Express News:
2025-04-24@21:05:33 GMT

میں تمہیں مار دوں گا بھارتی ہیڈکوچ کو قتل کی دھمکی

اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT

انڈین پریمئیر لیگ (آئی پی ایل) کے دوران بھارتی ٹیم کے سابق کرکٹر و موجودہ ہیڈکوچ گوتم گمبھیر کو قتل دھمکی موصول ہوئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی ہیڈکوچ گوتم گمبھیر کو ای میل کے ذریعے جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ہے، جس میں محض ایک جملہ شامل تھا کہ میں تمہیں مار دوں گا۔

ہندو انتہا پسند حکمراں جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما اور بھارتی ٹیم کے ہیڈکوچ گمبھیر نے دھمکی ملنے پر راجندر نگر پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروادی ہے، جس کے بعد اعلیٰ حکام نے تحقیقات شروع کردی ہیں۔

مزید پڑھیں: سہواگ کی اپنے ہی کرکٹر پر سرجیکل اسٹرائیک، متنازع آؤٹ پر بول اُٹھے

رپورٹس میں کہا گیا ہےکہ دھمکی نے نہ صرف ان کے مداحوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے بلکہ سیکیورٹی اہلکاروں کو فوری ایکشن پر مجبور کیا ہے۔

مزید پڑھیں: آئی پی ایل کمنٹیٹر، پی ایس ایل میں فرنچائز سے کھیلنے کو تیار

گوتم گمبھیر کی جانب سے باضابطہ طور پر مقدمہ درج نہیں کیا گیا ہے لیکن سائبر سیل ای میل کو ٹریک کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

مزید پڑھیں: ٹاس کے دوران شادی کا سوال؛ شبمن گِل پریشان! ویڈیو وائرل

واضح رہے کہ گزشتہ سال جولائی میں بھارتی ٹیم کے ہیڈ کوچ کا عہدہ سنبھالنے والے گوتم گمبھیر نے ورلڈ کپ جیتنے والے کوچ راہول ڈریوڈ کی جگہ لی تھی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گوتم گمبھیر

پڑھیں:

دھمکی نہیں دلیل

اسلام ٹائمز: امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں: امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اسکے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔ تحریر: احسان احمدی

امریکی حکام نے برسوں سے اپنے آپ کو دھوکہ دے رکھا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرکے اس کے جوہری پروگرام میں رکاوٹ پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ خلاصہ ہے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سابق اہلکار اور ایک سینیئر امریکی ماہر رے ٹیکیکی کے الفاظ کا۔ رے ٹیکیکی نے ہفتے کے روز پولیٹیکو ویب سائٹ پر واشنگٹن اور تہران کے درمیان بالواسطہ بات چیت کے بارے میں ایک مضمون  شائع کیا تھا۔ مغربی میڈیا کے معمول کے پروپیگنڈے کے برعکس رے ٹیکیکی نے اپنے مضمون کا مرکز اس حقیقت پر رکھا کہ جس چیز کی وجہ سے ایران اور امریکہ کے درمیان مختلف ادوار میں مذاکرات ہوئے، وہ ایران کے خلاف پابندیوں کا دباؤ نہیں تھا بلکہ امریکہ کو ایران کی جوہری پیش رفت سے خطرے کا احساس تھا۔

یہ نقطہ نظر، میڈیا کی تشہیر سے ہٹ کر، مختلف امریکی حکومتوں کے حکام کے الفاظ میں اشاروں کنایوں میں درک کیا جاسکتا ہے۔ ان اہلکاروں میں سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی شامل ہیں۔ اپنی ایک رپورٹ Every Day Is Extera میں وہ واضح کرتا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایران کی مقامی افزودگی کو تسلیم کیے بغیر اس کے ساتھ بات چیت کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کتاب میں، جان کیری لکھتے ہیں: "اس بات سے قطع نظر کہ ایران کو افزودگی کا "حق" حاصل ہے یا نہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جب تک ہم احتیاط سے طے شدہ حدود کے تحت ایران کی افزودگی جاری رکھنے کے امکان کے بارے میں بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، تب تک  ایران کے ایٹمی پروگرام تک رسائی، شفافیت اور حقائق کے حصول کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ افزودگی کے حق کو تسلیم کرکے ہی اس بات کو  یقینی بنایا جا سکتا  ہے کہ ایران فوجی جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے یا نہیں۔

