حکومت کی اعلان کردہ مفت الیکٹرک اسکوٹی کیسے حاصل کریں، شرائط کیا ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT
کراچی(نیوز ڈیسک)سندھ حکومت نے خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے اور ان کے سفری مسائل کم کرنے کے لیے مفت اسکوٹی اسکیم متعارف کرا دی ہے۔ یہ اسکیم خاص طور پر ان طالبات اور ملازمت پیشہ خواتین کے لیے ہے جو روزمرہ آمدورفت میں شدید مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔
کراچی جیسے بڑے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی نے خواتین کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ اسی مسئلے کا حل خود خواتین نے تلاش کیا اور روایتی موٹر سائیکل کی جگہ اب اسکوٹی کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے جو دنیا بھر میں خواتین کے لیے ایک بہتر اور محفوظ سفری متبادل سمجھا جاتا ہے۔
سندھ حکومت کی اس اسکیم کے تحت وہ خواتین مفت اسکوٹی حاصل کر سکتی ہیں جو مخصوص شرائط پر پوری اتریں گی۔
اسکیم کے لیے اہل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ درخواست دہندہ سندھ کی مستقل رہائشی ہو اور یا تو طالبہ ہو یا ملازمت پیشہ۔ اس کے علاوہ، اس کے پاس مصدقہ ڈرائیونگ لائسنس ہونا لازمی ہے۔
قرعہ اندازی کے ذریعے اسکوٹی حاصل کرنے والی خواتین کو سات سال تک یہ اسکوٹی فروخت نہ کرنے کی پابندی ہو گی، اور انہیں روڈ سیفٹی کا عملی امتحان بھی دینا ہوگا۔
اسکیم میں ترجیحی بنیادوں پر سنگل مدر، بیوہ یا مطلقہ خواتین کو شامل کیا گیا ہے تاکہ وہ زندگی میں خود کفالت کی جانب قدم بڑھا سکیں۔
اسکوٹی کی تقسیم شفاف قرعہ اندازی کے ذریعے کی جائے گی جس میں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی موجودگی اور متعلقہ سرکاری محکموں کی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں ایکسائز، ٹرانسپورٹ، فنانس اور میڈیا کے نمائندے شامل ہوں گے۔
درخواست دینے کے خواہشمند افراد سندھ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کی ویب سائٹ www.
یہ اسکیم خواتین کو خودمختاری کی طرف بڑھنے، آزادی سے کام پر جانے اور اپنی زندگی کا فیصلہ خود کرنے میں ایک مؤثر قدم ثابت ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل پنجاب حکومت بھی ”پنک بائیک“ اسکیم کے ذریعے ایسی ہی کوشش کر چکی ہے، جس کا مقصد خواتین کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنا اور ان کے لیے محفوظ اور خودمختار سفر کو ممکن بنانا ہے۔
مزیدپڑھیں:صارفین کی حقیقی عمر کی تصدیق کیلئے میٹا نے اے آئی کا سہارا لے لیا
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
سندھ: سول ججز اور جوڈیشل مجسٹریٹس کی بھرتیوں کا کیس، فیصلہ محفوظ
— فائل فوٹوسندھ ہائی کورٹ نے سول ججز اور جوڈیشل مجسٹریٹ کی بھرتیوں کی شرائط میں تبدیلی کے کیس کی سماعت کے دوران فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ نوٹیفکیشن میں وکلاء کے لیے 3 سال پریکٹس کی شرائط عائد کی گئی ہیں جبکہ اعلیٰ عدالتوں کے سرکاری ملازمین کے لیے کوئی شرط نہیں ہے، جس سے ہزاروں وکلاء کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔
جسٹس آغا فیصل نے کہا کہ ججز کی بھرتیوں کے لیے بنیادی شرائط بھی تو رکھی گئی ہیں، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وکلاء کی 2 سال کی پریکٹس بھی امتیازی سلوک ہے۔
کراچی اعلی عدلیہ نے صوبہ سندھ میں سول ججز اینڈ...
عدالت کا کہنا ہے کہ اگر متعلقہ ادارے بنیادی شرائط طے کسکتے ہیں تو اس میں کیا مسئلہ ہے؟
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ درخواست گزار کی عمر 27 برس ہے اور مطلوبہ پریکٹس میں چند ماہ کم ہیں، لاہور ہائی کورٹ نے بھی خلافِ ضابطہ قانون سازی کو معطل کیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ درختوں کے تحفظ سے متعلق ہے، جس پر درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے ایسے ہی معاملے پر عبوری ریلیف دیتے ہوئے اپلائی کرنے کی اجازت دی تھی۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