Nai Baat:
2025-12-13@23:07:20 GMT

القادر ٹرسٹ کیس۔ کرپشن کی ننگی داستان

اشاعت کی تاریخ: 17th, January 2025 GMT

القادر ٹرسٹ کیس۔ کرپشن کی ننگی داستان

القادر ٹرسٹ کا ذکر آج کل زبان زد عام ہے۔ کیونکہ 2023 میں نیب نے اس کیس میں عمران خان نامی مرکزی ملزم بمعہ دیگر کے خلاف اس میں ہوئی کرپشن کی وجہ سے کارروائی کا آغاز کیا۔ اب اس کیس کا فیصلہ جو پچھلی کئی تاریخوں سے ملتوی کیا جا رہا تھا، آج بروز جمعہ متوقع ہے۔ بہت کم لوگ اس کیس میں ہوئی قوانین کی خلاف وزیوں اور کرپشن کے بارے میں جانتے ہیں۔ اکثر نے اسکا صرف نام سن رکھا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس کیس کو اپنے قارئین کے لیے آسان زبان میں تحریر میں لایا جائے تاکہ عام عوام بھی اسے سمجھ سکیں کہ اس کیس کی بنیاد کیا ہے اور کیوں اس میں ملوث لوگوں کے خلاف کارروائی ہوئی، کیس چلایا گیا اور اب فیصلہ آ رہا ہے۔
یہ کیس تقریباً ساڑھے چار سو کنال سے زائد زمین سے متعلق ہے جو ملک ریاض نامی ایک پراپرٹی ٹائیکون کی جانب سے القادر یونیورسٹی کو عطیہ کی گئی۔ بظاہر تو ایک نجی یونیورسٹی بنانے کے لیے عطیہ میں دی گئی زمین میں کرپشن کا عنصر پیدا نہیں ہوتا لیکن یہاں معاملات اس وقت پیچیدہ ہو جاتے ہیں جب یہ زمین ایک خالصتاً دنیا دار ملک ریاض جو بحریہ ٹاؤن کا مالک اور اپنے ناجائز کام پیسے کے زور پر اور رشوت دے کر کرانے کے لیے مشہور ہے۔ وہ بھلا کیوں بغیر کسی لالچ کے اپنی اربوں روپے مالیتی ساڑھے چار سو کنال اراضی ایک نجی یونیورسٹی کے لیے عطیہ کرے گا؟ ابھی اسی سوال کا جواب تلاش کیا جا رہا تھا کہ یہاں ایک اور سکینڈل سامنے آ گیا جس میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی، جو برطانیہ میں آرگنائزڈ کرائم کی روک تھام، منی لانڈرنگ اور دولت سے متعلقہ جرائم کی چھان بین اور انہیں کنٹرول کرنے پہ مامور ہے، کے انٹرنیشنل کرپشن یونٹ نے اسی ملک ریاض اور اس کے بیٹے علی ریاض کی یو کے میں خریدی گئی جائیدادوں اور اس مد میں آنے والے پیسوں سے متعلق انکوائری کی تو ثابت ہوا کہ دونوں باپ بیٹا منی لانڈرنگ جیسے گھناؤنے فعل میں ملوث تھے اور یو کے میں انکی طرف سے لایا گیا بیشتر پیسہ غیر قانونی طریقے سے پاکستان سے کمایا اور پھر یو کے منتقل کیا گیا تھا۔ چنانچہ سال سے زائد عرصے پہ محیط تحقیقات کے بعد دونوں باپ بیٹے یعنی ملک ریاض اور اسکے بیٹے علی ریاض کو ملزمان ڈیکلئر کیا گیا اور ان کی یو کے میں موجود جائیداد اور بنک اکاؤنٹس کو منجمد کر دیا گیا۔

