UrduPoint:
2025-04-24@19:04:52 GMT

بھارت اور پاکستان کے مابین تقسیم اور جنگ کی تاریخ

اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT

بھارت اور پاکستان کے مابین تقسیم اور جنگ کی تاریخ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) نئی دہلی حکومت اکثر اسلام آباد پر کشمیر میں ان مسلح افراد کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتی ہے، جو سن 1989 سے بھارتی فورسز کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں۔ پاکستان اس بات سے انکار کرتا ہے کہ وہ باغیوں کی حمایت کرتا ہے۔ اسلام آباد حکومت کا کہنا ہے کہ وہ مسلم اکثریتی کشمیر کی خود مختاری کی جدوجہد کی صرف سفارتی حمایت کرتی ہے۔

منگل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 26 افراد کی ہلاکت نے تشدد میں ڈرامائی اضافے کی نشاندہی کی جبکہ یہ حملہ عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان ''جھڑپوں کی نوعیت میں تبدیلی‘‘ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

بھارت نے بدھ کو اسلام آباد کے خلاف متعدد سفارتی اقدامات کیے، جن میں اہم سرحدی گزرگاہ کو بند کرنا اور واٹر شیئرنگ معاہدے کو معطل کرنا بھی شامل ہیں۔

(جاری ہے)

پاکستان نے اس کے جواب میں اپنی قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا، جو صرف بیرونی خطرے یا بڑے حملے کی صورت میں بلایا جاتا ہے۔

ان دونوں ملکوں کے مابین دہائیوں پر محیط پریشان کن تعلقات میں اہم واقعات یہ ہیں:

سن1947: تقسیم اور پہلی جنگ

دو صدیوں کی برطانوی حکمرانی 15 اگست 1947 کو ختم ہوئی، جب برصغیر کو بنیادی طور پر ہندو اکثریتی بھارت اور مسلم اکثریتی پاکستان میں تقسیم کر دیا گیا۔

ناقص تیاری کے ساتھ کی گئی اس تقسیم نے خونریزی کو جنم دیا، جس میں ممکنہ طور پر دس لاکھ سے زائد انسان ہلاک اور ڈیڑھ کروڑ بے گھر ہوئے۔

مسلم اکثریتی کشمیر کا ہندو مہاراجہ بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے فیصلے میں تذبذب کا شکار رہا۔ اس کی حکمرانی کے خلاف بغاوت ہوئی اور بعد میں پاکستان کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں نے کشمیر پر حملہ کر دیا۔

مہاراجہ نے بھارت سے مدد مانگی، جس سے دونوں ممالک کے درمیان مکمل جنگ چھڑ گئی۔ جنوری 1949 میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ 770 کلومیٹر طویل جنگ بندی لائن، جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے، نے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ سن 1965 اور 1971: دوسری اور تیسری جنگ

پاکستان نے اگست 1965 میں کشمیر پر حملہ کر کے دوسری جنگ شروع کی۔ سات ہفتوں بعد سوویت یونین کی ثالثی سے جنگ بندی کے بعد یہ تنازع ختم ہوا، جس میں دونوں طرف کے ہزاروں فوجی ہلاک ہوئے۔

سن 1971 کے آغاز میں پاکستان نے موجودہ بنگلہ دیش میں بڑھتی ہوئی آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیے فوجی تعینات کیے، جو 1947 سے اس کے زیر انتظام تھا۔ نو ماہ کے تنازع میں اندازہً تین ملین افراد ہلاک ہوئے اور کروڑوں بھارت میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

بھارت نے بنگلہ دیش میں پاکستان کے خلاف لڑنے والی قوتوں کو مدد فراہم کی اور پاکستانی فوج نے سن 1971 میں ہتھیار ڈال دیے۔

سن 1989: کشمیر میں بغاوت

سن 1989 میں بھارتی حکمرانی کے خلاف دیرینہ شکایات ابل پڑیں اور کشمیر میں بغاوت شروع ہوئی۔ اگلے سال باغی جنگجوؤں کی جانب سے ہونے والے حملوں اور دھمکیوں کے بعد ہندو اور دیگر اقلیتیں علاقے سے فرار ہو گئیں۔ آنے والی دہائیوں میں سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے ہزاروں فوجی، باغی اور شہری ہلاک ہوئے۔

