Nawaiwaqt:
2025-04-24@17:34:30 GMT

پاکستان باضابطہ طور پر چین کے قمری مشن چانگ 8 کا حصہ بن گیا

اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT

پاکستان باضابطہ طور پر چین کے قمری مشن چانگ 8 کا حصہ بن گیا

اسلام آباد: پاکستان باضابطہ طور پر چین کے قمری مشن چانگ 8 کا حصہ بن گیا ہے۔چین کی نیشنل اسپیس ایڈمنسٹریشن نے چانگ ای-8 مشن کے لیے بین الاقوامی تعاون کے منصوبوں کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے. جس کے مطابق چانگ ای 8 کے لیے کل 10 منصوبوں کو منتخب کیا گیا ہے۔منتخب تعاون کے پروگرامز میں پاکستان کا چاند روور بھی شامل ہے، قمری روور سپارکو اور انٹرنیشنل سوسائٹی فار ٹیرین ویہیکل سسٹمز نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔تھائی لینڈ، ترکی، اٹلی، مصر اور ایران جیسے ممالک اور خطوں کے پروگراموں کو بھی چانگ ای-8 کے بین الاقوامی پے لوڈ تعاون کے لیے منتخب کیا گیا ہے.

اس کے علاوہ میکسیکو، جنوبی، افریقہ، بحرین اور روس بھی مشن کا حصہ ہوں گے۔ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل سپارکو امجد علی نے کہاکہ ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی اب چاند تک پہنچ رہی ہے۔ 
واضح رہے کہ پاکستان نے اس سے قبل چین کے چانگ ای-6 مشن میں حصہ لیتے ہوئے فانگ ای کے ذریعے سیٹلائٹ ICUBE-Q چاند کے مدار میں بھیجا تھا، تاہم اب چین کے ساتھ چانگ ای-8 مشن کے لیے روور کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے گئے ہیں۔سپارکو کا کہنا ہےکہ  روور  جس کا وزن تقریباً  30کلوگرام ہے، چین کے چانگ ای 8 مشن کا حصہ ہوگا، جو بین الاقوامی قمری تحقیقاتی اسٹیشن (ILRS) منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ چین چانگ ای-8 مشن کو2029 میں لانچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، چانگ ای 8 مشن چاند کے جنوبی قطب کے علاقے میں لیبنیٹز-β پلیٹو کے قریب لینڈ کرے گا ، جہاں یہ چانگ ای-7 مشن کے ساتھ مل کر سائنسی تحقیق اور مقامی وسائل کے استعمال کے تجربات کرے گا۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: چانگ ای 8 مشن کے لیے چین کے کا حصہ

پڑھیں:

سندھ طاس معاہدے پر ایک نظر

اسلام ٹائمز: 1951ء میں ورلڈ بینک نے کوشش کی کہ دونوں ممالک سندھ طاس نظام کو ایک وحدت کے طور پر چلانے کے لیے آپس میں تعاون کر لیں اور کسی معاہدے پر پہچنے کے لیے کوشش کی، تاہم یہ جلد واضح ہو گیا کہ بھارت کسی ایسے معاہدے کا خواہش مند نہیں تھا جس کے تحت اس کا دریاؤں پر سے کنڑول ختم ہوجائے۔ جب کہ پاکستان کو کسی صورت میں بھارت کی بادستی اور دریاؤں پر پورا کنڑول منظور نہیں تھا۔ یہ گفت و شنید بڑی لمبی اور تھکا دینے والی تھی اور دونوں ممالک اپنی اکتا دینے والی ایسی دلیلیں اور تجویزیں پیش کر رہے تھے۔ جس سے مخالف فریق کے مفادات اور دریاؤں کی بالادستی پر ضرب پہنچتی تھی۔ ورلڈ بینک کے نمائندے اور دوست حکومتیں جو اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد دے رہی تھیں جلد ہی ان پر واضح ہوگیا کہ اب ممکن نہیں ہے کہ اس نظام کو چلایا جاسکے۔ تحریر: عرفان علی عزیز

سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جو بھارت اور پاکستان کے درمیان 1960ء میں طے پایا۔ یہ معاہدہ ورلڈ بینک کی ثالثی میں ہوا، اور اس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان پانی کی تقسیم کا منصفانہ اور پائیدار نظام قائم کرنا تھا۔

