WE News:
2025-04-22@18:56:37 GMT

26 ویں ترمیم کے بعد اصل مسئلہ: چیف جسٹس کی تعیناتی

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

پچھلے ہفتے لکھا تھا کہ سپریم کورٹ آئینی بحران کے دہانے پر ہے۔ آج سپریم کورٹ آئینی بحران کے درمیان گھر چکی ہے۔ اگرچہ اس وقت میڈیا اور تجزیہ کاروں کی توجہ ’آئینی بنچ‘ کی تشکیل اور اس بنچ اور سپریم کورٹ کے دیگر بنچوں کے درمیان اختیارِ سماعت کے مسئلے پر ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ بحران کی جڑوں میں ایک اور اہم مسئلہ موجود ہے، اور وہ ہے چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کا مسئلہ۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد سب سے سینیئر جج جسٹس سید منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے کی صورت میں بحران یا تو پیدا نہ ہوتا یا اس کی نوعیت تبدیل ہوتی۔

چیف جسٹس کی تعیناتی کا اختیار کس کے پاس ہے؟

1973ء میں جب آئین نافذ کیا گیا، تو اس کی دفعہ 177 میں قرار دیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی صدر کرے گا، تاہم چونکہ اس آئین میں صدر کی حیثیت محض علامتی تھی اور دفعہ 48 کی تصریح کے مطابق وہ وزیرِ اعظم کے مشورے کا پابند تھا، اس لیے عملاً یہ اختیار وزیرِ اعظم کے پاس رہا۔ مارشل لا اور 8 ویں ترمیم کے بعد اگرچہ طاقت کا توازن کسی حد صدر کے حق میں ہوا، لیکن اس معاملے میں اہمیت وزیرِ اعظم ہی کی رہی۔  آئین کی دفعہ 180 میں تصریح کی گئی تھی کہ کسی وقت چیف جسٹس کا منصب خالی ہو، تو صدر باقی ججوں میں سب سے سینیئر جج کو قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر تعینات کرے گا۔  تاہم مستقل چیف جسٹس کےلیے ایسی تصریح آئین کے متن میں موجود نہیں تھی۔

’الجہاد ٹرسٹ کیس‘ کے بعد

1996ء میں ’الجہاد ٹرسٹ کیس‘ کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے طے کیا کہ  سب سے سینیئر جج کی تعیناتی کا یہ اصول مستقل چیف جسٹس کے لیے بھی ہے۔ جس وقت یہ فیصلہ دیا گیا، اس وقت جسٹس سجاد علی شاہ ملک کے چیف جسٹس تھے اور وہ اس بنچ کا حصہ بھی تھے۔ تعیناتی کے وقت وہ سب سے سے سینیئر جج نہیں تھے۔ تاہم ان پر اس اصول کا اطلاق نہیں کیا گیا، بلکہ تقریباً 2 سال بعد جب ان کے تعلقات حکومت کے ساتھ خراب ہوگئے، تو اس معاملے کو اٹھایا گیا اور پھر سپریم کورٹ کے جج تقسیم ہوگئے اور کوئٹہ میں سپریم کورٹ کی رجسٹری  میں موجود بنچ نے چیف جسٹس کے خلاف فیصلہ دے کر ان کو کام سے روک دیا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ ایک سنگین آئینی بحران کے دہانے پر

چیف جسٹس نے مزاحمت کی اور معاملہ تصادم کی طرف گیا اور ایک موقع پر’عدلیہ کی آزادی‘ کے تحفظ کے نام پر چیف جسٹس اور ان کے ساتھیوں نے آئین کی 13ویں اور 14ویں ترامیم کو بھی معطل کردیا۔ انہوں نے آئین کی دفعہ 190 کا حوالہ دے کر فوج اور دیگر اداروں سے مدد بھی طلب کی، لیکن اس وقت کے آرمی چیف نے معاملہ وزارتِ دفاع کی طرف بھیج دیا۔ بحران کا خاتمہ تب ہوا جب چیف جسٹس کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور پھر ’ملک اسد کیس‘ میں سپریم کورٹ کو یہ بھی طے کرنا پڑا کہ جس چیف جسٹس کی تعیناتی غلط ہوئی تھی، ان کے کون سے فیصلے ایسے ہیں جنھیں اب کھولا نہیں جاسکتا کیونکہ انھیں اب’گزرا ہوا اور ختم ہوا معاملہ‘(past and closed transaction) سمجھا جائے گا۔

