نئے سال میں دنیا کی امیرترین شخصیات کی فہرست جاری، پہلا نمبر بھی سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 21st, January 2025 GMT
NEWYORK:
نئے سال کے ساتھ دنیا کے امیرترین ارب پتی شخصیات کی فہرست جاری کردی گئی ہے، جس میں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی کاروباری شخصیات اور انٹرپرینیورز کے نام شامل ہیں، جن کی دولت میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
فوربز کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں دولت کے اضافے میں 500 امیر ترین افراد کی ذاتی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور ایک مثالی سنگ میل عبور کرلیا ہے۔
ان افراد میں ایلون مسک، مارک زکربرگ اور جینسین ہوانگ کی مجوعی دولت 10 ٹریلین ڈالر ہے اور بتایا گیا ہے اس دولت کو امریکی ٹیکنالوجی اسٹاک سے جوڑا جاسکتا ہے کیونکہ مذکورہ امیر ترین افراد کی دولت میں اضافے کا ایک اہم سبب یہ ہے۔
ٹیکنالوجی کے شعبے کے سرفہرست ناموں میں لیری الیسن، جیف بیزوز، مائیکل ڈیل اور گوگل کے شریک بانی لیری پیج اور سیرگے برین شامل ہیں اور ان کی دولت میں بھی مجموعی طور پر نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ٹیکنالوجی کے ان 6 سرفہرست ناموں کا 1.
فوربز کی 2025 کی امیر ترین شخصیات کی فہرست کے ساتھ ان ممالک کے نام بھی شامل کیے گئے ہیں جہاں سب سے زیادہ دولت میں اضافہ ہوا ہے یا ان ممالک سے تعلق رکھنے والے افرد کی دولت سب سے زیادہ ہے۔
ان ممالک میں امریکا 813 ارب ڈالر کے ساتھ پہلے، چین 473 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، اسی طرح بھارت نے 200 ارب ڈالر کے ساتھ تیسری پوزیشن حاصل کرلی ہے، جس سے مثالی قرار دیا گیا ہے۔
فوربز نے 2025 کے لیے درج ذیل شخصیات کو دنیا کے 10 امیرترین افراد کی فہرست میں شامل کرلیا ہے:
امریکا سے تعلق رکھنے والے ایلون مسک کو فوربز نے پہلے نمبر پر رکھا ہے اور ان کی دولت کا حجم 733.9 ارب ڈالر ہے اور کی دولت کا بنیادی ذریعہ الیکٹرک کار بنانے والی کمپنی ٹیسلا اور اسپیس ایکس ہے۔
ایلون مسک گزشتہ برس 400 ارب ڈالر کی دولت بنانے والی شخصیت بننے کا ریکارڈ بنا چکے ہیں اور اسپیس ایکس کی ویلیو 350 ارب ڈالر بتائی گئی تھی۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم میں بھرپور حصہ لینے والے مسک کی دولت میں یکم دسمبر کے بعد بڑا اضافہ ہوا ہے اور اس کا اندازہ تقریباً 91 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔
مسک کی کمپنی اسپیس ایکس دنیا بھر میں نجی کمپنیوں میں سب سے امیرترین کمپنی کی پوزیشن پر آگئی ہے۔
ایلون مسک کی دیگر کمپنیوں میں ٹیسلا، سوشل میڈیا کمپنی ایکس، اے آئی کمپنی ایکس اے آئی اور بورنگ کو بھی شامل ہیں، جو ان کی اربوں ڈالر دولت میں روز بروز حیران اضافےکا باعث بن رہی ہیں۔
امریکا کے کاروباری جیف بیزوز 239.4 ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں اور ان کی دولت کا محور امیزون ہے تاہم ان کی دولت کا حجم ایلون مسک کے مقابلے میں تقریباً نصف ہے۔
فیس بک کے ذریعے دنیا میں سماجی رابطوں میں انقلاب برپا کرنے والے مارک زکربرگ کا تعلق بھی امریکا سے ہے اور وہ 211.8 ارب ڈالر دولت کے ساتھ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہیں۔
