واشنگٹن کے ساتھ تجارتی سودے ہمارے کھاتے میں نہ کیے جائیں … چین کا انتباہ
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
واشنگٹن کے ساتھ تجارتی سودے ہمارے کھاتے میں نہ کیے جائیں … چین کا انتباہ WhatsAppFacebookTwitter 0 21 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ:اس طرح کی خبر گردش میں ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ دوسرے ممالک پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ چین کے ساتھ تجارت محدود کر دیں، جس کے بدلے میں انھیں امریکی کسٹم ٹیرف میں چھوٹ مل جائے گی۔ دوسری جانب بیجنگ حکومت نے اس پالیسی کو مسترد کر دیا ہے۔
چین کی وزارتِ تجارت نے پیر کے روز واضح کیا کہ وہ ان تمام فریقوں کا احترام کرتی ہے جو امریکہ کے ساتھ اپنے اقتصادی و تجارتی تنازعات کو برابری کی بنیاد پر بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں، لیکن وہ ایسی کسی بھی ڈیل کی سخت مخالفت کرے گی جو چین کے مفادات پر ضرب لگائے۔
وزارت کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر کوئی ملک ایسی ڈیل کرتا ہے جس کا مقصد چین کے ساتھ تجارتی روابط محدود کرنا ہو، تو چین اس کے خلاف مؤثر اور متبادل اقدامات کرے گا۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ “امریکہ نے اپنے تمام تجارتی شراکت داروں پر کسٹم ٹیرف کے نام پر یک طرفہ طور پر دباؤ ڈالا ہے، اور انہیں جبراً ایسے مذاکرات میں گھسیٹا ہے جنہیں وہ اہمی ٹیرف مذاکرات کا نام دے رہے ہیں”۔
چینی وزارت تجارت کے ترجمان نے زور دیا کہ چین اپنے قانونی حقوق اور مفادات کے دفاع کے لیے پرعزم اور مکمل طور پر اہل ہے، وہ دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ اتحاد و تعاون کو فروغ دینے کے لیے بھی تیار ہے۔
یہ سخت موقف ان خبروں کے بعد سامنے آیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایسے ممالک پر مالی پابندیاں عائد کرنے کا سوچ رہی ہے جو امریکہ سے کسٹم ٹیرف میں رعایت کے بدلے چین کے ساتھ تجارتی روابط کم نہیں کریں گے۔ یہ معلومات بلومبرگ نے با خبر ذرائع کے حوالے سے دیں۔
یاد رہے کہ امریکی تجارتی نمائندے جیمیسن گریئر نے رواں ماہ کے آغاز میں بتایا تھا کہ تقریباً 50 ممالک نے امریکہ سے رابطہ کر کے اضافی کسٹم ٹیرف پر بات چیت کی خواہش ظاہر کی ہے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ نے 2 اپریل کو دنیا بھر کے دسیوں ممالک پر عائد تاریخی کسٹم ٹیرف کا نفاذ روک دیا تھا، البتہ چین پر عائد ٹیرف برقرار رکھا تھا، جو کہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرہیٹ ویو کے خطرات؛ تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی تعطیلات کب ہوں گی؟ ہیٹ ویو کے خطرات؛ تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی تعطیلات کب ہوں گی؟ سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت پھر ملتوی، وجہ بھی سامنے آگئی اسرائیلی فوج نے فلسطینی امدادی کارکنوں کی ہلاکت کو پیشہ ورانہ ناکامی قرار دیدیا، ڈپٹی کمانڈربرطرف جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت آج ہوگی، پانچویں بار گواہان کی طلبی امریکا کا افریقا میں غیرضروری سفارت خانے اور قونصل خانے بند کرنے پر غورCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: کے ساتھ تجارتی
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات کا نیا آغاز
پاکستان اور افغانستان نے باہمی فائدہ مند تعلقات کو فروغ دینے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے اعلیٰ سطح کے روابط کو برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحق ڈار نے افغانستان کے عبوری وزیراعظم ملا محمد حسن اخوند اور افغان وزیرخارجہ امیر خان متقی کے ساتھ تفصیلی ملاقاتیں کی۔ ان ملاقاتوں میں دوطرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں بشمول سیکیورٹی، تجارت، ٹرانزٹ تعاون، کنکٹیویٹی اور عوامی سطح پر رابطوں سمیت تعاون بڑھانے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
طویل سرد مہری اور باہمی بد اعتمادی کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں ایک نئی رمق پیدا ہوئی ہے، جہاں کابل میں دونوں ممالک کے اعلیٰ سطح کے سیکیورٹی مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔ اس تاریخی موقع پر دونوں ملکوں کے وفود سیکیورٹی، تجارت اور عوامی رابطوں جیسے اہم مسائل پر مذاکرات میں مصروف ہیں۔
سیاسی مبصرین اس دورے کو دوطرفہ تعلقات میں جمود کو توڑنے کی سنجیدہ کوشش قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوطرفہ معاشی و تجارتی سرگرمیوں کو سیاسی تناؤ سے متاثر ہونے سے بچانے کے لیے سیاست اور تجارت کو الگ الگ معاملات کے طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس مقصد کے حصول کے لیے دونوں ممالک کو غیر معمولی سفارت کاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ تجارت اور معاشی تعاون کو درپیش سیاسی چیلنجز کے باوجود مسابقتی صلاحیت بڑھانے، ٹرانزٹ ٹریڈ کے مسائل حل کرنے اور تجارتی سہولیات کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے ایک منظم طریقہ کار کے تحت جاری رکھنا ہوگا،دونوں ممالک کو ایک ڈیجیٹل دستاویزی نظام اپنانا چاہیے جو کاروباری مقاصد کے لیے نقل و حرکت کو آسان بنائے۔ سرحد کے ساتھ تجارتی زون قائم کیے جاسکتے ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان ڈیوٹی فری تجارت کی اجازت دیتے ہوں۔
پاکستان کو یو این ایچ سی آر اورکابل کے تعاون سے وطن واپسی کی ہم آہنگ پالیسی اپنانے کی بھی ضرورت ہے جو غیر امتیازی اور انسانیت پسند ہو۔کابل کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کی سلامتی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ تجارت کے فروغ میں رکاوٹ دونوں ممالک کے درمیان بارڈرز تنازعات ہیں، اچانک راستے بند ہوجاتے ہیں،کنٹینرزکو پورٹ پر روک دیا جاتا ہے، گزشتہ برس ساڑھے 4 ہزارکنٹینرز کراچی کے پورٹ پر کھڑے رہے۔ تاجروں کا مال ایسے پڑا رہے تو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے، دراصل دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جو بگڑتا جا رہا ہے۔
سرحد کی بندش سے روزانہ تقریباً 15 لاکھ ڈالر سے زائد کا نقصان ہوتا ہے۔ اسی طرح ڈیورنڈ لائن پر کشیدگی برقرار رہی ہے، جس کی وجہ سے اکثر سرحدیں بند کی جاتی رہی ہیں۔ طالبان نے باڑ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر کے اور ہٹا کر پاکستان کی جانب سے سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے، افغان طالبان نے جان بوجھ کر سرحدی مسئلے پر توجہ مرکوز رکھی ہے تاکہ قوم پرست جذبات کو بھڑکایا جاسکے، خود کو پاکستان سے دور رکھا جاسکے اور مذہبی اور قوم پرست دونوں خطوط پر عوامی قانونی حیثیت حاصل کی جاسکے۔
صوبہ بلوچستان کو دو ممالک افغانستان اور ایران کی سرحدیں لگتی ہیں۔ یہ دونوں ممالک تجارتی طور پر وطن عزیز کے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ وسطی ایشیائی ممالک سے تجارتی معاملات میں افغانستان اور ایران سے ترکی و یورپ تک رسائی ممکن ہے۔ اس وقت بلوچستان تجارت کے حوالے سے اپنی ایک الگ اہمیت رکھتا ہے، صوبے کو علاقائی سطح پر جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا جارہا ہے، جس کا مقصد وطن عزیز سمیت صوبائی ترقی میں ایک نئی تبدیلی کا تعین ہے۔ دوسری طرف بادینی ٹریڈٹرمینل جس جگہ واقع ہے، وہاں تجارتی سرگرمیاں بڑھانے کے لیے سب سے پہلے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر انتہائی ضروری ہے، جسے ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جانا چاہیے، چونکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے یہ علاقہ انتہائی طویل فاصلے (تقریباً گیارہ گھنٹے) کی مسافت پر ہے اور موجودہ صورتحال کے پیش نظر سڑکوں کی تعمیر بھی اس طرح نہیں کہ فوری طور پر تجارتی سرگرمیاں شروع کی جائیں۔
تجارتی سرگرمیوں کا انحصار اس کی لوازمات پر ہوتا ہے، افغانستان سے منسلک یہ سرحدی علاقہ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے میں واقع ہے اور اس پوائنٹ سے افغانستان چمن سرحدی علاقے سے قریب پڑتا ہے، تاہم ضروری لوازمات کے بغیر تجارتی سرگرمیوں کی بحالی میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس تجارتی ٹرمینل کے روٹ کے لیے ایک خطیر رقم جلد فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی تمام متعلقہ اداروں کو آن بورڈ لیتے ہوئے اس پر ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرنے اور اِن فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو یقینا دونوں ممالک کے مابین تجارت کو نہ صرف فروغ ملے گا بلکہ اس علاقے سے جڑے ہوئے لوگوں کی زندگی میں بھی بڑی تبدیلی آئے گی۔
پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تعلقات سے متعلق معاملات میں بات چیت کو ترجیح دی ہے، پاکستان افغانستان کی سالمیت اور خود مختاری کا احترام کرتا ہے تاہم اپنے شہریوں کا تحفظ اولین ترجیح ہے۔ پاکستان کا موقف اس معاملے میں خاصا واضح ہے، چونکہ افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کوئی اقدامات نہیں کر رہی ہے، اس لیے وہ مکمل آزادی کے ساتھ افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر تے ہیں اور حملہ کر کے واپس اپنی پناہ گاہوں میں لوٹ جاتے ہیں۔ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ جب سے افغانستان میں طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے، اعداد و شمار بھی اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی توقعات کے برعکس کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں کمی کے بجائے اِن میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اس وقت پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے، جن کے تانے بانے افغانستان میں موجود تنظیموں سے ملتے ہیں۔ اگرچہ طالبان حکومت نے بارہا یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گی، مگر عملی طور پر صورتحال مختلف نظر آتی ہے۔ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی افغانستان میں موجودگی پاکستان کے لیے ایک مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔
افغانستان کے معاملے میں ایک اور اہم پیش رفت امریکا کی حکمت عملی میں تبدیلی ہے۔ ماضی میں امریکا نے طالبان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے پاکستان کو انگیج کیا، لیکن اب وہ خلیجی ممالک کے ذریعے طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے۔ اپنا ایک یرغمالی بھی امریکا خلیجی ممالک کے توسط سے رہا کروا کے لے گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا پاکستان پر اپنا انحصار کم کر رہا ہے، جو کہ پاکستان کے لیے ایک سفارتی چیلنج ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کو مزید موثر بنائے اور افغانستان کے ساتھ براہ راست تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔
اگر پاکستان، افغانستان تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس کے مثبت اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے علاوہ، اقتصادی تعاون، راہداری منصوبے، تجارتی معاہدے اور عوامی روابط دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ایک مستحکم افغانستان کی حمایت کی ہے اور اب یہ طالبان حکومت پر منحصر ہے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو دورکرے اور بھارتی مداخلت سے دور رہے۔ دوسری جانب عالمی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات بہتر ہوں بلکہ عالمی طاقتیں تو افغانستان پر مسلط ہونا چاہتی تھیں۔ ان حالات میں بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمارے عوام کے لیے بہترکیا ہوگا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سفارتی اور سیکیورٹی کی سطح پر مشترکہ کوششیں ناگزیر ہیں۔ پاکستان نے مثبت قدم اٹھاتے ہوئے افغانستان کے ساتھ دوبارہ بات چیت شروع کی ہے، لیکن یہ یکطرفہ عمل نہیں ہونا چاہیے۔
افغانستان کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے تحفظات کو سنجیدگی سے لے اور عملی اقدامات کرے،اگر دونوں ممالک مسائل کا حل نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک خوش آیند پیش رفت ہوگی۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور قومی یکجہتی، دونوں ہی دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ناگزیر ہیں۔ خطے میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمے داری سب پر عائد ہوتی ہے، اگر افراتفری کی کیفیت ہوگی تو اس کے اثرات سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ یہ بات طے ہے کہ ہر معاملے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکل سکتا ہے، یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہونا چاہیے۔