جس دورمیں لٹ جائے غریب کی کمائی
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
ستائیس جنوری میرے بڑے بیٹے کی سالگرہ کی وجہ سے میرے لئے بڑا اہم دن ہے۔ لیکن اس بار اس کی اہمیت اور وجہ تذکرہ ذرا مختلف ہے۔ زندگی اپنے نشیب و فراز کے معمولات کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ کچھ واقعات آپ کے لئے جہاں تکلیف کا باعث ہوتے ہیں وہاں ان میں ایک سبق بھی پنہاں ہوتا ہے۔ سولہ برس پہلے دو ہزار آٹھ میں وقت ٹی وی کے توسط سے پاکستان کے ایک بڑے بنک کا کلائنٹ بنا تھا۔ میرا یہ اکاؤنٹ استعمال میں نہ ہونے کے باوجود آج بھی آپریشنل ہے۔ اسی بنک کا انتیس منزلہ بلڈنگ پر قائم ہیڈ آفس اپنی منفرد طرز تعمیراور اونچائی کی وجہ سے کراچی کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں ظاہری اونچائیاں اور انفرادیت اس وقت تک قابل قدر سمجھی جاتی ہیں جب تک ادارے کا چال چلن اور سروسز کا معیار اپنے کسٹمرز کی توقعات کے مطابق ہوتا ہے۔ بصورت دیگر اب تک کئی بڑے بڑے ادارے آج اپنا وجود بھی کھو چکے ہیں۔ دو ہزار چودہ میں جب مجھے چینل ٹوئنٹی فور کی لانچنگ ٹیم کاحصہ بننے کا موقع ملا تو اسی بنک میں ایک نیا اکاؤنٹ کھلوانا پڑا۔اس کے بعد جب میں ایکسپریس نیوز اور بعد ازاں جی این این ٹی وی اور چین اسٹور ایسوسی ایشن کو جوائن کیا تو بھی میری تنخواہ اس نئے اکاؤنٹ میں ٹرانسفرہوتی رہی۔ گذشتہ آٹھ برسوں سے میں اسی اکاؤنٹ سے اپنی تمام ٹرانزیکشن کررہا تھا۔ میں اپنے گھر کا کرایہ، بلز، بچوں کی فیسیں، یوٹیلیٹی بلز، ہوٹل بلز اور پٹرول وغیرہ آن لائن ٹرانزیکشن ،کنیکٹ ایپ یا اے ٹی ایم سے ادا کرتا ہوں اسلئے جیب میں زیادہ کیش نہیں رکھتا۔ ہرماہ بڑی جدوجہد کے بعد کچھ پس اندازکی جانے والی رقم بھی اسی اکاؤنٹ میں بڑھتی رہی ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ ہونے کی وجہ سے میں بینک سے کوئی پرافٹ نہیں لیتا۔ ستائیس جنوری کی شام جب میں گھر کے لئے ایک قالین اور بیٹے کے لئے کیک خریدنے پہنچا تو اے ٹی ایم نے کام کرنا بند کر دیا اور کنیکٹ ایپ سے اکاؤنٹ کی تفصیلات غائب ہوگئیں اور اس کی جگہ میرا پرانا اکاؤنٹ ایکٹو ہو گیا جس میں صرف ایک سو چوہتر روپے موجود تھے۔ نہایت شرمندگی اور خجالت۔ ایک جھٹکا لگا اور دل بیٹھ گیا کہ کہیں میرا اکاؤنٹ ہیک تو نہیں ہو گیااور رقم چوری ہوگئی ہے۔ کیونکہ ماضی قریب میں اس بنک کے صارفین کا ڈیٹا چوری ہونے کی خبریں گردش میں رہیں تھیں۔ مجبوراً بھائی کو فون کر کے ادھار کیش کا بندوبست کیا۔ اٹھائیس کی صبح قریبی برانچ سے رابطہ کیا تو وہاں کے آپریشن منیجر پہلے تو حیران ہوئے کہ اچھی خاصی رقم کے باوجود اکاؤنٹ کیوں بندکردیا، لہٰذا آپ اپنی برانچ جائیں۔ لبرٹی لاہور میں اپنی پیرنٹ برانچ جا کر آپریشنل منیجر سے تفصیلات معلوم کیں تو انھوں نے بھی حیران ہوتے ہوئے لاعلمی کا اظہار کیا۔ یہاں سے اب اس بے حسی اور نان کسٹمرسنٹرک اپروچ کا آغاز ہوگیا۔ آج کے اس جدید دور میں جب صرف ایک فنگر پرنٹ سے متعلقہ فرد کی تمام تفصیلات سامنے آجاتی ہیں۔ بطور ٹیکس فائلر میری تفصیلات سٹیٹ بینک اور متعلقہ اداروں کے پاس موجود ہیں۔ خیر بحکم بینک سٹاف میں نے فوراً نئی سیلری سلپ، شناختی کارڈ کی کاپی مع فنگر پرنٹس جمع کرا دیں۔ مجھے بتایاگیا کہ کل تک آپ کا اکاؤنٹ بحال ہو جائے گا یہ شاید کوئی مینوئل خرابی ہے۔ میں نے احتیاطاً ایک آن لائن شکایت درج کرائی تو یہ معمہ کھلا کہ آپ کے اکاؤنٹ کی تصدیق نہیں ہے ہمارے پاس۔ میں نے کہا کہ آپ مجھے کہتے تو میں ضرور کراتا، پچھلے آٹھ برس میں تو آپ نے ایک بار بھی فون نہیں کیا،کوئی ای میل نہیں کی کہ اس اکاؤنٹ کا کوئی مسئلہ ہے۔۔جبکہ ہر بار ایپ کے استعمال اور ٹرانزیکشن پر فوراً ای میل آجاتی ہے۔ جواب ملا کہ بینک نے آپ کو میسج کیا تھا۔میں سر پکڑ کر رہ گیا کہ اکاؤنٹ بند کرنا ایک بڑا اوراہم فیصلہ ہے۔ میرا فون نمبر اور ای میل آپ کے پاس ہیں کم از کم مجھ سے بات تو کرتے۔ میں اگر کمپلائنس نہ دیتا تو بینک حق بجانب تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر صارفین کو مختلف کمپنیوں سے درجنوں میسج ملتے ہیں اور ہرمیسج پڑھا نہیں جاسکتا۔ طویل عرصے سے ایک بڑی رقم اپنے اکاؤنٹ میں رکھنے کے باوجود میں بنک سے کوئی منافع نہیں لے رہا اور خود کو ایک معزز کسٹمر سمجھتا تھا۔ جبکہ بینک انھی غیرمعززصارفین کے سرمائے سے خوب منافع کما رہے ہیں۔ مذکورہ بنک کا دوہزار چوبیس کے پہلے نو ماہ میں ڈکلیئرڈ منافع چھیاسی ارب روپے ہے۔ آن لائن یقین دہانی کے باوجود تین دن میں مسئلہ تو حل نہ ہوسکا۔ البتہ تیس جنوری کو ایک اور میسج موصول ہو گیا کہ آپ کو آپکی رقم موصول ہو چکی ہے۔ پھر آن لائن کال کی اور پوچھا کہ بھائی کونسی رقم ، کب اور کہاں ادا ہوئی جو آدھی رات کو میسج کر دیا؟ بولے کہ آپ کی کمپلینٹ درج ہو گئی ہے آ پ کو تین دن میں بتا دیں گے۔ پھر سے تین دن ؟ اسی دن دوبارہ برانچ پہنچا اور بینک منیجر سے ملاقات کی۔ ان کے پاس میرے کسی سوال کا تشفی بخش جواب نہیں تھا لیکن وہ بے چین ضرور تھے اس سارے عمل پر بولے آپ کی رقم ہمارے پاس ہے بس تھوڑی سی کارروائی کے بعد پے آرڈر بنا دیں گے۔ پچھلے نو دنوں میں اس سارے پراسیس نے ذہنی اذیت کاشکارکر رکھاہے۔ میرے کام اور ذاتی معاملات میں الجھاؤ ہے۔ خدانخواستہ اگرکوئی سخت اور بڑی معاشی ضرورت آن پڑی تو میں کس کے آگے ہاتھ پھیلاؤں گا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں ایک پڑھا لکھا اوران معاملات کی قدرے سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص ہوں لیکن اس کے باوجود اس قدر مشکل صورتحال سے دوچار ہوں۔ اس لئے یہ سبق ملا کہ ایک ہی ٹوکری میں سارے انڈے رکھناغلط ہے۔ اپنی یہ آپ بیتی لکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ اگر کسی کمزور دل اور اعصاب والے شخص کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا اور اسے ایک لمحے کے لئے لگتا کے اس کی ساری کمائی اڑ گئی ہے تو شاید اس کی جان بھی جاسکتی تھی۔ پاکستان میں سارے حقوق اور معاہدات بحق طاقتورمحفوظ ہیں۔ ریاست بھی ان بینکوں کی مقروض ہے۔ یہ ایک گہرا گٹھ جوڑ ہے۔ وہیں بینک میں بیٹھے بیٹھے معلوم ہوا کہ موجودہ حکومت کے ایک طاقتور وزیر کی اہلیہ کا کریڈٹ کارڈ بنانے بینک کا عملہ ان کے گھر جا کر سارا عمل مکمل کر کے آیا ہے۔ لہٰذا اتنے بڑے ملک میں اگرکسی عام آدمی کااکاؤنٹ بغیر بتائے بند کر دیاجائے یا اس کی رقم نہ لوٹائی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ ۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کے باوجود ا ن لائن میں ایک کے لئے گیا کہ
پڑھیں:
اڈیالہ جیل سے دور روک لیا تاکہ بہانہ بنا سکیں کہ ملاقات کے لیے کوئی آیا ہی نہیں، علیمہ خان کا شکوہ
اڈیالہ جیل کے باہر پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے الزام عائد کیا ہے کہ عمران خان کو قیدِ تنہائی میں رکھا جا رہا ہے اور فیملی سے ملاقات کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ پولیس نے جیل سے ڈیڑھ کلومیٹر دور ہی ہمیں ناکہ لگا کر روک لیا تاکہ حکام یہ بہانہ بنا سکیں کہ ملاقات کے لیے کوئی آیا ہی نہیں۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان کا کہنا تھا کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی، عورتوں سے کیا خوف ہے؟ ہم تو صرف اپنے بھائی سے ملنے آئے ہیں، اب ایک مہینہ ہوگیا ملاقات نہیں ہونے دی گئی۔ اگر وکلا اور فیملی کو بھی روکا جائے گا تو عمران خان کیس کس سے ڈسکس کریں گے؟
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر صرف بیرسٹر سلمان صفدر کو 35 منٹ کی ملاقات کی اجازت دی گئی، لیکن چیف جسٹس نے تو ایک گھنٹے کی اجازت دی تھی، جیل انتظامیہ نے وکیل کو وقت سے پہلے ہی اٹھا دیا۔
مزید پڑھیں: قید تنہائی میں رکھنے سے عمران خان کی زندگی خطرے میں ہے، علیمہ خان
علیمہ خان نے واضح کیا کہ ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پہلے وکلا کو ملاقات دی جائے، تاکہ کیس پر بات ہوسکے، اس کے بعد چاہے 100 لوگ عمران خان سے ملاقات کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہمیں نہ سہی تو میری 2 بہنوں کو ہی ملنے دیں، بانی نے کوئی پیغام دینا ہوگا تو وہ ان کے ذریعے بھی آ جائے گا، ہماری بہنیں مجھ سے زیادہ ذہین ہیں۔
ادھر سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے بھی عدالتی حکم کے باوجود عمران خان سے ملاقات نہ ہونے پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی ہے، جبکہ علیمہ خان، شبلی فراز اور عمر ایوب کی دائر کردہ درخواستیں بھی تاحال سماعت کی منتظر ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اڈیالہ جیل پی ٹی آئی علیمہ خان عمران خان