سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اربوں ڈالر موٹروے منصوبوں کا آغاز رواں سال ہوگا
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
اسلام آباد:
وفاقی وزیر مواصلات عبدالعلیم خان نے اعلان کیا ہے کہ سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اربوں ڈالر کے موٹروے منصوبے رواں سال شروع کیے جائیں گے۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (NHA) سینٹرل زون کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سندھ میں M-6 اور M-9 موٹروے منصوبے، جن کی مجموعی مالیت 2 ارب ڈالر ہے رواں سال کے دوران شروع کیے جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا میں مانسہرہ، ناران اور کاغان موٹروے پر بھی کام اسی سال شروع کرنے کا ارادہ ہے جبکہ بلوچستان میں کوئٹہ سے کراچی تک N-25 کو موٹروے طرز پر چار رویہ بنایا جائے گا۔ علاوہ ازیں سکھر، حیدرآباد اور کراچی موٹروے منصوبے کا بھی آغاز ہونے جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر نے این ایچ اے حکام کو لاہور سے قصور تک 18 کلومیٹر طویل لنک روڈ منصوبے کی تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کی، اور اس بات پر زور دیا کہ ادارے کی پیشکشیں بامقصد اور معیاری ہونی چاہییں۔
انہوں نے سینٹرل زون کے حکام کو ہدایت کی کہ منصوبوں کی تکمیل میں تیزی لائیں تاکہ عوام کو جلد از جلد سہولت میسر ہو۔ انہوں نے کہا، "ہم سب عوام کو جوابدہ ہیں، لوٹ مار نہیں کرنے دیں گے۔ این ایچ اے کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔"
عبدالعلیم خان نے واضح کیا کہ تعمیراتی معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور نئی شاہراہوں کو نہ صرف فنکشنل بلکہ خوبصورت اور صاف ستھرا بھی بنایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ این ایچ اے شہروں کے داخلی راستوں کو بھی دلکش بنانے پر توجہ دے۔
دورے کے اختتام پر وفاقی وزیر نے این ایچ اے ہیڈکوارٹرز سینٹرل زون میں پودا لگایا اور وفاقی سیکرٹری مواصلات اور چیئرمین این ایچ اے کے ہمراہ ہیڈکوارٹر کی کارکردگی پر بریفنگ بھی لی۔
انہوں نے افسران کو تلقین کی کہ محنت اور ایمانداری سے کام کریں، اور یقین دہانی کروائی کہ دیانت دار افسران کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ساتھ ہی این ایچ اے حکام کو ہدایت کی کہ رنگ روڈ اتھارٹی سے حل طلب امور پر مشترکہ اجلاس منعقد کریں تاکہ زیر التواء مسائل جلد حل کیے جا سکیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
1.2ارب ڈالر آئی ایم ایف قسط ملنے سے روپے کی قدر میں استحکام پیدا ہوگا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251213-06-2
کراچی (کامرس رپورٹر)پاکستان بزنس مین اینڈ انٹیلیکچوئلزفورم اورآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، نیشنل بزنس گروپ پاکستان اورایف پی سی سی آئی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین، سابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے آئی ایم ایف کے 11 دسمبر 2025 کے بورڈ اجلاس میں پاکستان کے لیے 1.2 ارب ڈالرکی قسط کی منظوری کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (EFF) اورریسیلینس اینڈ سسٹین ایبلٹی فسیلٹی (RSF) کے تحت جاری کی جانے والی یہ قسط ملکی معیشت کے استحکام کے لیے نہایت اہم ہے۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ یہ پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت نے گزشتہ مالی سال کے دوران سخت مالی نظم وضبط اختیارکیا۔ انہوں نے کہا کہ 1.2 ارب ڈالرکی قسط ملنے سے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائرمیں نمایاں اضافہ ہوگا، اس سے نہ صرف مالیاتی پوزیشن مضبوط ہوگی بلکہ عالمی سرمایہ کاروں اورقرض دہندگان کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا، تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ‘‘قرض صرف وقتی سہارا ہے یہ معاشی مسائل کا مستقل حل نہیں”۔ قسط کے اجرا سے روپے کی قدرمیں مزید استحکام آئے گا، جس سے صنعتوں کے لیے درآمدی خام مال کی لاگت کم رکھنے میں مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ اگرچہ پچھلے مہینوں میں مہنگائی میں کمی اور دیگر معاشی اشاریوں میں بہتری نظرآئی ہے، لیکن صنعتی شعبہ بدستوربلند لاگت کا شکار ہے۔ موجودہ توانائی ٹیرف کے تحت پاکستانی صنعت عالمی منڈی میں مسابقت برقرارنہیں رکھ سکتی۔ حکومت کوآئی ایم ایف سے پیدا ہونے والی فِسکل اسپیس کا استعمال کرتے ہوئے آئی پی پیزکے معاہدوں کی نئی شرائط پربات چیت اور سرکلرڈیٹ پرقابوپانے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ میاں زاہد حسین نے ایک بارپھرتوجہ دلائی کہ بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصارختم کیے بغیرپائیدارمعاشی ترقی ممکن نہیں۔ ٹیکس نیٹ میں ریٹیل، رئیل اسٹیٹ اوردیگرغیردستاویزی شعبوں کوشامل کرنا ضروری ہے تاکہ صنعت کاروں پرموجودہ بوجھ کم ہواوربرآمدات میں حقیقی اضافہ ممکن ہو، جومستقبل میں قرضوں کی ادائیگی اور LSM سیکٹرکی بحالی کے لیے ناگزیر ہے۔میاں زاہد حسین نے RSF کے تحت ملنے والے 20 ملین ڈالر کیفنڈزکے بارے میں زوردیا کہ یہ رقوم صرف موسمیاتی موافقت اورگرین انرجی منصوبوں پر خرچ کی جائیں، کیونکہ پاکستان کی زرعی اورصنعتی پائیداری کے لیے یہ سرمایہ کاری انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کو معاشی ڈھانچے کی کمزوریاں دور کرنے کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے SIFC اوروفاقی حکومت پر زوردیا کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری میں تاخیرنہ کی جائے، تاکہ مالیاتی خسارہ کم ہواورآئندہ بجٹ میں عوام اورکاروباری طبقے پرمزید بوجھ نہ پڑے۔