سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان، کیا بھارت یکطرفہ اقدام کا حق رکھتا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
بھارت نے بدھ کو یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا جو بلاشبہ بھارت کی جارحیت اور انتہا پسندی کی نشاندہی کرتا ہے مگر یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ معطل یا منسوخ نہیں کرسکتا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل اور پاکستان کے ساتھ سرحد بند کردی
سندھ طاس معاہدہ (انڈس واٹر ٹریٹی) بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت یافتہ معاہدہ ہے اگر بھارت یکطرفہ طور پر معاہدے کو معطل یا منسوخ کرتا ہے تو پھر ان تمام معاہدوں پر بھی سوالات اٹھائے جائیں گے جو دیگر ممالک کے ساتھ کیے گئے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدے کا ضامن عالمی بینک بھی ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ منسوخ یا معطل کرسکتا ہے؟ معاہدے کے تحت بھارت از خود اس معاہدے کو معطل یا منسوخ کرنے کی کوئی قانونی اہلیت نہیں رکھتا۔
معاہدے کا آرٹیکل 12(4) صرف اس صورت میں معاہدہ ختم کرنے کا حق دیتا ہے کہ جب بھارت اور پاکستان دونوں تحریری طور پر راضی ہوں۔
دوسرے لفظوں میں سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کے لیے دونوں ریاستوں کی طرف سے ایک برطرفی کے معاہدے کا مسودہ تیار کرنا ہوگا اور پھر دونوں کی طرف سے اس کی توثیق کرنی ہوگی۔ اس معاہدے میں یکطرفہ معطلی کی کوئی شق نہیں ہے۔ یہ ایک غیر معینہ مدت کا معاہدہ ہے اور اس کا مقصد کبھی بھی وقت کے ساتھ مخصوص یا واقعہ سے متعلق نہیں ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستانی عوام نے بھارتی میڈیا کا پروپیگنڈا مسترد کردیا، ’انڈین فالس فلیگ آپریشن‘ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ
پاکستان اور بھارت دونوں ہی سندھ طاس معاہدے کے یکساں طور پر پابند ہیں۔ کسی معاہدے سے ہٹنا دراصل اس کی خلاف ورزی ہے۔ اگر بھارت یکطرفہ طور پر تنسیخ، معطلی یا واپس لینے وغیرہ جیسے جواز پیش کرکے معاہدے کی پیروی کرنا چھوڑ دیتا ہے تو اس کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ اس نے پاکستان میں پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جسے بھارت منسوخ یا دستبرداری کہے گا، پاکستان اسے خلاف ورزی سے تعبیر کرے گا۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہوگا اگر بھارت پاکستانی پانی کو نیچے کی طرف روکتا ہے اور کیا یہ چین کے لیے اوپر کی طرف کوئی مثال قائم کر سکتا ہے؟ اگر بھارت پاکستانی دریاؤں کا پانی روکنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ نہ صرف بین الاقوامی آبی قانون کی خلاف ورزی ہوگی بلکہ ایک خطرناک مثال بھی قائم کرے گا۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق خواہ سندھ طاس جیسا معاہدہ ہو یا نہ ہو کوئی بھی بالائی ملک (جیسا کہ بھارت) کسی (ٹیل اینڈ والے) زیریں ملک (جیسے کہ پاکستان) کے پانی کو روکنے کا حق نہیں رکھتا
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کے عوام نے بھارتی میڈیا کا پروپیگنڈا مسترد کر دیا، شدید نعرے بازی
اگر بھارت ایسا قدم اٹھاتا ہے تو یہ علاقائی سطح پر ایک نیا طرز عمل قائم کرے گا جو بین الاقوامی قانون میں ایک مثال کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے۔ اس کا فائدہ چین اٹھا سکتا ہے جو دریائے برہمپترا کے پانی کو روکنے کے لیے اسی بھارتی طرز عمل کو بنیاد بنا سکتا ہے۔ اس طرح بھارت کا یہ قدم نہ صرف پاکستان کے لیے خطرناک ہوگا بلکہ خود بھارت کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ چین جیسی طاقتیں اس صورتحال کو بغور دیکھ رہی ہوں گی۔
