برطانیہ کا یہ معتبر جریدہ ہر سال اُن ماہرینِ طب، محققین اور طبی اداروں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے، جنہوں نے شعبہ طب میں نمایاں اور مثالی خدمات انجام دی ہوں۔ اسلام ٹائمز۔ برطانوی جریدے برٹش میڈیکل جرنل (بی ایم جے) کی جانب سے معروف معالج ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کو عالمی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ ان کو یہ ایوارڈ جنوبی ایشیا میں طب کے میدان میں گراں قدر خدمات پر دیا گیا ہے۔ برطانیہ کا یہ معتبر جریدہ ہر سال اُن ماہرینِ طب، محققین اور طبی اداروں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے، جنہوں نے شعبہ طب میں نمایاں اور مثالی خدمات انجام دی ہوں۔ اس اعزازکی پروقار تقریب نئی دہلی میں منعقد ہوئی۔ جس میں بی ایم جے کے ایڈوائزری بورڈ کے شریک صدر، ڈاکٹر سنجے نگرہ نے اس اعزاز کا اعلان کیا اور پروفیسر ادیب رضوی کو بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر رضوی نے ترقی پذیر ملک پاکستان میں صحت کی فراہمی کا ایک مثالی ماڈل متعارف کروایا، جو حکومت اور معاشرہ  کے درمیان شراکت داری کی بہترین مثال ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے ڈاکٹر رضوی کی غیر متزلزل عزم کی تعریف بھی کی، جس کے تحت انہوں نے ہر فرد کو بلا امتیاز ذات، رنگ، نسل یا مذہب، مفت و اعلیٰ معیار کی طبی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ اگرچہ ڈاکٹر ادیب رضوی خود اس تقریب میں شریک نہیں ہو سکے، تاہم انہوں نے انٹرنیٹ رابطہ کے ذریعے حاضرین سے خطاب کیا۔ اس موقع پر انہوں نے بی ایم جے کے اس اقدام کو سراہا اور میڈیکل ایجوکیشن اور تحقیق کے فروغ میں اس کی خدمات کو شاندار قرار دیا۔

ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کون ہیں؟
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی پاکستان کے معروف طبیب ہیں جو سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کے سربراہ ہیں۔ یہ ادارہ مفت گردوں کی پیوندکاری اور ڈائلیسس کرتا ہے۔ جبکہ 2003ء میں جگر کے ٹرانسپلانٹ کا کام بھی اس ادارے میں متعارف کیا گیا۔ اس ادارے میں ہر سال دس لاکھ سے زائد مریض ایس آئی یو ٹی کی سہولتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ڈاکٹر ادیب نے 11 ستمبر 1938ء میں کلن پور، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ وہ سرجری کی اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے برطانیہ سے واپسی پر سول اسپتال کراچی میں ملازمت اختیار کی۔ ڈاکٹر ادیب نے طب کے شعبے میں گردوں کے علاج کے لیے بہت گراں قدرخدمات انجام دی ہیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر ادیب الحسن نے جب سول ہسپتال میں ملازمت اختیار کی تو گردے کے علاج کے لیے 8 بستروں کے وارڈ سے ایک نئے مشن کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنے ساتھ اپنے نوجوان ڈاکٹروں کی ٹیم جمع کی جن کا مقصد ایک چھوٹے سے وارڈ کو عظیم الشان میڈیکل کمپلیکس میں تبدیل کرنا اور ہر مریض کا اس کی عزت نفس مجروح کیے بغیر علاج کرنا تھا۔

