کے ساتھ پہلے سے زیادہ محفوظ اور زیادہ خوبصورت کمیونٹیز میں دوبارہ آباد کیا جا ئے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کینیڈا، میکسیکو اور چین کے خلاف ٹیرف عائد کر چکے ہیں، وہ کئی بار یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ کینیڈا کو ہماری 51 ویں ریاست بننا چاہیے۔ اس سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سوچ اور عزائم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ چین، میکسیکو اور کینیڈا کا شمار امریکا کے بڑے تجارتی شراکت داروں میں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود جس انداز میں وہ اقدامات اٹھا رہے ہیں، اس سے بے چینی پیدا ہونا لازمی ہے۔

چین اور کینیڈا ڈبلیو ٹی او کا پلیٹ فارم استعمال کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ معاشی ماہرین اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں امریکا کے صدر کے اقدام اور اس کے جواب میں اٹھائے گئے اقدامات سے دنیا کو کساد بازاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

یورپی یونین نے بھی صدر ٹرمپ کے درآمدی محصولات لگانے کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔ صدر ٹرمپ مسلسل ایسے بیانات اور خارجہ پالیسی کے منصوبے کا اشارہ دے رہے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک نئی طرز کے سامراج کی بنیاد رکھنے کی کوشش کریں گے ۔ وہ پاناما نہر اور گرین لینڈ پر قبضے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

انھوں نے کینیڈا کو امریکا کی 51ویں ریاست بنانے کی دھمکی دی اور خلیج میکسیکو کا نام بدل کر خلیج امریکا رکھنے کا ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیا، پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی اور اس معاہدے سے متعلق پالیسیوں کو منسوخ کرنے کے اعلان سے بھی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ ٹرمپ نے یہ اقدام 2017 میں اپنی پہلی مدت صدارت کے دوران بھی کیا تھا، لیکن صدر جوبائیڈن کے دور میں 2021 میں امریکا دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہوگیا لیکن اب وہ دوبارہ وہی کام کرنے جارہے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ کے غزہ پر قبضے کے بیان نے فلسطینیوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔عالم اسلام بھی حیران ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ اسے عالمی سطح پر بھی ناپسند کیا گیا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی متنازعہ تجویز کو وسیع پیمانے پر تنقید کا سامنا ہے۔ اس قسم کے اعلانات تنازع فلسطین کو مزید پیچیدہ بنانے کا سبب بن سکتے ہیں، جب کہ اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو میں 15 سال لگیں گے۔

اسرائیل نے جب غزہ جنگ شروع کی تھی تو اس وقت سے اسرائیلی پالیسی سازوں کے ایسے بیانات آرہے ہیں، جن سے اشارہ ملتا ہے کہ اسرائیل کی کارروائی کا مقصد ہی وہ تھا جس کا اعلان ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا ہے۔ یعنی مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ بدلنا ۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کا حامی امریکی اور اسرائیلی طبقہ مشرقِ وسطیٰ میں جو نیا ارینجمنٹ قائم کرنا چاہتا ہے، اس میں فلسطینیوں کی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ غزہ پر براہ راست امریکا خود کنٹرول رکھنا چاہتا ہے تاکہ بحیرہ روم اور مشرقی وسطیٰ کی تجارت کو کنٹرول میں رکھا جاسکے۔

فلسطین میں دو آزاد اور خود مختار ریاستوں کا فارمولہ بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔ فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی اقوامِ متحدہ کی قرارداد تھی لیکن اسرائیلیوں اور امریکیوں کو یہ قبول نہ تھا اور وہ بحیرہ روم کے ساحل سے لے کر دریائے اُردن تک پورے فلسطینی علاقے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔

1948میں اسرائیل کے قیام کے بعد ان کے ہر اقدام کا مقصد اسی منصوبے کی تکمیل تھا۔ مثلاً 1948میں عربوں اور اسرائیل کی پہلی جنگ میں اسرائیل نے عرب افواج کو شکست دے کر نہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں تجویز کردہ یہودی ریاست کے رقبے سے زیادہ علاقوں پر قبضہ کر لیا بلکہ اسرائیلی ریاست کے لاکھوں فلسطینی باشندوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر انھیں اپنا گھر بار اور جائیدادیں چھوڑ کر ہمسایہ عرب ممالک یعنی لبنان، شام، اُردن اور مصر میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا تھا۔

