دریائے نیلم اور جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، ذرائع
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
دریائے نیلم اور دریائے جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، دریائے نیلم آزاد کشمیر میں ٹاؤ بٹ پر بھی پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دریائے جہلم پر اڑی ون 480 میگا واٹ پراجیکٹ سے بھی پانی کا اخراج معمول کے مطابق ہے، اڑی ٹو 240 میگا واٹ پروجیکٹ سے پانی کا اخراج معمول کے مطابق جاری ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں (Indus Water Treaty ) سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960 کو عمل میں آیا تھا۔
پاکستان نے بھارتی پروازوں کیلئے فضائی حدود ایک ماہ کیلئے بند کردیپاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارتی پروازوں کو 2 گھنٹوں کا اضافی وقت درکار ہوگا، بھارت کیلئے فضائی حدود کی بندش سے پاکستان کو بھی لاکھوں ڈالر یومیہ کا نقصان ہوگا۔
اس وقت بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان، مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا، بھارت یکطرفہ معاہدہ معطل یا ختم نہیں کر سکتا، تبدیلی کیلئے رضامندی ضرور ی ،پاکستان ثالثی عدالت جانےکاحق رکھتا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کردیا ہے کہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج کسی بھی غلط قدم کے خلاف مکمل طور پر تیار ہے۔
پاکستان سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت بھارتی انڈس واٹر کمشنر سے رجوع کرنے پر غور کررہا ہے، معاہدہ معطل کرنے کی وجوہات جاننے کیلئے پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کی جانب سے بھارتی ہم منصب کو خط لکھے جانے کا امکان ہے، یہ امید کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہوگا۔
دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 62 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔
بھارت کو ان دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔ بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان کے بہاؤ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔
مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، بھارت کو ان دریاؤں پر پراجیکٹ وغیرہ بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا۔ جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا۔ ہائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: معمول کے مطابق دریاو ں یعنی پاکستان کے پانی کا
پڑھیں:
بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستان پر اس کے مضمرات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) جنوبی ایشیا کے جوہری طاقت رکھنے والے دو حریف بھارت اور پاکستان کے درمیان پچھلے پچہتر سال کے دوران کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور دونوں کے درمیان بیشتر اوقات تعلقات کشیدہ رہے ہیں، تاہم پانی کے ایک اہم وسیلے سے متعلق چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے قبل کیا گیا سندھ طاس آبی معاہدہ پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔
لیکن، بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے اہم سیاحتی مقام پہلگام میں گزشتہ منگل کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے، جس میں 26 سیاح ہلاک ہوئے، نے اس معاہدے کو بھی متاثر کردیا۔ بھارت نے اپنی طرف سے اس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
پاک بھارت سندھ طاس معاہدے سے متعلق تنازعہ ہے کیا؟
بھارتی وزارت خارجہ کے سکریٹری وکرم مصری نے معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا، "1960 کا سندھ آبی معاہدہ اب سے اس وقت تک غیر نافذ العمل رہے گا، جب تک کہ پاکستان قابل اعتبار اور ٹھوس طور پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو جاتا"۔
(جاری ہے)
سن 1960 کا سندھ طاس آبی معاہدہ دونوں دیرینہ حریف پڑوسیوں کو دریائے سندھ کے پانی تک مشترکہ رسائی کی سہولت فراہم کرتا ہے۔
سندھ طاس آبی معاہدہ کیا ہے؟ملک کی تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس آبی معاہدہ ستمبر 1960 میں عمل میں آیا تھا۔
سندھ طاس معاہدے پر عالمی بینک کو تشریح کا حق نہیں، بھارت
اس وقت بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
یہ امید کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے عوام اور بالخصوص کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہو گا۔معاہدے کے تحت بھارت کو تین مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس پر کنٹرول دیا گیا جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب پر کنٹرول سونپا گیا۔ اس کے تحت ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔
یہ معاہدہ بھارت کو مغربی دریاؤں پر ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس تیار کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے، لیکن ان منصوبوں کو سخت شرائط پر عمل کرنا چاہیے۔ انہیں "رن آف دی ریور" پروجیکٹ ہونا چاہیے، مطلب یہ ہے کہ وہ پانی کے بہاؤ یا ذخیرہ کو نمایاں طور پر تبدیل نہیں کر سکتے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ پاکستان کے پانی کے حقوق بہاو والے ملک کے طور پر بری طرح متاثر نہ ہوں۔