اب یہاں اس پراپرٹی ٹائیکون کی مدد کو اس وقت کی عمران خان نامی ملزم کی قیادت میں قائم حکومت سامنے آئی۔ عمران خان نامی ملزم کی کابینہ کا حصہ ایک شخص جو کہ یو کے کا باسی تھا۔ وہ یو کے پہنچا اور یو کے کی نیشنل کرائم ایجنسی سے رابطہ کر کے اس پراپرٹی ٹائیکون، اس کے بیٹے اور یو کے کی ایجنسی کے درمیان ایک معاہدہ کرایا۔ اس سیٹلمنٹ کی رو سے دونوں نے نیشنل کرائم ایجنسی کو نا صرف انکی تفتیش پہ آنے والا خرچہ دیا بلکہ 190 ملین پاؤنڈ کی خطیر رقم جو قریب 60 ارب پاکستانی روپے بنتے ہیں، اور جن کو برطانوی قانون کے تحت حکومت پاکستان کو واپس ادا کرنا طے ہوا۔ لیکن پھر اصل کہانی سامنے آئی کہ یہ پیسہ جو پاکستانی حکومت کو قومی خزانے میں واپس کیا جانا تھا۔ وہ ملک ریاض کیخلاف سپریم کورٹ کے بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں فیصلے جس میں اس پراپرٹی ٹائیکون کو سپریم کورٹ نے 460 ارب روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ عمران خان نامی ملزم کی حکومت نے پیسے واپس قومی خزانے میں جمع کرانے کی بجائے سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن کے مالک کے ذمہ واجب الادا 460 ارب روپے جرمانے کی مد میں جمع کرا کر ایڈجسٹ کرا دیئے۔ یہ کام کرنے کے لیے 3 نومبر 2019 کو کابینہ کے اجلاس میں ایک بند لفافہ پیش کیا گیا اور کابینہ کے اراکین کو کہا گیا کہ آپ اس لفافے میں موجود ایگریمنٹ یا دستاویز کو بغیر دیکھے یا پڑھے منظور کر دیں۔ جس کو کچھ بحث مباحثے کے بعد کابینہ نے منظور کر دیا۔ اسی دستاویز کی رو سے یہ رقم حکومت پاکستان کے قومی اکاؤنٹ میں جانے کی بجائے ملک ریاض کے سپریم کورٹ میں موجود اکاؤنٹ جس میں اس نے جرمانہ کی رقم جمع کرانا تھی، پہنچا دی گئی۔

اس کے بعد نیب کی تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس رقم کے سپریم کورٹ میں جمع ہونے کے بعد بحریہ ٹائون کے مالک ملک ریاض نے اربوں روپے مالیتی 458 کنال زمین عمران خان نامی ملزم کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام عطیہ کر دی گئی۔ اس موقع پہ مبینہ طور پہ ریکارڈ ہوئی ایک کال بھی سامنے آئی کہ جس میں اس پراپرٹی ٹائیکون کی اپنی بیٹی سے بات ہو رہی تھی اور وہ ایک تیسری خاتون فرح گوگی کا نام لیکر کہ رہی تھی کہ اس نے کہا ہے کہ بشریٰ بی بی کو دی گئی ہیرے کی انگوٹھی میں ہیرے کا سائز بہت چھوٹا ہے لہٰذا کم از کم پانچ کیرٹ ہیرے والی انگوٹھی بھجوائی جائے۔ یہ کہ بشریٰ بی بی نے کہا ہے کہ آپ (یعنی پراپرٹی ٹائیکون) کا حکومت میں پھنسا ہوا کوئی کام اگلے کچھ دن میں ہو جائیگا۔ یہ بات بھی ریکارڈ پہ ہے کہ پہلے یہ زمین زلفی بخاری جو کہ مرکزی ملزم عمران خان (اس وقت کا وزیر اعظم) کا مشیر خاص تھا اس کے نام لگوائی گئی اور جونہی زمین ٹرانسفر ہو گئی فوری طور پہ ٹرسٹ بنا کر اس نے یہ زمین عمران خان اور اس کی اہلیہ (دونوں ٹرسٹ کے مالک اور ٹرسٹی) کے نام لگوا دی۔ عمران خان کی اہلیہ (وہی خاتون جو پانچ کیرٹ والی ہیرے کی انگوٹھیاں مانگ رہی تھی) اس ضمن میں حکومت کچھ دستاویز بھی سامنے لائی جن میں ایک معاہدے کے تحت ملک ریاض نے اربوں روپے مالیت کی اراضی اس وقت کے وزیر اعظم اور القادر ٹرسٹ کیس کے مرکزی ملزم عمران خان کی اہلیہ اور شریک ملزمہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی، اس معاہدے میں القادر ٹرسٹ کی جانب سے بشریٰ بی بی کے دستخط بھی موجود ہیں۔ یہاں یہ پہلو بھی اہم ہے کہ ملک ریاض اور عمران خان و بشریٰ بی بی کے درمیان ہوئی ڈیل کے تحت صرف القادر ٹرسٹ کی زمین ہی نہیں دی گئی بلکہ بشریٰ بی بی کی فرح گوگی نامی سہیلی کے نام ملک ریاض کے صاحبزادے کی طرف سے اربوں روپے مالیتی 240 کنال کا ایک اور قطعہ اراضی جو بنی گالہ اسلام آباد میں واقع ہے وہ بھی ٹرانسفر ہوئی۔ اب یہاں کئی سوالات پیدا ہو چکے ہیں۔

