Express News:
2025-04-21@23:26:27 GMT

بات ہے رسوائی کی

اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT

یہ خبر حیران کن اور توجہ طلب تھی کہ جب برطانیہ میں ہسٹری کی ایک ٹیچر پچاس سالہ وینیسا براؤن کو چھبیس مارچ کو دو آئی پیڈز چوری کرنے کے الزام میں جیل میں ساڑھے سات گھنٹے گزارنے پڑے، یہ آئی پیڈز کسی اور کے نہیں بلکہ ان کی اپنی بیٹیوں کے تھے جو وینیسا نے صرف اس لیے چھپائے تھے کہ ان کی بیٹیاں اپنے اسکول کے کام پر توجہ دیں۔

یہ ترغیب دلانے کا انداز تو روایتی ماؤں والا ہی تھا لیکن ان کے لیے شرمندگی کا باعث بن گیا، صرف یہی نہیں بلکہ انھیں پابند بھی کر دیا گیا ہے کہ جب تک یہ مقدمہ خارج نہیں ہوجاتا وہ اس تفتیش کے حوالے سے نہ صرف اپنی بیٹیوں بلکہ کسی سے بھی بات نہیں کرسکتیں۔

ایک استاد کو جو دوسرے بچوں کو تعلیم دیتا ہے، اپنے ہی بچوں کی پڑھائی کی خاطر اس اقدام کی وجہ سے جس کوفت اور اذیت کا سامنا کرنا پڑا، اس تجربے کو انھوں نے ناقابل بیان تباہی اور صدمہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ ان کی تمام تر توجیہات بے اثر ثابت ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ آئی پیڈز ان کے بچوں کے تھے اور وہ انھیں ضبط کرنے کی حق دار تھیں۔ پولیس نے مذکورہ آئی پیڈز ان کی والدہ کے گھر سے برآمد کیے تھے۔ایک ماں خاص کر جب وہ استاد کے رتبے پر بھی فائز ہو، دہری ذمے داریوں کی حامل ہوتی ہے۔

اسے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے علاوہ اس کے اردگرد کے ماحول کو بھی دیکھنا پرکھنا ہوتا ہے کہ آیا وہ اس کی اولاد کے لیے موافق ہیں یا نہیں۔ وہ اپنے بچوں کی راہ سے کانٹے چننے کی اہل ہوتی ہے جس کے لیے انھیں پولیس کی مدد اور معاونت کی ضرورت نہیں، لیکن بدقسمتی سے مغربی ممالک میں حقوق کی علم برداری کے بڑے جھنڈے گڑھے ہوتے ہیں، جو ایک ماں سے اپنی اولاد کے حقوق تک چھین لیتے ہیں۔

ایک ماں کو اپنی اولاد کے لیے کیا تحفظات ہوتے ہیں، وہ پڑھے لکھے، صحت مند اور تندرست رہے،کھیل کود بھی کرے اور اپنی دوسری ذمے داریاں بھی نبھائے، اس تمام کے لیے اس کا ذہن صحت مند سوچ رکھنے کا حامل پہلی ترجیح ہوتا ہے۔

ماں بری سوچ سے اپنی اولاد کو الگ رکھنا چاہتی ہے۔آج کل بچوں کے ہاتھ میں بالشت بھر موبائل ساری حشر سامانی لیے ہر دم موجود اور تازہ دم تیار رہتا ہے۔ وہ اپنے والدین اور بڑوں کی نظر سے چھپ کر برا اور غلیظ مواد بھی دیکھ سکتے ہیں۔ فحش مواد دیکھنے سے ذہن کس طرح اثرانداز ہوتا ہے، کینیڈا کی لاوال یونیورسٹی کی ایک محقق ریچل اینی بارر نے ایک تحقیق کی جس میں انھوں نے بتایا۔

’’دنیا بھر میں کروڑوں افراد انٹرنیٹ کو مثبت کی بجائے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، خصوصاً فحش مواد یا پورن سائٹس پر وقت گزارتے ہیں، یہ عادت دماغ کے اہم ترین حصے کو چاٹ لیتی ہے اور کند ذہن یا تعلق بچگانہ ذہنیت کا مالک بنا سکتی ہے ۔‘‘