یہ فلسطینی، جن کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچ چکی ہے، اب تک بے وطنی اور کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن وہ اسرائیل کے قبضے میں آنے والے علاقوں میں اپنے گھروں کی واپسی کے حق سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔

 جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تو اس وقت یہاں یہودی ایک دو لاکھ سے زائد نہ تھے جب کہ فلسطینیوں کی آبادی 90 فیصد سے زیادہ تھی۔ لیکن آج اس خطے میں یہودی آبادی تیس پینتیس لاکھ سے بھی زائد ہوچکی ہے۔

لیکن یہاں نسل در نسل آباد فلسطینیوں کی آبادی مسلسل کم ہورہی ہے ۔ اگرچہ فلسطین اور اسرائیل نے دو ریاستی حل کے اصول کو قبول کر لیا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے بعد بیانات کے بعد ایک علیحدہ فلسطینی ریاست کے قیام کی رہی سہی امید بھی ختم ہو گئی۔ 

صدر ٹرمپ اور ان کے ساتھی اپنے منصوبوں میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں، اس کا پتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چلتا جائے گا لیکن آثار یہی نظر آرہے ہیں کہ دنیا کا مستقل شاید ایسا نہ ہو جیسا عالمی امن کے پیامبر دیکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا کا نظام اور جمہوری کلچرکتنا مضبوط ہے اور وہ صدر ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کے اقدامات کی کس حد تک مزاحمت کرتا ہے، اس کا اندازہ بھی جلد ہوجائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ عالمی فوجداری امریکی صدر امریکا کے عدالت نے سے زیادہ ٹرمپ اور کے حوالے ٹرمپ کے رہے ہیں کے ساتھ ہے کہ ا لیکن ا دیا ہے گیا ہے اور اس اور ان

پڑھیں:

عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ

روس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر صدر ولادیمیر پوتن کی طرف سے اعلان کردہ ایسٹرکی ایک روزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ فریقین نے کہا کہ اس دوران سیکڑوں حملے کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ بندی مذاکرات کا وقت آن پہنچا ہے۔

 روس، یوکرین جنگ چوتھے برس میں داخل ہوچکی ہے، جس میں60ہزار سے زاید یوکرینی اور روسی شہری اور فوجی ہلاک، جب کہ یوکرین میں شہرکے شہرکھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں دنیا میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا۔ غریب ممالک کے عوام تو اِس تباہی میں پِسے ہی لیکن امیر ممالک کے شہری بھی توانائی، خوراک اور دوسری اشیائے صَرف کی آسمان سے چُھوتی قیمتوں سے اب تک نجات نہیں پاسکے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ہفتے روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدے کے لیے پرامید ہیں۔صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’’اگر جنگ بندی ہوجاتی ہے تو دونوں ممالک کے لیے امریکا کے ساتھ بڑے تجارتی مواقع دستیاب ہوں گے۔‘‘ تاہم انھوں نے ان امن مذاکرات کی تفصیلات نہیں بتائیں جنھیں امریکا جنوری میں ان کے صدارت سنبھالنے کے بعد سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے فیصلے کے بعد یورپی طاقتیں بھی شامل ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ کی امن کی کوششوں کو جھٹکا لگا ہے،کیونکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مکمل جنگ بندی کی تجویزکو مسترد کردیا ہے۔ دراصل ٹرمپ یوکرین کے مسئلے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، وہ روس کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری بحال کرنا چاہتے ہیں، اور وہ نہیں چاہتے کہ یوکرین جیسا ’چھوٹا مسئلہ‘ ان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔

عالمی امور کے ماہرین کے مطابق، روس، یوکرین جنگ میں توانائی کی ڈیمانڈ، سپلائی اور قیمتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا ، آئی ایم ایف کے قرضوں کے مسلسل پروگرام اِسی جنگ کی براہِ راست مہربانی ہے۔ جب روس نے جنگ کے بعد تیل اورگیس کی سپلائی پر پابندی لگائی، تو یورپی ممالک تڑپ اُٹھے۔

