کراچی(نیوز ڈیسک)فلم، ڈرامہ اور تھیٹر میں اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوانے والی معروف فلمی اداکارہ خوشبو خان نے پہلی بار اپنی نجی زندگی، دکھوں اور اندرونی کشمکش کے حوالے سے حیران کن انکشافات کیے ہیں۔

وہ حال ہی میںایک شو میں بطور مہمان شریک ہوئیں، جہاں ان کی گفتگو نے شائقین کے دلوں کو چھو لیا۔

خوشبو خان نے بتایا کہ ان کا فنی سفر صرف 7 سال کی عمر میں شروع ہو گیا تھا، جب وہ بطور چائلڈ آرٹسٹ کام کرنے پر مجبور ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ، یہ میری پسند نہیں تھی۔ میں ہمیشہ سے ٹیچر بننا چاہتی تھی۔ لیکن مجھے شوبز میں دھکیلا گیا، اور یہ سب ایک معمول میں بدل گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ مسلسل کام کرتی رہیں اور اسی دوران اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکیں، جس کا انہیں آج بھی شدید افسوس ہے۔

اداکارہ نے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں بے شمار قربانیاں دیں، چاہے وہ دوست ہوں، خاندان والے ہوں یا کوئی خاص شخص سب سے وفا کی، لیکن بدلے میں صرف دھوکہ ملا۔

میں نے سب کے لیے جیا، سب کی مدد کی، مالی طور پر بھی اور جذباتی طور پر بھی۔ لیکن جب مجھے ضرورت پڑی، سب نے منہ موڑ لیا۔ ان کا کہنا تھا۔

خوشبو خان نے یہ بھی انکشاف کیا کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے ڈپریشن کا شکار رہی ہیں۔ وہ مہینوں اپنے کمرے میں بند رہیں، کسی سے بات نہیں کی، صرف روتی رہیں۔

اداکارہ نے کہ، مجھے لگتا تھا میں صرف تھکی ہوئی ہوں، لیکن دراصل میں ڈپریشن میں تھی۔ میں نے اس سے خود ہی لڑا، اور خود ہی نکلی، لیکن اس عمل میں اندر سے ٹوٹ گئی۔

خوشبو خان کی شادی معروف فلمی اداکار ارباز خان سے ہوئی ہے، اور اس جوڑے کے دو بچے ہیں۔ اگرچہ ان کی ذاتی زندگی بظاہر خوشحال دکھائی دیتی ہے، لیکن انٹرویو میں سامنے آنے والی حقیقتیں بتاتی ہیں کہ وہ اندر سے ایک مسلسل جدوجہد سے گزر رہی ہیں۔

اداکارہ کی صاف گوئی اور دل کو چھو لینے والی گفتگو نے سوشل میڈیا پر بھی ہلچل مچا دی ہے۔ مداحوں نے نہ صرف ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ ان کے حوصلے اور ہمت کو بھی سراہا۔
مزیدپڑھیں:صارفین کی حقیقی عمر کی تصدیق کیلئے میٹا نے اے آئی کا سہارا لے لیا

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

آئین کا مقصد، ترامیم یا نفاذ ؟

دنیا بھر میں ریاستوں اور ممالک کا نظم و نسق چلانے کے لیے آئین بنائے جاتے ہیں لیکن پاکستان میں ایسا لگتا ہے کہ آئین بس ترامیم کے لیے بنایا گیا ہے، پاکستان کے آئینی سفر میں جو موڑ آئے ہیں اور محض ایک شخص یا چند افراد کی خاطر آئین کا حلیہ بگاڑنے کے واقعات پیش آئے ہیں، وہ شاید دنیا میں کہیں پیش نہیں آئے۔

امریکا جیسا ملک بھی اپنی دوسو سالہ تاریخ میں اب تک 27 ترامیم کرسکا ہے لیکن پاکستان اب تک صرف 78 برس میں امریکا کے برابرآگیا ہے اور 27 ویں ترامیم کے ذریعے 350 سے زیادہ شقیں تبدیل کردی گئی ہیں۔

اگلی ترمیم کے ذریعے کم از کم اس معاملے میں امریکا سے آگے نکل جائے گا، اگر پاکستانی آئین کا تیاپانچا کرنے کا تجزیہ کیا جائے تو شاید ہزاروں صفحات بھی کم پڑ جائیں گے، لیکن ایک سرسری سا تجزیہ کریں تو صورتحال واضح ہوجائے گی۔