یوں آج سرکاری شعبے میں قائم سندھ انسٹی ٹیوٹ آف نیورولاجی اور ٹرانسپلانٹیشن کا شمار دنیا کے اعلیٰ میڈیکل انسٹی ٹیوٹس میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے لیے محض سرکاری گرانٹ پر ہی تکیہ نہیں کیا بلکہ نجی شعبے کو بھی اپنے مشن میں شریک کیا۔ یوں سرکاری ادارے میں بغیر کسی فائدے کے نجی شعبے کے عطیات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ معروف سرمایہ کارگھرانے دیوان گروپ کی مالیاتی مدد سے دیوان فاروق میڈیکل کمپلیکس تعمیر ہوا۔ اس میڈیکل کمپلیکس کی زمین حکومت سندھ نے عطیہ کی۔ اس طرح 6 منزلہ جدید عمارت پر 300 بیڈ پر مشتمل کمپلیکس کی تعمیر ہوئی۔ اس کمپلیکس میں متعدد جدید آپریشن تھیٹر، لیکچرز ہال، او پی ڈی وغیرہ کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ ایک جدید آڈیٹوریم بھی تعمیر کیا گیا۔ نیز گردے کے کینسر کے علاج کے لیے حنیفہ بائی حاجیانی کمپلیکس تعمیر ہوا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن کی کوششوں سے بچوں اور بڑوں میں گردے سے متعلق مختلف بیماریوں کی تشخیص کے لیے الگ الگ او پی ڈی شروع ہوئیں اور الگ الگ آپریشن ہونے لگے۔

اس کے ساتھ ہی گردے کی پتھری کو کچلنے کے لیے لیپسو تھریپی کی مشین جو اپنے وقت کی مہنگی ترین مشین تھی ایس آئی یو ٹی میں لگ گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب کراچی کے دو یا تین اسپتالوں میں یہ مشین لگائی گئی تھی جہاں مریضوں سے اس جدید طریقہ علاج کے لیے خطیر رقم وصول کی جاتی تھی مگر سیوٹ میں یہ سہولت بغیر کسی معاوضے کے فراہم کی جاتی تھی۔ اسی طرح گردوں کے کام نہ کرنے کی بنا پر مریضوں کی اموات کی شرح خاصی زیادہ تھی مگر ایس آئی یو ٹی میں ڈائیلیسز مشین لگا دی گئی۔ یوں ناامید ہونے والے مریض اپنے ناکارہ گردوں کی بجائے ڈائیلیسز مشین کے ذریعے خون صاف کرا کے عام زندگی گزارنے کے قابل ہوئے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی قیادت میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے گردے کے ٹرانسپلانٹ کا کامیاب تجربہ کیا۔ انھوں نے ایک تندرست فرد کا گردہ ایک ایسے شخص کو لگایا جس کا گردہ ناکارہ ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اعضاء کی پیوند کاری کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے ایک مہم منظم کی۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے علاج کے لیے انہوں نے

پڑھیں:

