غذائی درآمدات میں کمی یا اضافہ؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, April 2025 GMT
مالی سال 2024 اور 2025 کے 9 ماہ گزر گئے، جولائی تا مارچ 2025ء کے غذائی یعنی فوڈ گروپ کے اعداد و شمار انتہائی خوش کن نظر آ رہے تھے۔ جب یہ بتایا جا رہا تھا کہ 2023-24 کے 9 ماہ کے مقابلے میں رواں مالی سال کے 9 ماہ میں فوڈ گروپ کی درآمدات میں2.74 فی صد کمی ہوئی ہے۔ درآمدات میں کمی کا ہونا وہ بھی فوڈ گروپ کی درآمدات جس میں دالیں، گندم، جب کہ غذائی اشیا میں چائے، سویابین آئل اور دیگر اشیائے خوراک شامل ہوتی ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 9 ماہ کے دوران 6 ارب 11 کروڑ 80لاکھ 13 ہزار ڈالرز کی فوڈ گروپ کی درآمد ہوئی اور اس کے مقابل جولائی 2023 تا تاریخ 2024 کی فوڈ گروپ کی کل درآمد 6 ارب 29 کروڑ 4 لاکھ67 ہزار ڈالر کے ساتھ2.
پچھلے مالی سال کے 9 ماہ میں پاکستان کے ساڑھے چونتیس لاکھ میٹرک ٹن گندم کی درآمد پر ایک ارب 51 لاکھ ڈالرز خرچ ہوئے تھے، اگر گندم نکال دی جائے تو 6 ارب کی غذائی درآمدات کو5 ارب سمجھنا چاہیے اور چونکہ اس مرتبہ گندم کی مد میں 35 ہزار ڈالر درج ہے، اس لحاظ سے یہ تقریباً 15 فی صد سے زیادہ غذائی درآمدات کا اضافہ بنتا ہے۔
اس سے زیادہ مسئلہ اس بات کا ہے کہ رواں مالی سال میں گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کا دالوں کی درآمد سے موازنہ کرتے ہیں تو 19 کروڑ ڈالرز کی زائد دالیں درآمد ہو کر رہیں۔ آہستہ آہستہ ایسا معلوم دے رہا ہے کہ پاکستان دالیں امپورٹ کرنے والے ملکوں کی فہرست میں اپنا نام بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ اس طرح دالیں مہنگی ہوتی چلی جائیں گی اور کچھ عرصے میں غریب کی دسترس سے باہر ہوکر رہیں گی۔
جلد ہی گوشت بھی اشرافیہ میں سے کچھ لوگوں کی دسترس سے باہر ہونے کو ہے لہٰذا مہنگی دالوں کے گُن گائے جائیں گے اور اشرافیہ کے کچھ افراد گائے کے گوشت کو بھی خیرباد کہہ دیں گے اور وہ دال مہنگی ہو کر رہ جائے گی جو کبھی غریبوں کی پہچان تھی، اب وہ اشرافیہ کی شان بن جائے گی۔ پھر یہ نہیں کہا جائے گا کہ ’’دال میں کچھ کالا ہے‘‘ بلکہ دال اب بہت سے کالے دھن والوں کا کھاجا ہوکر رہ جائے گی۔اس مرتبہ غذا کی درآمدات میں دراصل اضافہ ہوا یا کمی ہوئی ہے۔
ان سب کو سمجھنے کے لیے دال، گندم اور غذائی درآمدات کو گڈمڈ کرنا پڑے گا۔ یعنی بات سیدھی سمجھنی ہو تو کچھ اس طرح ہے کہ گزشتہ مالی سال کے 9 ماہ کی ایک ارب ڈالر کی درآمدی گندم اور اس مرتبہ دالوں کی درآمد پر تقریباً 19 کروڑ ڈالر کی زائد درآمد کو ملا لیں یا سال گزشتہ کے اسی مدت سے گھٹا لیں تو دراصل تقریباً سوا ارب ڈالر کی اس مرتبہ غذائی درآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اس کے علاوہ کئی غذائی درآمدات میں جن کو پچھلے سیزن میں کم درآمد کیا گیا اس لیے ایک محتاط اندازہ پیش کیا جا رہا ہے۔ اب یہ سوا ارب ڈالر5 ارب ڈالر کا 25 فی صد تو بنتا ہے اس طرح گندم نکالیں دال جمع کریں تو یہ سب کچھ جب گڈمڈ ہوکر رہ جائے گا تو ایسے میں معیشت کی کمزوری ظاہر ہوکر رہے گی۔ اتنی درآمدات کے باعث درآمدی ملک بن گئے ہیں کہ کیا اب بھی ایسا معلوم دیتا ہے کہ خودکفالت کی منزل پا لیں گے یہ نعرہ بھی درآمدی نعرہ بن گیا ہے۔