پاکستان کا آئین جس کو کہا اور مانا جاتا ہے وہ 1973 کا آئین ہے۔ ویسے یہ سوال بھی اپنی جگہ ہے کہ 1947 سے چھبیس برس تک کیا پاکستان بے آئین رہا۔ کوئی 1956 اور 62 کے دساتیر کا بھی ذکر کرسکتا ہے لیکن، صحیح معنوں میں جس کو دستور کہا اور تسلیم کیا جاتا ہے وہ 1973 ہی کا دستور ہے۔

1973 کے متفقہ منظورکردہ آئین پاکستان میں اب تک 27 بار ترامیم کی جا چکی ہیں، ان میں سے 7 ترامیم ذوالفقار علی بھٹو کے مختصر سے دور میں ہوئیں، یعنی 73 سے 77 کے دوران سات ترامیم عمل میں آئیں۔

تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ آٹھ ترامیم میاں نواز شریف کے ادوار میں ہوئیں اور اگر مسلم لیگ کو سامنے رکھیں تو اس کا ریکارڈ سب سے زیادہ نکلے گا۔ بہرحال ترتیب یوں ہے کہ غیر جماعتی اسمبلی سے منتخب ہونے والے وزیراعظم محمد خاں جونیجو کے دور میں 3 آئینی ترامیم ہوئیں۔ 

نواز شریف کے ادوار میں 8 آئینی ترامیم ہوئیں۔پیپلزپارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں 3 آئینی ترامیم ہوئیں، مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور پاکستان تحریک انصاف کے دور میں 2، 2 آئینی ترامیم ہوئیں جب کہ ظفر اللہ جمالی کے دَور میں ایک آئینی ترمیم کی گئی تھی۔ 

حال ہی میں چھبیسویں اور ستائیسویں ترامیم سے پہلے تک آئین پاکستان کی تین ترامیم، آٹھویں، سترہویں اور اٹھارہویں سب سے زیادہ متنازع قرار دی جاتی ہیں، پہلی دو ترامیم کا تعلق تو غیر جمہوری صدورکے اختیارات میں اضافہ کرنا تھا۔

آٹھویں ترمیم کے ذریعے جنرل ضیاء الحق کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا جب کہ سترہویں ترمیم کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کو آئینی تحفظ دیا گیا۔ آئین کی اٹھارہویں ترمیم کو جمہوریت کے لیے مفید اور وفاق پاکستان کی اکائیوں کے لیے باعث تقویت کہا جاتا ہے، لیکن اس پر بھی اختلافات شدید ہیں اور اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کو دیے گئے بعض اختیارات ہی کو ملکی نظام میں عدم توازن کی بنیاد قرار دیا جا رہا ہے،خصوصا، سندھ میں تعلیم، صحت اور بلدیات سے متعلق قوانین کے غلط استعمال نے نزاع پیدا کیا ہے۔

البتہ اٹھارہویں ترمیم کو پارلیمنٹ کی بڑی کامیابی بھی تصورکیا جاتا ہے۔ 1973 کے دستورکی منظوری کے بعد ایک سال سے کم مدت میں اس میں پہلی ترمیم: 4 مئی 1974 کو کی گئی۔ آئین پاکستان میں اس پہلی ترمیم کی دستاویز کو سرکاری طور پر آئین کی (پہلی ترمیم) ایکٹ 1974 کہا جاتا ہے، یہ ترمیم 4 مئی 1974 کو نافذ ہوئی۔ 

اس ترمیم کی رو سے آئین پاکستان کے آرٹیکل 1، 8، 17، 61، 101، 193، 199، 200، 209، 212، 250، 260 اور 272 میں تبدیلیاں کی گئیں، ان ترامیم کے بعد پاکستان کی سرحدوں کا ازسر نو تعین کیا گیا۔

دوسری ترمیم: 7 ستمبر 1974 کو وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کی گئی دوسری آئینی ترمیم میں احمدیوں کو واضح طور پر آئین پاکستان نے غیر مسلم قرار دیا۔ اسے ’’آرڈیننس 20‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

آگے چل کر اقتدار کو مضبوط کرنے اور عوام کے حقوق غصب کرنے والی ترامیم آنا شروع ہوگئیں اور یہ سلسلہ عدلیہ کے اختیارات کم کرنے اور بالاخر اسے مکمل قابو میں رکھنے کے لیے قوانین بنائے جانے لگے اور اب عدالت عظمی آئین کی تشریح کرکے بھی اپنے اختیارات بحال نہیں کرسکتی، کیونکہ وہ اس عمل کے دوران تقسیم رہی۔

