اسلام آباد:

سپریم کورٹ نے عادل بازئی کیس میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ کو ظاہر کیا، عادل بازئی کبھی بھی ن لیگ کے رکن نہیں رہے مگر الیکشن کمیشن نے صرف ن لیگ کے سربراہ کی بات پر یقین کیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کے خلاف اپیل پر تحریری فیصلہ جاری کردیا جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کوئی ممبر پارلیمنٹ منحرف ہوجائے تو اسے شوکاز نوٹس جاری کرنا ضروری ہے، الیکشن کمیشن یا ٹربیونل پارٹی ہیڈ کے ڈیکلریشن کا جائزہ لے کر اس کی تصدیق کرتا ہے، پارٹی ہیڈ کے ڈیکلریشن کا تنازعہ ہو تو اسے فریقین سول کورٹ میں طے کر سکتے ہیں، الیکشن کمیشن حقائق کا خود سے جائزہ نہیں لے سکتا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس عدالت کی جانب سے 16 فروری 2024 کے رضا مندی کے حلف نامے کی اصلیت اور قانونی حیثیت کے بارے میں دیا گیا فیصلہ سول عدالت کے حتمی فیصلے سے مشروط ہے، اپیل کنندہ کی جانب سے جعلی رضا مندی کے حلف نامے کی تیاری اور اس کے استعمال کے حوالے سے جو الزامات محمد شہباز شریف (جو اُس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اب وزیر اعظم پاکستان ہیں) کے خلاف لگائے گئے ہیں، الزمات کی سنگینی کے پیش نظر ہم توقع کرتے ہیں کہ سول عدالت، ان معاملات کا فیصلہ جلد از جلد کریں گی۔

جسٹس عائشہ کا اضافی نوٹ

جسٹس عائشہ ملک نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ آئین واضح طور پر یہ فراہم کرتا ہے کہ حکومت کا اختیار صرف عوام کی مرضی پر مبنی ہے، یہ مرضی عوام کے اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال اور انتخابی و سیاسی عمل میں شرکت کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے،  انتخابات بنیادی طریقہ ہیں جس کے ذریعے رجسٹرڈ ووٹر اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں، جو ان کی جانب سے حکومت کریں گے اور حکومت کے اختیارات کا استعمال کریں گے، اس مقدمے کے حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن عوام کی مرضی کو عملی جامہ پہنانے کی اپنی آئینی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا۔

جسٹس عائشہ نے لکھا کہ ان اپیلوں میں اپیل کنندہ قومی اسمبلی کا ایک منتخب رکن ہے جس کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت انحراف کا ریفرنس دائر کیا گیا تھا، اس پر الزام لگایا گیا کہ وہ اپنی جماعت، پاکستان مسلم لیگ سے منحرف ہو گیا، اپیل کنندہ نے اپنی دفاع میں واضح اور غیر مبہم طور پر کہا کہ وہ این اے-262 (کوئٹہ-1) کے لیے ایک آزاد امیدوار کے طور پر منتخب ہوا،  20 فروری 2024 کو اپنے حلف نامے کے تحت سنی اتحاد کونسل  میں عادل بازئی نے شمولیت اختیار کی،  چیئرمین سنی اتحاد کونسل نے 20 فروری 2024 کو ایک خط کے ذریعے الیکشن کمیشن کو اس کی شمولیت کی اطلاع دی۔

اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کیس میں دیے گئے فیصلے کی وجہ سے وہ قومی اسمبلی کے ایک آزاد رکن رہے،  یہ بھی واضح کیا کہ اس نے 16 فروری 2024 کے حلف نامے کو کبھی جمع نہیں کرایا، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ عادل بازئی نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کی، عادل بازئی نے حلف نامہ جعلی اور من گھڑت ہونے کے بارے میں ایک سول مقدمہ اور فوج داری شکایت درج کرائی، سول مقدمے میں مذکورہ حلف نامہ 2 نومبر 2024 کو سینئر سول جج-1، کوئٹہ نے معطل کر دیا اور فوجداری شکایت میں، ایس ایچ او کی رپورٹ کی بنیاد پر مذکورہ حلف نامے کو جعلی اور من گھڑت قرار دیا گیا۔

