افغانستان!خواتین کے چائے،کافی اور قہوہ خانوں کی دلفریبیاں
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
اس پر محفل میں ایک چلبلی اور شوخ لڑکی ’’بروانہ‘‘نے شعر اچھالا،گھر کی صفائی، کھانا اور بچوں کی دیکھ بھال،لڑکی کو چائے لانا بہت مہنگا پڑااس پر محفل میں موجود ’’گلِ بختاور‘‘ نے چٹکی لی کہ ’’ ناہید کو جس لڑکی نے چائے نہیں پوچھی تھی، وہ شائد،گھر کی صفائی، کھانا اور بچوں کی دیکھ بھال،جیسا مہنگا سودا نہیں کرنا چاہتی ہوگی۔‘‘ جس پر کِھلکھاتی صنفِ نازک کی یہ محفل زعفران زار بن گئی۔گرم مشروبات کے ساتھ لطیفوں کی روایات، اس کے علاوہ چائے کی چسکیوں کے ساتھ ہلکا پھلکا ہنسی مذاق بھی ان کی زندگی میں رنگ بھرتا ہے۔ہرات میں موجود Latte Caf (دودھ والی کافی) “Latte” اطالوی زبان میں ’’دودھ‘‘ کے معنی رکھتا ہے میں کافی کی چسکیاں لیتی’’شہناز عزیزی‘‘کہتی ہیں کہ ‘قہوہ خانوں کی رونق لطیفوں کے بغیر ادھوری ہے۔
’’سبز قہوے نے ہلکی سی شگفتگی سے جواب دیا:‘‘ یہی کہ تمہاری بدولت ہی لوگ مجھے،چائے کا چھوٹا بھائی کہہ کر عزت دیتے ہیں! اس پر کافی نے مسکراتے ہوئے مرزا غالب کا شعر کہاہوا ہے
شہہ کا مصاحِب، پِھرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے؟
اخبار اور سیاسی و علمی بحثیں:ان قہوہ خانوں کی ایک اور خوب صورتی یہ ہے کہ یہ خواتین کو دنیا سے جوڑنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہاں اخبار بینی ایک معمول ہے، جہاں خواتین تازہ ترین خبروں سے آگاہ ہوتے ہوئے ان پر اپنی رائے قائم کرتی ہیں۔ یہ عمل انہیں معاشرے میں ایک فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ان قہوہ خانوں میں فلسفیانہ بحثوں اور علم و ادب کے ورقوں کی الٹ پلٹ کی سرسراہٹ بھی سنائی دیتی ہے۔ ایک طالبہ کہتی ہیں:ایک طالب علم کے لیے چائے اور علم کی جوڑی اس کے جسم و روح کو تازگی دیتی ہے جیسے کہا جاتا ہے کہ علم کی روشنی سے ہی روح کی تاریکیاں دور ہوتی ہیں اور قہوہ خانے کی کڑک چائے وہ ٹانک ہے، جو سست دماغ کو بیدار کرتا ہے!طالبہ کا یہ فلسفیانہ خیال بتاتا ہے کہ وہ ادبی ذوق اور بین الثقافتی رواداری جیسی ذہنی وسعتِ کی صفت سے مالا مال ہے۔
سہ پہر کی دھوپ میں کوہِ طور کا احساس:جب چھت کے ساتھ لگے بالائی روشن دان سے سہ پہر کی دھیمی حرارت والی آفتابی کرن آنکھوں سے آنکڑا لڑانے لگی تو ایک پختہ عمر خاتون شیریں بانو ’مسکرا کر کہنے لگیں‘یہ قہوہ خانہ ہمارا کوہِ طور جیسا ہے وہ پرآرام ٹھکانہ جہاں ہم ایک دوسرے سے ملتے جلتے اور سکین دل حاصل کرتے ہیں۔ جیسے سعدی شیرازی نے کہا ہے:بنی آدم اعضای یکدیگرند۔ ہم یہاں ایک دوسرے کی خوشی و غمی کا حصہ بنتی ہیں۔
امارتِ اسلامی کی طرف سے ان چائے خانوں کی حمایت سے یہ جگہ نہ صرف تحفظ، بلکہ فکری آزادی کا استعارہ بن گئی ہے۔چائے، کافی اور قہوہ ‘اب محض مشروبات نہیں رہے:قہوہ خانے کی مغرب کی جانب والی کھڑکی سے جب ڈھلتے سورج کی مدھم نارنجی روشنی کافی کی میز تک پہنچتی ہے تو خواتین کے ہاتھوں میں کافی کے ٹِنگ ٹِنگ ٹکراتے کپ کچن میں سمیٹ دیے جاتے ہیں۔
امارتِ اسلامی کے امن بھرے افغانستان کی یہ چائے، کافی اور قہوہ اب محض مشروبات نہیں رہے یہ تو تہذیب کے وہ ستون بن گئے ہیں، جو افغان خواتین کو اسلام کا دیا ہوا بلند مقام دِلا رہے ہیں۔ یہ وہ جگہیں ہیں، جہاں مشروبات کی گرمی، الفاظ کی رفاقت اور باہمی احترام کی فضا صنفِ نازک کو شانِ خوداری بخشتی ہے۔جیسے کسی نے کہا ہے:’قہوہ خانے کی ہوا میں ہی تو حافظ و اقبال کے مصرعے اڑتے ہیں اور ہم انہیں پینے والے پیالوں میں محفوظ کر کے اپنی روح میں اتار لیتے ہیں۔
افغانستان میں خواتین کے لیے مختص قہوہ خانے صرف چائے، کافی اور قہوے سے لطف اندوز ہونے کی جگہیں نہیں، بلکہ یہ صنفِ نازک کے لیے آزادی، احترام اور بااختیاری کا استعارہ ہیں۔ یہاں چائے کا ہر پیالہ، کافی کا ہر گھونٹ اور قہوے کی ہر چسکی نہ صرف جسم کو تازگی دیتے ہیں، بلکہ روح کو بھی ادب، شاعری اور سماجی رابطوں سے منور کرتے ہیں۔ یہ قہوہ خانے اس بات کا ثبوت ہیں کہ افغان خواتین مشکل حالات میں بھی اپنی آواز، اپنے خواب اور اپنی ہنسی کو زندہ رکھ سکتی ہیں۔
