اسلام آباد(نیوز ڈیسک)قائد حزبِ اختلاف عمر ایوب خان نے ایک سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی پاکستان کے لیے ایک “ٹک ٹک ٹائم بم” ہے، اور یہ درحقیقت پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔ انہوں نے موجودہ حکومت کے رویے کو بزدلانہ، کمزور اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔

عمر ایوب نے وزیر اعظم شہباز شریف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ “انہیں ‘ارڈلی’ ہونا بند کرنا ہوگا۔” ان کے بقول، موجودہ حکومت کی سمت واضح نہیں ہے اور ملک شدید داخلی اور خارجی خطرات سے دوچار ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ جنرل باجوہ کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد معیشت تباہی کا شکار ہو چکی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں اس وقت حقیقی لیڈر، عمران خان، سیاسی قیدی کے طور پر قید ہیں، جبکہ پی ٹی آئی پر شدید دباؤ اور ریاستی طاقت کا استعمال جاری ہے۔ عمر ایوب نے کہا کہ چاروں صوبے، بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان، سنگین بحران کا سامنا کر رہے ہیں، جبکہ عوامی حکومت غائب ہے۔

اپوزیشن لیڈر نے شہباز شریف پر الزام لگایا کہ انہوں نے 2023 میں یوکرین کو 850 ملین ڈالر مالیت کے توپ خانے کے گولے برآمد کیے، جو آج ملک کے اپنے دفاع کے لیے درکار ہو سکتے تھے۔ ان کے بقول، ایران سے بلوچستان کے راستے سالانہ 550 ارب روپے مالیت کا پیٹرول اسمگل ہو رہا ہے، جس سے ملکی ریفائنریز کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگے پیٹرول اور کم طلب کی وجہ سے ریفائنریز کی پیداوار متاثر ہوئی ہے، اور اب جے پی 6 اور جے پی 8 جیسے اہم جیٹ فیول کی ریفائننگ بھی ممکن نہیں رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں فوجی سازوسامان کے اسپیئر پارٹس کی کمی اور اسٹریٹجک فیول ذخائر پر بھی دباؤ ہے۔

عمر ایوب نے حکومت کو “مسلط شدہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بحرانوں کے درمیان ایک “ہیڈلائٹس میں پھنسے ہرن” کی مانند ہے—نہ کوئی قیادت نظر آتی ہے اور نہ ہی کوئی لائحہ عمل۔

انہوں نے قوم، سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ ملک کی علاقائی سالمیت، دفاعی صلاحیت اور اقتصادی بقاء کے لیے فوری اور جراتمندانہ فیصلے کریں، کیونکہ “صورتحال نازک ترین مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔”

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: عمر ایوب انہوں نے کہا کہ

پڑھیں:

بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستان پر اس کے مضمرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 اپریل 2025ء) جنوبی ایشیا کے جوہری طاقت رکھنے والے دو حریف بھارت اور پاکستان کے درمیان پچھلے پچہتر سال کے دوران کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور دونوں کے درمیان بیشتر اوقات تعلقات کشیدہ رہے ہیں، تاہم پانی کے ایک اہم وسیلے سے متعلق چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے قبل کیا گیا سندھ طاس آبی معاہدہ پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا۔

لیکن، بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے اہم سیاحتی مقام پہلگام میں گزشتہ منگل کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے، جس میں 26 سیاح ہلاک ہوئے، نے اس معاہدے کو بھی متاثر کردیا۔ بھارت نے اپنی طرف سے اس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

پاک بھارت سندھ طاس معاہدے سے متعلق تنازعہ ہے کیا؟

بھارتی وزارت خارجہ کے سکریٹری وکرم مصری نے معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا، "1960 کا سندھ آبی معاہدہ اب سے اس وقت تک غیر نافذ العمل رہے گا، جب تک کہ پاکستان قابل اعتبار اور ٹھوس طور پر سرحد پار دہشت گردی کی حمایت سے دستبردار نہیں ہو جاتا"۔

(جاری ہے)

سن 1960 کا سندھ طاس آبی معاہدہ دونوں دیرینہ حریف پڑوسیوں کو دریائے سندھ کے پانی تک مشترکہ رسائی کی سہولت فراہم کرتا ہے۔