بھارت نے پاکستان پر کشمیری باغیوں کو مالی امداد اور ان کو مسلح تربیت دینے کا الزام لگایا۔ سن 1998: ایٹمی تجربات اور پھر کارگل جنگ

پاکستان نے سن 1998 میں عوامی سطح پر اپنے اولین ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کیے، جبکہ بھارت نے پہلے سن 1974 میں تجربات کیے تھے۔ سن 1999 میں پاکستان کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہو کر کارگل کے برفیلے پہاڑوں میں فوجی چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔

پاکستان کی حکمراں جماعت کے رہنما اور سینیٹ میں قائد ایوان راجہ محمد ظفر الحق نے کہا کہ اگر ضروری ہوا تو ان کا ملک اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ واشنگٹن کے شدید دباؤ کے بعد پاکستان نے پسپائی اختیار کی، کیونکہ انٹیلی جنس رپورٹس سے پتہ چلا تھا کہ اسلام آباد نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا کچھ حصہ تنازعے کے علاقے کے قریب تعینات کیا تھا۔

اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے فوج کے سربراہ پرویز مشرف پر اس تنازعے کو بھڑکانے کا الزام لگایا، جس میں ان کی اجازت یا علم کے بغیر دس ہفتوں میں کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ چند ماہ بعد مشرف نے شریف کو بغاوت کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا۔

سن 2008 کا ممبئی حملہ

سن 2008 میں عسکریت پسندوں نے بھارت کے مالیاتی مرکز ممبئی پر حملہ کیا، جس میں 166 افراد ہلاک ہوئے۔

بھارت نے اس حملے کے لیے پاکستان کی انٹیلی جنس سروس کو ذمہ دار ٹھہرایا اور امن مذاکرات معطل کر دیے۔ سن 2011 میں رابطے بحال ہوئے لیکن وقفے وقفے سے لڑائی نے صورتحال کو خراب رکھا۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے سن 2015 میں پاکستان کا غیر متوقع دورہ کیا لیکن یہ سفارتی گرمجوشی عارضی ثابت ہوئی۔ سن 2019 میں ایک خودکش حملے میں کشمیر میں 41 بھارتی پیراملٹری اہلکار ہلاک ہوئے، جس پر مودی نے پاکستان کے اندر فضائی حملوں کا حکم دیا۔

دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کو فوری طور پر کم کیا گیا اور مودی چند ماہ بعد قوم پرست جذبے کی لہر پر دوبارہ منتخب ہوئے، جو فوجی ردعمل سے ابھری تھی۔

بعد ازاں مودی کی حکومت نے کشمیر کی جزوی خود مختاری ختم کر دی۔ یہ اچانک فیصلہ بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور کئی ماہ تک مواصلاتی بلیک آؤٹ کا سبب بنا۔ سن 2021 میں دونوں ممالک نے سن 2003 کے جنگ بندی معاہدے کی توثیق کی لیکن پاکستان نے اصرار کیا کہ امن مذاکرات تب ہی شروع ہو سکتے ہیں، جب بھارت سن 2019 سے پہلے کی کشمیر کی خود مختار حیثیت بحال کرے گا۔

ادارت: مقبول ملک

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے عسکریت پسندوں میں پاکستان پاکستان نے پاکستان کے اسلام آباد کے درمیان ہلاک ہوئے بھارت نے کے خلاف

پڑھیں:

پہلگام حملے کے بعد بھارت بھر میں کشمیری طلاب پر ظلم و تشدد کیا گیا

وائرل ویڈیوز میں کشمیری طلبہ ان پر ڈھائے جا رہے ظلم کی داستان بیان کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ چندی گڑھ کے ایک ادارے میں زیر تعلیم اپنے فرزند کی خبرگیری کے بارے میں فکرمند حلیمہ بانو نامی ایک کشمیری خاتون کے یہ الفاظ اس کے اضطراب کو صاف ظاہر کر رہے ہیں۔ سرینگر سے تعلق رکھنے والی حلیمہ کا 20 سالہ فرزند زبیر چندی گڑھ کی ایک یونیورسٹی میں انجینئرنگ کا طالب علم ہے۔ حلیمہ کا کہنا ہے کہ ان انہوں نے آج صبح اپنے فرزند سے فون پر بات کی، جس نے ان سے کہا کہ ہاسٹل میں کچھ کشمیری طلبہ پر حملہ ہوا ہے اور اب ہاسٹل خالی کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ حلیمہ کا کہنا ہے کہ "میں وزیر داخلہ امت شاہ، لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور وزیراعلٰی عمر عبداللہ سے اپیل کرتی ہوں کہ ملک بھر کے مختلف علاقوں میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے"۔