یہ معاہدہ پاکستان کو کسی ایسے ڈیزائن پر اعتراضات اٹھانے کی بھی اجازت دیتا ہے جو پانی کے بہاؤ کو متاثر کر سکتا ہو۔
معاہدے کی معطلی کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟پاکستان، جو معاہدے کے تحت دریائے سندھ سے تقریباً 80 فیصد پانی حاصل کرتا ہے، ان دریاؤں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ سسٹم میں موجود 16.8 کروڑ ایکڑ فٹ پانی میں سے بھارت کو تقریباً 3.3 کروڑ ایکڑ فٹ پانی مختص کیا گیا ہے۔
اس وقت، بھارت اپنے اجازت شدہ حصے کا 90 فیصد سے کچھ زیادہ استعمال کرتا ہے، جس کی وجہ سے باقی ماندہ حصہ پر پاکستان کا بہت زیادہ انحصار ہے۔یہ انحصار انتہائی اہم بلکہ ناگزیر ہے۔ یہ دریا پاکستان کے زرعی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کروڑوں افراد کی آبادی کے لیے انتہائی اہم ہیں اور ملک کی 23 فیصد زرعی پانی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے جب کہ تقریباً 68 فیصد دیہی معاش کی براہ راست مدد کرتا ہے۔
اس سپلائی میں کوئی بھی رکاوٹ بڑے پیمانے پر منفی نتائج کو جنم دے سکتی ہے۔ مثلاﹰ فصلوں کی پیداوار میں کمی، غذائی عدم تحفظ، اور مزید معاشی عدم استحکام، خاص طور پر ان خطوں میں جو پہلے ہی غربت اور جاری مالیاتی بحران کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ منگلا اور تربیلا جیسے بڑے ڈیموں کا مشترکہ لائیو اسٹوریج صرف 14.4 ملین ایکڑ فٹ ہے جو کہ معاہدے کے تحت پاکستان کے سالانہ استحقاق کا محض 10 فیصد ہے۔
پانی کے بہاؤ میں کمی یا موسمی تغیر کے وقت، ذخیرہ اندوزی میں یہ کمی پاکستان کو شدید خطرات سے دوچار کر دیتی ہے۔ بھارتی ماہرین کیا کہتے ہیں؟پردیپ کمار سکسینہ، جنہوں نے چھ سال سے زائد عرصے تک بھارت کی جانب سے سندھ آبی کمشنر کے طور پر کام کیا، کا کہنا ہے کہ "اگر حکومت (ہند) نے ایسا فیصلہ کیا ہے تو یہ معاہدہ منسوخ کرنے کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے۔
"انہوں نے کہا،"اگرچہ معاہدے میں اس کی منسوخی کے لیے کوئی واضح شق موجود نہیں ہے، لیکن معاہدوں کے قانون سے متعلق ویانا کنونشن کا آرٹیکل 62 کافی گنجائش فراہم کرتا ہے جس کے تحت حالات کی بنیادی تبدیلی کے پیش نظر معاہدے کو رد کیا جا سکتا ہے جو کہ اس معاہدے کے اختتام کے وقت موجود ہیں"۔
سابق بھارتی انڈس واٹر کمشنر سکسینہ کا کہنا تھا کہ دریا چونکہ بھارت کی طرف سے پاکستان کی جانب بہتے ہیں، اس لیے بھارت کو متعدد اختیارات حاصل ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال، بھارت نے پاکستان کو ایک باضابطہ نوٹس بھیجا تھا، جس میں اس معاہدے پر نظرثانی اور ترمیم کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
پاکستانی ماہرین کی رائےسابق پاکستانی سفارت کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی 1960 میں عالمی بینک کی ضمانت میں طے پانے والے دو طرفہ سندھ آبی معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار نہیں ہو سکتا۔
بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے ایک پاکستانی نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر نہ تو معطل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔
انہیں خیالات کی تائید کرتے ہوئے، پاکستان کے سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کو سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا کیونکہ وہ "سازش کے تحت پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے"۔
انہوں نے ایک پاکستانی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ سندھ طاس معاہدہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان دو طرفہ بین الاقوامی معاہدہ ہے اور ا"گر مودی کی زیر قیادت حکومت پاکستان کا پانی روکتی ہے تو یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور جنگ کے مترادف ہو گا۔"
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا، "سندھ طاس معاہدہ تو جنگ میں بھی معطل نہیں ہوتا، پانی تو جنگ میں بھی بند نہیں ہوتا لیکن لگتا ہے بھارت معاملہ انتہا کی طرف لے کر جا رہا ہے۔
" کیا معاہدہ ختم کرنا ممکن ہے؟جنوبی ایشیا میں دریاؤں کے تنازع پر ایک کتاب کے مصنف اور سنگاپور نیشنل یونیورسٹی کے مصنف پروفیسر امت رنجن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ سندھ طاس معاہدے سے اگر دونوں میں سے کوئی ایک ملک بھی یکطرفہ طور پر نکلنا چاہے تو وہ نہیں نکل سکتا۔
وہ کہتے ہیں کہ ویانا کنونشن کے تحت معاہدہ ختم کرنا یا اس سے الگ ہونے کی گنجائش موجود ہے لیکن اس پہلو کا اطلاق سندھ طاس معاہدے پر نہیں ہو گا۔
پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق اسلام آباد حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت یک طرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل یا ختم نہیں کر سکتا۔
پاکستانی حکومتی ذرائع نے خبردار کیا کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اعلان پر پاکستان عالمی بینک سے ثالثی عدالت کے لیے رجوع کر سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگست 2019 میں بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں نمایاں تنزلی آئی ہے۔
تب سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان اعتماد میں مزید کمی آئی ہے۔ اس تیزی سے غیر مستحکم جغرافیائی سیاسی حالات میں آگے بڑھنے کا سب سے قابل عمل راستہ تعاون کے اس جذبے کی طرف واپسی ہے جس میں سندھ طاس آبی معاہدہ پر دستخط کیے گئے تھے۔