سب جھوٹ ہے فریب ہے ڈھونگ ہے
اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT
یہ ملک، یہ معاشرہ، یہ نظام، یہ سیاست، یہ جمہوریت، یہ دینداریاں، ایمانداریاں یا بیانات یہ اعلانات یہ دعوے یہ وعدے سب کچھ جھوٹ ہے، فریب ہے، ڈھونگ ہیں ؎
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
ایک پشتو ٹپہ ہے کہ تمہارے سلوک نے مجھے اتنا کڑواکردیا ہے کہ میراحلق آخری دم تک میٹھانہیں ہوپائے گا
جو زہرپی چکا ہوں تمہی نے مجھے دیا
اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو
حکومتیں بھی نقارے بجا رہی ہیں، وزیر شزیر بھی گلے میں ڈھول لٹکائے کڑکڑا رہے ہیں ، منتخب نمائندے بھی گلے میں پھولوں کی مالائیں پہن کر بھنگڑے ڈال رہے ہیں کہ ہم نے فردوس گم گشتہ لاکر تمہاری دہلیز پر رکھ دی ہے ۔ جو چاہو جتنا چا ہو۔ لیکن یہ سب پانی کی سطح پر ہے نیچے تہہ میں شارک ہیں، مگر مچھ ہیں ، غلاظت ہے، کیچڑ ہے، گدلا پانی ہے اور اندھی مچھلیاں ہیں، خون ہے اور چھوٹی مچھلیوں کے پرزے ہو رہے ہیں ؎
پتھر کے خدا پتھر کے صنم پتھر کے ہی انساں پائے ہیں
تم شہر محبت کہتے ہو ہم جان بچا کر آئے ہیں
جو قیامت کے نامے میرے نام آتے ہیں اوربرسر زمین حقائق بتا کر رلاتے ہیں ان کو تو میں نے عرصہ ہوا نظر انداز کر رکھا ہے لیکن جو سامنے ہے چشم دید ہے ان کاکیا کروں؟ اس کے باوجود کہ میں انسانوں سے بھاگ کر صحرا نشین ہوگیا ہوں بہت کم کم باہرنکلتا ہوں کہ
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں طاقت جگر میں حال کہاں
لیکن پھر بھی تپش محسوس کر لیتا ہوں ، ویسے تو ہرطرف ہاہاکار مچی ہے نفسی نفسی کاعالم ہے ان اعلانوں، خوش خبریوں، انکم سپورٹوں، کارڈوں اور پیکیجوں کے خس وخاک تلے، جو ظلم وعذاب ’’کھل ‘‘ رہے ہیں ان میں چند کو میں نمونے کے طورپر پیش کرنا چاہتا ہوں ورنہ ہیں تو ہزاروں
درد میں ڈوبے ہوئے نغمے ہزاروں ہیں مگر
سازدل ٹوٹ گیا ہو تو سنائیں کیسے؟
ایک شخص جو پہلے ہماری یونین کونسل کاناظم تھا اس نے اپنی دیانت اورایمانداری سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیاتھا خود ہی بیلچہ اٹھا کر نالیاں صاف کرتا تھا، راستوں کے گڑھے ہموار کرتا تھا، لوگوں کے جھگڑے چکاتا تھا اورراضی نامہ کراتا تھا لوگوں کے کاموں اورمسائل کے لیے دفتروں کی خاک چھانتا تھا اورافسروں سے لڑتا تھا لیکن حیثیت سے تھوڑی سی زمین کامالک تھا اس لیے ان مصروفیات میں اپنے بال بچوں کو بھوک کا شکار بنا دیا، اس لیے دوسری ٹرم میں لوگوں نے بہت زاریاں کیں، جرگے کیے لیکن کھڑا نہیں ہوا، بولا مال حرام کو میں سور کا تکہ سمجھتا ہوں اورحلال کے لیے مجھے مزدوری کرنے دیجیے ، اپنی تھوڑی زمین میں کاشت سے گزارا نہیں ہوتا تھا تو طرح طرح کے دوسرے کام بھی کرتا تھا۔
باغوں کی کٹائی اورگڑ بنانے کا ماہرتھا ، چھوٹی موٹی فصلی تجارت بھی کرتاتھا مطلب یہ کہ گزارہ ہوجاتاتھا ، لیکن کچھ عرصہ بعد سنا کہ بے چارے کو پراسٹیٹ کاکینسر ہوگیا ہے اور علاج کروا رہا ہے، ایک دو مرتبہ عیادت کی پھر فون پرحالات پوچھتا رہتا تھا ، میراخیال تھا کہ حالت سنبھل گئی ہوگی، میرا آنا جانا آج کل گاؤں میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔ فون کیا تو بہت دکھی تھا، آوازمیں درد صاف صاف جھلک رہا تھا ، کوئی افاقہ نہیں ہورہا تھا ، میں نے دوسرے مشہور اورچمکدار اسپتالوں کے نام لیے لیکن بولا کوئی فائدہ نہیں ان تک پہنچنا میری رسائی سے باہر ہے ، سب دیکھ چکا ہوں ، پوچھا اب کیاکروگے؟بولا کچھ بھی نہیں۔ میں اس مالک کے فیصلے کا انتظار کروں گا جو سارے فیصلے کرتا ہے ۔
