Daily Ausaf:
2025-04-22@14:48:03 GMT

اندھیروں سے روشنی تک

اشاعت کی تاریخ: 20th, April 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
تب خداوند نے کہا ’’تو اس کدوکے پودے پرافسوس کرتاہے،جس کیلئے تونے محنت نہیں کی،اورنہ اسے بڑھایا۔جوایک رات میں اگا، اور ایک رات میں ہلاک ہوگیا اورکیامیں نینوہ،اس بڑے شہر پرافسوس نہ کروں، جس میں ایک لاکھ بیس ہزارسے زیادہ انسان ہیں،جواپنے دائیں اوربائیں ہاتھ میں تمیز نہیں کرسکتے، اور بہت سے مویشی بھی؟ ( یوناہ: 10-11)
اس نے کہا ’’میں نے اپنی مصیبت کی وجہ سے رب سے فریادکی،اورپھریوناہ نے مچھلی کے پیٹ سے خداوند اپنے خداسے دعا کی۔اس نے میری سنی۔ جہنم کے پیٹ سے میں نے پکارا،اور آپ نے میری آوازسنی‘‘۔ (یوناہ:1:2-2)
جب میری روح میرے اندربیہوش ہوگئی تومیں نے رب کویادکیا:اورمیری دعا تیرے پاس، تیرے مقدس ہیکل میں آئی۔ (یوناہ:2:7)
اورخداوندنے مچھلی سے بات کی اوراس نے یوناہ کوخشک زمین پرالٹ دیا۔(یوناہ:10-2)
یہودیت میں حضرت یونس کا تصور بڑا واضح ملتاہے۔یہودی حضرت یونس کاقصہ یوم کپور (یومِ کفارہ)کے موقع پرپڑھتے ہیں،جوتوبہ اور خدا کی رحمت کادن ہے۔یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ خداکی رحمت صرف بنی اسرائیل تک محدود نہیں بلکہ تمام اقوام کیلئے ہے۔معروف فرانسیسی فلسفی برنار-آنری لیوی کے مطابق اگریہ پیغام دوسروں،حتی کہ دشمنوں تک پہنچانا ہے، تو یہودیت کوجینااور سراہناچاہیے۔یہ نظریہ حضرت یونس کے قصے میں جھلکتاہے،جہاں نینوہ کی غیر یہودی قوم کی توبہ کوقبول کیاگیا۔
عبرانی صحیفوں میں یہودی مذہب میں حضرت یونس کو(یوناہ بن امتی)کے نام سے جانا جاتا ہے۔کتاب یوناہ عبرانی بائبل(تانخ)کے نبیوں کے حصے میں شامل ہے۔یہ کتاب عبرانی زبان میں دستیاب ہے اوراس کامتن مختلف نسخوں میں محفوظ ہے،جیسے کہ ماسوراتی متن اورمردہ سمندر کے طومارمیں اس کاتذکرہ موجودہے۔
اب میں اپنے مؤقف کی تائیدمیں عبرانی متن کے اہم اقتباسات جوبائبل اورعبرانی صحیفوں میں حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے کی تفصیلات فراہم کرتے ہیں،جوتوبہ،رحمت، اور خدا کی مہربانی کے اہم اسباق پرمشتمل ہیں۔
اب خداوندکاکلام عمی کے بیٹے یوناہ پرنازل ہواکہ اٹھ،اس عظیم شہرنینواکوجااوراس کے خلاف فریادکرکیونکہ ان کی شرارت میرے سامنے آگئی ہے۔(یونس:11-2)
اوراس نے کہا،میں نے اپنی پریشانی کی خداوند سے فریادکی،اورپاتال کے پیٹ سے مجھے جواب دیامیں نے زورسے پکارا،تونے میری آواز سنی۔(یونس بی2)
اوریوناہ شہر میں داخل ہونے لگا،ایک دن کا سفر،اوراس نے پکارکرکہا،ابھی تک چالیس دن اورنینوہ تباہ ہوجائے گا اورنینوہ کے لوگوں نے خداپریقین کیا،اورروزہ کااعلان کیا، اور ٹاٹ اوڑھ لیا،ان میں سے بڑے سے لے کرچھوٹے تک۔ (مقدس نصوص:34-5)