بھگوڑا یوٹیوبر برطانوی عدالت کے کٹہرے میں

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر جھوٹ اور فریب کاری سے ڈالر کمانے والے جعل ساز اب قانون کی گرفت میں آتے جا رہے ہیں۔ ایک مفرور کورٹ مارشل شدہ بھگوڑا فوجی افسر آج کل برطانوی عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے۔ یہ موصوف گزشتہ تین برسوں سے تحریک انصاف کے سادہ لوح حامیوں کو انقلاب کا چورن چٹا رہے تھے۔ ان کی پہلی خوبی یہ ہے کہ موصوف پاکستان کے قوانین کے مطابق مفرور قرار دیے جا چکے ہیں ۔ ان کی دوسری خوبی یہ ہے کہ ریاست اور فوجی اداروں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنے کے جرم میں ان کا کورٹ مارشل ہو چکا ہے۔ ان کی تیسری خوبی یہ ہے کہ موصوف جعلسازی اور مالیاتی فراڈ کے مقدمات میں پاکستانی عدالتوں کو مطلوب ہیں ۔ ان کی چوتھی خوبی یہ ہے کہ ان کے ساتھ تحریک انصاف کے بعض بھگوڑے رہنما اور چند مٹھی بھر کورٹ مارشل شدہ فوجی گاہے بگاہے بیرون ملک اپنی پناہ گاہوں سے ریاستی اداروں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کا بازار گرم رکھتے ہیں ۔کچھ عرصہ قبل آئی ایس آئی کے اہم عہدے دار بریگیڈئر راشد نے بھگوڑے یوٹیوبر عادل راجہ کے خلاف برطانوی عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا ۔کچھ عرصہ قبل اس مقدمے میں شواہد کی بنیاد پر عادل راجہ پر مالی جرمانہ عائد کیا گیا تھا ۔دستیاب اطلاعات کے مطابق موصوف جرمانہ ادا کر نے میں تاخیری حربے استعمال کرتے رہے ۔تاہم سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس مقدمے میں اپنے دفاع کے لیے روایتی مکاری کے ذریعے لگ بھگ ایک لاکھ پائونڈ جمع کر چکے ہیں۔ اس مقدمے کی حالیہ سماعت میں عدالت نے عادل راجہ پر مزید مالی جرمانہ عائد کر دیا ہے۔ میڈیا پہ دستیاب اطلاعات کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق اہلکارگزشتہ ہفتے ہتکِ عزت کے مقدمے میں یوکے ہائی کورٹ میں ذاتی طور پر پیش ہوئے۔ یہ سماعت ماسٹر ڈیوسن کے روبرو مقرر تھی، جس کا مقصد مکمل ٹرائل سے قبل تین اہم درخواستوں پر فیصلہ کرنا تھا۔ مکمل ٹرائل رواں سال جولائی میں ہوگا۔عدالت نے ایک بار پھر حکم دیا کہ عادل راجہ مدعی کو قانونی اخراجات ادا کرے۔ اس سے قبل وہ 23,000 ادا کر چکے ہیں، اور اب عدالت نے مزید 6,100 ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔اس سلسلے میں پہلی درخواست عادل راجہ کی طرف سے تھی، جس میں انہوں نے خود اور اپنے گواہوں شاہین صہبائی، کرنل (ر) اکبر حسین، اور مرزا شہزاد اکبر کے لیے ریموٹ ٹرائل کی اجازت مانگی۔ مدعی راشد نذیر کو اصولی طور پر اس پر کوئی اعتراض نہ تھا، لیکن انہوں نے شواہد کی صداقت پر سوال اٹھایا۔جج نے حیرت کا اظہار کیا کہ شاہین صہبائی اور اکبر حسین کے لیے درخواست کیوں دی گئی، کیونکہ عدالت عام طور پر امریکہ سے آن لائن شہادت کی اجازت دے دیتی ہے۔شہزاد اکبر اور عادل راجہ کے لیے درخواست سننے سے جج نے انکار کیا اور کہا کہ یہ فیصلہ ٹرائل جج کرے گا جو جون کی پری ٹرائل سماعت میں ہوگا۔دوسری درخواست ایک گمنام گواہ کے لیے تھی، جس کے بارے میں عادل راجہ نے دعویٰ کیا کہ وہ فوج کا فرد تھا لیکن اس نے گواہی دینے سے انکار کر دیا۔عادل راجہ چاہتے تھے کہ اس درخواست کی لاگت راشد نذیر ادا کریں، لیکن راشد نذیر نے کہا کہ اگرچہ وہ اصولی طور پر اعتراض نہیں رکھتے، مگر چونکہ عادل راجہ نے یہ درخواست واپس لے لی ہے، اس لیے انہیں ہی لاگت ادا کرنی چاہیے۔جج نے فیصلہ دیا کہ اس درخواست کے اخراجات مقدمے کے اختتام پر طے ہوں گے۔ عادل راجہ نے پہلے دیے گئے 23,000 اخراجات وقت پر ادا نہیں کیے تھے ۔ مدعی چاہتا تھا کہ ان اخراجات کی وصولی کی درخواست پر آنے والے قانونی اخراجات بھی عادل راجہ ادا کریں۔عادل راجہ کے وکلا نے اس پر اعتراض کیا، مگر جج نے مدعی کے وکلا سے اتفاق کیا اور عادل راجہ کو 6,100 کی مزید ادائیگی کا حکم دیا جو 14دن میں کی جانی لازم ہے۔عادل راجہ نے ان کارروائیوں کے دوران ایک بیان میں کہا کہ وہ لندن میں مقیم ایک پاکستانی صحافی کو سمن جاری کرنے جا رہے ہیں تاہم ان کے وکیلوں نے اس معاملے پر کوئی واضح موقف اختیار کرنے کے بجائے ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ مقدمے میں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ بھگوڑا یوٹیوبر قانونی مو شگافیوں کی تلاش میں ہے ۔تاہم قانونی کارروائی کے شکنجے میں آنے کے بعد یوٹیوب پر جعلی پروپیگنڈے کے سحر میں مبتلا ہونے والے سادہ لوح فالوورز کی آنکھیں کھل گئی ہیں۔
یہ بات قابل غور ہے کہ بھگوڑے کورٹ مارشل شدہ یوٹیوبر کے علاوہ بیرون ملک مقیم بعض مفرور صحافی سنسنی خیز جعلی خبروں اور جھوٹے الزامات کے ذریعے ایک جانب تحریک انصاف کے حامیوں کو غلط راہ پر لگاتے رہے ہیں تو دوسری طرف ملک میں عدم استحکام کے بیج بوتے رہے ہیں۔ اس منفی طرز عمل کے برے اثرات کا کچھ اندازہ اب تحریک انصاف کی قیادت کو بھی ہوتا جا رہا ہے دو ہفتے قبل پشاور میں شعلہ بیانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے واضح الفاظ میں یہ ذکر کیا کہ بیرون ملک مقیم بہت سے یوٹیوبرز اور وی لاگرز جھوٹی خبروں کی شرلیاں چھوڑتے رہتے ہیں ۔یہ پہلو نہایت توجہ طلب ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے ان تمام یوٹیوبرز اور وی لاگرز کی نہ صرف مذمت کی بلکہ ان سے باقاعدہ تعلق کا انکار بھی کیا ۔جو کچھ بھگوڑے یوٹیوبر عادل راجہ کے ساتھ اس وقت برطانوی عدالت میں ہو رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ جعلسازی، جھوٹے پروپیگنڈے اور زہریلے الزامات عائد کرنے کا مذموم دھندہ زیادہ دن نہیں چل سکے گا۔

