اسلام آباد (صباح نیوز) عدالت عظمیٰ نے رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کیخلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ سنا دیا، جس میں عدالت نے قرار دیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اور ججز آئینی کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا، جس میں کہا گیا کہ نذر عباس نے جان بوجھ کر توہین عدالت نہیں کی۔نذر عباس کیخلاف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جاتا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اور ججز آئینی کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا۔ دونوں ججز کمیٹیوں کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کے لیے معاملہ چیف جسٹس پاکستان کو بھیجا جاتا ہے۔ بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ چیف جسٹس پاکستان اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیں۔ دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے دو سوالات تھے۔ کیا ایک ریگولر بینچ سے جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں کیس واپس لیا جاسکتا ہے اور دوسرا سوال یہ تھا کہ انتظامی آرڈر کے ذریعے جوڈیشل آرڈر کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو اختیار نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل آرڈر کے باوجود کیس واپس لے۔ ججز آئینی کمیٹی کو بھی یہ اختیار ہی نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں انتظامی آرڈر کے ذریعے کیس واپس لیتی۔ عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا کہ نذر عباس کی کوئی غلطی نہیں ہے، نہ ہی انہوں نے جان بوجھ کر کیس فکس کرنے میں غفلت برتی۔ نذر عباس کا کیس فکس نہ کرنے پر کوئی ان کا ذاتی مفاد نہیں تھا۔ نذر عباس کے اقدام میں کوئی بدنیتی ظاہر نہیں ہو رہی۔ نذر عباس کا اقدام توہینِ عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔ نذر عباس کی وضاحت قبول کرکے توہینِ عدالت کی کارروائی ختم کرتے ہیں۔عدالت نے قرار دیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس واپس لیا جو اس کو اختیار ہی نہیں تھا۔ ججز آئینی کمیٹی نے بھی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا۔ ججز کمیٹیوں نے جوڈیشل آرڈر نظر انداز کیا یا نہیں، یہ معاملہ فل کورٹ ہی طے کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے 14 رکنی بینچ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ معاملے کو دیکھنے کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو فل کورٹ کے لیے بھجواتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ تشکیل دے کر اس معاملے کو دیکھیں۔ فل کورٹ آئین کے آرٹیکل 175 کی شق 6 کے تحت اس معاملے کو دیکھے۔ کسٹمز ایکٹ سے متعلق کیس غلط انداز میں ہم سے لیا گیا۔ کسٹمز کیس واپس اسی بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے جس 3رکنی بینچ نے یہ کیس پہلے سنا تھا۔بعد ازاںجسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے توہین عدالت کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔عدالتی فیصلے میں تحریر کیا گیا ہے کہ ہم نے اس سوال پر بھی غور کیا ہے کہ کیا مبینہ توہین کے مرتکب افراد کے خلاف شوکاز نوٹس ختم ہونے کے بعد معاملے کو نمٹا ہوا سمجھا جائے یا یہ معاملہ ان 2کمیٹیوں کے اراکین کے خلاف مزید کارروائی کے لیے جاری رہے۔فیصلے کے مطابق پہلی کمیٹی نے غیر قانونی طور پر زیر سماعت مقدمات کو ایک بینچ سے واپس لے کر انتظامی حکم کے ذریعے دوسری کمیٹی کے سپرد کیا۔ جس سے عدالتی حکم کا اثر زائل ہوا۔دوسری کمیٹی نے عدالتی حکم کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے محض پہلی کمیٹی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مقدمہ 27 جنوری 2025 کو آئینی بینچ کے سامنے مقرر کر دیا۔ 2 رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ دونوں کمیٹیاں 17 جنوری 2025 کو عدالتی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایسے انتظامی فیصلے لینے کی مجاز نہیں تھیں۔ اس پس منظر میں یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان دو کمیٹیوں کے اراکین کے خلاف مزید کارروائی کی جانی چاہیے۔ تاہم عدالتی روایات اور وقار کا تقاضا ہے کہ اس سوال کو سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے ذریعے طے کیا جائے تاکہ اسے حتمی اور مستند طور پر حل کیا جا سکے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ہم یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ ایک ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کو اتنی اہمیت دی گئی کہ 14 ججوں پر مشتمل ایک بڑا بینچ تشکیل دیا گیا۔ ہٰذا ہماری رائے میں یہ مسئلہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ جو اس عدالت کے تمام ججوں کی اجتماعی اور ادارہ جاتی غور و فکر کا متقاضی ہے۔ اس لیے ہم اس معاملے کو چیف جسٹس کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ فل کورٹ تشکیل دے کر اس اہم مسئلے پر غور اور فیصلہ کیا جا سکے۔ فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کو ایکٹ کی دفعہ 2 کے تحت قائم کمیٹی کے حوالے نہیں کیا گیا کیونکہ اس کی اتھارٹی سپریم کورٹ کے بینچز کی تشکیل تک محدود ہے۔ عدالت کے بینچز اور فل کورٹ کے درمیان فرق آئین کے آرٹیکل 203J(2)(c) اور (d) کی دفعات میں تسلیم شدہ ہے اور فل کورٹ بلانے کی ذمے داری روایتی طور پر چیف جسٹس کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔ بینچ نے مزید لکھا کہ اس فیصلے کے اختتام سے قبل ہم تمام عدالتی معاونین کے قیمتی تعاون اور ان کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ خاص طور پر اتنے مختصر نوٹس پر عدالتی معاونین نے معاونت کی، جس پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ججز ا ئینی کمیٹی نے جوڈیشل ا رڈر کو نظر نے فیصلے میں کہا کہ چیف جسٹس پاکستان نے جوڈیشل ا رڈر نظر انداز کیا اس معاملے کو نذر عباس کی خلاف توہین عدالت کی کیس واپس نہیں تھا عدالت نے کے ذریعے کے خلاف فل کورٹ کورٹ کے گیا کہ کے لیے