اضافی نوٹ میں جسٹس عائشہ نے لکھا کہ چونکہ اپیل کنندہ کا پورا کیس اس بات پر مبنی تھا کہ وہ کبھی بھی ن لیگ کا امیدوار یا رکن نہیں رہا اس لیے جب انحراف کا معاملہ سامنے آیا تو الیکشن کمیشن نے اپیل کنندہ کے پیش کردہ کسی بھی ثبوت کو نہ تو دیکھا اور نہ ہی 16 فروری 2024 کے حلف نامے کے حوالے سے اس کے موقف پر غور کیا سربراہ ن لیگ کی بات کو الیکشن کمیشن نے  بغیر کسی جانچ پڑتال کے قبول کرلیا اور اور اس بنیاد پر کارروائی کی، اس عمل نے اپیل کنندہ کے انصاف اور شفاف سماعت کے حق کی خلاف ورزی کی اور ان لوگوں کے حقِ رائے دہی کی بھی خلاف ورزی کی جنہوں نے اپیل کنندہ کو ووٹ دیا، یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ ظاہر کیا۔

اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ جو الیکشن کمیشن کے آئینی فرائض اور آئین کے دیے گئے معیارات کی خلاف ورزی ہے کہ وہ ایمانداری، انصاف اور غیرجانبداری سے کام کرے، عدالت نے الیکشن کمیشن کو یاد دلایا ہے کہ انتخابات جمہوریت کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہیں اور الیکشن کمیشن انتخابی دیانتداری کا ضامن ہے، الیکشن کمیشن کی آزادی انتخابات کےعمل کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے بصورت دیگر جمہوریت کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں۔

اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ عدالت نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو سیاسی اثر و رسوخ یا سیاسی انجینئرنگ کے تابع نہیں ہونا چاہیے بلکہ جمہوریت کا غیرجانب دار محافظ رہنا چاہیے، حکومت کے حق میں الیکشن کمیشن کا جھکاؤ سیاسی نظام کی قانونی حیثیت کو متاثر کرے گا، عوامی ووٹ کی بالادستی اس تصور کو اجاگر کرتی ہے کہ ایک جمہوری نظام میں اختیار اور قانونی حیثیت عوام کی رضامندی سے حاصل ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک آزاد آئینی ادارے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابات کے ذریعے عوام کی مرضی کو عملی جامہ پہنایا جا سکے، یہ افسوسناک ہے کہ اس عدالت کے واضح احکامات کے باوجود الیکشن اپنے آئینی فرائض کے برعکس طرزِ عمل اپناتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: الیکشن کمیشن نے حکومت کے حق میں اور حکومت کے کے حلف نامے میں کہا گیا اپیل کنندہ کرتے ہیں کے ذریعے عوام کی گیا کہ میں کہ ہیں کہ

پڑھیں:

فیض حمید سزا کے خلاف آرمی کے کون سے فورمز میں اپیل کرسکتے ہیں؟ خواجہ آصف نے بتادیا

وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ فیض حمید کو 15 ماہ کے عدالتی پراسیس کے بعد سزا سنائی گئی ہے، ان کے پاس آرمی کے کورٹ آف اپیلز جانے کا حق ہے، جس کے بعد آرمی چیف کے پاس اپیل کی سہولت موجود ہے۔ فوج کے جوڈیشل پراسیس کے بعد وہ ہائی کورٹ بھی جا سکتے ہیں۔ وزیر دفاع نے واضح کیا کہ انصاف کے تمام مراحل اور متعلقہ ادارے فیض حمید کے لیے میسر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جنرل فیض حمید کو سزا، ’ 9 مئی کے کیسز ابھی باقی ہیں‘، فیصل واوڈا