مارک زکربرگ کی دولت کی بنیاد فیس بک ہے، جو آج بھی دنیا بھر میں سماجی رابطوں کی مقبول ویب سائٹ ہے۔
فوربز کی فہرست میں چوتھے نمبر پر امریکا کے لیری الیسن ہیں، اوریکل کے مالک کی دولت 204.6 ارب ڈالر ہے اور اوریکل سے ہی ان کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
دنیا کے امیرترین افراد کی فہرست میں پہلے 4 نمبروں کے بعد پانچواں نام فرانس سے ہے، برنارڈ آرنلٹ اینڈ فیملی کی دولت ایل وی ایم ایچ کمپنی سے 181.3 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
فوربز کی فہرست میں چھٹا نمبر پر امریکا کا ہے، گوگل کے بانی لیری پیج 161.4 ارب ڈالر دولت کے ساتھ دنیا کے چھٹے امیر ترین شخص ہیں۔
دنیا کے امیرترین افراد میں ساتواں نمبر امریکا کے سیرگی برین کا ہے، گوگل کے شریک بانی کی دولت 154.0 ارب ڈالر ہے۔
آٹھواں نمبر ویرن بفیٹ کا ہے، امریکی شہری ویرن نے اپنی کمپنی بریکشائر ہیتھاوے کی مدد سے اپنی دولت 146.2 ارب ڈالر بنائی ہے۔
مائیکروسوفٹ سے جڑے اسٹیو بالمر بھی امریکی شہری ہے اور دنیا کے دولت مند افراد میں ان کا نمبر 9 ہے، مائیکروسوفٹ کمپنی ان کی دولت کی بنیاد ہے اور دولت کا حجم 126 ارب ڈالر ہے۔
فوربز کی 2025 کی دنیا کے امیرترین افراد کی فہرست کے 10 ویں نمبر پر امریکا سے تعلق رکھنے والے جین سین ہوانگ ہیں، ان کی کمائی کا باعث بننے والی کمپنی نیویڈیا (این وی آئی ڈی آئی اے) ہے، جس سے ان کی دولت 120.2 ارب ڈالر ہوچکی ہے۔
جین سین ہوانگ دنیا کے امیر ترین افراد کی فہرست میں پہلی مرتبہ 10 ویں نمبر پر آگئے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ترین افراد کی فہرست دنیا کے امیرترین امیرترین افراد سے تعلق رکھنے کی فہرست میں دنیا کے امیر ارب ڈالر ہے کی دولت میں ان کی دولت امریکا کے ایلون مسک فوربز کی دنیا بھر اور ان ہے اور
پڑھیں:
تبدیل ہوتی دنیا
صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسیز کے تحت پوری دنیا ایک تبدیلی کی لپیٹ میں ہے۔ صدر ٹرمپ کے اقدامات جو وہ آزاد تجارت کو کچلنے کے لیے اٹھا رہے ہیں، ایسی پالیسیز ماضی میں امریکا کے کسی صدر نے نہیں لاگو کیں اور دوسری طرف ہیں ماحولیاتی چیلنجز جن کا سامنا ہم نے کرنا ہے۔
انٹارکٹیکا اور الاسکا جو دنیا کے نارتھ اور ساؤتھ پول ہیں وہاں برف کے گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ یقینا سمندر کی سطح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہزاروں ارب ڈالر کی اراضی اور اثاثے سمندر نگل رہا ہے۔ بہت سے علاقوں سے لوگوں کی نقل مکانی شروع ہو چکی ہے۔ تیسری مائیکرو چپ نے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ مصنوعی ذہانت ایک حقیقت سے زیادہ ضرورت بنتی جا رہی ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیز دنیا کی آزاد تجارت کو کچلنے کے مترادف ہیں، ان پالیسیز نے نہ صرف دنیا بھرکے ممالک کی اسٹاک ایکسچینج کو شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ یہ پالیسیز خود امریکا کی معیشت کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہیں۔
