گلشن ٹاؤن میں مالیاتی معاملات مشکوک ہونے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
ماہانہ لاکھوں روپے کی پارکوں کی آمدنی کسی اکاؤنٹ کے بجائے کش وصول کی جانے لگی
چیئرمین فیاض الہدیٰ، مشتبہ وائس چیئرمین آصف آزادکو جوابدہ بنانے میں ناکام ہو گئے
گلشن اقبال ٹاؤن میں سنگین مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہو ا ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹاؤن کے بڑے پارکوں کی آمدنی ٹاؤن اکاؤنٹ کے بجائے یوسی کے پاس جا رہی ہے۔ جہاں ماہانہ لاکھوں روپے کی آمدنی کسی اکاؤنٹ کے بجائے کش وصول کی جا رہی ہے۔اطلاعات کے مطابق عمران خان گراونڈ اور بلاک 2 کے ناصر حسین شہید پارک سے ماہانہ ہونے والی آمدنی کا کسی کے پاس مستند حساب موجود نہیں۔ اسی طرح ایک یوسی جس میںعمران خان پارک اورفائیواسٹا ر پارک سمیت دیگر پارکس موجود ہیں، کی مجموعی آمدنی مبینہ طور پر پچاس لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ رقم فیاض الہدیٰ کے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کیے جانے کی اطلاعات ہیں۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق گلشن اقبال کے بلاک 1اور 2جیسے پوش علاقے سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے وائس چیئرمین آصف آزاد پر شکوک کے سائے گہرے ہو رہے ہیں۔ جنہیں یوسی چیئرمین فیاض الہدیٰ جوابدہ بنانے میں مسلسل ناکام ہو رہے ہیں۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
جب مزاحمت بھی مشکوک ٹھہرے، فلسطین، ایران فوبیا اور امت کی بے حسی
اسلام ٹائمز: ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمتِ مسلمہ فلسطین کے مسئلے کو صرف مسلکی یا جغرافیائی زاویے سے نہ دیکھے۔ فلسطین ایک انسانی، اخلاقی اور اصولی مسئلہ ہے۔ جو بھی اسکی حمایت کرے۔ خواہ وہ ایران ہو، ترکی یا کوئی عرب ریاست۔ اُسکا ساتھ دینا اصولی فریضہ ہے۔ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح اسلام کسی مخصوص نسل، قوم یا زبان تک محدود نہیں، اسی طرح مظلوم کی حمایت بھی کسی مسلکی حد بندی کی محتاج نہیں۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی
غزہ میں جاری ظلم و ستم اور نسل کشی نے دنیا بھر کے انسان دوست حلقوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، مگر حیرت انگیز طور پر پاکستان جیسے بیدار دل معاشرے میں، خاص طور پر مذہبی طبقات میں، ایک غیر معمولی خاموشی طاری رہی۔ یہ خاموشی صرف وقتی نہیں، بلکہ ایک فکری جمود اور بیانیاتی تقسیم کا اظہار ہے، جو امتِ مسلمہ کے اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے بجائے اسے مسلکی اور جغرافیائی تعصبات میں بانٹ دیتی ہے۔ فلسطینیوں پر ہونیوالے مظالم کسی ایک لمحے یا واقعے تک محدود نہیں۔ شہداء کے لاشے، تباہ حال ہسپتال، یتیم بچے، زخمی ماں باپ، جلتی بستیاں، یہ حالات گذشتہ کئی ماہ سے جاری ہیں۔ تو سوال یہ ہے کہ اب یکدم جذبات کیوں بھڑک اُٹھے؟ (فتوے کیوں آنا شروع ہوگئے) اور پہلے کیوں خاموشی رہی؟ یہ جذبات اگر واقعی فلسطینی عوام کیلئے ہیں تو اُن لمحوں میں کیوں نہیں اُبھرے، جب حزب اللہ، حماس اور ایران اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہے تھے۔؟
یہ بات قابلِ غور ہے کہ جب ایران نے شام یا لبنان کے محاذ سے اسرائیل کو جواب دیا، یا جب حماس اور حزب اللہ نے عسکری مزاحمت کی تو بیشتر مذہبی حلقے خاموش رہے۔ اس وقت دلیل یہ دی گئی کہ یہ "ایران کا ایجنڈا" ہے، یا یہ "شیعہ سیاست" کا حصہ ہے۔ اس طرزِ فکر نے فلسطینی مزاحمت کو مسلکی خانوں میں قید کر دیا۔ یوں امتِ مسلمہ کا ایک اہم اور مقدس مسئلہ فرقہ وارانہ بیانیے کی نذر ہوگیا۔ یہ خاموشی محض اتفاق نہیں، بلکہ ایک سوچے سمجھے پروپیگنڈے کا نتیجہ بھی ہے، جس کا مقصد امت کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم رکھنا ہے۔ جب ایک مزاحمتی تحریک کو صرف اس بنیاد پر مشکوک بنا دیا جائے کہ اسے کسی مخصوص مسلک یا ملک کی حمایت حاصل ہے تو یہ درحقیقت ظالم کے بیانیے کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر کوئی سنی ملک فلسطین کی کھل کر عسکری حمایت کرے تو پھر وہ حمایت "حلال" اور قابلِ قبول ہو جائے، لیکن اگر یہی کام ایران کرے تو وہ فوراً "مسلکی ایجنڈا" بن جائے؟ کیا ظلم کیخلاف آواز اٹھانے کا جواز صرف اس وقت بنتا ہے، جب وہ آواز ہماری مسلکی شناخت کے مطابق ہو۔؟
