کفار کے ساتھ نبی اکرم ﷺکا معاشرتی رویہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, April 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکالنے میں مسلمانوں نے پہل نہیں کی تھی بلکہ خود یہودیوں نے اپنی فطرت کے مطابق مسلسل بدعہدی کے ذریعہ یہ ماحول پیدا کر لیا تھا اور ان کی جلاوطنی کے فیصلے اس وقت کے عام عرف کے مطابق جرگوں اور ثالثوں کے ذریعہ ہوئے اور یہودیوں نے ان فیصلوں کو تسلیم کیا۔
مدینہ منورہ میں جناب نبی اکرم ﷺ کو ایک اور طبقہ سے بھی سابقہ درپیش رہا جس کے بارے میں قرآن کریم نے کہا ہے کہ وہ ایمان کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر ’’وما ہم بمومنین‘‘ وہ مومن نہیں ہیں۔ یہ منافقین تھے جن کی قیادت عبد اللہ بن أبی کر رہا تھا، میری طالب علمانہ رائے میں عبد اللہ بن أبی کو حکومت کا چانس ختم ہو جانے پر جو غصہ تھا وہ باقی ساری زندگی اس کا بدلہ ہی لیتا رہا۔ اس نے مدینہ منورہ میں بڑے بڑے فتنے کھڑے کیے اور مسلمانوں کو پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ احد کی جنگ میں وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر میدان سے نکل گیا۔ اس وقت جنگ کے لیے احد تک جانے والے لشکر کی تعداد ایک ہزار تھی جن میں سے تین سو افراد عبد اللہ بن ابی کی قیادت میں میدان چھوڑ کر واپس آگئے تھے۔ اس سے ان کا تناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت کم و بیش تیس فی صد تھے۔
غزوۂ احد کے بعد مسلمانوں میں ان منافقین کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہئے، بعض کی رائے تھی کہ
ان کے خلاف کاروائی کی جائے جبکہ دوسرے حضرات کا خیال تھا کہ انہیں اسی طرح ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس کا ذکر قرآن کریم نے ’’فمالکم فی المنافقین فئتین…الخ‘‘ کی آیت کریمہ میں کیا ہے۔ ان منافقین نے ام المؤمنین حضرت عائشہؓ پر جھوٹی تہمت کا بازار گرم کیا۔ انہوں نے مدینہ منورہ سے مہاجرین کو نکال دینے کی سازش بھی کی جس کا تذکرہ قرآن کریم کی سورۃ المنافقون میں ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود حضورﷺنے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی بلکہ وہ معاشرتی زندگی حتیٰ کہ مذہبی معاملات میں بھی مسلمانوں کے ساتھ مسلسل شریک رہے۔ ان کے خلاف نہ کوئی احتجاجی کاروائی ہوئی اور نہ ہی انفرادی طور پر ان میں سے کسی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی کسی کو اجازت ملی۔ عبد اللہ بن أبی کو قتل کرنے کی اجازت حضرت عمرؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے علاوہ حضرت سعد بن معاذؓ نے بھی مانگی تھی مگر آپ ﷺ نے کسی کو اجازت نہیں دی اور یہ فرمایا کہ اس سے دنیا کے دوسرے لوگوں کو یہ تاثر ملے گا کہ حضرت محمدﷺتو اپنے کلمہ گو ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔یہ جناب نبی اکرم ﷺ کی کمال حکمت عملی تھی کہ ان منافقین کی الگ گروہی شناخت قائم نہ ہونے دی جائے اور انہیں مدینہ منورہ کے اندر کوئی داخلی محاذ بنانے کا موقع نہ دیا جائے۔ حتیٰ کہ جن چودہ منافقین نے نبی اکرمؐ کو راستے میں گھیر کر قتل کرنے کی ناکام کاروائی کی تھی۔ آپ ﷺنے ان کے نام تک حضرت حذیفہؓ کے علاوہ کسی کو نہیں بتائے اور انہیں بھی سختی کے ساتھ تاکید کی کہ ان میں سے کسی کا نام ظاہر نہ ہونے پائے۔ اور یہ بھی اسی حکمت عملی کا حصہ تھا کہ انہیں مسجد کے نام پر اپنا الگ مرکز بنانے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ ان کی بنائی ہوئی مسجد کو ’’مسجد ضرار‘‘ قرار دے کر منہدم کرا دیا گیا۔ان منافقین کے بارے میں جنہیں قرآن کریم نے ’’وما ہم بمؤمنین‘‘ کہہ کر کافر قرار دینے کا اعلان کر دیا تھا، آنحضرت ﷺ کی حکمت عملی یہ سمجھ میں آتی ہے کہ انہیں معاشرتی طور پر الگ کر کے اپنا تشخص قائم کرنے کا موقع نہ دیا جائے اور داخلی طور پر اپنے لیے کوئی محاذ کھڑا نہ ہونے دیا جائے۔ اس کامیاب حکمت عملی کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ وہ لوگ جو غزوہ احد کے وقت کم و بیش تیس فیصد دکھائی دے رہے تھے، حضرت حذیفہؓ والے واقعہ تک ان کی تعداد درجن بھر رہ گئی تھی، اور اس کے بعد تاریخ میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ وہ کدھر گئے؟ ظاہر بات ہے کہ سارے مرکھپ تو نہیں گئے تھے بلکہ آہستہ آہستہ توبہ تائب ہو کر مسلمانوں کے عمومی معاشرے میں تحلیل ہو کر رہ گئے تھے جو جناب رسول اللہ ﷺ کی کمال حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔اس دس سالہ مدنی دور میں کفار کے ساتھ جناب نبی اکرم ﷺ کی معاشرتی حکمت عملی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں جہاں کافر قوموں کے ساتھ دو درجن سے زیادہ جنگیں موجود ہیں وہاں معاہدات بھی تاریخ کا حصہ ہیں، مل جل کر رہنے کی روایت بھی میثاقِ مدینہ کی صورت میں واضح دکھائی دیتی ہے، اور داخلی دشمنوں کو صف آرائی کا موقع نہ دیتے ہوئے آہستہ آہستہ انہیں بے اثر کر دینے کی کامیاب حکمتِ عملی کے ثمرات بھی نظر آتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: عبد اللہ بن ا حکمت عملی کا ان منافقین نبی اکرم ﷺ دیا جائے کے ساتھ کے خلاف ا ہستہ
پڑھیں:
ہمارے خلاف منصوبے بنتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں آؤ ہم سے بات کرو، سلمان اکرم راجہ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا کا کہنا ہے کہ ملک میں آئین اور قانون نہیں، چادر چار دیواری محفوظ نہیں، ہمارے خلاف منصوبے بنتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں آؤ ہم سے بات کرو۔
اسلام آباد میں مجلس وحدت المسلمین کے زیر اہتمام استحکام پاکستان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آئین ایک میثاق ہے جسے بار بار توڑا گیا اور ایک بار تو ملک ہی ٹوٹ گیا، آج ہم سب نشانے پر ہیں، ہمارے خلاف منصوبے بنتے ہیں۔
سلمان اکرام راجا کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی قومی اسمبلی میں 16 نشستیں ہیں، وزیراعظم کے انتخاب میں ان کی نمائندگی ہی نہیں، ہمیں جھوٹا بیانیہ دیا جاتا ہے کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے، معیشیت کی بہتری اور شخصی آزادیوں کو ناپنے کا کوئی پیمانہ نہیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہمیں بھاشن دیا جاتا ہے کہ بھول جاؤ انتخابات اور آئین، زمین سے سونا نکال کر معیشت بہتر کریں گے، یہ جھوٹ ہے کہ اس دولت سے بلوچستان کی ماں یا بہن امیر ہوگی۔