سندھ طاس آبی معاہدہ کیا ہے؟

ملک کی تقسیم کے بعد بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس آبی معاہدہ ستمبر 1960 میں عمل میں آیا تھا۔

سندھ طاس معاہدے پر عالمی بینک کو تشریح کا حق نہیں، بھارت

اس وقت بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے اس وقت کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

یہ امید کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے عوام اور بالخصوص کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہو گا۔

معاہدے کے تحت بھارت کو تین مشرقی دریاؤں راوی، ستلج اور بیاس پر کنٹرول دیا گیا جبکہ پاکستان کو تین مغربی دریاؤں سندھ، جہلم اور چناب پر کنٹرول سونپا گیا۔ اس کے تحت ان دریاؤں کے 80 فیصد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔

یہ معاہدہ بھارت کو مغربی دریاؤں پر ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹس تیار کرنے کی بھی اجازت دیتا ہے، لیکن ان منصوبوں کو سخت شرائط پر عمل کرنا چاہیے۔ انہیں "رن آف دی ریور" پروجیکٹ ہونا چاہیے، مطلب یہ ہے کہ وہ پانی کے بہاؤ یا ذخیرہ کو نمایاں طور پر تبدیل نہیں کر سکتے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ پاکستان کے پانی کے حقوق بہاو والے ملک کے طور پر بری طرح متاثر نہ ہوں۔

یہ معاہدہ پاکستان کو کسی ایسے ڈیزائن پر اعتراضات اٹھانے کی بھی اجازت دیتا ہے جو پانی کے بہاؤ کو متاثر کر سکتا ہو۔

معاہدے کی معطلی کا پاکستان پر کیا اثر پڑے گا؟

پاکستان، جو معاہدے کے ت‍‍حت دریائے سندھ سے تقریباً 80 فیصد پانی حاصل کرتا ہے، ان دریاؤں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ سسٹم میں موجود 16.8 کروڑ ایکڑ فٹ پانی میں سے بھارت کو تقریباً 3.3 کروڑ ایکڑ فٹ پانی مختص کیا گیا ہے۔

اس وقت، بھارت اپنے اجازت شدہ حصے کا 90 فیصد سے کچھ زیادہ استعمال کرتا ہے، جس کی وجہ سے باقی ماندہ حصہ پر پاکستان کا بہت زیادہ انحصار ہے۔

یہ انحصار انتہائی اہم بلکہ ناگزیر ہے۔ یہ دریا پاکستان کے زرعی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ کروڑوں افراد کی آبادی کے لیے انتہائی اہم ہیں اور ملک کی 23 فیصد زرعی پانی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے جب کہ تقریباً 68 فیصد دیہی معاش کی براہ راست مدد کرتا ہے۔

اس سپلائی میں کوئی بھی رکاوٹ بڑے پیمانے پر منفی نتائج کو جنم دے سکتی ہے۔ مثلاﹰ فصلوں کی پیداوار میں کمی، غذائی عدم تحفظ، اور مزید معاشی عدم استحکام، خاص طور پر ان خطوں میں جو پہلے ہی غربت اور جاری مالیاتی بحران کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔

پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ منگلا اور تربیلا جیسے بڑے ڈیموں کا مشترکہ لائیو اسٹوریج صرف 14.4 ملین ایکڑ فٹ ہے جو کہ معاہدے کے تحت پاکستان کے سالانہ استحقاق کا محض 10 فیصد ہے۔

پانی کے بہاؤ میں کمی یا موسمی تغیر کے وقت، ذخیرہ اندوزی میں یہ کمی پاکستان کو شدید خطرات سے دوچار کر دیتی ہے۔ بھارتی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

پردیپ کمار سکسینہ، جنہوں نے چھ سال سے زائد عرصے تک بھارت کی جانب سے سندھ آبی کمشنر کے طور پر کام کیا، کا کہنا ہے کہ "اگر حکومت (ہند) نے ایسا فیصلہ کیا ہے تو یہ معاہدہ منسوخ کرنے کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے۔

"