ایک پراپرٹی ٹائیکون کے سپریم کورٹ میں موجود جرمانہ ادا کرنے والے اکاؤنٹ میں برطانیہ سے آئے اور حکومت کو ملے 60 ارب کیوں بھیجے گئے؟ اور اسطرح حکومت و قومی خزانے کو 60 ارب روپے کی خطیر رقم سے کیوں محروم کیا گیا؟ کرپشن مقصود نہ تھی تو کابینہ اجلاس میں بھی اس معاملے کو اتنا خفیہ کیوں رکھا گیا کہ کابینہ کے کسی رکن کو دستاویزات دکھائی گئیں اور نہ کسی تفصیل سے آگاہ کیا گیا؟ ملک ریاض سے ہیرے کی انگوٹھی کیوں مانگی گئی؟ بشریٰ بی بی کی سہیلی فرح گوگی نامی خاتون کے نام بنی گالہ میں 240 کنال اراضی کیوں ٹرانسفر کی گئی۔ جرم نہ کیا تھا تو عمران خان اور ان کی اہلیہ و دیگر نامزد ملزمان ایک سال تک نیب کی اس انکوائری سے کیوں بھاگتے رہے؟ کیوں ہائی کورٹ سے بار بار نیب کی اس ضمن میں جاری تحقیقاتی کارروائی رکوانے کے لیے سٹے لیتے رہے؟
سچ تو یہ ہے کہ ریاست مدینہ بنانے کا جھانسہ دے کر عمران خان نامی مرکزی ملزم، اس کی اہلیہ اور دیگر ملزمان نے کرپشن کی انتہا کر دی۔ اپنے اعمال سے نہ صرف قومی خزانے کو 60 ارب روپے کا نقصان پہنچایا بلکہ اپنی اور ملک ریاض کی درمیان ہوئی ڈیل کے نتیجے میں اس رقم کے عوض اربوں روپے مالیتی زمین اور دیگر قیمتی تحائف وصول کیے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا آج نیب اس ضمن میں عدالت میں ٹھوس شواہد پیش کر کے ملزمان کو ان کے غیر قانونی اقدامات اور کیے کی سزا دلا پائے گی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ القادر ٹرسٹ ملزمان کی ملی بھگت کی اک عجیب اور کرپشن سے لتھڑی ہوئی داستان ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عمران خان نامی ملزم کی سپریم کورٹ میں القادر ٹرسٹ کی ارب روپے کی اہلیہ ملک ریاض بی بی کے کیا گیا کے بعد اور اس کے لیے کے نام اس کیس

پڑھیں:

آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے نئی شرائط

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251214-03-3

 

