اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)صدر آصف زرداری اور  وزیر اعظم شہباز شریف نے پوپ فرانسس کے انتقال پر اظہار افسوس کرتے ہوئے آنجہانی پوپ کی بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔صدر زرداری کا کہنا تھا کہ پوپ فرانسس امن اور انصاف کی ایک توانا آواز تھے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ پوپ فرانسس کا طرزِ عمل تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے مشعلِ راہ رہا۔ وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نےکہا کہ پوپ فرانسس کے انتقال سے دنیا ایک مخلص اور امن کے داعی سے محروم ہوگئی ، فلسطین ایشو پر پوپ فرانسس کے اصولی مؤقف کو اقوام عالم میں سراہا گیا۔

پنجاب پولیس کے بہادر سپوت ہمارے  لیے باعث فخر ہیں: وزیر اعلیٰ کا مکڑوال میں آپریشن پرخراج تحسین

خیال رہےکہ کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ویٹی کن سٹی کی جانب سے جاری بیان میں پوپ فرانس خورخے ماریو برگولیو کی 88 برس کی عمر میں انتقال کی تصدیق کی گئی ہے۔

پوپ فرانسس رومن کیتھولک چرچ کے پہلے لاطینی امریکی رہنما تھے اور طویل بیماری کے بعد چند روز قبل ہی صحتیاب ہو کراسپتال سے ڈسچارج ہوئے تھے، پوپ فرانسس نے اتوار کو ایسٹر کے موقع پر لوگوں سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: پوپ فرانسس کے

پڑھیں:

ایک قدامت پسند اور غیر روایتی پوپ کا انتقال

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) کیتھولک چرچ کے سربراہ بننے کے تقریباً 12 سال بعد، پوپ فرانسس آج بروز پیر 88 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ اس عہدے پر رہنے والے تاریخ کے دوسرے معمر ترین پوپ تھے۔

وہ لاطینی امریکہ سے تعلق رکھنے والے پہلے پوپ اور کیتھولک چرچ کے سربراہ بننے والے پہلے یسوعی (جیسوٹ) تھے۔

ان سے پہلے کبھی کسی چرچ کے رہنما نے اپنے لیے فرانسیس کا نام منتخب نہیں کیا تھا۔ انہوں نے یہ نام اطالوی شہر آسیزی کے سینٹ فرانسس کو یاد کرتے ہوئے رکھا، جنہیں ماحولیات اور جانوروں کے سرپرست سینٹ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ان کے نام کا انتخاب واضح طور پر معنی خیز تھا۔ اصل فرانسس ایک سوداگر کے بیٹے تھے، جنہوں نے تمام دولت کو ترک کر دیا تھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے محسوس کیا کہ حضرت عیسیٰ نے انتہائی غربت کی زندگی گزاری اور اس طرح انہوں نے فرانسسکن آرڈر کی بنیاد رکھی۔

ارجنٹائن کے خوخے ماریو بیرگولیو کے لیے، جنہیں کارڈینلز نے سن 2013 میں پوپ منتخب کیا، اس نام کا انتخاب واضح تھا۔ ان سے پہلے کبھی کسی پوپ نے پناہ گزینوں اور تحفظ ماحول کے لیے اس قدر آواز نہیں اٹھائی۔

زمین کے دوسرے کنارے سے آنے والا پوپ

مارچ 2013 میں، اپنے پوپ کے انتخاب سے پہلے، خوخے ماریو بیرگولیو نے ایک پری کنکلیو (پاپائے جلسۂ انتخاب) میں گفتگو کی، جس میں کارڈینلز نے چرچ کی حالت پر خیالات کا تبادلہ کیا تھا۔

اس کو بعد میں ''فائر برانڈ‘‘ خطاب کے طور پر بیان کیا گیا، جہاں انہوں نے اپنی تقریر کے دوران چرچ میں ''زیادہ آزادی اظہار‘‘ کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ کیتھولک چرچ کو صرف اپنے ہی ارد گرد نہیں گھومنا چاہیے۔ اس تقریر کی طاقت جرمن ہدایت کار وِم وینڈرز کی سن 2018 کی فلم ''پوپ فرانسس: اے مین آف ہز ورڈ‘‘ میں اب بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔

اپنے پیشروؤں کے برعکس پوپ فرانسس نام نہاد اپوسٹولک محل میں منتقل نہیں ہوئے۔ اس کی بجائے وہ ویٹیکن کے گیسٹ ہاؤس میں دو کمروں میں اپنے پونٹیفیکیٹ (آفس) کے قریب ٹھہرے جبکہ ملازمین اور مہمانوں کے ساتھ ایک سادہ بوفے میں کھانا کھاتے رہے۔ یہ سب کچھ ان کے مزاج کے مطابق تھا۔

انہوں نے بار بار عالمگیریت اور سرمایہ داری پر تنقید کی اور اس طرح انہوں نے اپنے دفتر کے ابتدائی برسوں میں اپنی مضبوط ترین سیاسی تقریریں کیں۔

ایسا کرتے ہوئے وہ ہمیشہ غریبوں اور گلوبل ساؤتھ کے وکیل کے طور پر سامنے آئے۔

انہوں نے سن 2014 میں یورپی پارلیمنٹ سے خطاب کیا اور ''چیزیں پھینکنے والے کلچر اور ایک بے قابو صارفیت‘‘ پر تنقید کی۔ انہوں نے سن 2015 میں نیویارک میں امریکی کانگریس اور اقوام متحدہ کے سامنے تقریر کرتے ہوئے امیگریشن اور مہاجرین کے بحران پر روشنی ڈالی۔

2015 میں نیویارک میں امریکی کانگریس اور اقوام متحدہ کے سامنے تقریر کرتے ہوئے، انہوں نے امیگریشن اور مہاجرین کے بحران پر روشنی ڈالی۔ وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مہاجرین مخالف رجحان ان کے لیے اجنبی ہی رہا۔

پوپ فرانسس نے اکثر بین الاقوامی برادری سے تیز رفتار اصلاحات نافذ کرنے، ترقیاتی امداد اور ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے مزید کام کرنے کا مطالبہ کیا۔

معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے طبقات سے رابطے

پوپ کے بیرون ملک 47 دوروں میں ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے دورے بھی شامل تھے۔ پوپ فرانسس نے ہمیشہ غریبوں کی تلاش کی، کچی آبادیوں میں رک کر لوگوں کو اپنے پاس آنے کی دعوت دی۔ یورپ کے دورے اکثر اس امیر براعظم کے غریب ممالک میں ہوتے تھے، مثال کے طور پر البانیہ یا رومانیہ وغیرہ کے۔

لیکن چین اور روس، جن کا ابھی تک کسی بھی پوپ نے دورہ نہیں کیا، فرانسس کے لیے بھی نامعلوم سرزمین بنے رہے۔

چرچ کے اندر اس جیسوٹ پوپ سے بہت توقعات وابستہ تھیں۔ ان سے پہلے، چرچ کی قیادت نے مرکزیت میں اضافہ کیا تھا اور کئی دہائیوں تک قدامت پسندانہ طرز عمل کو آگے بڑھایا تھا۔ لیکن پوپ فرانسس سے وابستہ بہت سی امیدیں پوری نہیں ہوئیں، حالانکہ انہوں نے کھلی بحثوں پر زور دیا تھا۔

تاہم انہوں نے ویٹیکن کے انتظامی ادارے 'کوریا‘ میں بڑی اصلاحات کی نگرانی کی، جو سن 2023 میں نافذ ہوئیں اور پوپ کے کردار کو دوبارہ منظم کیا گیا۔ اپنی زندگی کے آخری حصے میں، انہوں نے دو راہباؤں کو ویٹیکن کی وزارتوں کا سربراہ مقرر کیا، جنہیں ڈیکاسٹریز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ عہدے عام طور پر کارڈینلز کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔

اپنے عہدے کی پوری مدت کے دوران، پوپ فرانسس کو چرچ کے سابقہ ادوار میں پیش آنے والے جنسی زیادتی کے معاملات سے بھی نمٹنا پڑا جبکہ ساتھ ہی ساتھ ویٹیکن میں نفرت اور سازش بھی تھی۔ پوپ فرانسس، جنہوں نے بعض اوقات جنسی زیادتی اور اس کی پردہ پوشی کے لیے ''زیرو ٹالرنس‘‘ کا اعلان کیا، نے اپنے کچھ فیصلوں سے بہت سے لوگوں کو مایوس کیا۔

اگرچہ انہوں نے اپنے آخری برسوں میں دنیا بھر میں درجنوں بشپس کو عہدوں سے ہٹا دیا لیکن اپنے آس پاس کے مبینہ مجرموں کے خلاف کارروائی کرنا ان کے لیے مشکل دکھائی دیا۔ مسلمانوں اور یہودیوں سے تعلقات

پوپ فرانسس کی، جو چیز وراثت کے طور پر باقی رہے گی، وہ ہے یہودیوں اور مسلمانوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششیں، جو ایک پوپ کے لیے ایک نیا عمل ہے۔

انہوں نے اپنے آپ کو ''برادر بشپ‘‘ کے طور پر متعارف کرانا پسند کیا، ایک اصطلاح، جو انہوں نے دوسرے توحیدی مذاہب کے نمائندوں سے ملاقات کے وقت بھی استعمال کی۔

وہ جزیرہ نما عرب کا دورہ کرنے والے پہلے پوپ بھی تھے اور انہوں نے کئی بار ایسا کیا۔ ابوظہبی میں 2019 کے دوران انہوں نے مسلم رہنماؤں اور دیگر گرجا گھروں کے نمائندوں کے ساتھ ایک پالیسی دستاویز پر دستخط کیے، جس میں ''انسانی بھائی چارے، عالمی امن اور مل جل کر رہنے‘‘ پر توجہ دی گئی تھی۔

اسی طرح سن 2021 میں انہوں نے مکالمے اور مذہبی بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے عراق کا دورہ کیا۔ فرانسس جتنا طویل اس عہدے پر رہے، اسلام کے ساتھ ان کے روابط اتنے ہی گہرے ہوتے گئے۔

لیکن جب انہوں نے غزہ کی شہری آبادی کی صورتحال کے بارے میں بات کی تو اس سے ان کے کچھ یہودی لوگوں کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا۔ پوپ فرانسس نے شدت پسند گروپ حماس کے سات اکتوبر 2023 کے حملوں کی فوری مذمت بھی کی اور بعد میں بارہا اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔

لیکن وہ غزہ شہر کی چھوٹی سی مسیحی برادری کے حالات سے بھی ہل کر رہ گئے اور اسرائیل کے حملوں کی شدید مذمت کی۔

پوپ سن 2021 کے بعد سے صحت کے مسائل سے دوچار تھے اور انہیں کئی بار آپریشن کے لیے ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ وہ پہلی بار سن 2022 میں وہیل چیئر پر عوام کے سامنے نمودار ہوئے اور اپنی زندگی کے اختتام تک اس پر انحصار کرتے رہے۔

فرانسس کی پاپائیت کے 12برسوں کے دوران دنیا زیادہ منقسم اور تنازعات میں گھری رہی اور وہ تیزی سے انتباہی آواز بن گئے۔

پوپ کی سب سے طاقتور اور پائیدار تصاویر میں سے ایک وہ ہے، جو ایسٹر 2020 کے موقع پر لی گئی۔ تب کووڈ کا وبائی مرض پھیلا ہوا تھا۔ اس تصویر میں پوپ فرانسس بارش کے دوران تنہا، سینٹ پیٹرز اسکوائر پر دنیا بھر کے مصائب کے خاتمے کے لیے اپنے خدا سے التجا کر رہے تھے۔

کرسٹوف اسٹریک (ا ا / ا ب ا)

متعلقہ مضامین

  • صدر، وزیر اعظم کا پوپ کے انتقال پر اظہار افسوس
  • ملالہ کا پوپ فرانسس کے انتقال پر تعزیت کا اظہار
  • صدر اور وزیراعظم کا پوپ فرانسس کے انتقال پر گہرے دکھ کا اظہار
  • صدر اور وزیر اعظم کا پوپ فرانسس کے انتقال پر اظہار افسوس
  • پوپ فرانسس 88 برس ک عمر میں انتقال کر گئے
  • ایک قدامت پسند اور غیر روایتی پوپ کا انتقال
  • پوپ فرانسس 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
  • پوپ فرانسس 88 برس کی عمر میں انتقال کرگئے
  • عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس انتقال کرگئے