اور خداوندنے کہا،تم نے لوکی کو بچایا جس کیلئے تم نے محنت نہیں کی اورنہ ہی اس کی نشوونماجوراتوں رات وجودمیں آئی اورراتوں رات فناہوگئی۔اورکیامیں نینواکو،اس عظیم شہرکونہیں چھوڑوں گا،جس میں بارہ ہزارسے زیادہ آدمی ہیں جواپنے دائیں بائیں کونہیں جانتے اوربہت سے مویشی؟’’مقدس نصوص‘‘(یونس:410-11)
بے شک حضرت یونس کاواقعہ ایک ایسی آفاقی داستانِ نجات ہے جوتینوں ابراہیمی مذاہب اسلام،عیسائیت اوریہودیت کیلئے ایک مشترکہ روحانی میراث ہے۔اگراس قصے کومحض ایک تاریخی واقعہ یامعجزہ نہ سمجھاجائے،بلکہ اس کے باطن میں جھانکاجائے،تو یہ روح کوبیدارکردینے والا، انسان کوجھکنے،توبہ کرنے،اورمحبت بانٹنے والا ایک عظیم سبق بن جاتاہے۔
آئیے!ہم دیکھتے ہیں کہ تینوں مذاہب کے ماننے والوں کیلئے اس واقعے میں کون سے ایسے روحانی واخلاقی اسباق پوشیدہ ہیں جوبین المذاہب ہم آہنگی، انسان دوستی،اورامنِ عالم کی بنیادبن سکتے ہیں۔
٭سب سے پہلا سبق توبہ اوررجوع کا ملتاہے کہ انسانی خطاؤں کے باوجود،خداکی رحمت ہمیشہ موجودہے۔٭دوسراسبق عاجزی اوراطاعت کاہے کہ نبی کی حیثیت سے بھی حضرت یونس نے خطاکی،لیکن عاجزی سے توبہ کی۔
٭تیسراسبق بین المذاہب احترام کا ملتا ہے کہ نینوہ کی غیریہودی قوم کی توبہ کوقبول کرنا اس بات کی علامت ہے کہ خداکی رحمت سب کہ خدا کی رحمت سب کیلئے ہے۔
٭اورچوتھاسبق حضرت یونس کاقصہ ہمیں انسانی کمزوری کااعتراف سکھاتاہے کہ انسان خطاکاپتلا ہے، لیکن توبہ کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں۔
آئیے اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت یونس کی دعا: لا اِلہ اِلا انت سبحانک،ِانِی کنت مِن الظالِمِین میں توبہ اوررجوع الی اللہ کاآفاقی پیغام کیا ہے؟
٭یہ دعافقط ایک نبی کی التجانہیں بلکہ ہر بندے کے لبوں کی صدابن سکتی ہے۔یہودیت اورعیسائیت میں بھی نینوہ کی قوم کی اجتماعی توبہ کوخداکے رحم کادرکھولنے والی کنجی کے طورپر پیش کیاگیاہے۔اس دعا میں یہ سبق پنہاں ہے کہ جب انسان اپنی خطاؤں کوتسلیم کرکے انکساری سے توبہ کرتاہے توخداکی رحمت اس پرسایہ فگن ہوجاتی ہے۔یہ پیغام تمام مذاہب کوسکھاتاہے کہ خداکی راہ میں عاجزی اور انکساری،انسان کوایک دوسرے سے جوڑسکتی ہے۔
٭اس دعاکاایک اورسبق یہ ہے کہ خداکاحضرت یونس کومعاف کرنا،نینوہ کی بدعمل قوم کوان کی توبہ پربخش دینا،اس بات کی علامت ہے کہ خدا بندوں کیلئے جلدبازیاقہارنہیں بلکہ وہ محبت کرنے والا،حلم والا، رحمت،بخشش اوردیرینہ محبت اورمعاف کرنے والاہے۔
٭ہمارے سیکھنے کیلئے یہ سبق ہے کہ جب خدامعاف کرنے والاہے،توکیاہم،اس کے بندے،ایک دوسرے کیلئے عفوودرگزرکارویہ اختیار نہیں کرسکتے؟اگراقوام، مذاہب،اورافراد ایک دوسرے کومعاف کرناسیکھ لیں،تودنیابغض وعنادسے آزادہوسکتی ہے۔
