پیرو: جبری نس بندی سے متاثرہ لاکھوں خواتین ازالے کی منتظر
اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) فلورینٹینا لوآئزا ایک شیر خوار بچے کی ماں اور صرف انیس برس کی تھیں، جب پیرو کی حکومت کے کارندوں نے دھوکے سے ان کی نس بندی کر دی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق برسوں پہلے پیروکی ﹰ تقریبا پونے تین لاکھ خواتین کے ساتھ ایسا کیا گیا تھا۔
آج عشروں بعد فلورینٹینا کی عمر چھیالیس برس ہے اور وہ اور دیگر متاثرہ خواتین ابھی تک حکومت کی طرف سے معافی مانگے جانے اور اپنے لیے مالی ازالے کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
جبری نسبندی ، نسل کشی کا ایک انداز
بیشتر متاثرہ خواتین کا تعلق پیرو کی قدیمی مقامی آبادی سے تھا اور اقوام متحدہ نے مرضی کے خلاف افزائش نسل کی اہلیت سے محروم کر دینے والی اس حکومتی مہم کی مذمت بھی کی تھی۔
(جاری ہے)
ان لاکھوں خواتین کے ساتھ انیس سو نوے کی دہائی میں یہ ظلم کیا گیا تھا اور یہ بات بعد میں منظر عام پر آئی تھی۔
فلورینٹٰنا لوآئزا اب ایک سماجی کارکن ہیں۔
انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''میری زندگی مختصر کر دی گئی۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ تولیدی نس بندی کے بعد ان کے شریک حیات نے بھی انہیں چھوڑ دیا تھا اور اس بات نے بھی ان کی زندگی پر کبھی نہ ختم ہونے والے اثرات چھوڑے، جو انتہائی تکلیف دہ تھے۔نسلی طور پر پیرو کی قدیمی مقامی آبادی سے تعلق رکھنے والی فلورینٹینا بتاتی ہیں کہ انیس سو ستانوے میں وہ چند ماہ کی عمر کے ایک شیر خوار بچے کی ماں تھیں اور جنوب مشرقی پیرو کے حوآن کاویلیکا نامی دیہی علاقے میں رہتی تھیں۔
سنکیانگ: شرح پیدائش تاریخ کی کم ترین سطح پر
ان کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب ایک روز کئی دیگر مقامی خواتین کے ساتھ وہ ایک ٹرک میں سوار ہو کر اس لیے ایک قریبی کلینک گئیں کہ وہاں انہیں وہ امدادی خوراک ملنا تھی، جس کا ان سب سے وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن کلینک میں ان خواتین کو کوئی امدادی سامان دینے کے بجائے ان سب کی زبردستی سرجری کر دی گئی۔
وہاں اپنے ساتھ کی گئی زبردستی کو یاد کرتے ہوئے فلورینٹینا کہتی ہیں، ''ہمیں پکڑ کر نرسوں نے زبردستی سٹریچروں پر لٹایا اور ہمیں بےہوشی کے ٹیکے لگا دیے گئے۔‘‘ فلورینٹینا کے بقول جب ان کی آنکھ کھلی تو انہیں بتایا گیا کہ ان کی نس بندی کر دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا، ''جب میں گھر لوٹی اور سب کچھ اپنے شریک حیات کو بتایا تو اس نے میری بات پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔
اس نے الٹا مجھ پر الزام لگایا کہ میں دوسرے مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی خواہش مند تھی اور اسی لیے دانستہ اپنی نس بندی کروا آئی تھی کہ یوں حاملہ نہ ہو جاؤں۔ اس کے بعد وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘ان واقعات کے بعد فلورینٹینا لوآئزا نے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ دیا اور پیرو کے دارالحکومت لیما منتقل ہو گئیں تاکہ عام لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنا گزارہ کر سکیں۔
وہ کہتی ہیں، ''سرجری کے بعد میرے پیٹ میں شدید درد رہتا تھا۔ مجھے سرکاری طبی امداد کی اشد ضرورت تھی کیونکہ میں خود اپنا علاج نہیں کرا سکتی تھی۔ سرجری کے بعد میری زندگی کی مشکلات بہت بڑھ گئی تھیں۔‘‘پیرو میں ریاست کے ایما پر دھوکہ دہی سے یا زبردستی کی جانے والی اس نس بندی سے متاثرہ خواتین کی مجموعی تعداد تقریباﹰ دو لاکھ ستر ہزار بنتی ہے۔
ان میں اب پچپن برس کی ماریا ایلینا کارباخال بھی شامل ہیں۔ وہ اپنے چار بچوں کے ساتھ لیما کے مضافات میں رہتی ہیں۔ کارباخال نے اے ایف پی کو بتایا، ''تب میری عمر چھبیس سال تھی۔ میں اپنے سب سے چھوٹے بچے کی پیدائش کے سلسلے میں ہسپتال گئی، تو ڈاکٹروں نے میرے علاج کے لیے شرط یہ رکھی کہ میں اپنی نس بندی پر رضا مندی ظاہر کروں۔ دوسری صورت میں میں اپنے نومولود بچے کو کبھی نہیں مل سکوں گی۔‘‘کارباخال نے مجبوری میں ڈاکٹروں کی بات مان لی اور ان کی بھی زچگی کے فوری بعد نس بندی کر دی گئی۔ اس واقعے کے بعد کارباخال کے شوہر نے بھی انہیں چھوڑ دیا اور وہ گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لگیں۔ اب وہ جبری نس بندی سے متاثرہ خواتین کے لیے ایک ادارہ چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ہمیں جبراﹰ بانجھ بنایا گیا۔