معاہدے کی اہم باتیں:
1۔ دریاؤں کی تقسیم:
معاہدے کے تحت چھ بڑے دریاؤں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا:
مشرقی دریا: ستلج، بیاس، راوی
ان دریاؤں کا مکمل کنٹرول بھارت کو دیا گیا۔
مغربی دریا: سندھ، جہلم، چناب
ان دریاؤں کا پانی پاکستان کو دیا گیا، تاہم بھارت کو کچھ غیر زراعتی استعمال (مثلاً پن بجلی، گھریلو استعمال) کی اجازت ہے، مشروط طور پر۔

2۔ پاکستان کے تحفظات:
پاکستان کو خدشہ تھا کہ اگر بھارت مغربی دریاؤں پر ڈیم بناتا ہے یا پانی روک لیتا ہے تو پاکستان کے زراعت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

3۔ عمل درآمد اور نگرانی:
معاہدے میں ایک مشترکہ انڈس واٹر کمیشن قائم کیا گیا جو دونوں ممالک کے درمیان پانی کے معاملات پر سالانہ ملاقاتیں کرتا ہے اور شکایات کا حل تلاش کرتا ہے۔ اگر بھارت سندھ طاس معاہدہ ختم کر دے تو اس کے نہ صرف پاکستان بلکہ خود بھارت اور خطے پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

آیئے اس کے ممکنہ نتائج پر نظر ڈالتے ہیں:
1۔ عالمی قوانین کی خلاف ورزی
سندھ طاس معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے، جو ورلڈ بینک کی ثالثی میں ہوا۔ بھارت کی طرف سے اس کو یک طرفہ ختم کرنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوگی، بھارت کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچے گا، پاکستان عالمی عدالتِ انصاف یا دیگر بین الاقوامی فورمز سے رجوع کر سکتا ہے۔

2۔ پاکستان کی زرعی معیشت کو خطرہ
پاکستان کی زراعت کا بڑا انحصار سندھ، جہلم اور چناب پر ہے۔ اگر بھارت ان دریاؤں کا پانی روکنے یا کنٹرول کرنے کی کوشش کرے تو پانی کی شدید قلت ہو سکتی ہے، فصلوں کی پیداوار متاثر ہوگی اور معاشی اور غذائی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

3۔ علاقائی کشیدگی میں اضافہ
پانی کو جنگ یا دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا جنوبی ایشیا میں امن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ حتیٰ کہ محدود جنگ یا سرحدی جھڑپوں کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

4۔ بھارت کے لیے بھی نقصاندہ
اگرچہ بھارت کو مشرقی دریاؤں پر مکمل کنٹرول حاصل ہے لیکن وہ مغربی دریاؤں پر مکمل قبضہ نہیں کر سکتا کیونکہ بین الاقوامی دباؤ اور تکنیکی حدود موجود ہیں۔ ایسا قدم کشمیر اور پنجاب جیسے بھارت کے آبی علاقوں میں بھی سیاسی بے چینی پیدا کر سکتا ہے۔

5۔ عالمی برادری کا ردعمل
چین، امریکہ، یورپی یونین، اقوامِ متحدہ اور ورلڈ بینک جیسے ادارے مداخلت کر سکتے ہیں۔ اس معاہدے کی یک طرفہ منسوخی دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ اور آبی حقوق کے خلاف سمجھی جائے گی۔

سندھ طاس معاہدے کی تاریخ
پاکستان اور بھارت کے درمیان 19 ستمبر 1960ء میں دریائے سندھ اور دوسرے دریاوں کا پانی منصفانہ طور پر حصہ داری کا معاہدہ ہوا، جو سندھ طاس معاہدہ کہلاتا ہے۔ 1909ء میں برطانوی حکام نے پنجاب کو برصغیر کے لیے گودام بنانے کے ایک زیریں سندھ طاس کے منصوبے پر غور کیا، اس کے مطابق ایک دریا کے پانی کو دوسرے دریا تک پہنچایا جانا تھا۔ جہلم کو ایک نہر کے ذریعہ چناب سے ملا دیا گیا۔ نہروں اور پنجند اور معاون دریاؤں پر بہت سے بند اور بیراج باندھے گئے۔ اس طرح یہ سیلاب کے وقت پانی کا ذخیرہ کرلیتے تھے۔ اس طرح جہاں سیلابوں پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا تھا اور ان میں جمع شدہ پانی کو سردیوں کے خشک موسم میں استعمال کیا جا سکتا تھا۔ 1932ء میں سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پر تعمیر کیا گیا پہلا بیراج کھول دیا گیا اور دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی کے نظام نے کام کرنا شروع کر دیا۔