اب حال یہ ہے کہ استعفیٰ دے کر باہر بیٹھ کر تنقید کرتے رہیں، اندر رہ کر تو ذمے داری قبول کرنے سے انکار بھی نہیں کرسکتے۔بیشتر ترامیم تو حکمرانوں اور اہم شخصیات کو اختیارات دینے کی خاطر کی گئیں لیکن ترامیم کرنے والے جانتے تھے کہ عدلیہ کسی بھی وقت ان کو ایسا کرنے سے روک سکتی ہے، چنانچہ اس پرکام جاری رہا اور وہ تفہیم لائی گئی جو پاکستان میں عدلیہ کے پر کاٹنے بلکہ اسے عضو معطل بنانے والی ترمیم یعنی 26 ویں ترمیم کہلاتی ہے۔

20 اکتوبر 2024 کی اس ترمیم میں چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پرکرنے کی تجویز دی گئی۔

یہ پوری ترمیم، عدالت عظمی، ججوں کے تقرر، تبادلے، ریفرنسز، مدت ملازمت، عمرکی حد، عدالت کے اختیارات کی حد بندیوں وغیرہ کے گرد گھومتی ہے اور یہ عدلیہ پرکھلا حملہ تھا لیکن عدلیہ کے رکھوالوں اور ججز کے درمیان اختلافات نے انھیں اس پر کوئی رکاوٹ ڈالنے سے روک دیا اور انھیں اس کا اندازہ بھی تھا، انھیں چند مہینوں میں غلطی کا احساس ہوگیا۔ 

لیکن اب دیر ہوچکی تھی، فائدہ اٹھانے والوں نے فائدہ اٹھا لیا،کچھ ججوں کو کچھ فوائد بھی مل گئے اور تمام اختیارات قومی اداروں سے چھیننے کا کام کرنے والوں نے اپنا کام جاری رکھا اور اب ستائیسویں ترمیم بھی آگئی بلکہ چھا گئی ہے، یوں عدالت عظمی پر حکومت کا کنٹرول قائم ہوگیا۔

اس ترمیم سے پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر 2030 تک فوج کے سربراہ ہوگئے ہیں۔ آرمی، ایئر فورس اور نیوی ترمیمی بلز کی قومی اسمبلی میں منظوری سے چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم ہوگیا ہے۔

پاکستان میں ہونے والی آئینی ترامیم کے ظاہری نتائج اور فائدہ اٹھانے والوں کا بہت ذکر ہوتا ہے، نام تک لیے جاتے ہیں، 1973کے آئین اور اس کی ترمیم کے ایک ایک مرحلے سے قوم واقف ہے۔ آئین کی تیاری، تنازعات، ترامیم تجاویز ہر مرحلہ ریکارڈ پر ہے لیکن آٹھویں ترمیم کے بعد سے پراسرار انداز نے جگہ لے لی، راتوں رات پیچیدہ شقوں میں ترامیم تجویز ہوتیں اور چند گھنٹوں میں پیش کرنے سے لے کر منظوری تک کا عمل مکمل ہوجاتا۔ 

آخر یہ کیسا جادو ہے، وہ کون جادوگر ہے جو لمحوں میں ترامیم لاتا اور منظور کراتا ہے۔ دستورکے ابتدائی خاکے اور منظوری تک کے سارے عمل کے برخلاف نئی ترمیم کا کوئی خالق سامنے نہیں آتا، بس ترامیم آتی ہیں اور منظور ہوجاتی ہیں، دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔

پہلے ان اسمبلیوں میں کچھ لوگ مشکلات پیدا کرتے رہے ہیں، سو انھیں اسمبلیوں سے باہر کردیا گیا، کبھی آر ٹی ایس بیٹھا،کبھی فارم 47 آگیا،کبھی زبردستی نتیجہ تبدیل کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • آئین کا مقصد، ترامیم یا نفاذ ؟
  • کولکتہ میں اسٹار فٹبال میسی پر مشتعل ہجوم نے بوتلیں برسا دی گئیں
  • ایف سی ہیڈکوارٹر حملے کے دہشتگرد نیٹ ورک کا پردہ فاش
  • اسٹار کھلاڑیوں کے آئی پی ایل چھوڑنے سے لیگ کی برانڈ ویلیو گرنے لگی
  • اسٹار کھلاڑیوں کے لیگ چھوڑنے کے بعد آئی پی ایل کو ایک اور بڑا جھٹکا
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغان سرزمین سے سر اٹھا رہا ہے: وزیراعظم شہباز شریف
  • 3 اسٹار جنرل کے کورٹ مارشل سے فوجی اور سول افسران محتاط ہوں گے: نیئر بخاری
  • چین: 30سال بعد شہری کے پیٹ سے فعال لائٹر برآمد
  • چین: فعال لائٹر شہری کے پیٹ سے 30 سال بعد برآمد
  • قومی اسمبلی میں پی پی کی حکومت پر تنقید، پی ٹی آئی کا عمران خان کی تصاویر اٹھا کراحتجاج