خواجہ آصف نے کہا کہ نواز شریف کا نام پانامہ پیپرز میں شامل نہیں تھا، اور کیس براہ راست سپریم کورٹ میں شروع کیا گیا۔ انور ظہیر جمالی کے بعد ثاقب نثار نے جسٹس کھوسہ کو انصاف کی مسند پر فائز کیا، تاہم ان کے فیصلوں میں قانونی حوالوں کے بجائے انگریزی ناولز کے حوالے دئیے گئے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف نااہل قرار پائے اور وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیے گئے۔

فیض حمید صاحب کو 15مہینے کے پرا سیس کےبعد سزا سنائی گئی۔ انکو آرمی کے کورٹ آف اپیلز کو جانے کا حق ھے اسکے بعد آرمی چیف کے پاس اپیل کا حق حاصل ھے۔ فوج کے جوڈیشل پراسیس کے بعد وہ ھائ کورٹبl جا سکتے ھیں ۔انصاف کا سارا پراسیس اور ادارے انکو میسر ھیں۔

نواز شریف کا پانامہُ پیپرز میں…

— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) December 11, 2025

وزیر دفاع نے مزید بتایا کہ اس کے بعد سپریم کورٹ، فیض حمید اور جنرل باجوہ کو مطمئن ہونے کی کوئی صورت نہ بنی، جس کے بعد جے آئی ٹی تشکیل دی گئی اور نیب کے کیسز بنائے گئے، جبکہ اعجاز الحسن کو کیس کا نگران جج مقرر کیا گیا، نواز شریف کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ثابت،جنرل فیض حمید کو 14 سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی، آئی ایس پی آر

خواجہ آصف نے کہا کہ فیض حمید اور جنرل باجوہ کی معاونت سے عمران خان کو اقتدار میں لانے کے عمل کے دوران دیگر سیاسی خاندانوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں، جس کے بعد ملک میں سیاسی اور اقتصادی حالات متاثر ہوئے۔

 9 مئی کے واقعہ کو انہوں نے عمران خان کو محفوظ کرنے کی کوشش کے طور پر بیان کیا ہے، جسے وہ جائنٹ وینچر قرار دیتے ہیں جو ناکام ہو گئی۔ وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ملکی سلامتی اور معیشت پر بیرونی و داخلی عوامل نے اثر ڈالا، اور دہشت گردی اور طالبان کی پشت پناہی بھارت کی سرپرستی میں ہونے والے خطرات کے تناظر میں سامنے آئی۔

یہ بھی پڑھیں: جنرل فیض حمید کے خلاف سنگین الزامات جن کا فیصلہ ہونا باقی ہے

خواجہ آصف نے زور دیا کہ انصاف کے تمام طریقہ کار اور ادارے موجود ہیں اور ہر فرد کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اپیل آرمی چیف پاکستان جنرل باجوہ خواجہ آصف سزا فیض حمید کورٹ مارشل ملٹری کورٹ وزیر دفاع

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد کے ہریوسی اورہروارڈ پر الیکشن لڑیں گے‘ حافظ نعیم الرحمن کا اعلان
  • منگنی توڑنے اور پرانی رنجش پر قتل کرنیوالے مجرم کی اپیل خارج،2بار عمر قید کی سزا برقرار
  • منگنی توڑنے اور پرانی رنجش پر قتل کرنے والے مجرم کی اپیل خارج،2 بار عمر قید کی سزا برقرار
  • سپریم کورٹ: قتل کے مجرم کی 2 بار عمر قید کی سزا برقرار، اپیل خارج
  • 8 سالہ بچے سے زیادتی کے ملزم عاصم گُل کی اپیل خارج
  • الیکشن کمیشن میں نئی سیاسی جماعت رجسٹر ہو گئی
  • گلگت بلتستان میں عام انتخابات کب ہوں گے؟ الیکشن کمیشن نے تاریخ کا اعلان کر دیا
  • بنگلادیش میں نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا
  • الیکشن کمیشن نے بلوچستان حکومت کی درخواست مسترد کرکے عوام کے حق کا احترام کیا، نیشنل پارٹی
  • فیض حمید سزا کے خلاف آرمی کے کون سے فورمز میں اپیل کرسکتے ہیں؟ خواجہ آصف نے بتادیا