Daily Ausaf:
2025-04-22@18:58:14 GMT

قرآن کریم پڑھنے کے سات مقاصد

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

قرآن کریم ہم پڑھتے بھی ہیں سنتے بھی ہیں اور کچھ نہ کچھ یاد بھی کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کو کس غرض اور مقصد کے لیے پڑھتے ہیں اور اسے اصل میں کس مقصد کے لیے پڑھنا چاہیے؟ اس کا اپنا مقصد اور ایجنڈا کیا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ کے اس پاک کلام کو پڑھنے اور سننے کی ضرورت ہے۔ ہم عام طور پر قرآن کریم کو چند مقاصد کے لیے پڑھتے ہیں جن کا تذکرہ اس وقت مناسب سمجھتا ہوں، مثلاً:
قرآن کریم پڑھنے سے ہمارا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ نماز ہم پر فرض ہے اور نماز میں قرآن کریم پڑھنا ضروری ہے اس لیے ہم تھوڑا بہت قرآن کریم یاد کرتے ہیں تاکہ نمازوں میں پڑھ سکیں اور ہماری نمازیں صحیح طور پر ادا ہو جائیں، ہر مسلمان چند سورتیں یاد کرنے کی ضرور کوشش کرتا ہے تاکہ وہ انہیں نمازوں میں پڑھ سکے۔ اس مسئلہ میں ایک پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ پانچ وقت کی نمازیں فرائض و واجبات اور مؤکدہ سنتیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ادا ہو جائیں اس کے لیے کم از کم کتنا قرآن کریم یاد کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے؟ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ چند سورتیں یاد کر لی جاتی ہیں اور انہی کو بار بار ہر نماز اور ہر رکعت میں دہرایا جاتا ہے، اس سے نماز ہو تو جاتی ہے لیکن سنت کے مطابق نہیں ہوتی۔ جناب نبی اکرمؐ کی سنت مبارکہ یہ ہے کہ مختلف نمازوں اور رکعتوں میں مختلف سورتیں پڑھی جائیں اور ایک ہی سورت کو بار بار نہ دہرایا جائے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے میرا اندازہ ہے کہ ہر مسلمان مرد اور عورت کو قرآن کریم کا کم از کم نصف آخری پارہ ضرور یاد کرنا چاہیے، اس کے بغیر پانچ نمازیں سنت نبویؐ کے مطابق ادا کرنا میرے خیال میں مشکل ہے۔ بہرحال ہمارا قرآن کریم پڑھنے سے ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ کچھ سورتیں یاد کر لیں تاکہ انہیں نمازوں میں پٖڑھ سکیں اور ہماری نمازیں صحیح طور پر ادا ہو جائیں۔
قرآن کریم پڑھنے اور سننے سے ہمارا دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ثواب حاصل کریں اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اجر ملے، اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم پڑھنے اور سننے سے اجر ملتا ہے، ثواب حاصل ہوتا ہے اور ہمارے کھاتے میں نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ پڑھنے پر بھی ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور سننے پر بھی ہر حرف پر دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اور دس کا یہ عدد متعین نہیں ہے بلکہ یہ کم از کم کی حد ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا ومن جاء بالسیئۃ فلا یجزٰی الا مثلھا‘‘ (سورہ الانعام ۱۶۰) جس نے نیکی کا کوئی کام کیا اس کے لیے دس گناہ اجر ہے اور جس نے گناہ کا ارتکاب کیا اسے اس کے برابر بدلہ ملے گا۔ نیکی کے ہر کام پر اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کا اجر و ثواب دس گنا سے شروع ہوتا ہے یہ کم از کم کی حد ہے، ثواب میں زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے، وہ کام کرنے والے کے خلوص و توجہ اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی پر موقوف ہے۔ یہ سینکڑوں میں بھی ہو سکتا ہے، ہزاروں میں بھی ہو سکتا ہے اور لاکھوں کروڑوں اور اربوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ کسی سطح پر بھی کوئی اشکال نہیں ہے اس لیے کہ اشکال وہاں ہوتا ہے جہاں دینے والے کو کوئی بجٹ پرابلم ہو کہ اس مد میں اتنی رقم موجود بھی ہے یا نہیں، اللہ تعالیٰ کی کوئی بجٹ پرابلم نہیں ہے اس لیے اس نے کسی نیکی میں زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب کی کوئی حد مقرر نہیں کی۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ یہ آپ کے کنکشن کی پاور پر منحصر ہے کہ وہ کتنے وولٹیج کھینچ سکتا ہے، اُدھر سے کوئی کمی نہیں ہے۔