امریکا کی بانڈز مارکیٹ دنیا کی مضبوط ترین مارکیٹ تھی۔ دنیا میں جہاں بھی سر پلس ہوا وہ امریکی حکومت کے (بانڈز) خرید کرتے تھے مگر اب ٹرمپ کی حکومت میں دنیا امریکی بانڈز خریدنے سے شش و پنج میں ہے۔ ٹرمپ کے صدر بننے سے پہلے میں نے اپنے کالم میں یہی لکھا تھا کہ سٹہ لگانے والے اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ ٹرمپ کی حکومت میں ڈرٹی کیپیٹل ازم پروان چڑھے گا۔
اسٹاک ایکسچینج کو ایک دم سے گرایا بھی جائے گا اور اچانک بڑھایا بھی جائے گا اور اس اتار چڑھاؤ سے کچھ مخصوص لوگ مستفید ہوںگے۔ جب صدر ٹرمپ نے چین اور دیگر ممالک جو امریکا کو اپنی اشیاء ایکسپورٹ کرتے تھے، ان پر بھاری ٹیرف عائد کیے تو اسٹاک مارکیٹ نے لگ بھگ پانچ ہزار ارب ڈالرگنوا دیے۔
ان کے اثاثوں کی قیمت گر گئی۔ پھر چند ہی دنوں میں صدر ٹرمپ نے ٹیرف عائد کرنے کا یہ فیصلہ واپس لے لیا اور نیو یارک اسٹاک مارکیٹ واپس چار ہزار ڈالر چڑھ گئی۔ ٹرمپ کے مخالف ڈیموکریٹس کا یہ کہنا ہے کہ ٹرمپ کے قریبی لوگوں کے پاس پہلے سے ہی یہ اطلاعات تھیں جن سے انھوں نے اربوں ڈالرکمائے ہوںگے۔
مشرقِ وسطیٰ کے محاذ پر ٹرمپ کی پالیسیاں، تضادات کو تیزکررہی ہیں۔ یوکرین کی معدنیات پر ٹرمپ حکومت اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہے۔ یورپ جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکا کا سب سے بڑا اتحادی تھا، وہ امریکا سے بدظن ہوچکا ہے۔
امریکا کی اب کوشش یہ ہے کہ روس سے تعلقات بہتر کیے جائیں، روس اور چین کے تعلقات میں دراڑیں ڈالی جائیں۔ دوسری طرف یورپین یونین، امریکا کی ان غیر مستقل مزاج پالیسیزکو دیکھتے ہوئے دنیا کے اندر ایک نئے عالمی لیڈر کی طرف دیکھ رہی ہے اور یہ نیا لیڈر چین بھی ہو سکتا ہے۔
اس تمام منظرنامے میں ایک نئی قوت اور تیسری بڑی عالمی قیادت بہت تیزی سے ابھر رہی ہے وہ ہے بھارت۔ امریکا کی بیشترکمپنیوں نے ٹرمپ کے اتحادی ایلون مسک کی گاڑیوں کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ اسی طرح یورپ نے بھی جس سے ایلون مسک کو لگ بھگ ایک ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔
مگر اس دنیا کی تیزی میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم اس قابل ہیں کہ آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں؟ کیا ہماری کوئی تیاری ہے؟کیا ہم نے کوئی متبادل راستہ ڈھونڈا ہے، جب صدر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی ہم پر بھی لاگو ہوںگی۔
ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر امریکا ہے۔ یقینا ہم پر بھی ان پالیسیز کے منفی اثرات مرتب ہوںگے۔ امریکا یہ چاہے گا کہ پاکستان پر اسی طرح کے دباؤ ڈال کرکچھ شرائط عائد کی جائیں اور ان شرائط کی مد میں اپنے من پسند کام لیے جائیں۔
پاکستان کی سیاست میں جب بھی امریکا نے پالیسیز بنائیں، ان سے پاکستان میں جمہوریت کو شدید نقصان پہنچااور خاص کر ان ادوار میں جب امریکا میں ری پبلیکن کا دورِ ہو۔یہ ہماری غلط فہمی ہوگی، اگر ہم یہ سوچ رہے ہیں افغانستان، امریکا سے ٹکراؤ بڑھائے گا،کیونکہ امریکا کو بٹگرام ایئر پورٹ واپس چاہیے۔
امریکا نے اس حوالے اپنی درخواست ، طالبان کے آگے پیش بھی کردی ہے۔ امریکا، ایران کے ساتھ فوجی محاذ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے، اس منظرنامے میں دونوں ہی ممالک ہمارے پڑوسی ہیں۔ دنیا کی تیسری طاقت یعنی ہندوستان بھی ہمارا پڑوسی ہے۔