امارت اسلامی کا تعاون:امارت اسلامی نے اسلامی اصولوں کے ماتحت ان قہوہ خانوں کو مکمل تعاون فراہم کیا ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ خواتین کے تحفظ، احترام اور آزادی کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ اگرچہ ماضی میں ان قہوہ خانوں کی بنیاد این جی اوز یا دیگر لوگوں نے رکھی تھی، لیکن موجودہ دور میں امارت اسلامی کی طرف سے خواتین کے کاروبار اور سماجی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قہوہ خانے امارت کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔ یہ اقدام خواتین کی معاشرتی اور معاشی ترقی کے لیے اہم قدم ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: خواتین کے کافی اور کے لیے
پڑھیں:
افغان باشندوں کی وطن واپسی میں حالیہ کمی، وجوہات کیا ہیں؟
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان کے بعد پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی وطن واپسی کے دوران ان کی سہولت اور شکایات کے ازالے کے لیے اسلام آباد میں کنٹرول روم قائم کر دیا گیا ہے۔
تاہم حکام کے مطابق تمام تر انتظامات کے باوجود بھی گزشتہ کچھ دنوں سے رضاکارانہ افغانستان واپس جانے والوں کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔
واپسی کا عمل سست روی کا شکارپاکستان حکام کے مطابق پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی رضاکارانہ واپسی کا دوسرا مرحلہ یکم اپریل سے شروع ہوچکا ہے جس کے تحت افغان سٹیزن کارڈ کے حامل افغان باشندوں کی واپسی ہو رہی ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے احکامات کے بعد محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے پاک افغان مرکزی گزرگاہ طورخم کے قریب لنڈی کوتل کے مقام پر کیمپ قائم کیا ہے، محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری اعدادوشمار کے مطابق یکم اپریل سے عید تک روزانہ 2500 سے 3000 افغان باشندے پاکستان سے واپس افغانستان جا رہے تھے۔
لیکن عید کے بعد واپسی کے عمل میں ان میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے اور گزشتہ چند دنوں میں یہ تعداد ہزاروں سے کم ہو کر سینکڑوں میں رہ گئی ہے، جو حکام کے لیے تشویش کا باعث بن رہی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ روز 479 افراد نے افغانستان واپسی کا سفر کیا۔
واپس جانے والے افغان باشندوں کے لیے حکومتی انتظاماتپاکستان سے افغان باشندوں کی باعزت واپسی اور سہولت کے لیے پاکستان نے موثر اقدامات اٹھائے ہیں، حکام کے مطابق پنجاب سے بھی زیادہ تر افغان باشندے واپسی کے لیے طورخم کا رخ کرتے ہیں اسی بنیاد پر لنڈی کوتل کے مقام پر کیمپ قائم کیا گیا ہے، جہاں رات قیام کی بھی سہولت ہے جبکہ واپس جانے والوں کی ضروری تصدیق کے بعد مکمل سیکیورٹی میں طورخم پر لے جایا جاتا ہے۔
خصوصی کنٹرول روم قائمحکام کے مطابق نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کے دورے افغانستان کے دوران افغان باشندوں کی جائیداد کے حوالے سے تحفظات سامنے آئے تھے، جس کے بعد ان شکایات کے ازالے کے لیے ایک کنٹرول روم قائم کرکے ہیلپ لائن نمبر بھی جاری کیے گئے ہیں، تاکہ افغان باشندوں کی شکایات کا بروقت ازالہ کیا جا سکے۔
حکام کے مطابق کنٹرول روم نیشنل کرائسس اینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سیل میں قائم کیا گیا ہے، جو 24 گھنٹے افغان شہریوں کی معاونت کے لیے کام کرے گا۔
اب تک کنتے افراد افغانستان واپس گئے؟پاکستان میں مقیم افغان سٹیزن کارڈ کے حامل افغان باشندوں اور غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے، محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دوسرے مرحلے کے تحت گزشتہ روز 479 افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز اور 1008 غیر قانونی تارکین وطن کو طورخم بارڈر کے راستے افغانستان روانہ کیا گیا۔
دوسرے مرحلے میں یکم اپریل سے اب تک مجموعی طور پر 26083 افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے افراد رضاکارانہ طور پر واپس گئے ہیں جبکہ 17892 غیر قانونی تارکین وطن کو واپس افغانستان بھیجا جا چکا ہے، اب تک دوسرے مرحلے میں مجموعی طور پر 43496 افراد افغانستان واپس گئے۔
یہ بھی پڑھیں: تمام صوبے آن بورڈ ہیں، افغان باشندوں کی وطن واپسی کی ڈیڈ لائن میں توسیع نہیں ہو رہی، طلال چوہدری
اعداد و شمار کے مطابق اسلام آباد سے 1982 ، پنجاب سے 16624، گلگت سے 2 جبکہ آزاد کشمیر سے 1019 افراد اور سندھ سے 44 افراد کو طورخم کے راستے افغانستان واپس بھیجا گیا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2023 سے لے کر اب تک خیبر پختونخوا کے مختلف بارڈرز سے مجموعی طور پر 5 لاکھ 15 ہزار 892 افغان باشندوں کو وطن واپس بھیجا جا چکا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ حکومت اس عمل کو مزید شفاف، منظم اور انسانی ہمدردی کے اصولوں کے تحت جاری رکھنا چاہتی ہے تاکہ پاکستان میں موجود افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو باعزت طریقے سے ان کے ملک واپس بھیجا جا سکے۔
واپسی کا عمل سست روی کا شکار کیوں؟پاکستان حکام کے مطابق پاکستان سے افغان باشندوں کی واپسی کا عمل مرحلہ وار جاری ہے اور اس وقت طورخم سے واپس جانے والوں سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں مقیم افغان شہروں کی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق دوسرے مرحلے میں سب سے زیادہ 16624 افغان باشندے پنجاب سے طورخم کے راستے اپنے ملک واپس گئے جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ واپسی میں کمی آنے لگی ہے۔
مزید پڑھیں: افغان تارکین وطن کی واپسی، کوئٹہ کی کاروباری صورتحال کتنی متاثر ہوئی ہے؟
افغان باشندوں کی واپسی کی نگرانی کرنے والے ایک سرکاری افیسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ دوسرے مرحلے کے آغاز پر کریک ڈاؤن اور حکومتی کاروائی کا ڈر تھا اور گرفتاری اور قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے واپسی میں تیزی آئی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ سب سے زیادہ افغان باشندے خیبر پختونخوا میں مقیم ہیں، جن کی واپسی ابھی تک شروع نہیں ہوسکی ہے،ان کے مطابق ابھی تک افغان باشندوں کی وطن واپسی بیشتر پنجاب سے ہی ہورہی ہے۔
’جن افغان شہریوں نے پاکستان میں گھر خریدا ہے یا ان کی یہاں جائیداد ہیں وہ ابھی تک وطن واپسی کا فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں، زیادہ تر افغان باشندے اپنے سامان بھی ساتھ لے کر جا رہے ہیں تاکہ وہاں ان کی زندگی آسان ہو۔‘
’گھر زمین کچھ نہیں وہاں جا کر کیا کریں گے؟‘’منی کابل‘ کہلائے جانیوالے پشاور کے بورڈ بازار میں افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد مقیم ہے، یہاں کے سبزی فروش افغان شہری سمیع اللہ نے بتایا کہ افغان باشندے سخت پریشانی میں مبتلا ہیں اور منتظر ہیں کہ کسی بھی وقت پاکستانی حکومت یہ فیصلہ واپس لے۔
‘میری پیدائش پاکستان کی ہے، اردو بول سکتا ہوں، دوست گھر سب یہاں ہیں، واپس جا کر کیا کروں گا، وہاں نہ گھر ہے نہ زمین۔‘
سمیع اللہ نے بتایا کہ اکثر لوگ پولیس کارروائی کے ڈر سے جا رہے ہیں، خوشی سے کوئی نہیں جا رہا، انہوں نے بتایا کہ ان کا تین مرلے کا گھر بھی ہے اور اس وقت تک رہیں جب تک زبردستی نکال نہیں دیتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آزاد کشمیر اسحاق ڈار اسلام آباد افغان سٹیزن کارڈ افغان شہریوں افغانستان پنجاب تارکین وطن خیبرپختونخوا رضاکارانہ سمیع اللہ سندھ طورخم غیر قانونی کنٹرول روم گلگت لنڈی کوتل ہیلپ لائن وزیر خارجہ