٭حضرت یونس کامچھلی کے پیٹ میں چلے جاناان کے غصہ اورجلدبازی کانتیجہ تھا،اوریہ ایک باطنی سفربھی تھاخودکے اندر جھانکنے،خامیوں کوپہچاننے،اور اصلاح کی راہ اپنانے کا۔ ہمارے لئے یہ سبق ہے کہ تمام مذاہب کے ماننے والے اگرااپنے اندرموجود تعصب،تکبراور’’ہم ہی حق پرہیں‘‘کی سوچ پرقابو پالیں،تکبرسے توبہ،نفرت سے پرہیزاورگریز کا رویہ اپنالیں توایک نئی روحانی بیداری جنم لے سکتی ہے۔محبت،عاجزی،اورسچ کی تلاش ہمیں ایک دوسرے سے قریب لے آتی ہے۔
٭چوتھاسبق یہ ہے کہ حضرت یونس کوایک ایسی قوم کی طرف بھیجاگیاتھاجوان کے دین کی نہ تھی،پھربھی وہ نجات پاگئی۔یہ ظاہرکرتا ہے کہ خداکی رحمت صرف ایک خاص گروہ یا امت تک محدود نہیں،بلکہ وہ تمام انسانوں کیلئے ہے۔گویایہ پیغام تمام مذاہب کے ماننے والوں کوسکھاتاہے کہ سچائی اورنجات کسی ایک قوم یافرقے کی جاگیرنہیں۔ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنی ہے،دلوں کوکھولناہے، اورمختلف عقائدکے درمیان قدرِمشترک کوپہچانناہے۔
٭پانچواں سبق یہ ہے کہ مچھلی کے اندھیرے پیٹ میں حضرت یونس کی تنہائی محض ظاہری نہیں،بلکہ باطنی اندھیرابھی تھا۔ان کی پکار، ان کی روح کارونا،ہمیں یہ سکھاتاہے کہ ہر انسان، جب دنیاکے ہنگاموں سے الگ ہوکر خدا سے رازونیازکرتاہے،تووہ اندھیرے سے روشنی کی طرف نکلتاہے۔روحانیت کے اس عالمگیر پیغام میں ہمارے لئے یہ واضح سبق ہے کہ آج کی دنیاجوجنگ،نفرت،قوم پرستی اورمذہبی جنونیت کے اندھیرے میں ہے اسے اسی قسم کی روحانی پکارکی ضرورت ہے۔اگرمسلمان،یہودی،اورمسیحی ایک ساتھ یہ دعا مانگیں کہ:اے رب ہم سب اپنے گناہوں کی معافی اورتیری طرف رجوع کرتے ہیں توشایدانسانیت ایک نئے دن میں داخل ہو۔
حضرت یونس کا،روح تک سرشارکرنے والا واقعہ ہمیں سکھاتاہے کہ انسان خطا کرسکتا ہے،مگروہ توبہ،عاجزی،اور خداکی طرف رجوع کے ذریعے ہدائت اورفلاح پاسکتاہے۔یہ واقعہ نہ صرف ایک معجزہ ہے،بلکہ ایک باطنی سفربھی ہے نفس کی شکست،دل کی نرم مٹی،اورروح کی شفا کا سفرہے جوہماری نجات کیلئے کافی ہے۔ یاد رکھیں!اگرہم تینوں مذاہب کے ماننے والے اس بات کواپنالیں کہ خداکاسب سے عظیم پیغام محبت ہے،توزمین پرجنت کاسایہ اترسکتاہے۔
حضرت یونس علیہ السلام کی دعاکاروحانی مفہوم یہ ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں توبہ، دعا اور عاجزی کی طاقت نمایاں ہوتی ہے۔حضرت یونس کی دعا ایک ایسی صداہے جوآج بھی دل کے اندھیروں میں امیدکی کرن بن سکتی ہے۔اللہ نے ان کی توبہ قبول کی اورانہیں نجات عطا کی یہ ہرمومن کیلئے پیغام ہے کہ وہ مایوس نہ ہو۔حضرت یونس کاواقعہ ایک ایساآئینہ ہے جس میں ہم اپنی کمزوریوں،توبہ کی طاقت، اورخدا کی بے پایاں رحمت کودیکھ سکتے ہیں۔یہ قصہ تینوں مذاہب کے درمیان مشترکہ اقداراورروحانی ہم آہنگی کاپل بن سکتا ہے،جو محبت‘ احترام، اورباہمی افہام وتفہیم کی بنیادفراہم کرتا ہے۔ (جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: مذاہب کے ماننے میں حضرت یونس حضرت یونس کا خداکی رحمت کرنے والا عاجزی اور نہیں بلکہ ایک دوسرے ہے کہ خدا نینوہ کی کی توبہ اور خدا کی رحمت کے پیٹ بات کی قوم کی خدا کی نے کہا اس بات