واضح رہے کہ پچھلے ہفتے ایک مقدمے میں جب 26ویں ترمیم کے تحت آئین میں شامل کی گئی دفعہ 191-اے  کا معاملہ آیا، تو جسٹس سید منصور علی شاہ نے اپنے حکمنامے میں آئین کی دفعہ 190 کا بھی حوالہ دیا اور ملک اسد کیس کا بھی۔ اس لیے اس معاملے کو اس تناظر میں دیکھنا لازم ہے۔

18ویں ترمیم کے بعد

2010ء میں پارلیمان نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے دفعہ 175-اے کا اضافہ کیا جس کی ذیلی دفعہ 3 میں یہ تصریح کی گئی کہ سپریم کورٹ کے ججوں میں سب سے سینیئر جج کو چیف جسٹس تعینات کیا جائے گا۔ یوں الجہاد ٹرسٹ کیس میں طے کیا گیا اصول اب آئین کے متن کا حصہ قرار پایا۔ واضح رہے کہ یہ بات صرف سپریم کورٹ کےلیے ہی کی گئی اور ہائی کورٹ یا شریعت کورٹ کے چیف جسٹس کےلیے اس کی تصریح نہیں کی گئی۔ تاہم وہاں بھی عموماً اس اصول پر عمل ہوتا رہا۔

مزید پڑھیے: 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عمران خان کے خلاف فیصلے کی اصل نوعیت

18ویں ترمیم کی منظوری کے ذریعے پارلیمان نے ججوں کی تقرری کے معاملے میں توازن اپنے حق میں کیا ، لیکن اس آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور پھر اس خطرے کے پیشِ نظر کہ سپریم کورٹ اس ترمیم کو کالعدم نہ کردے، پارلیمان 19 ویں ترمیم کرکے ججوں کی تقرری کے طریقِ کار میں ایک دفعہ پھر عدلیہ کو فیصلہ کن مقام دینے پر آمادہ ہوگئی۔

جیوڈیشل کمیشن یا چیف جسٹس؟

18ویں اور 19ویں ترامیم کے ذریعے باقی ججوں کی تعیناتی کے لیے اصولاً تو اختیار جیوڈیشل کمیشن کو دیا گیا، لیکن جیوڈیشل کمیشن نے 2010ء میں جو رولز بنائے ان کے ذریعے عملاً یہ اختیار چیف جسٹس نے لے لیا۔ بیچ میں ایک آدھ دفعہ پارلیمانی کمیٹی نے جیوڈیشل کمیشن کی سفارش کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی، تو سپریم کورٹ نے یہ کوشش ناکام بنادی اور پارلیمانی کمیٹی محض ایک ربر اسٹیمپ بن کر رہ گئی۔

مزید پڑھیں: ایک انسان کی زندگی بچانے کےلیے کتنی رقم صرف کرنی چاہیے؟

کئی بار جیوڈیشل کمیشن کے اندر سے بھی اختلافی آوازیں اٹھیں، بالخصوص ستمبر 2019ء کے بعد جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کمیشن کے رکن بنے۔ قاضی صاحب کے بنیادی اعتراض یہ تھا کہ آئین نے تعیناتی کا اختیار کمیشن کو دیا ہے، نہ کہ چیف جسٹس کو، اس لیے خالی اسامی کےلیے کمیشن کا کوئی بھی رکن کسی کو نامزد کرسکتا ہے؛ یعنی نامزدگی کےلیے ضروری نہیں کہ وہ چیف جسٹس ہی کی جانب سے ہو۔