سابق امریکی سفارت کار نے مزید کہا ہے کہ ایران میں اوسط ہر دوسرا فرد اس خیال سے ناراض ہوگا کہ ان کا ملک وہ نہیں کرسکتا، جو دوسرے آزاد ممالک (افزودگی) کرتے ہیں، کیونکہ امریکہ ایسا کرنا چاہتا ہے۔ ایرانیوں کے نزدیک یہ انداز امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے مساوی ہوگا۔ وہ امریکی جنہوں نے ان کے خیال میں شاہ کے دور میں ان کی آزادی اور خودمختاری میں کافی عرصے تک مداخلت کی تھی۔ اس کتاب میں کیری نے انکشاف کیا کہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی خفیہ طور پر ایران میں مقامی افزودگی کو قبول کرنے کی ضرورت کے خیال کو قبول کر لیا تھا۔

وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ میں نے ان سے  اپنی نجی گفتگو سے یہ درک کیا  کہ بش انتظامیہ کے بظاہر عوامی موقف کے باوجود، اس انتظامیہ نے خفیہ طور پر اور نجی طور پر (ایرانی افزودگی کے) خیال سے اتفاق کر لیا تھا، حالانکہ وہ کبھی اس نتیجے پر نہیں پہنچے تھے کہ ایٹمی ڈھانچہ یا سطح (افزودگی) کیا ہونی چاہیئے۔ اپنے مضمون میں رے ٹیکیکی نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ٹرمپ کی  پہلی انتظامیہ کے دوران زیادہ سے زیادہ دباؤ کا منصوبہ ایران کے جوہری پروگرام کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کا آغاز، حتیٰ کہ اوباما کے دور میں بھی، واشنگٹن کی جانب سے تہران کو دی جانے والی اہم مراعات کا نتیجہ تھا۔

"اوباما کی زیادہ دوستانہ پالیسی تبھی آگے بڑھی، جب واشنگٹن نے (تہران) کو ایک کلیدی رعایت دی یعنی "ایران کو افزودہ کرنے کا حق،" امریکی تجزیہ نگار لکھتے ہیں۔ امریکیوں نے ایران کو ایک اور اہم رعایت دی، جو ایران کو اپنے جوہری ڈھانچے کو برقرار رکھنے کی اجازت دینا تھی اور اسی وجہ سے مذاکرات کا سلسلہ مکمل قطع نہیں۔ ایران دھمکیوں اور دباؤ کی بجائے صلح و دوستی کی فضا میں یورینیم کی افزودگی اور اس کے ذخیرہ کرنے کی مقدار میں نظرثانی کرسکتا ہے، لیکن دھونس، دھاندلی نہ پہلے ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکی ہے اور نہ آئندہ ایسا ممکن ہے۔ ایران اپنی لوجک اور مضبوط دلائل کے ساتھ سفارتی میدان میں مخالفین کے خلاف نبرد آزما ہے۔

متعلقہ مضامین

  • “میں تمہیں مار دوں گا” بھارتی ہیڈکوچ کو قتل کی دھمکی
  • بھارتی کرکٹ بورڈ کی بھی پاکستان کرکٹ بورڈ کو دھمکی، کرکٹ کھیلنے سے انکار
  • سہواگ کی اپنے ہی کرکٹر پر سرجیکل اسٹرائیک، متنازع آؤٹ پر بول اُٹھے
  • کشمیر: پاکستان کے خلاف بھارتی اقدامات اور اسلام آباد کی جوابی کارروائی کی دھمکی
  • دھمکی نہیں دلیل
  • پی سی بی کیساتھ مالی تنازع، سابق ہیڈکوچ نے آئی سی سی کا دروازہ کھٹکھٹا دیا
  • پاکستان کرکٹ ٹیم کا نیا ہیڈکوچ کون ہوگا، نام سامنے آگیا؟
  • واجبات کی عدم ادائیگی؛ گلیسپی نے آئی سی سی کا در کھٹکھٹا دیا
  • کوہلی کے مداح آپے سے باہر؛ ایک اور کرکٹر کی بہن کو ٹرول کرنے لگے