تقسیم سے کچھ عرصہ پہلے دوسرا بیراج کالا باغ کے مقام پر تعمیر کیا گیا، جس وقت یونین جیک اتارا گیا اس وقت تک برطانوی انجینیر سندھ طاس کو دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی نظام مہیا کرچکے تھے۔ یہاں انھوں نے جو فارمولے تشکیل دیے وہ دنیا میں ہر جگہ نہروں کی تعمیر اور ان کو چلانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ تقریباً پچاس سال تک صحرا میں پانی کے مسئلہ کو میدانوں میں ان طاقتور دریاؤں کو قابو میں رکھنے اور لگام ڈالنے کا کام ایک مکمل وحدت کے طور پر انجام دیا جاتا رہا مگر 1947ء کی تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ سر سیرل کلف اس کمیشن کا چیئرمین تھا۔ جسے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

برطانیہ کو اپنے اس نہری نظام پر فخر تھا اور قدرتی طور پر اس کی خواہش تھی کہ کامیابی سے چلتا رہے، اس لیے سر سیرل کلف نے تقسیم کے وقت نہروں اور دریاؤں کو کنٹرول کرنے کے اس نظام کی اہمیت پوری طرح دونوں فریقوں پر واضح کردی اور برطانوی خواہش کے مطابق تجویز پیش کی کہ دونوں ملک ایک معاہدہ کرلیں کہ وہ اس سارے نظام کو ایک اکائی کی طرح چلائیں مگر دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور بڑی سختی سے یہ تجویز دونوں نے رد کردی گئی۔ پاکستان جانتا تھا اس طرح وہ بھارت کے رحم و کرم پر رہے گا۔ نہرو نے بڑے سیدھے الفاظ میں کہدیا کہ بھارت کے دریا بھارت کا مسئلہ ہیں۔ کیونکہ اس کو امید تھی کہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے باوجود وہاں کا ہندو راجا بھارت کے ساتھ شامل ہونا پسند کرے گا۔ شاید ان کے درمیان اندرون خانہ کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا۔

کشمیر کے بھارت میں شامل ہونے کی صورت میں دریاؤں پر اس کی بالادستی قائم رہے گی۔ وہ پاکستان سے پانی کے لیے اپنی من مانی شرائط منوا سکتا تھا۔ ہوا بھی یہی تقسیم کے وقت گوداسپور کا مسلم اکثریت کا علاقہ بھارت کے حوالے کرکے کشمیر کا زمین راستہ دے دیا گیا۔ تقسیم کے وقت ظاہری طور پر پاکستان فائدے میں نظر آتا تھا کہ پنجاب کی 23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کے قبضہ میں آگئیں۔ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کے پنڈت نہرو کی امیدوں کے عین مطابق اب بھارت ہر وہ دریا پر جو پاکستان کی نہروں کو پانی مہیا کرتے تھے مکمل قابض ہو چکا تھا۔ پجند کے پانچوں دریا مغرب میں پاکستان پہنچنے سے پہلے اس علاقے سے بہتے ہوئے آتے تھے جس پر اب بھارت قابض ہو چکا تھا۔ بلکہ دریائے سندھ خود بھی کشمیر کے ایک حصے پر بھارت کے قبضے کے نتیجے میں لداخ کے مقام پر بھی بہتا ہے۔ لیکن ہمالیہ کی دور دراز گھاٹیوں میں بہنے کی وجہ سے وہاں اس کا رخ بدلنا ممکن نہیں ہے لیکن دوسرے دریا خاص طور پر ستلج بھارت کے میدانوں میں میلوں چکر کاٹ کر آتا ہے۔