کمیشن کے رولز میں ترمیم کی کوشش

17 ستمبر 2023ء کو قاضی صاحب نے چیف جسٹس کے عہدے کا حلف اٹھایا اور 28 ستمبر کو انھوں نے جیوڈیشل کمیشن کے تمام ارکان اور پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلوں کے نمائندگان کو خط لکھ کر ان سے جیوڈیشل کمیشن رولز 2010ء میں تبدیلی کے لیے تجاویز طلب کیں۔ اس خط کے جواب میں کئی تفصیلی تجاویز آئیں۔ 4 دسمبر 2023ء کو جب اس مقصد کےلیے کمیشن کا اجلاس منعقد ہوا، تو اس میں جسٹس منیب اختر نے اعتراض کیا کہ چونکہ اس وقت ملک میں نگران حکومت ہے اور اٹارنی جنرل اور وفاقی وزیرِ قانون نگران حکومت کی جانب سے تعینات کیے گئے ہیں، اس لیے رولز میں ترمیم کا معاملہ انتخابات کے بعد تک مؤخر کردینا چاہیے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی ان کی تائید کی۔ تفصیلی مباحثے کے بعد کمیشن نے رولز میں ترامیم کا مسودہ تیار کرنے کےلیے جسٹس منظور ملک، سابق جج سپریم کورٹ، اور جسٹس سید منصور علی شاہ کی مشترکہ سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی جس میں تمام ہائی کورٹوں کے سب سے سینیئر ججوں کے علاوہ پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلوں کے نمائندوں کو رکن بنایا گیا۔ کمیٹی کو اختیار دیا گیا کہ وہ کسی اور شخص کو بھی کمیٹی کی معاونت کےلیے بلا سکتی ہے۔ جب نئے رولز کا مسودہ تیار ہوا، تو 27 فروری 2024ء کو اسے کمیشن کے ارکان کو بھیجا گیا تاکہ وہ اس پر اپنی راے دے سکیں۔

پہلی بار آئینی ترمیم کی خبر

اس مسودے اور اس پر دی گئی تجاویز پر غور کے لیے 3 مئی 2024ء کو کمیشن کا اجلاس بلایا گیا۔ اس دن اجلاس سے قبل چیف جسٹس کے دفتر میں ایک غیر رسمی ملاقات میں وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے جسٹس منصور کی موجودگی میں یہ انکشاف کیا کہ حکومت ایک آئینی ترمیم لارہی ہے جس میں چیف جسٹس کے عہدے کی مدت 3 سال مقرر کی جائے گی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر ایسی کوئی ترمیم ہوئی، تو وہ اسے اپنے لیے تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ یہ ’مخصوص شخص کےلیے بنایا گیا قانون‘ (person-specific law) ہوگا۔

رولز میں ترامیم کا معاملہ مؤخر

جب کمیشن کا اجلاس شروع ہوا، تو وفاقی وزیرِ قانون نے تجویز کیا کہ حکومت چونکہ ایک آئینی ترمیم کرنے جارہی ہے جس میں ججوں کی تعیناتی کا طریقِ کار بھی تبدیل ہوسکتا ہے، اس لیے کمیشن کے رولز میں ترمیم کی اس مشق کو مؤخر کیا جائے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موقف تھا کہ ترمیم تو ابھی ہوئی نہیں ہے اور پتا نہیں اس کی آخری صورت کیا ہو، اس لیے مسودے پر بحث کو مؤخر نہیں کرنا چاہیے، بالخصوص جبکہ اس مسودے پر اتنی محنت ہوئی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وہ مجوّزہ ترمیم کی تفصیلات تو نہیں پوچھیں گے لیکن وفاقی وزیرِ قانون صرف اتنا بتادیں کہ کیا اس ترمیم سے جیوڈیشل کمیشن کی ساخت تبدیل ہوسکتی ہے؟ تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد وزیرِ قانون نے جواب دیا کہ اس کا امکان ہے۔ اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اگر ایسی بات ہے، تو پھر میرا مؤقف یہ ہے کہ ہمیں کمیشن کے رولز میں ترامیم کے مسودے پر بات نہیں کرنی چاہیے۔ قاضی صاحب نے ان کو قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن کچھ بحث کے بعد یہ طے ہوا کہ اجلاس کے ارکان سے ووٹنگ کرائی جائے۔ اس ووٹنگ میں صرف لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رائے کی حمایت کی اور باقی سب نے یہ معاملہ مؤخر کرنے کے حق میں راے دی۔  اہم بات یہ ہے کہ جسٹس منصور نے بھی اس مسودے پر بحث کےلیے اصرار نہیں کیا حالانکہ یہ مسودہ انہی کی کاوشوں سے بنا تھا۔

