WE News:
2025-04-21@23:48:33 GMT

پی ٹی اے نے 3 کمپنیوں کو وی پی این لائسنس جاری کر دیے

اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT

پی ٹی اے نے 3 کمپنیوں کو وی پی این لائسنس جاری کر دیے

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے 3 کمپنیوں کو وی پی این سروسز کے لیے کلاس لائسنس جاری کر دیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں وی پی این اور اے آئی صارفین ہیکرز کے نشان پر

ترجمان پی ٹی اے کے مطابق  3 کمپنیوں کو وی پی این سروسز کے لیے کلاس لائسنس جاری کیا گیا ہے، بغیر لائسنس وی پی این سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کو فوری طور پر لائسنس حاصل کرنا ہوگا۔

ترجمان پی ٹی اے نے کہا کہ وی پی این سروسز کے لائسنس کے اجرا کا مقصد موجودہ ریگولیٹری فریم ورک پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے تاکہ سروسز کے استعمال میں شفافیت اور قانون کی پاسداری ممکن ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں وی پی اینز کے استعمال سے بڑا نقصان، رپورٹ جاری

پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ بروقت لائسنس حاصل کرنے سے کمپنیوں کو سروس میں تعطل سے بچنے میں مدد ملے گی اور صارفین کو بغیر کسی رکاوٹ کے محفوظ اور مستحکم وی پی این خدمات کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news پاکستان پی ٹی اے لائسنس وی پی این.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان پی ٹی اے لائسنس وی پی این کمپنیوں کو سروسز کے پی ٹی اے

پڑھیں:

ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات جاری نہیں ہیں، شیخ وقاص اکرم

اسلام آباد:

رہنما پاکستان تحریک انصاف شیخ وقاص اکرم کا کہنا ہے کہ بات شروع کرنے سے قبل میں ایک چیز کلیریٹی سے کہہ دوں کہ فی الوقت جب ہم بات کر رہے ہیں، ہمارے بیک ڈور یا سامنے کسی قسم کے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات جاری نہیں ہیں جو اپنی ذاتی حیثیت میں کوششیں کر رہے ہیں اور کرتے رہتے ہیں ان کو بھی خان صاحب نے کہہ دیا ہے کہ میری رہائی کے حوالے سے میں نے کسی کو بھی آتھرائز نہیں کیا کہ وہ کوئی مذاکرات کریں، وہ بات وہاں فائنل ہو گئی ہے، اگر کوئی کلیم بھی کرتا ہے کہ مجھے خان نے آتھرائز کیا ہے تو خان صاحب نے واضح کر دیا ہے کہ میں نے کسی کو آتھرائز نہیں کی۔ 

ایکسپریس نیوز کے پروگرام سینٹر اسٹیج میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ خان صاحب نے ایک اور بات بڑی واضح کر دی ہے ساتھ ہی کہ ہم بطور پولیٹکل پارٹی مذاکرات کے بالکل خلاف نہیں ہیں مگر مذاکرات کس لیے؟نمبر ون قوم کیلیے، نمبر ٹو آئین کی بالادستی اور نمبر تین قانون کی حکمرانی کیلیے، ہیومن رائٹس کے لیے، جمہوریت کیلیے۔

رہنما پاکستان پیپلزپارٹی قمر زمان کائرہ نے کہا ہر معاملے کے لیے جمہوری نظام کے اندر آئینی ڈھانچہ دیا ہوا ہے،آئینی ڈھانچے میں اس کے لیے مناسب فورمز موجود ہیں، میرا خیال ہے کہ ہمیں بجائے اس کے کہ میڈیا کے اوپر ڈسکشن ہو، جلسے جلوس ہوں، ہمیں یا تو ایوان میں بات کرنی چاہیے اور اس سے بھی بہتر ہے کہ پہلے جو مناسب فورم ہے، یعنی کونسل آف کامن انٹرسٹ جس کے بارے میں پیپلزپارٹی نے من حیث الجماعت اور سندھ حکومت من حیث الحکومت ایک مشترک فریق۔

ایک سوال پران کا کہنا تھا کہ میرے علم میں نہیں ہے کہ اس پر اس سے پہلے میٹنگز ہوئیں، میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ تلخی بڑھ گئی ہے اور یہ تلخی اچھی نہیں ہے۔ 

ماہر پاک افغان امور طاہر خان نے کہاکہ میری نظر میں اس کا انحصار ہوگا آئندہ دنوں میں پاکستان کا جو ایک بنیادی مسئلہ ہے افغانستان کی حکومت کے ساتھ ٹی ٹی پی کا پاکستانی شدت پسند گروپوں کا، اگر پاکستان میں سیکیورٹی کے معاملات پہ کچھ بہتری آتی ہے تو پھر آپ کے سوال کا جوا ب میں دوں گا کہ ہاں لیکن اگر نہیں آتی اور حالات یوں ہی رہیں تو پھر شاید وہ جو ایک ماضی میں پاکستان وہاں پر وہ یہی خدشات کا اظہار کرتا رہا اور وہ خدشات بڑھتے، بڑھتے تلخیوں پر معاملہ آ جاتا ہے تو اس کیلیے ابھی انتظار کرنا پڑے گا لیکن جس طرح آپ نے کہا بالکل دورہ اہم تھا اور آپ کویاد ہو گا جب اکتوبر 2021 میں پی ٹی آئی حکومت میں جب شاہ محمود قریشی گئے تھے یہ اس کے بعد ایک وزیرخارجہ کا دورہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چینی فضائی کمپنیوں نے ”بوئنگ“ کے737 میکس جہازوں کے آڈرمنسوخ کردیئے
  • بجلی   کے بلوں میں صارفین کو ریلیف دینے کا فیصلہ 
  • علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ
  • خیبرپختونخوا حکومت کا انقلابی اقدام، ٹرانسپلانٹ اور امپلانٹ سروسز صحت کارڈ میں شامل
  • خیبرپختونخواہ حکومت کا ٹرانسپلانٹ اور امپلانٹ سروسز مفت فراہم کرنے کا فیصلہ
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات جاری نہیں ہیں، شیخ وقاص اکرم
  • چنگ چی رکشہ بنانے والی کمپنیوں کو بند کیا جانا چاہیے، لاہور ہائیکورٹ
  • پی ٹی اے نے وی پی این سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے لیے لائسنس لازمی قرار دیدیا
  • سموگ تدارک کیس، موٹر سائیکل رکشے بنانے والی کمپنیوں کو بند کر دینا چاہئے: لاہور ہائیکورٹ