اس کے علاوہ پانی کی تقسیم کے لیے دونوں دریاؤں راوی اور ستلج کے پر قائم تمام اہم ہیڈ ورکس بھی بھارت کے قبضہ میں آگئے تھے۔ یہ وہ ہیڈورکس تھے جو پچاس سال سے ان کھیتوں کو پانی پہنچا رہے تھے جو پاکستان کے علاقے میں تھے۔ بھارت اس پوزیشن میں تھا وہ جب چاہتا وہ پاکستان کو پانی کی سپلائی روک سکتا تھا اور ہوا بھی یہی۔ اس نے آزادی کے فوراًً بعد پاکستان کا پانی روک لیا۔ آخر کار مارچ 1948ء تک کی مدت کے لیے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس میں تنازعات کے حل کے لیے ایک کمیٹی کی تجویز بھی شامل تھی۔ عین اس دن یہ مدت ختم ہوئی بھارت نے پاکستان کسی بغیر کسی اتنباہ کے راوی اور ستلج کا پانی روک دیا۔

کسانوں نے ابھی گرمیوں کی فضلیں بونی شروع کیں تھیں اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فضلیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں۔ بعد میں بھارت نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ سب کچھ غلط فہمی کی بنا پر ہوا ہے۔ پاکستانیوں کا خیال تھا کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہوا تھا اور اس کا مقصد پاکستان کو تباہ و برباد اپنا محتاج کرنا تھا کہ وہ دوبارہ بھارت میں انضمام پر مجبور ہو جائے۔ اس سے پاکستان کو ناقابل فراموش سبق ملا اور اس نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ اپنا دریائی آبپاشی کا نظام قائم کرے گا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تکرار جاری تھی۔

یہ پانی کی قیمت اور دریائی پانی وصول کرنے کے اوقات کے حوالے سے نہ ختم ہونے والے تنازعات تھے۔ اس سلسلے میں عارضی بنیادوں پر جو معاہدے ہوئے وہ پاکستان کے لیے غیر تسلی بخش تھے کیوں کہ جب برصغیر کے تمام مغربی علاقوں میں پانی کی سپلائی میں کمی ہوتی تھی تو بھارت پاکستان کا پانی اپنے استعمال کے لیے روک لیتا تھا۔ جب موسمی سیلاب پنجند دریاؤں میں امڈ آتے تو یہ پانی پاکستان کے سالانہ کوٹے میں سے منہا کر لیا جاتا تھا جو پاکستان کے کسی کام نہیں آتا تھا۔ اپنی بقا کی خاطر لاچاری کی صورت میں پاکستان نے دریائے سندھ پر کام کرنا شروع کر دیا۔

1951ء میں ورلڈ بینک نے کوشش کی کہ دونوں ممالک سندھ طاس نظام کو ایک وحدت کے طور پر چلانے کے لیے آپس میں تعاون کر لیں اور کسی معاہدے پر پہچنے کے لیے کوشش کی، تاہم یہ جلد واضح ہو گیا کہ بھارت کسی ایسے معاہدے کا خواہش مند نہیں تھا جس کے تحت اس کا دریاؤں پر سے کنڑول ختم ہوجائے۔ جب کہ پاکستان کو کسی صورت میں بھارت کی بادستی اور دریاؤں پر پورا کنڑول منظور نہیں تھا۔ یہ گفت و شنید بڑی لمبی اور تھکا دینے والی تھی اور دونوں ممالک اپنی اکتا دینے والی ایسی دلیلیں اور تجویزیں پیش کر رہے تھے۔ جس سے مخالف فریق کے مفادات اور دریاؤں کی بالادستی پر ضرب پہنچتی تھی۔ ورلڈ بینک کے نمائندے اور دوست حکومتیں جو اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد دے رہی تھیں جلد ہی ان پر واضح ہوگیا کہ اب ممکن نہیں ہے کہ اس نظام کو چلایا جاسکے۔

دریاؤں کے بالائی حصوں پر قبضہ کی وجہ سے بھارت کی بالادستی قائم تھی اور پاکستان اپنے ابتدائی سالوں کی سختیاں بھگت کر پختہ ہوچکا تھا۔ اب وہ دریائے سندھ کو کنڑول کرنے کرنے کی کوششوں اور دنیا کے ساتھ پر امن تعلقات کی بناء پر ایک خوش حال اور فراغت دور کی توقع رکھے ہوئے تھا۔ دوسری طرف بھارت کو اندرونی طور پر بڑھتے ہوئے معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا تھا، جب کہ بیرونی سطح پر چین کے دستے ہمالیہ میں اس بیرونی چوکیوں پر حملہ کر رہے تھے۔ 1955ء میں کوٹری بیراج مکمل ہوا۔ اس سے سندھ کے مشرقی علاقوں میں پانی میسر آیا وہاں اس کا یہ نقصان ہوا کہ تازہ پانی کے روکنے کی وجہ سے سمندر کا نمکین پانی پہلے کی نسبت بہت آگے آگیا۔