زبیر اُن درجنوں کشمیری طلبہ میں شامل ہے جنہیں پہلگام حملے کے بعد مختلف ریاستوں میں ہراسانی، دھمکیوں، حملوں اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ یاد رہے کہ پہلگام حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے بعد جہاں کشمیر بھر میں احتجاج کیا گیا وہیں بیروں ریاستوں میں کشمیری طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جموں کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے صدر ناصر کھوہامی کے مطابق منگل کی رات سے مختلف ریاستوں میں کشمیری طلبہ پر غصے اور تشدد کی لہر دیکھی جا رہی ہے۔

چنڈی گڑھ کے ڈیرا بسی نامی علاقے کے ہاسٹل میں مقیم کشمیری طلبہ پر تیز دھار ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا، ایک طالب علم شدید زخمی ہوا اور پولیس تاخیر سے پہنچی۔ یہ روداد کشمیری طلبہ نے دیر رات گئے ایک ویڈیو میں بیان کی جس کو انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھی شیئر کیا۔ شمالی ہندوستان کے کئی شہروں سے اسی طرح کی رپورٹس سامنے آ رہی ہیں۔ وائرل ویڈیوز میں کشمیری طلبہ ان پر ڈھائے جا رہے ظلم کی داستان بیان کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہماچل پردیش کے کنگرہ میں کشمیری طلبہ کو "دہشتگرد" کہہ کر ان کے کمروں کے دروازے توڑے گئے۔ اترکھنڈ میں "ہندو رکشا دل" نے کشمیری مسلم طلبہ کو صبح 10 بجے تک ریاست چھوڑنے کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ اترپردیش سے بھی ایسی ہی اطلاعات ہیں کہ کشمیری کرایہ داروں کو نکالنے کو کہا جا رہا ہے۔

پہلگام دہشتگرد حملے کے بعد کشمیری سیاستدانوں نے بھی مرکز سے فوری مداخلت کی اپیل کرتے ہوئے بیرون ریاستوں میں تعلیم حاصل کررہے نوجوانوں یا روزگار وغیرہ کے لئے کام کر رہے یہاں کے باشندوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس دوران جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے صدر اور ہندوارہ سے منتخب اسمبلی ممبر سجاد لون اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سرپرست و جموں کشمیر کی سابق وزیراعلٰی محبوبہ مفتی نے وزیر داخلہ امت شاہ سے کشمیری طلبہ کی سکیورٹی کو یقینی بنانے پر زور دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت نے سی پیک کو ناکام بنانے ،چین کا راستہ روکنے کیلئے پہلگام ڈرامہ رچایا،محمد عارف
  • پہلگام حملے کے بعد بھارت بھر میں کشمیری طلاب پر ظلم و تشدد کیا گیا
  • کشمیر حملے کے بعد بھارت نےحکومت پاکستان کے ایکس اکاؤنٹ تک رسائی پر پابندی لگا دی
  • حکومتِ پاکستان اور یونیورسٹی آف کیمبرج، برطانیہ کے مابین ”علامہ اقبال وزیٹنگ فیلوشپ” کے قیام کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط
  • پاکستان کا پہلگام میں 28 سیاحوں کے قتل پر اظہار افسوس
  • مقبوضہ کشمیر :سیاحوں پر فائرنگ سے 24 افراد ہلاک، بھارتی میڈیا کا پاکستان کیخلاف زہریلا پروپیگنڈا
  • مقبوضہ کشمیر میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 20 افراد ہلاک
  • بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر حملہ، 24 افراد ہلاک
  • نہری منصوبہ، پانی کی تقسیم نہیں، قومی بحران کا پیش خیمہ: مخدوم احمد محمود