جسٹس منصور کمیٹی کی ایک اہم تجویز

اس مسودے میں ایک اصول یہ تجویز کیا گیا تھا کہ ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے سب سے سینیئر 3 ججوں کے نام زیرِ غور لانا چاہیے اور کمیشن ان میں کسی ایک کی تعیناتی کی سفارش کرسکے گا، لیکن ان 3 میں سینیئر کو نظر انداز کرنے کے لیے تحریری وجوہات ذکر کرنی ہوں گی۔ یہی اصول ہائی کورٹ کے کسی جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کے لیے بھی تجویز کیا گیا تھا۔ البتہ چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کے لیے ایسا کوئی اصول ذکر نہیں کیا گیا اور اس کی وجہ واضح تھی: چیف جسٹس آف پاکستان کا سب ججوں میں سینیئر ہونا آئین کہ کی رو سے لازم تھا اور رولز کے ذریعے آئین میں ترمیم ممکن نہیں تھی۔

اس تجویز پر عمل

7 جون 2024ء کو سپریم کورٹ میں ججوں کی 3 خالی اسامیوں پر تعیناتی کےلیے کمیشن کا اجلاس ہوا، تو کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ سے جسٹس شاہد بلال حسن  کے نام پر اتفاق کیا حالانکہ ان کے اور چیف جسٹس ملک شہزاد کے درمیان کے 2 سینیئر جج تھے۔ یہ بات اہم ہے کہ ان 2 سینیئر ججوں کو ’سپرسیڈ‘ کرنے کے فیصلے سے جسٹس منصور اور جسٹس منیب بھی متفق تھے۔

یہ بھی پڑھیے: کیا غیر منصفانہ قانون کی پابندی لازم ہے؟

اس کے بعد 2 جولائی 2024ء کو لاہور ہائی کورٹ کےچیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے کمیشن کا اجلاس ہوا، تو ایک دفعہ پھر 2 سینیئر ججوں کو زیرِ غور لانے کے بعد انہیں چھوڑ کر تیسرے نمبر پر موجود جسٹس عالیہ نیلم کو چیف جسٹس تعینات کیا گیا، اور یہ فیصلہ بھی جسٹس منیب اور جسٹس منصور سمیت تمام ارکان کے اتفاقِ رائے سے کیا گیا۔

مکافاتِ عمل؟

شاید اسی بنا پر جب 26 ویں ترمیم کے پہلے شکار جسٹس منصور اور جسٹس منیب بنے اور انہیں ’سپرسیڈ‘ کرکے تیسرے نمبر پر موجود جسٹس آفریدی کو چیف جسٹس بنایا گیا، تو کئی لوگوں نے اسے’مکافاتِ عمل‘ کہا۔ مجھے ان سے اتفاق نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جو اصول خود جسٹس منصور کی سربراہی میں کمیٹی نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کےلیے طے کیا اور خود جسٹس منصور نے لاہور ہائی کورٹ کےلیے اس پر عمل بھی کیا، وہی اصول جب پارلیمان نے آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کےلیے مقرر کیا، تو اس پر اعتراض چہ معنی دارد؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے آپ چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ آپ سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داریاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ آپ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