دوسرا میرے پڑوس کے گاؤں کا نوجوان اور بہت پیارا شاعر تھا بہت ہی پیاری غزلیں لکھتا تھا کافی پڑھا لکھا بھی تھا لیکن ملازمت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھا، خاندانی پیشہ قصائیوں کا تھا لیکن وہ بھی نہیں سیکھ پایاتھا لیکن دوسرے بھائی اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ کرواتے تھے، بھائی بھی ہینڈ ٹو ماوتھ تھے کوئی جائیداد وغیرہ نہیں تھی لیکن آدمی میں ایک اورگن بھی تھا ، اردو پشتو کمپوزنگ اچھی کرتا تھا ، پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے بے داغ اورغلطیوں سے مبرا کمپوزنگ کرتا تھا ، میں نے خود بھی اپنی چند کتابیں کمپوزنگ کے لیے دیں اوراپنے ایک ناشر دوست سے بھی کہا کہ وہ بھی کمپوزنگ کا کام دینے لگا ، اس لیے مجھے اس پیشے میں اس کا مستقبل اچھا دکھائی دے رہا تھا ۔
میں بتا چکا ہوں کہ آج کل میں ماحولی اورانسانی دونوں آلودگیوں سے بھاگ کر صحرانشین ہوا ہوں، تھوڑی زمین ایک کٹیا بنائے بیٹھا ہوں، بہت کم اورضروری شادی غمی کے لیے نکلتا ہوں سارا کام موبائل سے چلاتا ہوں اس لیے کافی دنوں سے رابطہ نہیں ہوا ۔ کئی مہینے بعد کام کا پوچھا تو بولا میری آنکھوں میں تکلیف ہے اس لیے نہیں کرسکاہوں ۔ ایک کمپوزشدہ مسودے میں صر ف غلطیاں لگانا تھیں اس کا پوچھا تو بولا وہ بھی نہیں کرسکاہوں ۔ غصہ تو آنا تھا آگیا، کافی برا بھلا کہنے کے بعد کہا کہ میرا کام مجھے واپس بھجوادو ، کچھ روز بعد کام جوں کاتوں واپس آگیا ، سخت غصہ آگیا اورناراض ہوکر رابطہ ہی توڑدیا ۔ چھ سات مہینے گزرگئے گزشتہ دنوں کسی کام سے نکلاتھا اس کابڑا بھائی بازار میں گوشت کی دکان کرتا ہے ، سوچا گوشت بھی خرید لوں گا اور اس نکمے نکھٹو کابھی پوچھ لوں گا ۔ علیک سلیک کے بعد گوشت کاآرڈر دیا، وہ گوشت بنانے لگ گیا تو پوچھا ، اس لڑکے کا کیاحال ہے ؟بولا کس کا؟ کہا ساحل کا۔
بہت ہی افسردہ ہوکر بولا آپ کو پتہ نہیں؟ میں نے کہا نہیں۔ کیا ہوا؟ بولا اس کی تو ایک آنکھ ضایع ہوگئی تھی ،نکال کر اس کی جگہ مصنوعی آنکھ لگوائی ہے لیکن دوسری کاعلاج چل رہا ہے۔ ایک جلتا ہوا تیر تھا جو دل وجگر میں ترازو ہوگیا ۔بلکہ اپنے آپ پر سخت غصہ بھی آگیا ، اندر ہی اندر شرمندگی دکھ اور پیشمانی کا لاوا ابل پڑا، میں بھی کتنا بے درد ہوں۔ اپنے غصے میںپتہ بھی نہیں لگا کہ اس کی تکلیف کیاہے اوراس پر کیا گزری ہے میں تو اندر اپنے آپ سے لڑرہا تھا اوراس کابھائی کہہ رہاتھا ۔
ہم بھائیوں نے ایک جگہ دکان کھلواکردی تھی لیکن قصائی کاکام تو زورکا ہوتا ہے ، جھٹکے بھی لگتے ہیں چنانچہ دوسری آنکھ کی تکلیف بڑھ گئی، ڈاکٹر نے سختی سے منع کیا ہے اب گھر میں پڑا رہتا ہے ۔ ہم بھائی بھی پریشان ہیں ، سب کاچھوٹا بھائی ہے، لیکن حیران ہیں کہ کیاکریں اپنے بھی بال بچے ہیں مشکل سے گزارا ہورہا ہے اوراس کے بھی دوبچے ہیں بیوی اورعلاج کے خرچے بھی ہیں ۔