یہاں ایک بات اور بھی قابل توجہ ہے کہ نیکی اور ثواب کسے کہتے ہیں اور یہ جو دس، بیس، سو، ہزار نیکیاں ملنے کی بات کی جاتی ہے، ان میں عملاً ملتا کیا ہے؟ ایک صاحب نے یہی سوال کیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ آخرت کی کرنسی ہے، ۱س لیے کہ جس طرح دنیا میں ہمارے معاملات اور لین دین ڈالر، یورو، پونڈ، ریال، درہم اور روپے کے ذریعے طے پاتے ہیں اور ہم ان کرنسیوں کے تبادلے سے اپنے معاملات نمٹاتے ہیں، اسی طرح آخرت میں ہمارے معاملات، نیکیوں اور گناہوں کے تبادلے سے طے پائیں گے۔ وہاں ڈالر، ریال اور روپیہ نہیں چلے گا بلکہ کسی بھی شخص کے ساتھ لین دین نمٹانے کے لیے یا نیکیاں دینا پڑیں گی اور یا اس کے گناہ اپنے سر لینے پڑیں گے۔ اس لیے نیکی اور گناہ دونوں آخرت کی کرنسیاں ہیں۔ ایک پازیٹو ہے اور دوسری نیگیٹو ہے اور انہی کے ذریعے ہمارے آخرت کے معاملات نمٹائے جائیں گے۔ ہم دنیا کے کسی ملک میں جاتے ہیں تو جانے سے پہلے وہاں کی کرنسی کا انتظام کرتے ہیں تاکہ وہاں صحیح طور پر وقت گزار سکیں، اسی طرح آخرت کے دور میں داخل ہونے سے پہلے ہمیں وہاں کی زیادہ سے زیادہ کرنسی کا بندوبست کر لینا چاہیے تاکہ وہاں کی زندگی بہتر ہو سکے۔ چنانچہ ہم قرآن کریم اس نیت سے بھی پڑھتے ہیں کہ ثواب حاصل ہو گا۔
تیسرے نمبر پر ہم قرآن کریم کی تلاوت برکت کے لیے کرتے ہیں۔ نیا مکان بنائیں، کاروبار شروع کریں، یا دفتر کھولیں تو برکت کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں۔ ویسے بھی باذوق حضرات اپنے گھروں دکانوں، دفاتر، کھیتوں اور کاروباری مراکز میں قرآن کریم کی تلاوت اور ذکر و افکار کا معمول رکھتے ہیں اور قرآن کریم سے ہمیں یہ فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ یہ بات ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ جہاں قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے وہاں رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے گھروں میں برکت و رحمت کا ماحول نہیں رہا کیونکہ قرآن کریم کی تلاوت نہیں ہوتی، نماز کا ماحول نہیں ہے، ذکر و اذکار کا معمول نہیں ہے اور درود شریف پڑھنے کا ذوق نہیں ہے۔ ہمیں اکثر شکایت رہتی ہے کہ گھروں میں برکت نہیں رہی، باہمی اعتماد کی فضا نہیں رہی، کاروبار میں رکاوٹ رہتی ہے، رشتوں میں جوڑ نہیں ہے اور بے سکونی کی فضا ہے، یہ ماحول جب بڑھتا ہے تو ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ کسی نے کچھ کر دیا ہے اور ہم علماء کرام کے پاس اور عاملوں کے پاس جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ہمارے گھر میں کسی نے کچھ کر دیا ہے آپ بھی کچھ کریں، وہ غریب کچھ نہ کچھ کرتے بھی ہیں، مجھے اس سے انکار نہیں ہے کہ کرنے والے کرتے ہیں، ان کے اثرات بھی ہوتے ہیں اور علاج کرنے والوں کا علاج بھی مؤثر ہوتا ہے، لیکن کیا ہمارے گھروں میں سب کچھ یہی ہو رہا ہے؟ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے، ہماری گھروں میں برکت نہ رہنے اور نحوست و بے برکتی کے پھیلنے کا اصل سبب کچھ اور ہے جس پر ہمیں ضرور غور کرنا چاہیے اور میں پڑھے لکھے دوستوں کو اس پہلو پر غور کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔
( جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: قرا ن کریم کی تلاوت قرا ن کریم پڑھنے زیادہ سے زیادہ اللہ تعالی گھروں میں ہے اس لیے کرتے ہیں اور سننے ہیں اور سکتا ہے حاصل ہو نہیں ہے کچھ کر ہے اور یاد کر کے لیے اور ہم ہیں کہ بھی ہو