حکومت سستی دال فراہم کرنے کے لیے کاشتکاروں، زمین اور مقامی دالوں کا رشتہ مضبوط کرے تاکہ سستی دال اور مقامی دال پیدا ہو، اسی سے ہم سالانہ ایک سے سوا ارب ڈالر بچا سکتے ہیں۔ چینی بھی برآمد کر رہے ہیں اور اب گندم بھی برآمد کی جائے تاکہ ملک گندم کے برآمدی ممالک میں اپنی شناخت بنا سکے۔حکومت کے پالیسی ساز غذائی درآمدات کے بل کو بار بار چیک کریں، کیونکہ جب کھانے پینے کی چیزیں ایسے ملک میں باہر سے آ رہی ہیں جو ان تمام غذائی درآمدات کو سوائے چند ایک کو چھوڑ کر مثلاً چائے یا پام آئل وغیرہ کے دیگر کئی غذائی درآمدات اس لیے کی جاتی ہیں کہ ملکی پیداوار کی نسبت کھپت زیادہ ہے۔
اب زائد کھپت کہہ دینا اور اس کے لیے زائد پیداوار کے حصول کی کسی قسم کی کوشش نہ کرنا، اب اس پالیسی کے برعکس کام کرنے کے لیے ماہرین، پالیسی ساز اب طے کر لیں کہ ملک کو خودکفالت کی طرف لے جانے کے لیے پہلے غذائی درآمدات پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی،کیونکہ ابتدائی طور پر آسانی کے ساتھ ایک تا ڈیڑھ ارب ڈالرز کی کفایت کی جا سکتی ہے۔
صرف پچھلے 10 سال کا سوچ کر آیندہ 5 سال کی زرعی منصوبہ بندی کر لیتے ہیں تو یہ 10 تا 12 ارب ڈالر کی بچت، غذائی درآمدی بل میں کر سکتے ہیں اور آیندہ 5 برس اگر خودکفالت حاصل کرتے ہوئے کچھ اشیا خوراک برآمد کرلیتے ہیں تو یہی 10 سے 12 ارب ڈالرکی بچت ملک کو خودکفالت کی منزل کی جانب رواں دواں کر سکتی ہے اور یوں غذائی برآمدات کو دو سے تین گنا زیادہ بڑھا سکتے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: غذائی درآمدات درآمدات میں مالی سال کے کی درآمد ارب ڈالر کے 9 ماہ ہوکر رہ ڈالر کی ہیں تو کے لیے
پڑھیں:
پاک ترکیہ اقتصادی و اسٹرٹیجک تعاون
پاکستان اور ترکیہ نے ہر قسم کی دہشت گردی کے خاتمے اور مختلف شعبوں میں باہمی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان زراعت، توانائی، آئی ٹی، انفرا اسٹرکچر، معدنیات سمیت مختلف شعبوں میں اسلام آباد میں طے پانے والے 25 معاہدوں پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے۔
دفاعی تعاون پاک ترکیہ تعلقات میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، ان خیالات کا اظہار وزیراعظم محمد شہباز شریف اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کیا۔
بلاشبہ پاکستان اور ترکیہ کے درمیان باہمی تجارت کے وسیع مواقعے موجود ہیں؛ زمینی، فضائی اور سمندری تینوں ذرائع سے تجارت ممکن ہے۔ پاکستان، ترکیہ اور ایران تینوں ممالک نے سامان لانے اور لے جانے کے لیے ریل سروس بھی بحال کردی ہے۔ کئی برس سے ترکیہ اور پاکستان کے درمیان اقتصادی بالخصوص توانائی کے پیداواری شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون اور شراکت داری جاری ہے۔
توانائی کے پیداواری شعبے میں تعلقات و تعاون پہلے سے کہیں زیادہ گہرا ہوچکا ہے جس میں وقت کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، سمندروں میں کھدائی اور زلزلے کی تحقیق سے لے کر اہم معدنیات اور بجلی کی پیداوار کے لیے تکنیکی معلومات کا تبادلہ ہو رہا ہے، دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کی کئی یاد داشتوں پر دستخط ہوئے جو غیر معمولی پیشرفت اور شاندار تجربہ تھا۔ ترکیہ ایک عرصے سے اس قسم کے تعاون اور موقعے کا منتظر تھا جو درحقیقت دہائیوں پر محیط شراکت داری کا نتیجہ ہے اور پاکستان و ترکیہ کے تعلقات وقت کے ساتھ مزید گہرے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ترکیہ اور پاکستان کی دوستی صرف تیل اور گیس کے شعبوں میں شراکت داری یا تعاون تک محدود نہیں، ترکیہ اور پاکستان اہم معدنیات کی کھوج اور ترقی کے لیے بھی تکنیکی معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے پاس قابل ذکر ذخائر ہیں، جن کی ترقی دونوں ممالک کو فائدہ پہنچانے والی اسٹرٹیجک ویلیو چین پیش کرے گی۔