متعلقہ مضامین

  • ہیلتھ سروسز اکیڈمی کا شفاف بھرتی کا سنگ میل، 77 آسامیوں کے لیے 7 ہزار امیدواروں کا سکریننگ ٹیسٹ کامیابی سے مکمل
  • ایتھوپیا کے سفیر ڈاکٹر جمال بکر عبداللہ کو سیالکوٹ میں بہترین سفیر کے ایوارڈ سے نوازا گیا
  • چائنا میڈیا گروپ کی جانب سے “گلوبل چائنیز کمیونیکیشن پارٹنرشپ”میکانزم کا قیام
  • امریکہ کی جانب سے یکطرفہ غنڈہ گردی کی عالمی قیمت
  • شہباز شریف کا نمایاں کارکردگی پر تارکین وطن کو سول ایوارڈ دینے کا اعلان
  • برطانوی جریدے کی جانب سے ڈاکٹر ادیب رضوی کیلیے عالمی ایوارڈ
  • پاراچنار، مجلسِ علمائے اہلبیتؑ کی جانب سے امن سیمینار کا انعقاد
  • بھگوڑا یوٹیوبر برطانوی عدالت کے کٹہرے میں
  • وزیر خزانہ اورنگزیب  عالمی معاشی اجلاسوں میں شرکت کیلئے امریکہ چلے گئے