یوکرین کا بیشتر رقبہ سرسبز و شاداب ہے۔ اس میں کوئی ایسا بڑا پہاڑ نہیں جو برف پوش ہو۔یہاں برف باری تو ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ سطح سمندر سے بلندی ہے جیسا کہ براعظم ایشیاء کے بعض ملکوں میں ہم دیکھتے ہیں۔ یوکرین کے پہاڑی سلسلے کم بلند ہیں، زیادہ علاقہ میدانی ہے۔ اس کی مٹی اتنی زرخیز ہے کہ اس میں اگنے والی گندم پاکستان سمیت دوسرے ملکوں کو بھی برآمد کی جاتی ہے۔ پاکستان کا رقبہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ مربع میل ہے اور ہماری آبادی 24کروڑ نفوس سے زیادہ ہے جبکہ یوکرین کا رقبہ تقریباً اڑھائی لاکھ مربع میل ہے اور اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے اور وہ تین برس سے دنیاکی دوسری بڑی سپرپاور (روس) سے نبرد آزما ہے۔

اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی دن رات چل رہی ہیں اور دوسرے ممالک بھی اس کو دھڑا دھڑ اسلحہ برآمد کررہے ہیں۔ اب تک طرفین کے لاکھوں سولجرز اور سویلینز اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن یوکرین کو نیٹو ممالک کی طرف سے جو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم ہو رہا ہے، یوکرینی سولجرز اس کو استعمال کرکے روس کو بھی اتنا ہی جانی نقصان پہنچا چکے ہیں جتنا روس، یوکرین کو پہنچا چکا ہے ، یعنی چوٹ برابرکی ہے۔ جنگوں میں صرف گولہ بارود اور چھوٹے بڑے ہتھیار ہی کام نہیں آتے۔ ان ہتھیاروں کے باعث ماحول کی جو تباہی دیکھنے کو ملتی ہے، وہ حیرت انگیز بھی ہے اور حسرت ناک بھی۔جیسا کہ باور کیا جا رہا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت سے یہ روس یوکرین تنازعہ شاید آنے والے چند ہفتوں میں ختم ہو جائے، لیکن توپوں، ڈرونوں، بارودی سرنگوں اور میزائلوں سے جو بربادی اس سرزمین کا مقدر بن چکی ہے وہ آنے والے کئی برسوں تک بھی برقرار رہے گی۔ یوکرین، روس کے بعد، یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔

اس پر جو بربادی اس جنگ کی وجہ سے وارد ہو چکی اس کے اثرات شاید آنے والے کئی عشروں تک بھی برقرار رہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی، پولینڈ اور اردگرد کے ممالک میں چھے برسوں میں جو تباہی مچی، اس کو امریکا نے دو تین برسوں ہی میں ختم کردیا تھا، لیکن اگر یوکرین میں یہ جنگ بند بھی ہوگئی تو اس کی زمین، اس کی بندرگاہوں بحیرہ اسود اور بحیرہ آزوف اور اس کی آب و ہوا کی تباہی کو معمول پر آنے کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ آج یوکرین کے میدان ہائے جنگ کا حال یہ ہے کہ وہاں کی زمینوں میں توپوں کے گولوں سے پڑنے والے گڑھوں کی تعداد، لاتعداد ہو چکی ہے، تمام فضا زہرآلود ہے اور بارود کی بُو یوکرین کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔

صدر ٹرمپ کے اقدامات، بیانیے اور مطالبات کو جوڑیں تو ایک پریشان کن منظر ابھرتا ہے۔ وہ احساس جوکبھی قومی ذمے داری کو نبھانے یا اس عالمی نظام برقرار رکھنے یا اس کی مرمت کے لیے تھا، جس کے قیام میں کبھی امریکا اور برطانیہ نے مدد کی، اب مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ روایتی اتحادیوں اور اتحادوں سے وفاداری ختم ہوچکی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی تجارتی تنظیم جیسے اداروں کی مفلوج حالت، عالمی معیشت کے زوال کو تیزکر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ ایک نئے دورکا آغاز دیکھ رہے ہیں جہاں ہر ملک اپنی بقا کی جنگ خود لڑے گا۔ اس تصور میں پرانے بین الاقوامی نظام کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بریٹن ووڈز سسٹم کو فرسودہ بوجھ سمجھا جا رہا ہے اور طاقت کو علاقائی اثر و رسوخ کے دائروں میں دوبارہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس منطق کے تحت گرین لینڈ اور پانامہ امریکا کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جب کہ یوکرین کو روس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی دوران یورپ،کینیڈا اور میکسیکو اب معاشی حریف سمجھے جاتے ہیں۔