پڑھیں:

فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری

غزہ کی صورتحال، فلسطین کی صورتحال، دن بدن نہیں لمحہ بہ لمحہ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتی جا رہی ہے اور اسرائیل تمام اخلاقیات، تمام قوانین، تمام معاہدات کو پامال کرتے ہوئے اس درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اس پر دنیا کی خاموشی بالخصوص عالمِ اسلام کے حکمرانوں پر سکوتِ مرگ طاری ہے۔ مجھے تو بغداد کی تباہی کا منظر نگاہوں کے سامنے آ گیا ہے، جب تاتاریوں کے ہاتھوں خلافتِ عباسیہ کا خاتمہ ہوا تھا، بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی، اور اس وقت بھی کم و بیش یہی صورتحال تھی، آج پھر ’’بغداد‘‘ کی تباہی کا منظر ہمارے سامنے ہے، اسرائیل اور اس کے پشت پناہ، آج وہ چادر جو انہوں نے اوڑھ رکھی تھی، مغرب نے، امریکہ نے، یورپی یونین نے، عالمی طاقتوں نے، انسانی حقوق کی، بین الاقوامی معاہدات کی، انسانی اخلاقیات کی، وہ آج سب کی چادر اسرائیلی درندگی کے ہاتھوں تار تار ہو چکی ہے۔لیکن اس سے زیادہ صورتحال پریشان کن، اضطراب انگیز یہ ہے کہ مسلم حکمران بھی اسی مصلحت کا، مصلحت نہیں بے غیرتی کا شکار ہو گئے ہیں۔ آج او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کو، عرب لیگ کو، مسلم حکمرانوں کو، جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا وہ اس کے لیے مل بیٹھ کر سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ اور امتِ مسلمہ، عالمِ اسلام سناٹے کے عالم میں اپنے حکمرانوں کو دیکھ رہی ہے کہ یہ ہمارے ہی حکمران ہیں، کون ہیں یہ؟لے دے کے دینی حلقوں کی طرف سے دنیا بھر میں کچھ نہ کچھ آواز اٹھ رہی ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ملتِ اسلامیہ بحیثیت ملتِ اسلامیہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ نہیں، اپنی دینی قیادتوں کے ساتھ ہے جو کسی نہ کسی انداز میں اپنی آواز بلند کر رہے ہیں، اس آواز کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔میں اس موقع پر دنیا بھر کے دینی حلقوں سے، علماء کرام سے، یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ آج کی صورتحال کو سمجھنے کے لیے تاتاریوں کی یلغار اور بغداد کی تباہی کا ایک دفعہ پھر مطالعہ کر لیں، کیا ہوا تھا؟ کس نے کیا کیا تھا؟ اور کون سے حلقے تھے جنہوں نے ملتِ اسلامیہ کی تباہی کی راہ ہموار کی تھی اور کون سے لوگ تھے جنہوں نے اس وقت ملتِ اسلامیہ کو سہارا دیا تھا؟ مجھے اس وقت کی دو بڑی شخصیتیں ذہن میں آ رہی ہیں (۱) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ اور (۲) شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلام رحمہ اللہ تعالیٰ، دینی قیادت تھی، سامنے آئے تھے، امت کو سنبھالا تھا، مقابلہ کر سکے یا نہ کر سکے، امت کو سنبھالنا، امت کا حوصلہ قائم رکھنا، اور اپنے مشن کے تسلسل کو قائم رکھنا، یہ تو بہرحال بہرحال دینی قیادتوں کی ذمہ داری ہے، علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ حمیت کو باقی رکھیں، غیرت کو باقی رکھیں۔تو میری پہلی درخواست تو علماء کرام سے ہے، کسی بھی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی فقہی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، کہ آج شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور شیخ الاسلام عز الدین بن عبد السلامؒ کے کردار کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ ویسے تو فقہاء نے لکھا ہے کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمان مظلوم ہوں، ذبح ہو رہے ہوں، تو دنیا بھر کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہو جاتا ہے، ہماری فقہی صورتحال تو یہ ہے، درجہ بدرجہ ’’   علی الاقرب فالاقرب‘‘  ،   ’’الاول فالاول‘‘۔ لیکن بہرحال مجموعی طور پر ہم امتِ مسلمہ پر جہاد کی فرضیت کا اصول اس وقت لاگو نہیں ہو گا تو کب لاگو ہو گا۔