یہ طرزِ فکر انتہائی خطرناک ہے، کیونکہ یہ نہ صرف فلسطینی عوام کی حمایت کو محدود کرتا ہے، بلکہ اُمت کو اصولوں سے ہٹا کر شناختوں کی قید میں جکڑ دیتا ہے۔ اگر فلسطین کا مسئلہ واقعی اُمت کا مسئلہ ہے تو پھر اس کی حمایت ہر اس شخص، ریاست یا گروہ سے کی جانی چاہیئے، جو اخلاص سے مظلوم کیساتھ کھڑا ہو، چاہے اس کی فقہی یا سیاسی شناخت کچھ بھی ہو۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایران، اپنے سیاسی و مسلکی پس منظر کے باوجود، فلسطین کی مسلح مزاحمت کا سب سے مستقل اور مخلص حامی رہا ہے۔ اگر اس کی حمایت کو صرف اس بنیاد پر مسترد کیا جائے کہ وہ ایک شیعہ ملک ہے، تو یہ انصاف اور عقل دونوں کے منافی ہے۔ ایسی سوچ نہ صرف فلسطینیوں کیلئے نقصان دہ ہے، بلکہ پوری مسلم دنیا میں وحدت کے امکانات کو بھی مجروح کرتی ہے۔ فلسطینی مزاحمت کے حق میں آواز بلند کرنا ایک اصولی فرض ہے اور یہ فرض اس سے مشروط نہیں ہونا چاہیئے کہ کون ساتھ دے رہا ہے۔ جب ایران یا اس کے حمایت یافتہ گروہ جیسے حزب اللہ یا حماس میدان میں ہوں تو ان کی حمایت یا مخالفت کا پیمانہ صرف مسلک نہیں، بلکہ یہ ہونا چاہیئے کہ کیا وہ مظلوم کی مدد کر رہے ہیں یا نہیں۔
یہ فرقہ وارانہ تقسیم صرف فلسطینی کاز کو نہیں، بلکہ خود امت کے اتحاد کو کمزور کرتی ہے۔ اگر مزاحمت کو صرف اس بنیاد پر قبول یا مسترد کیا جائے کہ اسے کون کر رہا ہے، تو یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم اصول، انصاف اور مظلوم کی حمایت کو شخصیات، ریاستوں اور مسالک کی بنیاد پر تول رہے ہیں۔ یہی انتخابی مزاحمت (Selective Activism) ہے۔ جب تصاویر زیادہ دردناک ہو جائیں، جب سوشل میڈیا پر لہر اُٹھے، جب عرب میڈیا بھی مجبور ہو کر کچھ دکھا دے، تب عوامی غصہ سامنے آتا ہے۔ مگر جب زمینی سطح پر مزاحمت ہو رہی ہو، جب خون بہہ رہا ہو، جب دشمن کو جواب دیا جا رہا ہو، تب ہم خاموش رہتے ہیں۔ یا پھر اسے "ایرانی ایجنڈا" کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک فکری غلامی ہے۔ ایک ایسا ذہنی جال جس میں امت کو اس حد تک اُلجھا دیا گیا ہے کہ وہ اپنی ہی جنگ میں غیر جانبدار، بلکہ کبھی کبھار مخالف بن جاتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمتِ مسلمہ فلسطین کے مسئلے کو صرف مسلکی یا جغرافیائی زاویے سے نہ دیکھے۔ فلسطین ایک انسانی، اخلاقی اور اصولی مسئلہ ہے۔ جو بھی اس کی حمایت کرے۔ خواہ وہ ایران ہو، ترکی یا کوئی عرب ریاست۔ اُس کا ساتھ دینا اصولی فریضہ ہے۔ یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ جس طرح اسلام کسی مخصوص نسل، قوم یا زبان تک محدود نہیں، اسی طرح مظلوم کی حمایت بھی کسی مسلکی حد بندی کی محتاج نہیں۔ اگر ہم کسی ملک یا گروہ کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر اس کے موقف کو رد کر دیں تو ہم خود بھی اسی تعصب کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کیخلاف اسلام نے ہمیں خبردار کیا ہے۔ فلسطینی پرچم صرف جذبات کی لہر یا وقتی احتجاج کیلئے نہیں، بلکہ اصولی موقف، فکری استقلال اور اتحادِ امت کی علامت ہونا چاہیئے۔ اس پرچم کو کسی ایجنڈے، پراکسی یا مسلک سے جوڑنے کی بجائے، اسے ظلم کیخلاف مزاحمت اور حق کی سربلندی کا نشان بنانا ہوگا۔ جب تک امت اس بنیادی اصول کو نہیں سمجھے گی، تب تک ہم فلسطین کیساتھ بھی انصاف نہیں کرسکیں گے اور نہ ہی اپنے آپ کیساتھ۔ (مضمون نگار تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ اور پاکستان کے ممتاز عالم دین ہیں)