پڑھیں:

سوشل میڈیا کی ڈگڈگی

تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چاہے وہ فیس بک کے جلوے ہوں یا انسٹا گرام اور تھریڈزکی شوخیاں، X نامی عجب نگری ہو یا ٹک ٹاک کی رنگینیاں، ایک نقلی دنیا کے بے سروپا تماشوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ میں نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنا ہے، ’’ دنیا بدل گئی ہے‘‘ جب کہ ذاتی طور پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کبھی بدل نہیں سکتی ہے۔

دنیا ویسی ہی ہے، زمین، آسمان، سورج، چاند، ندی، دریا، سمندر، پہاڑ، پیڑ، پودوں اور قدرت کے کرشموں سے لیس انسانوں اور جانوروں کے رہائش کی وسیع و عریض پیمانے پر پھیلی جگہ جو صدیوں پہلے بھی ایسی تھی اور آیندہ بھی یوں ہی موجود رہے گی۔

البتہ دنیا والے ہر تھوڑے عرصے بعد اپنی پسند و ناپسند اور عادات و اطوار سمیت تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور اُن کی یہ تبدیلی اس قدر جادوئی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے جُڑی ماضی کی ہر بات سرے سے فراموش کر بیٹھتے ہیں۔

تبدیلی کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، اس دنیا کے باسی صرف گزری، بیتی باتیں نہیں بھولتے بلکہ وہ سر تا پیر ایک نئے انسان کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟

جس کا سیدھا سادہ جواب ہے کہ انسان بے چین طبیعت کا مالک ہے، وہ بہت جلد ایک جیسے ماحول، حالات اور واقعات سے بیزار ہو جاتا ہے۔ ہر نئے دورکا انسان پچھلے والوں سے مختلف ہوتا ہے جس کی مناسبت سے اُن کو نت نئے نام دیے جاتے ہیں، جن میں سے چند ایک کچھ یوں ہیں،

 Millennials, G i generation, Lost generation, Greatest generation, Generation Alpha, Silent generation,

Generation Z

یہ سب نام انسان کی ارتقاء کی مناسبت سے اُس کی نسل کو عنایت کیے گئے ہیں، جب ہر دورکا انسان دوسرے والوں سے قدرے مختلف ہے تو اُن کی تفریح کے ذرائع پھر کس طرح یکساں ہوسکتے ہیں۔تاریخِ انسانی کے اوائل میں مخلوقِ بشر داستان گو سے دیو مالائی کہانیاں سُن کر اپنے تصور میں ایک افسانوی جہاں تشکیل دے کر لطف اندوز ہوتی تھی، وہ دنیاوی مسائل سے وقتی طور پر پیچھا چھڑانے کے لیے انھی داستانوں اور تصوراتی ہیولوں کا سہارا لیتی تھی۔

چونکہ انسان اپنی ہر شے سے چاہے وہ فانی ہو یا لافانی بہت جلد اُکتا جاتا ہے لٰہذا جب کہانیاں سُن سُن کر اُس کا دل اوب گیا تو وہ خود افسانے گھڑنے لگا اور اُسے اس کام میں بھی خوب مزا آیا۔ دراصل داستان گوئی کا جو نشہ ہے، ویسا خمارکہانی سننے میں کہاں میسر آتا ہے مگر انسان کی بے چین طبیعت نے اس شوق سے بھی زیادہ عرصے تک اُس کا جی بہلنے نہ دیا اور بہت جلد وہ داستان گوئی سے بھی بیزار ہوگیا پھر وجود میں آئے انٹرنیٹ چیٹ رومز جہاں بِن دیکھے لوگ دوست بننے لگے، جن کی بدولت’’ ڈیجیٹل فرینڈ شپ‘‘ کی اصطلاح کا جنم ہوا اور اس طرح تفریح، مزاح، لطف کی تعریف ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔

زمانہ حال کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ماضی کے اُنھی انٹرنیٹ چیٹ رومز کی جدید شکل ہیں، ان بھانت بھانت کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے آج پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا ہوا ہے اور تقریباً ہر عمر و طبقے کا انسان اپنی زندگی کا بیشمار قیمتی وقت ان پر کثرت سے ضایع کر رہا ہے۔ پہلے پہل انسان نے تفریح حاصل کرنے کی نیت سے داستان سُنی پھر افسانے کہے اور اب خود جیتی جاگتی کہانی بن کر ہر روز سوشل میڈیا پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس خود ساختہ کہانی کا مرکزی کردار وہ خود ہی ہوتا ہے، جو انتہائی مظلوم ہوتا ہے اور کہانی کا ولن ٹھہرتا ہے ہمارا سماج۔

دورِ حاضر کا انسان عقل و شعور کے حوالے سے بَلا کا تیز ہے ساتھ کم وقت میں کامیابی حاصل کرنے میں اُس کا کوئی ثانی نہیں ہے مگر طبیعتاً وہ بہت خود ترس واقع ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کی آمد نے جہاں انسان کو افسانوی دنیا کی کھڑکی فراہم کی ہے وہیں اُسے انگنت محرومیوں کا تحفہ بھی عنایت فرمایا ہے۔

