Daily Mumtaz:
2025-04-22@07:35:30 GMT

سنیتا مارشل کی ماہرہ خان سے مشابہت، ماجراہ کیا؟

اشاعت کی تاریخ: 22nd, April 2025 GMT

سنیتا مارشل کی ماہرہ خان سے مشابہت، ماجراہ کیا؟

سنیتا مارشل نے ماہرہ خان سے مشابہت پر اپنی رائے کا اظہار کر دیا۔

پاکستان کی مشہور ماڈل اور اداکارہ سنیٹا مارشل جو فیشن اور ڈرامہ انڈسٹری میں اپنی خوبصورت شخصیت اور محنت سے بے پناہ مقبولیت حاصل کر چکی ہیں، حال ہی میں اداکارہ اُشنا شاہ کے شو کی مہمان بنیں، اس موقع پر انہوں نے اپنی زندگی کے سفر اور کیریئر کے بارے میں دلچسپ گفتگو کی۔

شو کے دوران اُشنا شاہ نے ایک دلچسپ نکتہ اٹھایا کہ سنیتا مارشل کی شکل ماہرہ خان سے کافی مشابہت رکھتی ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا تھا، لیکن اب یہ مشابہت بہت واضح دکھائی دیتی ہے۔

اسی بات پر اُشنا نے سنیتا سے سوال کیا کہ کیا آپ کو بھی اس سے متعلق لوگوں سے تبصرے موصول ہوتے ہیں؟

سنیتا مارشل نے ہنستے ہوئے اس بات کی تصدیق کی۔

انہوں نے کہا کہ جی ہاں، مجھے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ میری شکل ماہرہ خان سے بہت ملتی ہے، جب بھی ہم کہیں ملاقات کرتے ہیں، تو لوگ مذاقاً کہتے ہیں کہ ہم بچپن میں بچھڑنے والی بہنیں ہیں۔

سنیتا نے کہا کہ تصاویر میں یہ مشابہت اور بھی زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے، خاص طور پر چہرے کے ساخت، ہونٹوں اور بالوں کی مماثلت کی وجہ سے۔

یہ گفتگو ناصرف شو میں دلچسپی کا باعث بنی بلکہ شائقین نے بھی سوشل میڈیا پر دونوں خوبصورت اداکاراؤں کی مشابہت پر تبصرے شروع کر دیے۔

سنیتا مارشل اور ماہرہ خان دونوں ہی پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کا اہم اثاثہ ہیں اور اپنی الگ الگ شناخت رکھنے کے باوجود ان کی یہ ظاہری مشابہت لوگوں کے لیے خوش گوار حیرت کا باعث ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: ماہرہ خان سے سنیتا مارشل

پڑھیں:

عورتیں جو جینا چاہتی تھیں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) گزشتہ ہفتے سندھ کی دو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی دو خودمختار خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا لاڑکانہ کی سرکاری اسکول ٹیچر صدف حاصلو اور میرپورخاص کی پولیس اہلکار مہوش جروار۔ دونوں کے قاتل پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد تھے۔ یعنی اسی ادارے کے نمائندے، جس پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری تھی۔

صدف حاصلو، لاڑکانہ کی ایک باہمت لڑکی تھی، جس نے والد کے انتقال کے بعد اپنی ماں کے ساتھ مل کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ کبھی پرائیویٹ اسکولوں میں معمولی تنخواہ پر پڑھاتی رہی، کبھی بچوں کو ٹیوشن دیتی رہی اور بالآخر اپنی محنت سے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئیں۔ لیکن ایک خودمختار عورت اس معاشرے کو کب قبول ہوتی ہے؟

ایک پولیس اہلکار صدف سے شادی کا خواہشمند تھا۔

(جاری ہے)