ہمارے جسموں پر نہ صرف زخم لگائے گئے بلکہ ہم ان زخموں کے نتیجے میں اپنے خاندانوں کے ٹوٹ جانے کے دکھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔‘‘سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خواتین کی جبری نس بندی کی یہ مہم پیرو کے سابق صدر البیرٹو فیوجی موری کے دور میں چلائی گئی تھی، جو 1990 سے لے کر 2000 تک اقتدار میں رہے تھے۔ اس دوران طبی پیچیدگیوں کے باعث اٹھارہ خواتین ہلاک بھی ہو گئی تھیں۔
تخت نشینی کا جاپانی قانون: اقوام متحدہ کے مطالبے پر ٹوکیو حکومت ناراض
فیوجی موری حکومت کے ریکارڈ کے مطابق یہ نس بندی فیملی پلاننگ کے ایک حکومتی منصوبے کے تحت متعلقہ خواتین کی مبینہ رضا مندی سے کی گئی تھی۔
لیکن اقوام متحدہ کی خواتین کے حقوق کی کمیٹی نے گزشتہ برس اکتوبر میں اپنی ایک رپورٹ میں اس جبری حکومتی عمل کو ''ریاست کی طرف سے دیہی اور قدیمی مقامی خواتین پر منظم حملہ‘‘ قرار دیا تھا، جس سے متاثرہ اکثر خواتین ناخواندہ تھیں اور پیرو کی سرکاری زبان کے طور پر ہسپانوی زبان بھی نہیں سمجھتی تھیں۔
اقوام متحدہ کی خواتین کے حقوق کی کمیٹی کی ایک رکن لیٹیسیا بونیفاز نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ دیہی علاقوں میں چلائی گئی ایسی مہم تھی، جس کا مقصد معاشرے کے غریب ترین اور محروم طبقے کی آبادی میں اضافے کو روکنا تھا۔‘‘ بونیفاز کے بقول یہ ناانصافی''لاطینی امریکہ میں جبری نس بندی کا سب سے بڑا منظم واقعہ‘‘ تھی۔
گلوبل جینڈر گیپ انڈکس کیا ہے؟
گزشتہ برس اقوام متحدہ نے پیرو کی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ اس معاملے میںِ ''اپنی تحقیقات کو تیز اور وسیع کرے اور متاثرین کے لیے مالی معاوضے اور نفسیاتی علاج کا ایک جامع پروگرام بھی جلد ترتیب دے۔‘‘
پیرو کی ایک عدالت نے بھی 2023 میں فیصلہ سنایا تھا کہ حکومت متاثرہ خواتین کے لیے مالی ازالے اور طبی دیکھ بھال کے انتظامات کرے۔ اس عدالتی فیصلے پر بھی اب تک عمل نہیں ہوا۔
عصمت جبیں/ ص ز (اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے متاثرہ خواتین اقوام متحدہ سے متاثرہ خواتین کے اے ایف پی کہتی ہیں کے ساتھ پیرو کی گئی تھی کہ میں کے بعد نے بھی کے لیے
پڑھیں:
امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے شہریوں کی جبری بیدخلی روک دی
امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کو وینزویلا کے تارکین وطن کو جبری طور پر ملک بدر کرنے سے تاحکم ثانی روک دیا ہے۔ یہ حکم وینزویلا کے متاثرہ تارکین وطن کی جانب سے دائر کی گئی مداخلتی استدعا پر جاری کیا گیا، جنہوں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ انہیں عدالتی جائزے کے بغیر جبری بیدخلی کا سامنا ہے۔
درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ اُنہیں بنیادی عدالتی عمل کے بغیر ملک بدر کیا جا رہا ہے، جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ تارکین وطن خطرناک گینگز سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان کی موجودگی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف آخری کامیابی وائٹ ہاؤس کو ہی حاصل ہوگی، تاہم انتظامیہ نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ عدالتی حکم پر عملدرآمد سے انکار کرے گی۔
امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ اب بھی مزید پچاس سے زائد وینزویلا کے تارکین وطن کو جبری بیدخل کرنے کے لیے سرگرم ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل دو سو سے زائد وینزویلا کے باشندوں سمیت متعدد افراد کو السلواڈور کی جیلوں میں منتقل کیا جا چکا ہے، جس پر انسانی حقوق کے اداروں نے تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔
ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف امریکہ بھر میں مظاہرے
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اور ٹرمپ انتظامیہ کی سخت پالیسیوں کے خلاف امریکہ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی سامنے آئے ہیں۔ واشنگٹن، شکاگو اور دیگر اہم شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے، جب کہ نیویارک میں صدر ٹرمپ کے خلاف سب سے بڑی ریلی نکالی گئی، جس کی قیادت ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنماؤں نے کی۔
مظاہرین نے صدر ٹرمپ کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا کہ ان کے غیر جمہوری اور غیر انسانی اقدامات کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی سخت گیر پالیسیوں اور متنازع اقدامات سے نہ صرف ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے بلکہ امریکہ کی عالمی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔
ان مظاہروں کی کال معروف تحریک ’ففٹی ففٹی ون موومنٹ‘ کی جانب سے دی گئی تھی، جس کا مقصد تمام پچاس امریکی ریاستوں میں بیک وقت مظاہروں کا انعقاد کرنا ہے تاکہ ایک منظم عوامی ردعمل دنیا کے سامنے لایا جا سکے۔
Post Views: 3