اگر تجارتی معاہدے ایسے شرائط پر نہ ہو سکیں جو مکمل طور پر امریکا کے حق میں ہوں، تو پھر جوابی محصولات کے لیے تیار رہیں۔ اس نئے عالمی انتشار کو کارآمد بنانے کے لیے پوتن کو بحال کرنا ضروری ہے اور روس کو دوبارہ بین الاقوامی نظام میں شامل کرنا ہوگا۔ پابندیاں ختم کرنی ہوں گی، اور معاہدے کرنے ہوں گے۔وسیع تر تناظر میں، دنیا پہلے ہی دو مخالف کیمپوں میں بٹ رہی ہے۔ مغرب کے مقابلے میں چین، جسے بڑھتی ہوئی تعداد میں ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جو کھلم کھلا اس نازک عالمی نظام کو مسترد کر رہی ہیں جسے ہم نے طویل عرصے سے یقینی سمجھ رکھا تھا، اگر یورپ اور امریکا ایک پیج پر نہ ہوئے، جب چین ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکری برتری کے لیے امریکا کو چیلنج کر رہا ہے، تو یہ خارج از امکان نہیں کہ دنیا ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر پہنچ جائے۔

ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جتنی دیر ہم امریکا میں جاری اس خطرناک سیاسی تجربے سے نظریں چراتے رہیں گے، اتنا ہی کم وقت ہمارے پاس اس کا جواب دینے کے لیے باقی بچے گا۔ ایک عالمی طاقت کی جانب سے بین الاقوامی معاملات پر توجہ نہ دینے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ باقی دنیا کے تنازعات اسی طرح برقرار رہیں اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے جیسا کہ غزہ میں حماس اور اسرائیل کی جنگ جو فی الحال ایک معاہدے کے تحت جنگ بندی پر منتج ہوئی تھی لیکن اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی۔ اسرائیلی مغویوں کی رہائی میں کچھ تاخیر ہونے کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ پر پھر بمباری شروع کر دی ہے، وہاں یہ کیسے ممکن ہوگا کہ معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے معاملات تھوڑے بھی آگے پیچھے ہوئے تو اسرائیلی قیادت آپے سے باہر نہیں ہو جائے گی؟

دوسری جانب اسرائیل اور ایران کے تعلقات میں بھی کشیدگی پہلے سے زیادہ پائی جاتی ہے اور ٹرمپ ایران کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں یہ بھی سب پر واضح ہے، چنانچہ اگر خدانخواستہ اسرائیل اور ایران کے مابین غزہ یا لبنان کے تنازع اور شام کی جنگ کو لے کر اختلافات بڑھے تو امریکی صدر خاموش تماشائی کے سوا کوئی اور کردار ادا نہیں کرسکیں گے، البتہ صدر ٹرمپ یوکرین کی جنگ بند کرانے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرور کوشش کریں گے، وجہ یہ ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔

یہ جنگ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے تنازع پر شروع ہوئی تھی جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکا کو نیٹو اتحاد سے نکل جانا چاہیے۔ امریکا کے نیٹو اتحاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کا خاتمہ ، جب نیٹو تنظیم موجود ہی نہیں ہوگی یا مکمل غیر فعال ہو جائے گی تو اس کو وسعت دینے کی بنیاد پر شروع ہونے والی جنگ کے جاری رہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ لگتا یہی ہے کہ ٹرمپ دور میں بھی بین الاقوامی تنازعات کا ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کرلیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کر لیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
  • ’ امریکا میں کوئی بادشاہ نہیں‘ مختلف شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے
  • امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے باشندوں کی جبری ملک بدری روک دی
  • تبدیل ہوتی دنیا
  • ٹرمپ انتظامیہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی پر غور کر رہی ہے،امریکی اخبار