زمانہ حال کا انسان سوشل میڈیا پر دکھنے والی دوسرے انسانوں کی خوشحال اور پُر آسائش زندگیوں سے یہ سوچے بغیر متاثر ہو جاتا ہے کہ جو دکھایا جا رہا ہے وہ سچ ہے یا کوئی فرد اپنی حسرتوں کو وقتی راحت کا لبادہ اُڑا کر اُس انسان کی زندگی جینے کی بھونڈی کوشش کر رہا ہے جو وہ حقیقت میں ہے نہیں مگر بننا چاہتا ہے۔

سوشل میڈیا پر بہت کم ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو دنیا کو اپنی حقیقی شخصیت دکھانے پر یقین رکھتے ہوں۔ سوشل میڈیا پرستان کی جیتی جاگتی تصویر ہے، دراصل یہ وہ جہاں ہے جدھر ہر جانب فرشتہ صفت انسان، عدل و انصاف کے دیوتا، سچ کے پجاری، دوسروں کے بارے میں صرف اچھا سوچنے والے، ماہرِ تعلیم، حکیم، نفسیات شناس اور بندہ نواز موجود ہیں۔

حسد، جلن، نظر بد کس چڑیا کا نام ہے، اس سے یہاں کوئی واقف نہیں ہے، سب بنا مطلب دنیا کی بھلائی کے ارادے سے دوسروں کی اصلاح میں ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔جب کوئی فرد کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا حصہ بنتا ہے تو اُسے استقبالیہ پر ایک مکھوٹا پیش کیا جاتا ہے جسے عقلمند انسان فوراً توڑ دیتا ہے جب کہ بے عقل اپنی شخصیت کا اہم جُز بنا لیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب وہ خوش ہوتا ہے تب اپنی اندرونی کیفیات کو من و عن ظاہرکردیتا ہے جب کہ دکھ کی گھڑیوں میں اپنے حقیقی جذبات کو جھوٹ کی رنگین پنی میں لپیٹ کر خوشی سے سرشار ہونے کی بڑھ چڑھ کر اداکاری کر رہا ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا اپنے صارفین کو اُن کے آپسی اختلافات کے دوران حریفِ مقابل پر اقوالِ زریں کی مار کا کھلم کھلا موقع بھی فراہم کرتا ہے، ادھر کسی کی اپنے دوست سے لڑائی ہوئی اُدھر طنز کی چاشنی میں ڈوبے اخلاق کا سبق سموئے نرم گرم جملے اُس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر دکھائی دینے لگتے ہیں۔

انسان کو سوشل میڈیا پر ملنے والے دھوکے بھی دنیا والوں سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اب چاہے وہ اپنے شناسا لوگوں سے ملیں یا اجنبیوں سے، کڑواہٹ سب کی ایک سی ہی ہوتی ہے۔ جوش میں ہوش کھونے سے گریزکرنے والے افراد ہی سوشل میڈیا کی دنیا میں کامیاب گردانے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز قطعی برے نہیں ہیں بلکہ یہ تو انسانوں کے بیچ فاصلوں کو کم کرنے، بچھڑے ہوئے پیاروں کو ملانے، نئے دوست بنانے اور لوگوں کو سہولیات پہنچانے کی غرض سے وجود میں لائے گئے تھے۔

چونکہ انسان ہر اچھی چیزکا بے دریغ استعمال کرکے اُس کے تمام مثبت پہلوؤں کو نچوڑ کر اُس کی منفیت کو منظرعام پر لانے میں کمال مہارت رکھتا ہے لٰہذا یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ انسان جب تک تفریح اور حقیقت کے درمیان فرق کی لکیرکھینچنا نہیں سیکھے گا تب تک وہ بندر کی طرح سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی ڈگڈگی پر ناچ کر خود کا اور قوم بنی نوع انسان کا تماشا بنواتا رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • محمد یونس کا ڈھاکہ اور بیجنگ کے مابین دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ
  • ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (پیر) کا دن کیسا رہے گا ؟
  • کوفہ، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علی‘‘ پر حاضری
  • نجف، گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی حضرت علی علیہ السلام کے گھر ’’دار امام علی‘‘ پر حاضری
  • نجف: کامران ٹیسوری کی روضہ حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ پر حاضری
  • باطنی بیداری کا سفر ‘شعور کی روشنی
  • ستاروں کی روشنی میں آج بروزاتوار،20اپریل 2025 آپ کا کیرئر،صحت، دن کیسا رہے گا ؟
  • پوپ فرانسس… ایک درد مند انسان
  • تین بیل
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی