وریندرسہواگ کی آئی پی ایل میں شریک آسٹریلوی کرکٹرز پر تنقید
اشاعت کی تاریخ: 21st, April 2025 GMT
کراچی:
سابق بھارتی اوپنر وریندر سہواگ آئی پی ایل میں شریک گلین میکسویل اور لیونگ اسٹون کا مذاق اڑانے لگے۔
ان کا کہنا ہے کہ غیرملکی کھلاڑی اپنی ٹیموں کے لیے آئی پی ایل ٹرافی جیتنے میں وہ لگن نہیں دکھاتے جس کی ان سے توقع رکھی جاتی ہے، وہ یہاں چھٹیاں منانے آتے ہیں۔
وریندر سہواگ نے پنجاب کنگز کے گلین میکسویل اور رائل چیلنجرز بنگلورو کے لیام لیونگ اسٹون کو بطور خاص ہدف تنقید بنایا۔
میکسویل، سہواگ کی زیرقیادت بھی پنجاب کنگز میں کھیل چکے ہیں۔ انھیں گزشتہ دن فرنچائز نے رائل چیلنجرز بنگلورو سے میچ میں ڈراپ کردیا تھا۔
اتوار کو لیونگ اسٹون کو بنگلورو نے بھی باہر بٹھادیا۔ سہواگ نے کہا کہ میکسویل اور لیونگ اسٹون میں جیت کی لگن ختم ہوچکی ہے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
آغا راحت کی سرکاری ملازمین پر تنقید مناسب نہیں، انجینیئر انور
گلگت بلتستان کے وزیر زراعت نے ایک بیان میں کہا کہ اگر کسی افسر کے خلاف ٹھوس شواہد کے ساتھ کرپشن کے ثبوت ہیں تو محترم آغا کرپشن کی روک تھام کے متعلقہ اداروں سے رجوع کریں تاکہ ہم بھی آغا کے موقف کی تائید کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان کے وزیر زراعت و خوراک انجینیر محمد انور نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آغا راحت حسین ایک زمہ دار شخصیت ہونے کے باوجود سرکاری ملازمین پر تواتر سے تنقید مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آغا صاحب ہمارے لئے لائق احترام ہیں لیکن ہر جمعے کی تقریر میں مخصوص افسران کو نشانہ بنانا جائز نہیں ہے۔ آغا راحت کو سنی سنائی باتوں پر تحقیق کرنی چاہیے کیونکہ لوگ اپنے ذاتی مفادات کیلئے ان تک غلط خبریں پہنچاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں اس وقت ہم آہنگی اور محبت کا ماحول ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یہی ماحول برقرار رہے کیونکہ امن، ترقی ہم سب کی مشترکہ ضرورت ہے۔ ہم جب ایک دوسرے کا احترام کریں گے تو یہی ماحول دیرپا ہو گا، سرکاری افسران کے حوالے سے آغا راحت کی جانب سے متواتر بیانات اور تنقید کا سامنے آنا سمجھ سے باہر ہے۔ وزیر زراعت نے مزید کہا کہ اگر کسی افسر کے خلاف ٹھوس شواہد کے ساتھ کرپشن کے ثبوت ہیں تو محترم آغا کرپشن کی روک تھام کے متعلقہ اداروں سے رجوع کریں تاکہ ہم بھی آغا کے موقف کی تائید کریں گے۔ لیکن پسند ناپسند اور بغیر تحقیق کے مخصوص افسران کو ہدف تنقید بنانا نامناسب ہے اور یہ روش آغا راحت کے علاوہ اگر کوئی دوسرے طبقے کا مذہبی پیشوا بھی اپناتا ہے تو بھی زیادتی ہے۔