دراصل غیر اخلاقی مواد کو دیکھنا عادت بنا لینے والے افراد کے دماغی حصے پری فرنٹل کورٹیکس کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس اہم حصے قوت ارادی جسمانی حرکات اور اخلاقیات کو کنٹرول کرتا ہے۔ ایک تحقیق تو فحش مواد اور فلموں کے دیکھنے والوں کے متعلق کہتی ہے کہ ان کے دماغ سے منسلک ’’ریوارڈ سسٹم‘‘ چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے۔

جرمنی کی اس سائنسی تحقیق کی مصنفہ زیمونے کیون کا کہنا ہے ’’باقاعدگی سے فحش فلمیں دیکھنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ کم یا زیادہ آپ کا دماغی ریوارڈ سسٹم ضایع ہوتا جاتا ہے۔‘‘دماغ میں موجود عصبی ڈھانچوں کے مجموعے کو ریوارڈ سسٹم کہتے ہیں اور عصبی ڈھانچے خوشی فراہم کرتے ہوئے دماغی رویے کو کنٹرول کرتے ہیں۔

اس تحقیق کے لیے چونسٹھ لوگوں کا انتخاب کیا گیا جن کی عمریں اکیس سے چونسٹھ سال کے درمیان تھیں۔ اس تحقیق سے پتا چلا کہ جو لوگ فحش فلمیں دیکھتے ہیں ان کے دماغ کا ’’اسٹریم‘‘ نامی حصہ چھوٹا ہو جاتا ہے، ریوارڈ سسٹم کا یہ اہم جز جنسی تحریک کا اہم کردار ہے۔فحش مواد دیکھنے والوں کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ریسرچ کی ایک طویل فہرست ہے اس لیے کہ آج کی دنیا کا یہ اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے، بچے اور بڑے، خواتین اور مرد فحش مواد کو دیکھنے کے باعث منفی رویوں کا شکار ہو جاتے ہیں جن میں زیادتی، تشدد، مار پیٹ، خود غرضی اور قتل بھی شامل ہیں۔

ایسے افراد سرد مہری اور ظلم و جبر کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں باالفاظ دیگر وہ عام انسانوں کے برخلاف زیادہ تلخ، کرخت اور بدمزاج ہو جاتے ہیں۔ اپنی خواہشات کو کسی بھی حد تک پورا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ہم اس قسم کے لوگوں کو دوسروں کے مقابلے میں آسانی سے پہچان بھی سکتے ہیں کیونکہ ان کے رویے اور جذبات عام انسانوں کے مقابلے میں مختلف ہوجاتے ہیں۔

برقی تاروں سے پوری دنیا میں نجانے کیا کچھ دیکھا جا رہا ہے جو دیکھنے والوں کا قیمتی وقت تیزی سے برباد کرتا چلا جاتا ہے اب چاہے وہ طالب علم ہو یا گھریلو خواتین اور عام لوگ۔ یہ ایک ایسا سحر ہے جو اپنے اندر سب کچھ اتارتا چلا جا رہا ہے لیکن ماں باپ اور اساتذہ کے حوالے سے ایک بہت بڑا امتحان وہ غلیظ مواد ہے جو معاشرے کے نہ صرف معماروں کو بلکہ معمر شہریوں کی دماغی استعداد پر اثرانداز ہوتا ہے۔

ہمارے اپنے ملک میں اسلام کے حوالے سے روایتیں تو سخت ہیں لیکن درحقیقت اب جو کچھ کھلے عام اس انٹرنیٹ کے حوالے سے چل رہا ہے شرم انگیز ہے۔ کیا سب کچھ اسکرین پر لگا دینا ہماری اقدار کے ساتھ انصاف کرتا ہے؟ محبت،ایک اور لفظ کے اضافے سے جوکچھ مختصر ترین چند منٹوں میں دیکھا تو عقل ماتم کرنے لگی کہ یہ کمائی کا خوب اچھا طریقہ ہے۔

نجانے کون لوگ اس کے ڈائریکٹر اور پروڈیوسر و لکھاری تھے، پر نامعقولیت میں اول تھے۔ مرکزی کردار درمیانی عمر کے کردار ادا کرتے آنکھوں میں وحشت بھرے اداکار تھے۔ لوگ تنقید بھی کر رہے تھے اور تعریف بھی۔ ہمارے معاشرے میں، تو شاید یہ کہنا فضول ہی ہوگا کہ برطانیہ میں ہسٹری کی استاد کو اپنی ہی بچیوں کا آئی پیڈ چھپانے کی سزا جیل میں کیوں بھگتنی پڑی؟ اس لیے کہ تاریخ کی استاد جانتی تھی کہ ماضی میں عیش و عشرت اور فحش مواد دیکھنے کی وجہ سے قومیں کیسے برباد و خوار ہوئیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ریوارڈ سسٹم کے حوالے سے آئی پیڈز فحش مواد ہوتا ہے جاتا ہے کے لیے

پڑھیں:

اکادمی ادبیات کا اندھا یدھ

پہلی بار نہ سہی مگر اکادمی ادبیات پاکستان نے ادبی ایوارڈ زکی صورت میں جو اندھا یدھ برپاکیا ہے اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ۔قومی معاملات میں مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر تو ہوہکار کے طوفان تو اٹھتے اور بیٹھ جاتے ہو ئے دیکھے ہیں مگر علم و دانش اور شعر و ادب کے حوالے سے ایسی رستاخیز کبھی برپا نہیں ہوئی تھی۔اس پر مستزاد اہل قلم مداہنت آمیز خاموشی…! اور تو اور جن کا قلم درد و الم کی گنگا بہانے کی’’خیالی نقش گری‘‘ میں کمال مہارت رکھتا ہے ، جن کی زنبیل میں سیاسی بد عنوانیوں اور بداعمالیوں پر ڈالنے کے لئے اطلس و کم خاب کے پارچہ جات کی کمی نہیں ،وہ جو ہر فیصلے اپنی پسند و ناپسندی کی جہت دینے کے وسیع اختیارات رکھتے ہیں ۔جو سفید کو سیاہ اور سیاہ کے سفید ہونے کی تصدیقی مہریں ہر پل اپنی جیبوں میں رکھتے ہیں اور طاقت پرواز ایسی کہ کاغذی بیمانوں پر سوار ہوکر جدہ پیلس پناہ جلینے میں ساعت بھر نہیں لگاتے ۔اپنا یہ حسن ظن بھی خیال خام ثابت ہوا کہ اس بار وہ بچ بچا کر ہونے والے امکانات کی روشنی میں فیصلے صادر کروائیں گے کہ اس پیرانہ سالی میں کفاروں کی ادائیگی کا اہتمام صاف و شفاف دکھائی دے گا ۔مگر وائے افسوس وہ دہکتے ہوئے ادبی ماحول کی بابت کچھ کہنے کی بجائے ’’لق و دق صحرا میں بگولے کی طرح رقص کرتے گھمن گھیریاں کھاتے‘‘
پی ٹی آئی کے وجود کا نوحہ لکھنے ہی میں مست رہے ،کیونکہ ان کے حکم اذاں کی تعمیل کے لئے عمرہ جاتی یا جاتی عمرہ کی جانب رخ انور سجائے رکھنا ضروری ہے ۔ اکادمی ادبیات کی نیاز بانٹنے والوں نے جو ’’یدھ‘‘ مچایا اس کی مثال نہیں ملتی اور مجال کا تو یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ قومی خزانے پر انہیں کا حق ہے جنہیں ان کے اجداد سانپ کی طرح اس کی نگرانی پر مامور کر گئے تھے۔یوں بھی اپنے اپنے خدا گھڑلینے کا رواج اب نہیں پڑا یہ بہت پرانی رسم ہے زمین پر خدا بنالینے والوں کی اپنی احتیاجات اور اپنی ضروریات ہوتی ہیں ۔مورت گری کے فن پر دسترس ہوتو ضمیر آڑے نہیں آتا کہ یہ تو ہنر ہی باد فروشوں ہی کا ہے ۔اب کی بار اکادمی ادبیات کی شہ نشین صنف نازک ہیں نزاکتوں بھرے فیصلے ہی ان کی زبانی سنوائے جانے تھے ،انہیں کیا خبر عدل کیا ہوتا ہے ؟ انصاف کسے کہتے ہیں ؟ کہ ان کے زریں دور میں تو ایسے ہی غیر شفاف فیصلوں کا چلن ہے ،پھر ان پر کیا دوش کہ ان کے گرد بھی تو باد سنجوں کی ایک فوج ظفر موج ہوگی ، جنہیں سچ کہنے اور حق کرنے کا بھلے یارہ ہی کس نے بخشا ہوگا اور وہ بھی لکھے ہوئے فیصلوں پر دستخط کرنے کا اختیار رکھتی ہیں، خط تنسیخ کی اجازت آنہیں کہاں تفویض کی گئی یہ اختیار تو سنا ہے ریاست اور حکومت کے سربراہ کے پاس بھی نہیں ہوتا ،سوائے اس کے کہ فیصلے سارے اسی کے ہیں ہماری بابت اختیار بس اتنا کہ خبر میں رہنا ہے کتنے سخن ساز ہیں ،قلم کار ہیں بھوک رات دن جن کے آنگنوں میں رقص کرتی ہے مگرکسے خبر ہے ہمارے اندر ہر ایک منظر بہ چشم تر ہے کسے خبر ہے (مصدق سانول) ایک نابغہ روزگار نوجوان شاعر تھا عین شباب میں داعی اجل ہوا ۔آج تک کسی کی نظر سے نہیں گزرا ،اس کی نظمیں ،اس کی گائی ہوئی کافیاں ،سرائیکی شعری سرمایہ سب حالات کی بھینٹ چڑھ گیا ۔
سرائیکی وسیب کے منفرد لہجے کے شاعر حبیب فائق کسے یاد ہیں،یاد تو فقیر منش سرائیکی شاعر اسلم جاوید بھی کسی کو نہیں جو ابھی زندہ ہے اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔کس کس کا ذکر کریں کہ یہاں یہ رسم رہی ہے کہ ’’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘ مقبول تنویر سرائیکی مشاعروں کی جان ہوا کرتے تھے عین جوانی میں داغ مفارقت دے گئے ۔مرحوم ڈاکٹر مقصود زاہدی اردو رباعی کے بادشاہ کبھی کسی ایوارڈ کے مستحق نہیں ٹھہرائے گئے اور ممتاز اطہر اردوغزل کو نئی جہت اور جدید رنگ عطا کرنے والے ،غربت و افلاس کے اندھیروں میں بھٹکرہے ہیں کسی نے ان کی انگلی نہیں تھامی کہ بے روزگاری کے اندھے کنویں سے نکل آتے ۔ایسے کئی اور رتن ہوں گے جو آسودہ خاک ہوئے اور وہ ہیں کہ ابھی بے سمتی اور بے حکمتی کے لق و دق صحرا میں رقص کرتی، پی ٹی آئی پر ہی سوئی اڑائے ہوئے ہیں ۔

متعلقہ مضامین

  • اپنی نئی فلم ’ستارے زمین پر‘ کے بارے میں عامر خان کا اہم انکشاف
  • عورتیں جو جینا چاہتی تھیں
  • جنید جمشید نے اپنی دوسری اہلیہ سے آخری گفتگو کیا کی تھی؟
  • اکادمی ادبیات کا اندھا یدھ
  • حیا
  • میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
  • سوشل میڈیا کی ڈگڈگی
  • اسلام آباد میں دہشتگردی کا منصوبہ ناکام، فتنہ الخوارج کا دہشتگرد بہارہ کہو سے گرفتار، ڈیٹونیٹر، فیوز وائر سمیت بارودی مواد برآمد
  • 4 بچوں کی ماں اپنی بیٹی کے سسر کے ساتھ بھاگ گئی