پاکستان میں کرپشن ہی سب سے اہم اور بڑا مسئلہ ہے، جو ریاستی اداروں، معیشت اور عوامی اعتماد، تینوں کو بیک وقت کھوکھلا کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی پاکستان عالمی مالیاتی اداروں، بالخصوص آئی ایم ایف، کے پاس جاتا ہے تو قرض کے ساتھ ایسی شرائط بھی آتی ہیں جو محض مالی نظم و ضبط تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ براہِ راست گورننس اور کرپشن کے نظامی ڈھانچے پر بات ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کا دوسرا جائزہ اور اس کے تحت تجویز کی گئی نئی شرائط دراصل اسی تلخ حقیقت کی عکاسی ہیں کہ پاکستان کی معاشی کمزوریوں کی جڑیں بدانتظامی اور کرپشن میں پیوست ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے شائع کی گئی گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ رپورٹ پاکستان کے لیے ایک آئینہ ہے، جس میں ریاستی اداروں کی وہ کمزوریاں نمایاں کی گئی ہیں جن پر برسوں سے پردہ ڈالا جاتا رہا۔ اس رپورٹ میں قانونی عملداری کی کمزوری، ادارہ جاتی احتساب کا فقدان، اختیارات کے ناجائز استعمال اور شفافیت کی کمی کو بنیادی مسائل قرار دیا گیا ہے۔ یہ محض نشاندہی نہیں بلکہ ایک تشخیص ہے، جس کے بعد علاج ناگزیر ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی سب سے اہم شرط یہی تھی کہ حکومت اس رپورٹ کو عوام کے سامنے لائے اور اس کی روشنی میں ایک جامع، قابل ِ عمل اور شفاف ایکشن پلان ترتیب دے۔ اگرچہ حکومت نے تاخیر کے بعد رپورٹ شائع کر دی، مگر ایکشن پلان کا نہ بن پانا اس بات کی علامت ہے کہ کرپشن کے خلاف سنجیدہ اصلاحات اب بھی سیاسی ترجیحات میں شامل نہیں۔ یہی تاخیر آئی ایم ایف کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان میں مسئلہ افراد کا نہیں بلکہ پورے نظام کا ہے، جو خود اصلاح کے لیے آمادہ نظر نہیں آتا۔ نئی شرائط میں اعلیٰ سطحی وفاقی اور صوبائی سرکاری ملازمین کے اثاثوں کی تفصیلات شائع کرنے کی تجویز ایک غیر معمولی مگر ناگزیر قدم ہے۔ اگر واقعی شفافیت مقصود ہے تو اثاثوں کی عوامی دستیابی، بینکوں کو معلومات تک رسائی اور آزادانہ جانچ پڑتال وہ اقدامات ہیں جن سے کرپشن کی جڑوں پر ضرب لگ سکتی ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب اقدامات عملی طور پر نافذ ہو پائیں گے یا ماضی کی طرح فائلوں میں دب کر رہ جائیں گے؟ آئی ایم ایف کی جانب سے ’ہائی رسک‘ قرار دیے گئے دس اداروں کے لیے ایکشن پلان کی ذمے داری نیب کو سونپنا بھی ایک حساس فیصلہ ہے۔ نیب ماضی میں سیاسی انجینئرنگ، انتخابی دباؤ اور یکطرفہ احتساب کے الزامات کی زد میں رہا ہے۔ ایسے میں نیب کو مرکزی کردار دینا تب ہی مؤثر ہو سکتا ہے جب اسے واقعی خودمختار، پیشہ ور اور غیر جانبدار بنایا جائے۔ بصورتِ دیگر، احتساب کا عمل مزید متنازع ہو کر کرپشن کے خلاف جدوجہد کو کمزور کر دے گا۔ ان اصلاحات کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس بڑھانے کی تجاویز، خاص طور پر کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ، ایک نیا سماجی و معاشی سوال کھڑا کرتی ہیں۔ ایک طرف کرپشن کم کرنے اور اشیائے ضروریہ کی منڈیوں میں رکاوٹیں ختم کرنے سے عوام کو ریلیف ملنے کی امید دلائی جا رہی ہے، تو دوسری طرف کسانوں پر ٹیکس کا بوجھ ڈال کر زرعی معیشت کو مزید دباؤ میں لایا جا رہا ہے۔ اگر کرپشن کا اصل بوجھ اشرافیہ اور طاقتور طبقات پر ڈالنے کے بجائے بالواسطہ طور پر عام شہری اور کسان برداشت کریں، تو ایسی اصلاحات عوامی قبولیت حاصل نہیں کر سکتیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ آئی ایم ایف کیا شرائط عائد کر رہا ہے، بلکہ یہ ہے کہ پاکستان خود کب تک بیرونی دباؤ کے تحت اصلاحات کرتا رہے گا؟ کرپشن کے خلاف حقیقی جنگ وہی ہوتی ہے جو اندرونی سیاسی عزم، مضبوط اداروں اور عوامی نگرانی سے لڑی جائے۔ جب تک قانون سب کے لیے برابر نہیں ہوتا، جب تک طاقتور احتساب سے بالاتر رہتے ہیں، اور جب تک شفافیت کو قومی قدر نہیں بنایا جاتا، کرپشن کی جڑیں مضبوط ہی رہیں گی۔ گو کہ ہم آئی ایم ایف کے شکنجے میں ہیں، لیکن ان باتوں پر اگر سنجیدگی سے عمل ہو تو پاکستان ایک بہتر، شفاف اور منصفانہ نظام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ اور انتباہ اس لیے کہ اگر یہ اصلاحات بھی محض رسمی ثابت ہوئیں تو معیشت کے ساتھ ساتھ ریاستی ساکھ کا بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ اب فیصلہ پاکستان کے حکمرانوں کو کرنا ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف حقیقی جنگ لڑنا چاہتے ہیں یا ہر چند سال بعد ایک نئے قرض اور نئی شرائط کے ساتھ اسی دائرے میں گھومتے رہیں گے۔

 

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے نئی شرائط
  • میں نہیں ہم
  • وطن سے بے مثال وفا کی عظیم داستان، نیا نغمہ ’’پاک سرزمینیوں‘‘ جاری
  • وطن سے بے مثال وفا کی عظیم داستان؛ نیا نغمہ ’’پاک سرزمینیو‘‘ جاری
  • کندھکوٹ، صوبائی وزیر اوقاف، عشر و زکوٰۃ و مذہبی امور سید ریاض حسین شاہ شیرازی کھلی کچہری میں عوامی مسائل سن رہے ہیں
  • سعودی عرب میں مسٹر بیسٹ کی پہلی ویڈیو نے ریکارڈ توڑ دی، ریاض سیزن میں عالمی توجہ کا مرکز
  • جنگ 1971: بریگیڈئیر (ر) محمد سرفراز کی آنکھوں دیکھی داستان
  • سعودی عرب: مقابلہ حفظ و تلاوت کے لیے 70 لاکھ ریال کے انعامات
  • فیصل آباد: گن پوائنٹ پر بچیوں سے زیادتی کرنے والا جنسی درندہ فرار ہونے کے بعد پھر گرفتار
  • وزیرِ خزانہ گلوبل ڈویلپمنٹ  کانفرنس میں شرکت کیلئے ریاض چلے گئے