سندھ طاس معاہدہ، جو سنہ 1960 میں طے پایا اپنی نوعیت میں ایک مضبوط اور دیرپا معاہدہ ہے جس میں کسی بھی قسم کی یکطرفہ معطلی یا خاتمے کی شق شامل نہیں بلکہ اس میں ترمیم صرف دونوں فریقین کی باہمی رضامندی اور باقاعدہ توثیق شدہ معاہدے کے ذریعے ہی ممکن ۔
یہ بھی پڑھیے: پہلگام حملہ: پاکستان کیخلاف بھارتی میڈیا کا شیطانی پروپیگنڈا بے نقاب
بھارت کی جانب سے یکطرفہ طور پر معاہدے کو معطل کرنا نہ صرف اس کے طے شدہ طریقہ کار جیسے مستقل انڈس کمیشن، غیر جانبدار ماہرین یا ثالثی عدالت کے ذریعے تنازع کے حل کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ معاہدے کی روح کے بھی منافی ہے۔
یہ معاہدہ ماضی میں کئی جنگوں اور سیاسی کشیدگیوں کے باوجود قائم رہا ہے جو اس کی قانونی اور اخلاقی طاقت کو مزید مضبوط بناتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آبی معاہدہ بھارت بھارت کا یکطرفہ فیصلہ پاک بھارت معاہدہ پاکستان سندھ طاس معاہدہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا بی معاہدہ بھارت پاک بھارت معاہدہ پاکستان سندھ طاس معاہدہ بھارت یکطرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے سندھ طاس معاہدہ بین الاقوامی اگر بھارت اس معاہدے معاہدے کو خلاف ورزی کی طرف کے لیے یہ بھی
پڑھیں:
پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں بھارت کی سازش کھل کر سامنے آگئی
اسلام آباد:بھارت کی پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں پاکستان کے خلاف سازش کھل کر سامنے آ گئی۔
تفصیلات کے مطابق پہلگام فالس فلیگ حملے کے پیچھے چھپے بھارتی محرکات کھل کر اُس وقت سامنے آئے جب وزیر خارجہ نے سفارتی تعلقات اور سندھ طاس معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کیا۔
ذرائع کے مطابق پہلگام حملے کے بعد بھارت کی آبی جارحیت کھل کر سامنے آگئی جبکہ بھارت کسی بھی طرح قانونی طور پر اس معاہدے کو یک طرفہ ختم نہیں کر سکتا۔
ہندوستان نے اپنا غیر ذمہ دارانہ اور مذموم چہرہ دنیا کو دکھا دیا اور پہلگام فالس فلیگ کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر سندھ طاس معاہدے کو غیر قانونی طور پر یک طرفہ معطل کر دیا۔
ذرائع کے مطابق یہ مذموم حرکت 1960 کے سندھ طاس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے کیونکہ معاہدے کی شق نمبر12۔ (4) کے تحت یہ معاہدہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جبکہ دونوں ملک تحریری طور پر متفق نہ ہوں۔
ذرائع کے مطابق بھارت نے بغیر کسی ثبوت اور تحقیق کے پہلگام حملے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے یہ انتہائی اقدام اٹھایا، سندھ طاس معاہدے کے علاوہ بھی انٹرنیشنل قانون کے مطابق Upper riparian , lower riparian کے پانی کو نہیں روک سکتا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کیلئے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔ جس میں عالمی بینک بھی بطور ثالت شامل ہے۔
معاہدے کی روح سے بھارت یکطرفہ طور پر یہ معاہدہ معطل نہیں کر سکتا جبکہ انٹرنیشنل واٹر ٹریٹی بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت شدہ معاہدہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل معاہدے کو معطل کر کے بھارت دیگر معاہدوں کی ضمانت کو مشکوک کر رہا ہے، ہندوستان اس طرح کے نا قابل عمل اور غیر ذمہ دارانہ اقدامات کر کے اپنے اندرونی بے قابو حالات سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