لیکن بہرحال ہمیں اپنے اپنے دائرے میں امتِ مسلمہ کا حوصلہ قائم رکھنے کے لیے، بیدار رکھنے کے لیے، فکری تیاری کے لیے۔اور دو تین محاذ ہمارے ہیں: ایک تو یہ ہے کہ علماء کرام ہر علاقے میں ہر طبقے میں ہر دائرے میں اپنے کردار کو اپنے حوصلے کو قائم رکھتے ہوئے امت کا حوصلہ قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج ایک محاذ میڈیا وار کا بھی ہے، لابنگ کا بھی ہے، اس میں جو لوگ صلاحیت رکھتے ہیں ان کو کوتاہی نہیں کرنی چاہیے، اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور تیسرا محاذ بائیکاٹ کا ہے، اب تو یہ مرحلہ آ گیا ہے، اسرائیل نہیں، اس کے سرپرستوں کے معاشی بائیکاٹ کی بھی ضرورت پیش آ رہی ہے، اور یہ معاشی بائیکاٹ کوئی نئی چیز نہیں ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں معاشی بائیکاٹ حضورؐ کا بھی ہوا ہے، حضورؐ نے بھی کیا ہے۔ شعبِ ابی طالب میں حضورؐ کا ہوا تھا، غزوہ خندق میں حضورؐ نے کیا تھا۔ اور اس کی مختلف مثالیں موجود ہیں۔تو لابنگ کی جنگ، میڈیا کی جنگ، حوصلہ قائم رکھنے کی جنگ، اور معاشی بائیکاٹ، اس میں جس قدر ہم زیادہ توجہ دے سکیں۔ کوئی لکھ سکتا ہے تو لکھے، بول سکتا ہے تو بولے، خرچ کر سکتا ہے تو خرچ کرے، کوئی لوگوں کے ساتھ رابطے کر سکتا ہے تو رابطے کرے۔ جو بھی کسی میں صلاحیت ہے، آج یہ وقت ہے، جو بھی کسی کے پاس موقع ہے، توفیق ہے، صلاحیت ہے، وہ اس کو اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے، فلسطین کی آزادی کے لیے، اسرائیلی درندگی کی مذمت کے لیے، اس میں رکاوٹ کے لیے، مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی آزادی کے لیے، جو بھی کر سکتا ہے وہ کرے۔ہمارے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ ایک مثال دیا کرتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو ایک چڑیا چونچ میں پانی ڈالتی تھی، ایک پرندہ تھا، اس سے کسی نے پوچھا، تیرے پانی ڈالنے سے کیا ہو گا؟ اس نے کہا، ہو گا یا نہیں ہو گا، میری جتنی چونچ ہے اتنا پانی تو میں ڈالوں گی۔ یہ کم از کم کہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ تو کریں، میں دیانت داری کے ساتھ (کہوں گا) کہ مجھے، سب کو اپنے اپنے ماحول کو دیکھنا چاہیے، اپنی اپنی توفیقات کو دیکھنا چاہیے اور جو کر سکتے ہیں اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے مظلوم فلسطینی بھائیوں پر رحم فرمائے، ہم پر رحم فرمائے۔ مولا کریم! فلسطین کی آزادی، غزہ کے مسلمانوں کی اسرائیلی درندگی سے گلوخلاصی، اور اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی بدمعاشی سے نجات دلانے کے لیے اللہ پاک ہمیں توفیق عطا فرمائیں اور خود مہربانی فرمائیں، فضل فرمائیں کہ اس مرحلے پر عالمِ اسلام کی، امتِ مسلمہ کی دستگیری فرمائیں، ان کو اس عذاب سے نجات دلائیں۔

متعلقہ مضامین

  • نئے پوپ کا انتخاب کیسےکیا جاتا ہے؟
  • ’باپ تو سپر مین ہوتا ہے‘، بچے کو گرمی سے بچانے کے لیے باپ نے سیٹ پر ہاتھ رکھ لیے، ویڈیو وائرل
  • فلسطین کی صورتحال اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
  • امرود
  • حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
  • بجلی
  • کسی صوبے کا دوسرے صوبے کے پانی پر ڈاکا ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا: احسن اقبال
  • شوہر کے ظالمانہ طرزعمل پر خلع لینے والی خاتون کا حقِ مہر ساقط نہیں ہوتا، لاہور ہائیکورٹ
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے