کرپشن کی بہتی گنگا اور مذہبی ٹچ
اشاعت کی تاریخ: 18th, January 2025 GMT
ان کے لئے مذہب صرف ایک ٹچ ہے اور جھوٹ ، فریب اور فراڈ آرٹ ۔ جب بھی زبان کھلتی ہے ، جھوٹ برآمد ہوتا ہے یا الزام۔ سارے زمانے کو بلا ثبوت چورچور کہنےو الوں کی جب ایسی چوری پکڑی گئی جس کی کوئی توجیہ ممکن ہی نہیں تو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلادیا کہ سیرت کی یونیورسٹی بنانے کی وجہ سے سزا سنائی جا رہی ہے ، یہ سب کو اپنے جیسا ہی سمجھتے ہیں ۔ سیرت کی یونیورسٹی پر سزا کا الزم اس ملک میں لگایا جا رہا ہے ، جہاں دنیا میں سب سے زیادہ 30ہزار سے زائد صرف رجسٹرڈ مدارس ہیں، جبکہ غیر رجسٹرڈ کی تعداد کسی کو معلوم ہی نہیں ، جامعۃ الرشید، غزالی یونیورسٹی اور منہاج القرآن جیسی عظیم الشان یونیورسٹیاں قائم ہیں، لاکھوں طلبا ء سالانہ داخل ہوتے اور سند فراغت پاتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ کہ الزام لگا کون رہا ہے؟شوہر کو ختم نبوت نہیں کہنا آتا اور بیگم کو درود پڑھنے میں مشکل پیش آتی ہے ، جو ہر ان پڑھ یا پڑھے لکھے مسلمان کا سرمایہ حیات اور وظیفہ قلب ولسان ہے ، بچہ بولنا سیکھتا ہے تو ماں باپ اسے پہلے کلمہ اور درودسکھاتے ہیں۔ غالب نے شائد ایسوں کے لئے ہی کہا تھا ۔
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
یہ لوگ تو وہ ہیں کہ حرم نبی ﷺمیں بھی ہنگامہ کرکے شرمندہ نہ ہوئے،چوری کے مال کو سیرت کا نام لے کر چھپانے کی کوشش پر شرمندہ کیوں ہونے لگے۔190ملین پائونڈ کیس میں احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا کے فیصلے کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کو14سال قید ، 10 لاکھ جرمانہ جبکہ بشریٰ بی بی کو7سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ کی سزا سنائی جا چکی ہے ۔ القادر یونیورسٹی کی زمین کو بھی سرکاری تحویل میں لینے کا حکم جاری کردیا گیا ہے، لیکن مؑعذرت کے ساتھ یہ کیس بھی مصلحت آمیز سیاسےت کا شاہکار ہے، جس میں بہت سے پہلو نظر انداز کئے گئے،۔ حالانکہ یہ صرف معمول کی کرپشن کا کیس نہیں بلکہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ ایک مجرم کو عدالت سے ہونےو الے جرمانہ کی رقم سرکاری فنڈ سے ادا کرکے اعانت جرم کا مقدمہ بھی ہے، جو نہیں بنایا گیا ۔وفاقی کابینہ سے بند لفافے پر انگوٹھا لگواکر سازش کے ذریعے ریاستی طاقت استعمال کرنے کا کیس بھی ہے ، جس سے گریز کیا گیا ۔ ملک کے سب سے بڑے اور بااختیار ادارے وفاقی کابینہ کو گمراہ کرنے کا مقدمہ بھی ہے ، جو سیاسی مصلحتوں کی نذر کردیا گیا ہے ۔ نہیں بھولنا چاہئے کہ جب تک مصلحتوں کے تحت مقدمات چھپائے جائیں گے اور سزائوں میں تخفیف روا رکھی جائے گی ، اس وقت تک کرپشن اور اختیارات کا ناجائز استعمال روکا جانا ممکن نہیں ہے ۔ شریک جرم پراپرٹی ٹائیکون کا مقدمہ مفرور ہونے کی بنا پر الگ کیا گیا ، لیکن اس پر پیش رفت کیوں نہیں کی جا رہی ؟ وہ اب ایک دوست پڑوسی مملک میں کاروبار کرتا پھر رہا ہے ، اس کے ریڈ وارنٹ جاری کیوں نہیں کروائے جاتے؟ دوست ملک کو اس کے جرائم کے ثبوت فراہم کیوں نہیں کئے جاتے؟۔
سوشل میڈیا پر اس مقدمہ کو کبھی القادر یونیورسٹی کا کیس کہا جاتا ہے تو کبھی کچھ اور لازم ہے کہ اس کی حقیقت کو سمجھا جائے ، کیونکہ 190 ملین پاؤنڈ کیس میگا کرپشن کا ایسا واحد اور انوکھا کیس ہے ، جس میں وقت کے وزیراعظم نے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے،ایک ملزم سے ریاست پاکستان کو ملنے والی رقم اسی ملزم پر عائد کردہ جرمانے کی مد میں ادا کرکے ، اس کی معاونت کی ، بالفاظ دگر ایک ریاستی مجرم کا جرمانہ سرکاری فنڈ سے ادا کردیا گیا اور اس کے بدلے میں بھاری مالی فوائد اور اراضی وصول کی ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کرپشن کی اس داستان میں پوری کابینہ گواہ ہے ، کہ کس طرح سے ایک بند لفافہ دکھا کر وزراء کو دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ ناقابل تردید شواہد کی موجودگی میں اس وقت کا وزیراعظم عمران اور اس کی اہلیہ بشریٰ بی بی رشوت ستانی اور وائٹ کالر کرائم میں ملوث قرار پائے۔میگا کرپشن کا یہ کیس کوئی رات ورات نہیں بنا بلکہ مکمل شواہد اور ناقابل تردید ثبوت دیکھنے کے بعد ایک سال کے طویل عرصے میں اپنے انجام کو پہنچا ہے۔اس وقت کے احتساب کے مشیر اور مفرورشریک جرم شہزاداکبر اوروفاقی وزیر پرویز خٹک کے بیانات اس بات کی توثیق کرتے ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کے دوران پراپرٹی ٹائیکون سے غیر قانونی طور پر مالی فوائد حاصل کئے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم جب یہ عمل کر رہے تھے تو عین انہی ایام میں پورے ملک کی سیاسی قیادت کو بلا تخصیص چور، کرپٹ اور ڈاکو کے القابات سےبھی نواز رہے تھے ۔شائد اس لئے کہ ایک بیانیہ بنا کر اپنی جانب سے توجہ ہٹائی جاسکے۔
کیس کی ہسٹری یہ ہے کہ نیب راولپنڈی نے انکوائری کا آغاز 2022 میں کیا اور بعد ازاں نا قابل تردید شواہد اور ثبوت حاصل کرنے کے بعد انکوائری کو انویسٹی گیشن میں تبدیل کیا گیا۔190 یکم دسمبر 2023 کو 8 ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا،جن میں بانی پی ٹی آئی اور انکی اہلیہ بشریٰ بی بی سمیت فرح گوگی، شہزاد اکبر، زلفی بخاری ، بیرسٹر ضیا المصطفیٰ ، ملک ریاض حسین اور ان کے صاحبزادے احمد علی ریاض شامل تھے ـ احتساب عدالت اسلام آباد نے کرپشن ریفرنس پر کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے 6 مفرور ملزمان کو دسمبر 2023 میں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کا کیس الگ کر دیا گیا، جبکہ بانی پی ٹی آئی اور انکی اہلیہ پر فروری 2024 میں فرد جرم عائد کی گئی، جس کے بعد باقاعدہ ٹرائل کا آغاز ہوا ۔پراسیکیوشن کی جانب سے 35 گواہان کی شہادت ریکارڈ کروائی گئی جس میں مفصل بیانات اور نا قابل تردید ثبوت پیش کیے گئے جن کا ملزمان کے وکلاء دفاع کرنے میں ناکام رہے۔احتساب عدالت کی جانب سے بانی پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم کو گواہان پر جرح کے مکمل مواقع فراہم کیے گئے ،،لیکن لیگل ٹیم کا سارا زور کیس کو سیاسی بنانے پر رہا ۔ کہا جا رہا ہے کہ پراپرٹی ٹائکون نے ٹرست کو فنڈنگ کی ملزموں نے ذاتی فائدہ نہیں لیا، سوال یہ ہے کہ ٹرسٹ کے بینی فشری کون ہیں ؟ شروع میں زلفی بخاری اور بابر اعوان بھی شامل تھے جو بعد ازاں ٹرسٹ سے علیحدہ ہو گئے، اب صرف دو لوگوں پر یہ ٹرسٹ مشتمل ہے ، ایک جناب عمران خان اور دوسری ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی ۔ کسی وکیل سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ جب کوئی ٹرسٹ ختم کیا جائے تو پراپرٹی کہا ں جاتی ہے؟ اور فائدہ کسے پہنچتا ہے؟ سوشل میڈیا کے ذریعہ سے جو مرضی جعل سازی کرنے کی کوشش کی جائے کیس دو جمع دو چار کی طرح شفاف اور واضح ہے ، اور اس حوالہ سے قانون میں بھی کوئی ابہام نہیں، لہٰذا میرؐٹ پر دیکھا جائے تو ریلیف مشکل ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی کی اہلیہ یہ ہے کہ کیا گیا اور ان کا کیس رہا ہے
پڑھیں:
وزیر مملکت مذہبی امور کھئیل داس کوہستانی کی گاڑی پر ٹھٹھہ میں پتھراؤ و حملہ
وزیر مملکت مذہبی امور کھئیل داس کوہستانی کی گاڑی پر ٹھٹھہ میں پتھراؤ کیا گیا۔
کھئیل داس کوہستانی کا کہنا ہے کہ میری گاڑی پر سندھ کے علاقے ٹھٹھہ میں حملہ کیا گیا، پہلے گاڑی پر پتھراؤ کیا گیا پھر ڈنڈوں سے حملہ کردیا۔
وزیر مملکت کھئیل داس کوہستانی نے کہا کہ حملے میں میں خود زخمی نہیں ہوا، میرے کچھ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