صدف کی ماں نے اس کا نکاح تو اس پولیس اہلکار سے پڑھوا دیا، لیکن رخصتی سے پہلے کچھ شرائط رکھی۔ مگر چونکہ لڑکا پولیس میں تھا، اس نے سمجھا کہ اب صدف پر اس کا مکمل حق ہے۔ وہ بار بار صدف کے گھر آتا، دھمکاتا اور ایک دن بندوق اٹھا کر زبردستی کرنے پہنچ گیا۔ صدف نے ہمت دکھائی، خلع کا فیصلہ کیا اور تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع بھی کیا۔ لیکن کون سنتا ہے ایک عام سی اسکول ٹیچر کی فریاد؟ نہ تحفظ ملا، نہ انصاف۔

چند دن بعد، جب صدف اسکول سے واپس آ رہی تھی، تو اسی پولیس اہلکار نے سرِعام اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ آج بھی وہ قاتل آزاد گھوم رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

دوسری خاتون، مہوش جروار جو ایک پولیس کانسٹیبل تھی۔ مہوش جروار، ایک یتیم لڑکی، جس کا باپ برسوں پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا تھا، اپنی ماں کے ساتھ غربت کے سائے میں پلی بڑھی۔

دو سال پہلے اسے پولیس میں کانسٹیبل کی نوکری ملی۔ یہ نوکری اس کے لیے ایک امید تھی، ایک نئی زندگی کی راہ۔ مگر اس نظام میں نوکری نہیں، صرف کمزوروں کا استحصال بکتا ہے۔

مہوش کی پوسٹنگ میرپورخاص سینٹرل جیل میں ہوئی۔ پھر پولیس اہلکار یوسف کھوسہ نے اسے مسلسل بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر مہوش نے اپنی پوسٹنگ حیدرآباد کروالی، لیکن حالات اور غربت اسے دوبارہ میرپورخاص کھینچ لائی۔

پھر ایک دن وہی وردی جو اس کی پہچان تھی، اس کی لاش پر موجود تھی۔ مہوش اپنی پولیس کی وردی ہی میں پھندے سے جھولتی پائی گئی۔

ایک بات طے ہے، مہوش اس بلیک میلنگ سے تھک چکی تھی، اس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی، مقام بدلا، شکایات درج کروائیں، مگر سسٹم نے کبھی اس کی بات سننا گوارا نہ کی۔ حیدرآباد میں ایف آئی اے کے دفتر میں ایک شکایت 2 جنوری کو درج ہوئی اور ابھی اپریل چل رہا ہے۔

مگر اس کی تفتیش کا کوئی پتہ نہیں۔ نہ کوئی فون، نہ کوئی طلبی، نہ کوئی پیش رفت۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر صدف اور مہوش جیسی تعلیم یافتہ، بہادر، محنتی عورتیں بھی اس معاشرے میں محفوظ نہیں، تو پھر تحفظ کی ضمانت کس کے پاس ہے؟ یہ دو کہانیاں محض دو عورتوں کی نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی ناکامی کی کہانی ہیں۔ ایک ایسا نظام جو عورت کو صرف اس وقت برداشت کرتا ہے جب وہ خاموشی سے سر جھکائے، "ہاں" کہنا سیکھ لے اور اپنی خودمختاری قربان کر دے۔

صدف اور مہوش جیسے بے شمار چہرے ہیں جو روز کام پر جاتے ہیں، خود کو اور اپنے گھر والوں کو سنبھالتے ہیں اور اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ شاید ایک دن یہ معاشرہ انہیں جینے کا حق دے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پوپ فرانسس کے انتقال پر بشپ آزاد مارشل کی تعزیت
  • سابق ائیر وائس مارشل کا کورٹ مارشل، وزارت دفاع سے ریکارڈ طلب
  • اپنی نئی فلم ’ستارے زمین پر‘ کے بارے میں عامر خان کا اہم انکشاف
  • عورتیں جو جینا چاہتی تھیں
  • حیا
  • میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
  • بات ہے رسوائی کی
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
  • 4 بچوں کی ماں اپنی بیٹی کے سسر کے ساتھ بھاگ گئی