اسلام ٹائمز: اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران، اتنی جوہری صلاحیتیں حاصل کرنے کے بعد، خود کو ایٹمی طاقت ثابت کرنے کیلئے کوئی ایٹمی دھماکہ کیوں نہیں کرتا۔ ایران ہمیشہ سے یہ مؤقف اختیار کرتا آیا ہے کہ اسکا جوہری پروگرام پُرامن اور سول مقاصد کیلئے ہے۔ تاہم، وہ "جوہری ابہام" کی پالیسی اپنا سکتا ہے، جسکے تحت وہ اپنی صلاحیت کا کھلے عام اعلان نہیں کریگا، لیکن اشاروں کنایوں میں یہ ظاہر کریگا کہ اسے جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل ہے۔ ایران کی حکمتِ عملی ایک محتاط توازن پر مبنی ہے، جس میں وہ جوہری دہلیز تک پہنچ کر اپنی طاقت کا مظاہرہ تو کرتا ہے، مگر اسے عبور نہیں کرتا۔ تحریر: سید نوازش رضا
اگر ہم ایران کی اس جوہری ترقی کا جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کی تکنیکی مہارت اور صلاحیت ایران کے پاس موجود ہونے کے باوجود، اب تک کوئی فیصلہ کن سیاسی عزم سامنے نہیں آیا۔ اس کی بنیادی وجہ ایران کے رہبرِ اعلیٰ، حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہای کا وہ فتوٰی ہے، جس میں انھوں نے صراحت کے ساتھ یہ اعلان فرمایا ہے کہ ’’ہم ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری، ذخیرہ اندوزی اور استعمال کو حرام قرار دیتے ہیں۔‘‘ *یہ مؤقف ایران کی جوہری پالیسی کی بنیاد بن چکا ہے* تاہم یہ حقیقت نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ اگر اسرائیل اور امریکا کی جانب سے جنگ مسلط کی گئی یا غیر ضروری دباؤ برقرار رکھا گیا تو ایسی صورت میں ایران جوہری ہتھیار تیار کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایران، اتنی جوہری صلاحیتیں حاصل کرنے کے بعد، خود کو ایٹمی طاقت ثابت کرنے کے لیے کوئی ایٹمی دھماکہ کیوں نہیں کرتا۔ ایران ہمیشہ سے یہ مؤقف اختیار کرتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن اور سول مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم، وہ "جوہری ابہام" کی پالیسی اپنا سکتا ہے، جس کے تحت وہ اپنی صلاحیت کا کھلے عام اعلان نہیں کرے گا، لیکن اشاروں کنایوں میں یہ ظاہر کرے گا کہ اسے جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل ہے۔ ایران کی حکمتِ عملی ایک محتاط توازن پر مبنی ہے، جس میں وہ جوہری دہلیز تک پہنچ کر اپنی طاقت کا مظاہرہ تو کرتا ہے، مگر اسے عبور نہیں کرتا۔
مقصد یہ ہے کہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی سے بچتے ہوئے سیاسی و اسٹریٹیجک فائدہ حاصل کیا جائے۔ یورینیم کی 60 فیصد سے زائد افزودگی، جدید سینٹری فیوجز کی تنصیب، ہائپرسونک میزائل تجربات، اور سائنس دانوں سیاسی و فوجی قیادت کے مبہم بیانات کہ "ہم ضرورت پڑنے پر تیار ہیں۔" ایران اس خاموش مگر واضح پیغام کے ذریعے نہ صرف اپنی دفاعی حکمتِ عملی (Deterrence Policy) کو مستحکم کر رہا ہے بلکہ مذاکرات کی میز پر بھی اپنی پوزیشن مضبوط کیے ہوئے ہے۔
ایران نے 9 اپریل 2025ء کو "نیشنل نیوکلیئر ٹیکنالوجی ڈے" کے موقع پر تہران میں واقع ایٹامک انرجی آرگنائزیشن آف ایران (AEOI) کے صدر دفتر میں ایک بڑی نمائش کا انعقاد کیا، جس میں اس نے اپنی جدید ترین جوہری کامیابیوں کو نمایاں کیا۔ جس میں
1۔ IR-9 جدید سینٹری فیوج کی نقاب کشائی کی گئی، جو پچھلے ماڈلز سے 50 گنا زیادہ موثر ہے اور بہت تیزی سے یورینیم کو افزودہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 2۔ شیراز کے قریب ایک نئی زیر زمین نیوکلیئر تنصیب کا انکشاف کیا گیا، جسے "ماحولیاتی تحفظ اور سکیورٹی" کے جدید اصولوں کے مطابق ڈیزائن کیا گیا ہے۔
3۔ ایران ساخت Made in Iran ریڈیو فارماسیوٹیکلز متعارف کرائے گئے، جو کینسر کے علاج اور تھراپی میں استعمال ہوں گے۔ جوہری توانائی کے ذریعے مقامی طور پر پولیو ویکسین تیار کی جا رہی ہے۔
4۔ بوشہر-2 جوہری بجلی گھر کے منصوبے پر پیش رفت دکھائی گئی، جسے روسی تعاون سے 2030ء تک مکمل کرنے کا ہدف ہے۔ تھوریم (Thorium) ایک قدرتی طور پر پایا جانے والی تابکار دھات ہے، جو جوہری ایندھن (nuclear fuel) کے طور پر یورینیم کا متبادل بن سکتا ہے۔ پر مبنی توانائی کے منصوبوں پر تحقیق کی جھلک بھی پیش کی گئی۔
5۔ جوہری تابکاری کے ذریعے خشک سالی سے بچنے والی گندم کی اقسام متعارف کرائی گئیں، جو کم پانی میں اگ سکتی ہیں۔ نانو ٹیکنالوجی (Nanotechnology) کی مدد سے صنعتی اشیاء کی پائیداری بڑھانے پر کام کا اعلان کیا گیا۔
6۔ ایران نے جوہری توانائی سے چلنے والی بیٹریاں تیار کی ہیں، جو مستقبل کے سیٹلائٹ مشنز میں استعمال ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جوہری ہتھیار نہیں کرتا ایران کی
پڑھیں:
امریکا سے جوہری مذاکرات سے قبل ایران کا بھرپور فوجی طاقت کا مظاہرہ
تہران میں آرمی ڈے کے موقع پر بھرپور فوجی قوت کا مظاہرہ کیا گیا، جس میں جدید میزائلوں، نئے ڈرونز اور دیگر فوجی سازوسامان کی نمائش کی گئی۔ یہ مظاہرہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکا اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات کا دوسرا دور آج روم میں ہونے والا ہے۔
آرمی ڈے کی سالانہ پریڈ میں صدر مسعود پزشکیان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی ایک مضبوط فوج کی موجودگی سے ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران کی دلیر فوج نے دشمنوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔
ادھر ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف آج روم میں ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کریں گے۔ دونوں رہنماؤں کی گزشتہ ملاقات عمان میں ہوئی تھی جو پینتالیس منٹ تک جاری رہی۔
مذاکرات سے قبل ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے روسی ہم منصب سرگئی لاروف سے ملاقات کی، جس میں امریکا ایران مذاکرات سمیت دیگر عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
مشترکہ پریس کانفرنس میں عباس عراقچی نے کہا کہ مذاکرات سے پہلے امریکی ارادوں پر سنگین شکوک ہیں، لیکن ایران اس کے باوجود بات چیت کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کے پرامن حل کے لیے پوری طرح سنجیدہ ہے۔
Post Views: 3