انیسویں صدی کے وسط میں جب کہ سونے (gold) کی مانگ بڑھ گئی ہے اور اسے اہم معدنیات قرار دیا جاتا ہے، دونوں ممالک کئی ایک دیگر اہم معدنیات کی فراہمی کنٹرول کر سکتے ہیں۔ ترکیہ پاکستان کی ضروریات کو سمجھتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، ترکیہ نے اصلاحات کا احساس کیا ہے جس نے اپنی بجلی کے شعبے میں 100 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ نتیجتاً ترکیہ اب ایک ایسی منڈی بن گیا ہے جہاں نئی سرمایہ کاری ہو رہی ہے اور عوام کو سستی بجلی دستیاب ہے۔ آج پاکستان کو بھی اسی طرح کی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان مظلوم مسلمانوں کی طاقت اور ان کے حقوق کی ایک مضبوط آواز تصور کیے جاتے ہیں، مسلسل تین بار صدارتی انتخابات جیتنے والے طیب اردوان کی مثبت خارجہ پالیسیوں نے ترکیہ کو عالمِ اسلام میں کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، علاقائی تنازعات ہوں یا عالمی معاملات، انھوں نے ہمیشہ مثبت اور قائدانہ رویہ اختیار کیا۔
دونوں ممالک ایک دوسرے کے مزید قریب آئے ہیں کیونکہ دفاع، معیشت انفارمیشن ٹیکنالوجی، تعلیم، صحت اور مختلف شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے پر اتفاقِ کرتے ہوئے دو طرفہ تجارتی حجم کو پانچ ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے اور 24 معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے جن کا مقصد باہمی تجارت کا فروغ بتایا جا رہا ہے۔ تجارتی تعلقات کے فروغ کے علاوہ ترکیہ نے کشمیر کے موقف پر ہمیشہ کھل کر پاکستان کی حمایت کی ہے۔
ترکیہ کے عالمی کردار کی بات کی جائے تو ترکیہ نہ صرف غزہ کے مظلوم مسلمانوں کو امداد پہنچا رہا ہے بلکہ مشکل کی اس گھڑی میں غزہ کے باسیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ دونوں ملکوں کے سربراہان نہ صرف سات اکتوبر 2023 سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کُشی کے خلاف کھڑے ہیں بلکہ فلسطینیوں کو امداد کی فراہمی میں بھی پیش پیش ہیں۔
2005میں آزاد کشمیر کے زلزلہ زدگان کی امداد کے لیے صدر اردوان کی جانب سے، جو تب ترکیہ کے وزیراعظم تھے، 15کروڑ امریکی ڈالر دیے گئے تھے۔ چھ فروری 2023 کو ترکی میں آنے والے زلزلے کے بعد پاکستان نے بھی حقِ دوستی ادا کیا۔ 2018 میں پاکستان میں ترکیہ کی سرمایہ کاری 2.7ارب امریکی ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔
پاکستان نے ترکیہ کو ویزا فری ٹریول لسٹ میں شامل کر لیا۔ 2015 کے بعد سے دونوں ملکوں کی تجارت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ دونوں ملکوں کے مابین دفاعی تعاون کی تاریخ بھی عشروں پر محیط ہے۔ 1988میں دونوں ملکوں کے مابین دفاعی تعاون کو بڑھانے اور فوجی تربیت کے لیے پاک ترکیہ فوجی مشاورتی گروپ تشکیل پایا تھا۔ 2003 میں طیب اردوان کے دورہ پاکستان کے موقعے پر دونوں ملکوں میں ہائی لیول ملٹری ڈائیلاگ گروپ کی تشکیل بھی مضبوط تعلقات کا بڑا ثبوت ہے۔ 2004میں دہشت گردی اور منظم جرائم کا مقابلہ کرنے کے مقصد سے اس اہم معاہدے کی توثیق کی گئی جس سے انسدادِ دہشت گردی میں معاونت ملی۔
2018 میں پاک بحریہ نے ترکیہ کے ایک اہم دفاعی مینو فیکچرز کے ساتھ شراکت داری سے ایک فلیٹ ٹینکر متعارف کروایا۔ 2018میں ہی ترکیہ کے ساتھ پاک بحریہ کو 30 ٹی 129لڑاکا ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کے لیے 1.5ارب ڈالرکا معاہدہ ہوا جو بعد ازاں امریکی پابندیوں کی وجہ سے معطل ہوگیا۔ 2021 میں پہلی اَپ گریڈڈ آبدوز کی فراہمی کے بعد 2023میں ترکیہ نے پاک بحریہ کے لیے دوسر ی اے جی او ایس ٹی اے 90جی کلاس آبدوز کو جدید بنانے کا کام کیا۔ اب ایک اور آبدوزکو جدید بنانے پر کام جاری ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان اور ترکیہ کا ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ جوائنٹ منصوبہ بھی کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