اگر ہم امریکا کا جائزہ لیں تو داخلی اعتبار سے موجودہ انتظامیہ میں، پاکستان کوئی دیرینہ دوست نہیں رکھتا۔ ہماری موجودہ سول قیادت ایک سال گزار چکی ہے لیکن اسٹبلشمنٹ کو اس حکومت کو ہٹانے کے لیے زیادہ دقت کا سامنا نہیں ہوگا۔
بس ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ جو معاشی بحران عمران خان کی حکومت میں آیا تھا، اب ملک اس بحر ان سے نکل چکا ہے۔ اس کا کریڈٹ یقینا شہباز شریف اور اس کی ٹیم کو جاتا ہے۔ اس دورِ حکومت میں پارلیمنٹ اور سول حکومت اتنی آزاد نہیں جتنی آزادی بانی پی ٹی آئی کے دور میں میسر تھی۔
بلوچستان، سندھ اور پنجاب کے صوبوں میں جو ہلچل مچی ہوئی ہے، اس تیزی میں اس حکومت کے خلاف آوازیں ابھر رہی ہیں۔ موجودہ بحران بانی پی ٹی آئی کے لیے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کرنے کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ امریکا کی مداخلت ہمیشہ پاکستان کی داخلی سیاست میں رہی۔ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں ہمارے جیسے ممالک اپنی آزاد خارجہ پالیسی بنانے میں آزاد نہیں رہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کے اسٹیج پر پہلی مرتبہ اتنی نمایاں اور واضح تبدیلی نظر آرہی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کے اعداد و شمار کے تحت پاکستان دنیا کے سات ملکوں میں شمار ہوتا ہے جو اس بحران کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کی ساحلی پٹی پر بڑی واضح تبدیلیاں آئی ہیں جس سے نقل و حمل کے امکانات زیادہ ہوگئے ہیں۔
ہماری داخلی سیاست انتہائی کمزور ہے۔ کسی مضبوط سول قیادت کا وجود نہیں جو ابھرتے ہوئے بین الاقوامی ٹکراؤ میں بھرپور انداز میں ہماری ترجمانی کرسکے بلکہ ایسی مضبوط سول قیادت بھی میسر نہیں جو چار یا تین صوبوں میں یکساں طور پر مقبول ہو۔ فیڈریشن کے حوالے سے پاکستان اس وقت انتہائی نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ یہاں بلوچستان کا بیانیہ الگ ہے۔ خیبر پختونخوا کا بیانیہ الگ ہے اور اب سندھ میں بھی ایک نیا بیانیہ جنم لے چکا ہے۔
یہ تبدیلیاں بڑی تیزی سے آرہی ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کانگریس نے انگریز حکومت کے خلاف ’’ہندوستان چھوڑ دو ‘‘ کی تحریک چلائی اور ان تحاریک میں سبھاش چندر بوس جیسے لیڈر تھے جنھوں نے انگریز سامراج کو کمزور دیکھتے ہوئے جارحانہ انداز اپنایا۔صرف امید کی کرن ہے ٹیکنالوجی کے اندر انقلاب ! اس انقلاب میں چین امریکا کے ساتھ کھڑا ہے۔
لاکھ بحران سہی لیکن اس ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک کردیا ہے۔ پچیس سالوں سے دنیا میں آزاد تجارت کا سکہ چل رہا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی نے مزید سے مزید ترقی پائی۔صدر ٹرمپ اس وقت جو اقدامات کر رہے ہیں وہ دنیا کی آزاد تجارت کو کچل دیں گے۔
دائیں بازو کی پاپولر ازم بھی اس وقت اپنی انتہا پر ہے۔ یقینا اس کا زوال بھی ہوگا مگر جانے سے پہلے جو منفی اثرات چھوڑے گا، وہ دنیا کے لیے بہت خطرناک ہوںگے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں اگر اسی رفتار سے رواں رہیں تو دنیا ایک بہت بڑے بحران میں داخل ہو رہی ہے اور اگر ماحولیاتی تبدیلیاں ایسے بحران کو جنم نہیں دیتیں تو دائیں بازو کے پاپولر ازم کو شکست ہوگی جو دنیا کو اس وقت تیسری جنگِ عظیم کے دہانے لے آیا ہے۔