26ویں آئینی ترمیم الجہاد ٹرسٹ کیس جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس کی تعیناتی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: 26ویں ا ئینی ترمیم الجہاد ٹرسٹ کیس جوڈیشل کمیشن چیف جسٹس کی تعیناتی چیف جسٹس قاضی فائز عیسی چیف جسٹس کی تعیناتی چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کے لیے کورٹ کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ الجہاد ٹرسٹ کیس کمیشن کا اجلاس سپریم کورٹ کے کہ سپریم کورٹ کی تعیناتی کا ویں ترمیم کے ہائی کورٹ کے لیے کمیشن کا چیف جسٹس کے وفاقی وزیر کمیشن کے رولز میں کورٹ میں اور جسٹس کے ذریعے ترمیم کی یہ ہے کہ کی دفعہ کیا گیا آئین کی علی شاہ کرنے کے میں ایک ججوں کی گیا اور دیا گیا نہیں کی کے بعد 2024ء کو کیا کہ اس لیے کی گئی تھا کہ

پڑھیں:

ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ

ویب ڈیسک : صنم جاوید کی 9 مئی مقدمے سے بریت کے خلاف کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں۔

سپریم کورٹ میں  9 مئی مقدمات میں صنم جاوید کی بریت کے فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل پر سماعت ہوئی،  جس میں حکومتی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  صنم جاوید کے ریمانڈ کیخلاف لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر ہوئی۔ ریمانڈ کیخلاف درخواست میں لاہور ہائیکورٹ نے ملزمہ کو مقدمے سے بری کردیا۔

صوبہ بھر میں انفورسمنٹ سٹیشن قائم کرنے کا فیصلہ، وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر صدارت خصوصی اجلاس

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ ان کیسز میں تو عدالت سے ہدایات جاری ہوچکی ہیں کہ 4 ماہ میں فیصلہ کیا جائے۔ اب آپ یہ مقدمہ کیوں چلانا چاہتے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ ہائی کورٹ نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر فیصلہ دیا اور ملزمہ کو بری کیا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ میرا اس حوالے سے فیصلہ موجود ہے کہ ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں۔ اگر ہائیکورٹ کو کوئی خط بھی ملے کہ ناانصافی ہورہی تو وہ اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔ اگر ناانصافی ہو تو اس پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔

  واٹس ایپ کا ویڈیو کالز کیلئے فلٹرز، ایفیکٹس اور بیک گراؤنڈز تبدیل کرنے کا نیا فیچر

وکیل پنجاب حکومت نے کہا کہ ہائیکورٹ سوموٹو اختیارات کا استعمال نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس صلاح الدین  نے ریمارکس دیے کہ کریمنل ریویژن میں ہائی کورٹ کے پاس تو سوموٹو کے اختیارات بھی ہوتے ہیں۔

صنم جاوید کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے ہائیکورٹ میں ریمانڈ کے ساتھ بریت کی درخواست بھی دائر کی تھی۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ آہپ کو ایک سال بعد یاد آیا کہ ملزمہ نے جرم کیا ہے؟ جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ شریک ملزم کے اعترافی بیان کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے آپ کو بھی معلوم ہے۔ اس کیس میں جو کچھ ہے بس ہم کچھ نہ ہی بولیں تو ٹھیک ہے۔

لاہور؛ بین الاصوبائی گینگ کا سرغنہ مارا گیا

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس میں کہا کہ ہائی کورٹ کا جج اپنے فیصلے میں بہت آگے چلا گیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے غصے میں فیصلہ دیا۔  بعد ازاں عدالت نے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔

Ansa Awais Content Writer

متعلقہ مضامین

  • 26ویں ترمیم معاملہ، بانی کی پی ٹی آئی قیادت کو چیف جسٹس کو خط لکھنے کی ہدایت، فیصل چوہدری
  • ججزٹرانسفرکیس : رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ آئینی بنچ کو جواب جمع کرا دیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کے تبادلے کیخلاف کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • سابق جج سپریم کورٹ جسٹس سرمد جلال عثمانی انتقال کر گئے
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈسرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائمقام چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • چیف جسٹس ایس سی او جوڈیشنل کانفرنس کیلیے آج چین جائیں گے