انہوں نے کہا،"اگرچہ معاہدے میں اس کی منسوخی کے لیے کوئی واضح شق موجود نہیں ہے، لیکن معاہدوں کے قانون سے متعلق ویانا کنونشن کا آرٹیکل 62 کافی گنجائش فراہم کرتا ہے جس کے تحت حالات کی بنیادی تبدیلی کے پیش نظر معاہدے کو رد کیا جا سکتا ہے جو کہ اس معاہدے کے اختتام کے وقت موجود ہیں"۔

سابق بھارتی انڈس واٹر کمشنر سکسینہ کا کہنا تھا کہ دریا چونکہ بھارت کی طرف سے پاکستان کی جانب بہتے ہیں، اس لیے بھارت کو متعدد اختیارات حاصل ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال، بھارت نے پاکستان کو ایک باضابطہ نوٹس بھیجا تھا، جس میں اس معاہدے پر نظرثانی اور ترمیم کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

پاکستانی ماہرین کی رائے

سابق پاکستانی سفارت کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی دہلی 1960 میں عالمی بینک کی ضمانت میں طے پانے والے دو طرفہ سندھ آبی معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبردار نہیں ہو سکتا۔

بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے ایک پاکستانی نیوز چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر نہ تو معطل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔

انہیں خیالات کی تائید کرتے ہوئے، پاکستان کے سابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کو سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا کیونکہ وہ "سازش کے تحت پاکستان پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے"۔

انہوں نے ایک پاکستانی نیوز چینل کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ سندھ طاس معاہدہ اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان دو طرفہ بین الاقوامی معاہدہ ہے اور ا"گر مودی کی زیر قیادت حکومت پاکستان کا پانی روکتی ہے تو یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور جنگ کے مترادف ہو گا۔"

پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا، "سندھ طاس معاہدہ تو جنگ میں بھی معطل نہیں ہوتا، پانی تو جنگ میں بھی بند نہیں ہوتا لیکن لگتا ہے بھارت معاملہ انتہا کی طرف لے کر جا رہا ہے۔

" کیا معاہدہ ختم کرنا ممکن ہے؟

جنوبی ایشیا میں دریاؤں کے تنازع پر ایک کتاب کے مصنف اور سنگاپور نیشنل یونیورسٹی کے مصنف پروفیسر امت رنجن نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ سندھ طاس معاہدے سے اگر دونوں میں سے کوئی ایک ملک بھی یکطرفہ طور پر نکلنا چاہے تو وہ نہیں نکل سکتا۔

وہ کہتے ہیں کہ ویانا کنونشن کے تحت معاہدہ ختم کرنا یا اس سے الگ ہونے کی گنجائش موجود ہے لیکن اس پہلو کا اطلاق سندھ طاس معاہدے پر نہیں ہو گا۔

پاکستانی میڈیا رپورٹوں کے مطابق اسلام آباد حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت یک طرفہ طور پر اس معاہدے کو معطل یا ختم نہیں کر سکتا۔

پاکستانی حکومتی ذرائع نے خبردار کیا کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے اعلان پر پاکستان عالمی بینک سے ثالثی عدالت کے لیے رجوع کر سکتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگست 2019 میں بھارت کی طرف سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں نمایاں تنزلی آئی ہے۔

تب سے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان اعتماد میں مزید کمی آئی ہے۔ اس تیزی سے غیر مستحکم جغرافیائی سیاسی حالات میں آگے بڑھنے کا سب سے قابل عمل راستہ تعاون کے اس جذبے کی طرف واپسی ہے جس میں سندھ طاس آبی معاہدہ پر دستخط کیے گئے تھے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی حکومت نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان کو باضابطہ آگاہ کر دیا، ذرائع
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی: پاکستان عالمی بینک سے فوری رابطہ کرے گا:سابق سیکرٹری واٹر کمیشن
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی،بھارت خطے کو جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے، شرجیل میمن
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی کھلی جارحیت ہے، شرجیل میمن
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی؛ بھارت خطے کو جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے، شرجیل میمن
  • سندھ طاس معاہدہ کی معطلی اعلانِ جنگ ہے: عمر ایوب
  • بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کی معطلی اور پاکستان پر اس کے مضمرات
  • بھارت کی سندھ طاس معاہدے کی معطلی امن کیلئے سنگین خطرہ ہے: شرجیل میمن
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان، کیا بھارت یکطرفہ اقدام کا حق رکھتا ہے؟