پڑھیں:

سپریم کورٹ پر حملے بی جے پی کی سوچی سمجھی سازش ہے، کانگریس

کانگریس لیڈر کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ آئین کی حفاظت کر رہی ہے لیکن بی جے پی کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ اسکا اصل مسئلہ سپریم کورٹ سے نہیں بلکہ ہندوستان کے آئین سے ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا اور چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف بی جے پی رکن پارلیمان نشی کانت دوبے کے بیان پر سیاسی ہنگامہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ کانگریس کے سینیئر لیڈر پون کھیڑا نے کہا کہ یہ محض اتفاق نہیں ہے بلکہ سوچی سمجھی حکمت عملی اور سازش ہے۔ انہوں نے براہ راست بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو نشانے پر لیتے ہوئے کہا ہے کہ دوبے اور نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ اس طرح کے بیانات وزیر اعظم کی خاموش منظوری کے بغیر نہیں دے سکتے۔ پون کھیڑا نے ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ بی جے پی کی طرف سے سپریم کورٹ اور چیف جسٹس پر حملہ ایک تجرباتی سیاسی حملہ ہے، جو اس لئے کیا جا رہا ہے کیونکہ سپریم کورٹ بی جے پی کے غیر آئینی اقدامات پر روک لگا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ آئین کی حفاظت کر رہی ہے لیکن بی جے پی کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ اس کا اصل مسئلہ سپریم کورٹ سے نہیں بلکہ ہندوستان کے آئین سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف ایکٹ، پلیسز آف ورشپ ایکٹ اور اپوزیشن ریاستوں میں گورنروں کے کردار جیسے معاملات پر بی جے پی کو اس لئے تکلیف ہے کہ سپریم کورٹ نے ان کے سیاسی عزائم پر روک لگا دی ہے۔ تاہم پون کھیڑا کی اصل توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ یہ سب بیانات ایک خاص مقصد کے تحت دیے جا رہے ہیں اور وزیر اعظم کی خاموشی خود ایک سوال بن چکی ہے۔