دفاعی میدان کے علاوہ دونوں ممالک ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی تعاون کرتے رہے ہیں۔ دونوں ممالک مشترکہ جنگی مشقیں بھی کرتے ہیں جس میں اتا ترک اور جناح سیریز مشقیں شامل ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی پر تعاون کے حوالے سے بھی دونوں ملکوں کے مابین کئی معاہدات موجود ہیں۔ رجب طیب اردوان نے ہمیشہ پہلے بطور وزیراعظم اور اب بطور صدر، پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط اور پائیدار بنائے ہیں۔ اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ رجب طیب اردوان کے اسٹرٹیجک وژن اور پالیسی اقدامات نے پاکستان اور ترکیہ کے مابین دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان اور ترکیہ کے درمیان ایک آزاد تجارتی معاہدہ (ایف ٹی اے) ممکنہ طور پر صدر اردوان کی خواہش کے مطابق دو طرفہ تجارت کو 584 ملین ڈالر کی موجودہ سطح سے 5000 ملین ڈالر تک بڑھا سکتا ہے۔ پاکستان کی 20 ٰ ممکنہ برآمدات 391 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2400 ملین ڈالر تک جا سکتی ہیں جب کہ ترکیہ کی پاکستان کو 20 اشیاکی برآمدات 193 ملین ڈالر سے بڑھ کر 2500 ملین ڈالر تک جا سکتی ہیں۔ تاہم، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف ٹیرف کے خاتمے سے اس مقصد کو حاصل کرنے میں مدد نہیں مل سکتی، پاکستان کو ایک بھرپور منصوبہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
ترکیہ کو برآمدات کی سب سے زیادہ ممکنہ مصنوعات میں سے کچھ کو پہلے ہی کم ٹیرف کا سامنا ہے۔ پاکستان کی مذاکراتی ٹیم کو اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ترکیہ کی نان ٹیرف رکاوٹوں اور خاص طور پر ترکیہ کی جانب سے اینٹی ڈمپنگ قوانین کے آزادانہ استعمال سے متعلق خدشات کو ایف ٹی اے میں دور کیا جائے۔ پاکستان کے مینوفیکچرنگ سیکٹر کے مفادات کو مدنظر رکھے بغیر ایک بار پھر مذاکرات میں ناکامی ممکنہ طور پر ایک اور ایف ٹی اے کی طرف لے جا سکتی ہے جس سے پاکستان کی مقامی منڈیوں کو ترکیہ کی برآمدات میں یکساں اضافے کے بغیر ترک درآمدات کے لیے کھول دیا جائے گا۔
ترکیہ پاکستان کے ساتھ اپنے تجربات کا تبادلہ کرنے کے لیے تیار ہے اور پاکستانی قیادت کے عزم کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ ترکیہ اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ پیش رفت سے نہ صرف دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا بلکہ مقامی معیشتوں اور مجموعی طور پر خطے کے استحکام اور خوشحالی میں بھی اضافہ متوقع ہے۔ ترکیہ اور پاکستان کے درمیان فعال مضبوط اور کثیرالجہتی شراکت داری کے مواقعے موجود ہیں جن سے مستقبل قریب میں استفادہ کرتے ہوئے دوستی و تعاون کے رشتوں کو مزید گہرا بنایا جائے گا۔
حکومت کو اسپیشل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل کی طرح برآمد کنندگان کے مسائل کو ایک دفتر میں حل کرنے کا فوری انتظام کرنا چاہیے۔ جو حکام، اہلکار یا طریقہ کار پاکستان کی بین الاقوامی تجارت میں رکاوٹ پیدا کرے اسے تبدیل کردینا ضروری ہے۔ یہ صورتحال برق رفتار فیصلوں اور عمل درآمد کی صلاحیت پیدا کیے بنا بہتر نہیں ہو سکتی۔ حکومت معاشی بحالی کی خاطر برآمدی شعبے کا ہاتھ تھام لے تو مقصد کا حصول مشکل نہیں ہوگا۔