ڈیرہ غازی خان کے نذدیک چشمہ بیراج جس کی برطانیہ نے منصوبہ بندی کی تھی، اس پر 1953ء میں کام شروع ہوا اور پانچ سال میں مکمل ہوا۔ ایک اور بیراج سندھ اور پنجند کے ارتصال پر اور سکھر کے درمیان گدو کے مقام پر 1962ء میں مکمل ہوگیا ۔ اس بیراج کی تجویز بھی برطانیہ کی تھی۔ دوسرے بڑے ہیڈ ورکس جن کی پاکستان نے منصوبہ بندی کی تھی وہ پنجند کے دریاؤں پر پھیلے ہوئے تھے۔ نئے بیراجوں کی تعمیر سے پاکستان کے مسائل کم ضرور ہوئے مگر یہ مکمل طور پر حل نہیں ہوئے۔ وہ اب بھی پنجند کے پانیوں کو استعمال کرنے کے لیے بھارت کا محتاج تھا۔ 1960ء تک دونوں ملکوں میں مفادات کا توازن تقسیم کی نسبت ہموار ہو چکا تھا اور آخر ورلڈ بینک بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس کے معاہدے پر دستخط کروانے میں کامیاب ہو گیا۔

دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا۔ جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا۔ ہائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا۔ جس کی معلومات تک رسائی دونوں ممالک کو حاصل تھی۔ پنجند کے تین مشرقی دریا ایک مقررہ مدت کے بعد جس کے دوران پانی کی ایک طے شدہ مقدار پاکستان کو مہیا کی جانی تھی مکمل طور پر بھارت کے سپرد کر دیئے گئے۔ دریائے سندھ اور پنجند کے دو جہلم اور چناب پر پاکستان کی حاکمیت تسلیم کیے گئے اور بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان کے بہاوَ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔ اس عبوری دور میں پاکستان کو مغربی دریاؤں پر ہیڈ ورکس تعمیر کرنے تھے تاکہ مشرقی دریاؤں کے بند ہو جانے کی صورت میں پانی کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔

جب سندھ طاس برطانوی دور میں تقریباً سارے کا سارا ایک حکومت کے تحت تھا تو برطانوی حکومت کے انجینئروں نے سالا سال کی محنت اور منصوبہ بندی کے بعد آب پاشی کا ایک پیچیدہ نظام قائم کیا تھا۔ اب نئے تقاضوں کے پیش نظر اس سارے نظام کو نئے سے منظم کرنا اور مختلف حصوں میں باٹنے کے لیے ایک خطیر رقم کی ضرورت تھی۔ بھارت اور پاکستان نے کچھ رقم اکٹھی کی اور ورلڈ بینک نے بھی قرضہ مہیا کیا۔ اس کے علاوہ امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور جرمنی نے امدادی رقوم دیں اور کام شروع ہوگیا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا پاکستان میں دریائے کابل پر وارسک، جہلم پر منگلا ڈیم اور دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم جیسے منصوبوں کی لاگت میں بتدریخ اضافہ ہوتا چلا گیا اور مدد کرنے والے ملکوں کو کئی مرتبہ اپنی امدادی رقوم میں اضافہ کرنا پڑا۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ طاس معاہدے پر ایک نظر
  • بھارت نے پاکستان کا پانی بند کیا تو کیا ہوگا؟
  • وفاق و صوبائی حکومتیں ناکام ہو چکیں، اپوزیشن کا کوئی باضابطہ اتحاد نہیں: فضل الرحمن
  • اپنے ہی پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، اپوزیشن کا باضابطہ اتحاد موجود نہیں، مولانا فضل الرحمان
  • 25 اپریل کو آسمان پرمسکراتا چہرہ نمودارہوگا
  • ٓئندہ جمعہ کی صبح آسمان پر چاند، زہرہ، زحل اور عطارد کی ملاقات
  • آئی ایم ایف نے پاکستان کی شرح نمو پیشگوئی 3 فیصد سے کم کر کے 2.6 فیصد کر دی
  • ارتھ ڈے اور پاکستان
  • 25 اپریل کوآپ آسمان پر مسکراتا چہرہ کب اور کہاں کہاں دیکھ سکتے ہیں؟جانیں