اپنے ویڈیو بیان میں بھی پون کھیڑا نے نشی کانت دوبے کے بیان کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر بی جے پی واقعی عدالت کی آزادی اور احترام پر یقین رکھتی ہے تو دوبے پر کیا کارروائی کی گئی ہے، کیا انہیں شوکاز نوٹس دیا گیا، کیا ان سے وضاحت طلب کی گئی، اگر نہیں، تو کیا ہم یہ مان لیں کہ بی جے پی اس بیان کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ پون کھیڑا نے مزید کہا کہ بی جے پی کی سیاست اب عدالت عظمیٰ کو بھی نشانہ بنانے لگی ہے، کیونکہ وہ اس کی راہ میں آئینی رکاوٹ بن رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ محض چند افراد کے بیانات نہیں، بلکہ آئین کے خلاف ایک ذہن سازی کی مہم ہے۔

اس درمیان معروف وکیل انس تنویر نے نشی کانت دوبے کے خلاف سپریم کورٹ میں فوجداری توہین عدالت کی کارروائی کے لئے اٹارنی جنرل کو خط لکھا ہے۔ انہوں نے دوبے کے بیان کو انتہائی توہین آمیز اور عدالت کی ساکھ کو مجروح کرنے کی دانستہ کوشش قرار دیا۔ انس تنویر کا کہنا ہے کہ دوبے نے سپریم کورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر قانون سپریم کورٹ کو ہی بنانا ہے تو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں کو بند کر دینا چاہیئے، جو آئینی اداروں کے درمیان عدم توازن پیدا کرنے والی بات ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس سنجیو کھنہ کو مبینہ طور پر ملک میں خانہ جنگی کا ذمہ دار ٹھہرانے پر بھی سخت اعتراض کیا اور کہا کہ یہ بیان نہ صرف غیر ذمے دارانہ ہے بلکہ ملک کی عدلیہ کے وقار کے لئے خطرناک بھی ہے۔

اس معاملے پر کانگریس کے دیگر لیڈران بھی میدان میں آ گئے ہیں۔ جے رام رمیش نے بی جے پی کی وضاحت کو صرف ڈیمیج کنٹرول قرار دیا اور کہا کہ صرف زبانی فاصلہ بنانے سے کچھ نہیں ہوگا، بی جے پی کو واضح کرنا ہوگا کہ وہ آئین کے ساتھ کھڑی ہے یا ایسے بیانات دینے والے افراد کے ساتھ۔ انہوں نے کہا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی اور بی جے پی قیادت اس بڑھتے دباؤ کا جواب کس انداز میں دیتی ہے اور آیا نشی کانت دوبے کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کا مطالبہ واضح ہے کہ سپریم کورٹ پر حملے بند ہوں اور بی جے پی کے ذمہ داروں کا محاسبہ ہو۔

متعلقہ مضامین

  • شیخ رشید کی بریت کی اپیل، پنجاب حکومت نے شواہد پیش کرنے کیلئے وقت مانگ لیا
  • ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ کے صنم جاوید کی بریت فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پرریمارکس
  • دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آگیا
  • سندھ: سول ججز اور جوڈیشل مجسٹریٹس کی بھرتیوں کا کیس، فیصلہ محفوظ
  • لاہور ہائیکورٹ نے خلع کی صورت میں خواتین کے حق مہر کے حوالے سے اصول وضع کردیے
  • لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ، خلع لینے والی خاتون بھی حق مہر کی حق دار
  • سپریم کورٹ پر حملے بی جے پی کی سوچی سمجھی سازش ہے، کانگریس
  • چیف جسٹس ایس سی او جوڈیشل کانفرنس کیلئے آج چین جائیں گے
  • امریکا، سپریم کورٹ نے وینزویلا کے تارکین وطن کو بیدخل کرنے سے روک دیا
  • لاہور: سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی کیخلاف درخواستیں سماعت کیلئے مقرر