وہ اپنا رونارورہا تھا اورمیں اپنے اندر اپنا رونا۔ شرمندگی اتنی ہوئی کہ نہ تو اس فون کرسکا نہ اس کے پاس جانے کایارا اپنے اندر پاتاتھا ۔ اوریہ میں پہلے سے جانتا تھا کہ وہ خود دار اتنا ہے کہ اگر تھوڑی بہت مدد کرنا بھی چاہوں تو قبول نہیں کرے گا۔ جب وہ اتنی تکلیف میں تھا اورمیرے برابھلا کہنے کے باوجود بھی اس نے اپنا رونا نہیں رویاتھا تو اس سے اندازہ مشکل نہیں کہ کس ٹائپ کاآدمی ہے، اس لیے میں نے ارادہ کیاکہ حکومتی اداروں سے رجوع کروں گا۔جو روزاخباروں اور اشتہاروں میں اپنی اداکاریوں کاجوہردکھاتے ہیں کہ ہم شاعروں ادیبوں کے لیے ’’یہ یہ‘‘ کرچکے ہیں اور’’وہ وہ‘‘ کررہے ہیں اوراتنااتنا کرنے والے ہیں۔ ہماری حکومت صحافیوں، فنکاروں اوروغیرہ وغیرہ کو یہ یہ سہولیتں سوغاتیں اوروظائف دے رہی ہے اوریہ لوگ قوم کاسرمایہ ہیں یہ ہماری پہلی ترجیح ہیں اتنے اتنے کتنے کتنے ،کیسے کیسے، ایسے ایسے ۔
میں نے کچھ متعلقہ اداروں اوراکیڈمیوں سے رابطہ کرلیا تو حسب معمول حسب روایت حسب بکواس جواب ملا،گوش تو سارا بلی بلے اورکتے ہڑپ کرچکے ہیں وہ ایک بھوکے فقیر نے کئی گھروںسے کھانا مانگا تو کہیں ابھی تیار نہیں ہوا تھا اورکہیں ختم ہوچکا تھا ، جھولی میں صرف معاف کرنا بھر کرلے گیا۔
سب جھوٹ ہے فریب ہے ڈھونگ ہے ناٹک ہے
پکارتا رہا کہیں کہیں کو ڈوبنے والا
’’خدا‘‘ تھے اتنے مگر کوئی آڑے آنہ گیا
بیانات بیانات اعلانات اعلانات خرافات خرافات
سب جھوٹ ہے فریب ہے ڈھونگ ہیں
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تھا لیکن کرتا تھا بھی نہیں رہا تھا رہے ہیں فریب ہے جھوٹ ہے ا تھا ا اس لیے ہیں کہ اپنے ا کے لیے ہے اور
پڑھیں:
کانپور میں انوکھا واقعہ: دلہن شادی سے قبل فرار، دولہا بارات کے ساتھ خالی ہاتھ واپس لوٹ گیا
کانپور (نیوز ڈیسک) شادی ہر انسان کی زندگی کا سب سے خاص دن سمجھا جاتا ہے، لیکن اگر عین شادی کے دن دلہن ہی غائب ہو جائے تو یہ لمحہ کتنا دل توڑ دینے والا ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ یوپی کے ضلع کانپور کے ایک نوجوان ویرو کی کہانی سے لگایا جا سکتا ہے۔
ویرو، جو کہ تمل ناڈو میں ایک نجی کمپنی میں ملازم ہے، اپنی شادی کے لیے بڑی تیاری کے ساتھ بارات لے کر پنکی کالا گاؤں پہنچا۔ شادی کی رسومات روایتی انداز میں دھوم دھام سے ادا ہوئیں، لیکن سب کچھ اس وقت بدل گیا جب دلہن پھیرے کی رسم سے قبل ہی غائب ہو گئی۔
پہلے تو سب نے یہی سمجھا کہ شاید دلہن کسی ذاتی کام سے گئی ہے، لیکن جب کافی دیر گزر گئی تو دولہے کے والد راکیش نے دلہن کے والدین سے دریافت کیا۔ جواب میں بتایا گیا کہ دلہن اپنے بھائی کے ساتھ باہر گئی ہے اور جلد واپس آ جائے گی۔ تاہم کچھ دیر بعد دلہن کے والدین بھی موقع سے غائب ہو گئے۔
یہی نہیں، شادی کا بندوبست کرنے والا مڈل مین بھی پراسرار طور پر لاپتہ ہو گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دلہن کے لیے لائے گئے زیورات اور دیگر قیمتی اشیاء بھی ساتھ لے جائی گئیں۔ صبح تک دلہن اور اس کے خاندان کا کوئی سراغ نہ ملا، اور شادی کی بارات مایوسی کے ساتھ واپس لوٹ گئی۔
ویرو کے اہل خانہ نے پنکی پولیس اسٹیشن میں تحریری شکایت درج کروائی ہے۔ ایس ایچ او مانویندر سنگھ کے مطابق، دلہن اور اس کے گھر والوں کی تلاش جاری ہے جبکہ مڈل مین کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔
یہ واقعہ نہ صرف متاثرہ خاندان کے لیے صدمے کا باعث بنا، بلکہ یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ دھوکہ دہی کے واقعات اب زندگی کے سب سے اہم دن پر بھی سایہ ڈال سکتے ہیں۔
مزیدپڑھیں:نیا واٹس ایپ فراڈ: تصویر ڈاؤن لوڈ کرنے سے فون ہیک اور بینک اکاؤنٹ خالی ہونے کی حقیقت کیا؟