Express News:
2025-04-22@01:58:57 GMT

بحران سے معاشی استحکام تک کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 19th, April 2025 GMT

ملکی معیشت مستحکم ہوگئی ہے، قوم ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن ہوچکی ہے، ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے جناح اسکوائر مری روڈ انڈر پاس کے سنگ بنیاد کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ دوسری جانب ملکی برآمدات بڑھنے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ کے باعث مارچ 2025 میں پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ ملکی تاریخ میں پہلی 1.

2ڈالر سرپلس رہا۔ جب کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دوطرفہ فارن آفس مشاورت پندرہ سال بعد بحال ہوگئی ہے۔

اس وقت عالمی مالیاتی ادارے، بشمول بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF)، عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک، پاکستان کی معاشی سمت کے بارے میں نئی امید کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ صرف ایک پرامید اندازہ نہیں، بلکہ یہ قوم کے معاشی بحران پر قابو پانے کے عزم کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 12 بلین ڈالر تک پہنچ گئے، جو معاشی بحالی کے سفر میں ایک اہم سنگِ میل تھا۔ یہ اضافہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلاتِ زر، برآمدات میں مضبوط ترقی اور مالیاتی پالیسیوں پر عمل درآمد کا نتیجہ ہے۔ حکومت کی معاشی اصلاحات کے مثبت نتائج نے اس حوالے سے کیے گئے ہر پروپیگنڈے کو غلط ثابت کردیا ہے۔

حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط سے آگے بڑھ کر جامع اصلاحات کی ہیں جن میں توانائی کے شعبے کی تنظیم نو، ٹیکس کی بنیاد میں توسیع اور انسداد بدعنوانی کی کوششیں شامل ہیں۔ بحرانوں سے نکلنے کے لیے حکومت نے توانائی کی قیمتوں میں ایڈجسٹمنٹ اور نئے اقدامات کیے۔ اسی طرح ایس آئی ایف سی کے ذریعے صنعتی بحالی کی بھی کوششیں جاری ہیں۔ یہ اقدامات زراعت، آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کو فروغ دے رہے ہیں۔ حکومت نے اشرافیہ پر زیادہ انکم ٹیکس اور بینکوں پر ونڈ فال ٹیکس جیسے ترقی پسند اقدامات متعارف کرائے ہیں اور غریبوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے غیر سودی اخراجات میں 32 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔

اسی طرح حکومت نے ضرورت سے زیادہ اخراجات کو درست کیا، جیسے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا گیا تاکہ برین ڈرین کو روکا جا سکے۔ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں سخت مانیٹری پالیسی اور عالمی قیمتوں میں کمی کی بدولت افراط زر میں کمی آئی، جو کہ معاشی استحکام کی علامت ہے۔ روپے کے استحکام اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری نے قیمتوں کے استحکام میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حکومت نے گردشی قرضوں کو کنٹرول کرنے کے لیے توانائی کے شعبے میں ٹیرف ریشنلائزیشن، سرکاری اداروں کی نجکاری اور قرضوں کے انتظام میں بہتری کے بھی اقدامات کیے ہیں۔ ان اصلاحات سے پاکستان کے قرضوں کی صورتحال میں بہتری آئی ہے اور بحران سے نمٹنے کے لیے اہم اقدامات کیے گئے ہیں۔

حکومت نے اصلاحات اور اقدامات کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو استحکام کی راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کی، تاہم حکومت کی جانب سے معیشت کی بہتری کے لیے کیے گئے اقدامات کے نتائج کے حصول کے لیے وقت درکار ہے۔بجلی کی قیمت میں کمی ایک بہت بڑی بات ہے، توانائی شعبے میں اصلاحات کا عمل جاری ہے، نجکاری کا عمل تیزی سے جاری ہے، 24 ادارے نجکاری کے لیے کمیشن کے حوالے کیے ہیں، کیونکہ سرکاری اداروں کی وجہ سے سالانہ 800 سے ایک ہزار ارب کا نقصان ہوتا ہے، وزارتوں اور اداروں کی رائٹ سائزنگ کے لیے کام جاری ہے، پنشن اصلاحات کا عمل ملک میں پہلی بار شروع ہو چکا ہے۔پاکستان کی معیشت حالیہ برسوں میں متعدد چیلنجز سے گزرنے کے بعد اب ترقی اور استحکام کی راہ پر گامزن ہے اور مختلف معاشی اشاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملکی معیشت میں مثبت تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔

 پاکستان کی برآمدات نے سال 2025 میں اتار چڑھاؤ کے باوجود 30.351 ارب ڈالر کا سنگ میل عبور کیا، حکومت نے رواں سال کے لیے برآمدات کا ہدف 32.34 ارب ڈالر مقرر کیا ہے، جو معیشت کی مضبوطی اور عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی طلب کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ اضافہ خاص طور پر ٹیکسٹائل، زرعی مصنوعات اور آئی ٹی سیکٹر کی بدولت ممکن ہوا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے ٹیکس وصولی میں شاندار اضافہ دیکھا گیا۔ سال 2024 میں ٹیکس وصولی 9.252 ٹریلین روپے تک پہنچ گئی، جب کہ سال 2025 کے لیے 12.97 ٹریلین روپے کا ہدف رکھا گیا ہے۔

یہ بہتری ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے اور ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے شفافیت لانے کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جو مالیاتی نظم و ضبط کو مضبوط کر رہی ہے۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سال 2024 میں یہ 28.782 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں، اور سال 2025 میں ان کے 35 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ یہ اضافہ زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے اور کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کو بہتر بنانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ جو سرمایہ کاروں کے بڑھتے ہوئے اعتماد اور معاشی استحکام کی علامت ہے۔پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 2023 میں 9.16 ارب ڈالر کی کم ترین سطح پر تھے، لیکن 2025 میں یہ 16.05 ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ یہ اضافہ آئی ایم ایف کے تعاون، ترسیلات زر اور برآمدات کی بدولت ممکن ہوا، جو معیشت کے لیے ایک مضبوط بنیادی ڈھانچہ فراہم کر رہا ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام اور اصلاحاتی اقدامات سے پاکستانی معیشت مستحکم ہوئی، ٹیکس اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات نے معیشت کو سہارا دیا ہے۔ 2026 میں پاکستان کی معاشی ترقی 3فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے، نجی سرمایہ کاری میں اضافے سے ترقی کی رفتار بڑھنے کا امکان ہے۔عالمی قیمتوں میں استحکام اور طلب میں کمی سے مہنگائی پر قابو پانا ممکن ہے، پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن رہنے کے لیے اصلاحات کا تسلسل ضروری ہے۔ پاکستان کی معیشت میں بہتری اور استحکام کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں۔ یہ بحران سے استحکام تک کا سفر محض اقتصادی بحالی کی داستان نہیں، بلکہ یہ ایک عزم سے بھرپور قوم کی کہانی ہے جو مشکلات کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی اور اپنے مستقبل کو درخشاں بنانے کے لیے تاریخ کا رخ موڑنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

یہ خبر بھی خوش آیند ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان 15 برس کے وقفے کے بعد سیکریٹری خارجہ کی سطح کا مشاورتی اجلاس بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ہوا جس میں فریقین نے باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے دوطرفہ تعلقات کے تمام شعبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا جن میں سیاسی، اقتصادی اور تجارتی تعلقات، زراعت، ماحولیات اور تعلیم میں تعاون، ثقافتی تبادلے، دفاعی تعلقات اور عوام کے درمیان رابطے شامل ہیں۔ پاکستان نے بنگلہ دیش کے طلبا کے لیے اپنی زرعی یونیورسٹیوں میں تعلیم کی پیشکش کی، جب کہ بنگلہ دیش نے فشریز میں ٹیکنیکل ٹریننگ اور میری ٹائمز اسٹڈیز کی پیشکش کی ہے۔ بنگلہ دیش نے پاکستان کی نجی یونیورسٹیز کی طرف سے اسکالرشپس کو سراہا اور تعلیم کے شعبے میں تعاون کو بڑھانے پر زور دیا ہے۔

دونوں اطراف نے کراچی اور چٹا گانگ کے درمیان شپنگ کے آغاز کا خیرمقدم کیا اور فضائی راستوں کو کھولنے کی اہمیت پر بھی زور دیا، ویزوں اور سفر کی سہولتوں پر بھی اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس سے سیکریٹری خارجہ کی ملاقات کے دوران تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع، نوجوانوں کے روابط اور سارک کی بحالی پر بات چیت مرکوز رہی۔ ڈاکٹر یونس نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے دوطرفہ تعلقات کے بارے میں اپنے وژن کا بھی اظہار کیا۔حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں بھارت مخالف ایک لہر اٹھی ہے۔ جس نے بھارت کی تزویراتی گہرائی کو چیلنج کیا ہے۔ پہلے مالدیپ میں بھارت نواز حکومت کا خاتمہ اور پھر بنگلہ دیش میں بھارت مخالف قیادت کے ظہور نے اس کے لیے نیا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بھارت امریکا کے ساتھ مل کر چین کے بڑھتے اثرات کو روکنے کے لیے بنگلہ دیش کے مخالف ہر قدم اٹھا سکتا ہے، تاہم اب تک کی صورتحال کے مطابق بنگلہ دیش بھارتی اثر سے نکل کر چین اور پاکستان کی طرف باہمی احترام کے ساتھ تعلقات کو ایک نیا موڑ دینے جا رہا ہے۔پاکستان اور بنگلادیش برادر اسلامی ممالک ہیں۔ جن کے درمیان بہت سی چیزیں مشترک ہیں جب کہ ان کا مخالف بھی بھارت ہے۔ بھارتی آبی جارحیت سے لے کر سرحد پر بھارتی کشیدگی کی وجہ سے دونوں ممالک کو مختلف چیلنجز کا سامنا رہتا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان ٹیکسٹائل، زراعت، کھیل، فوجی ساز و سامان، لوگوں کے درمیان تعلقات، اور ثفافتی شعبوں میں تعاون کے لیے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔بنگلہ دیش میں نئی قیادت پاکستان کے ساتھ تعلقات کو نیا موڑ دینے کے لیے پر عزم ہے، تاہم ضرورت عملی اقدامات کی ہے تاکہ ایک دوسرے کے پوٹینشل کو بروئے کار لاتے ہوئے سیاسی اور معاشی مفادات کا حصول ممکن بنایا جا سکے اور خطے میں امن و امان اور ترقی کے لیے سارک ممالک سے مل کر اقدامات کیے جانے چاہئیں۔دونوں ممالک مسلم ملک اور ماضی کی تاریخ سے سبق سیکھ کے دنیا کا مقابلہ کرنا ہے اور اپنے اپنے عوام کے لیے بہتر اقدامات سے آسانیاں پیدا کرنے پر کام کرنے کی شدت سے ضرورت ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان اور بنگلہ دیش کے ڈالر تک پہنچ اقدامات کیے استحکام کی اقدامات کی پاکستان کے پاکستان کی کے درمیان یہ اضافہ ارب ڈالر کی معیشت پر گامزن حکومت نے برا مدات کیا گیا کے شعبے کے لیے دیا ہے کیا ہے

پڑھیں:

پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، طلال چودھری

وزیر مملکت برائے داخلہ کا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سیاسی استحکام کی وجہ سے ہم دہشتگردی کے خلاف اکٹھے ہو کر لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین پیپلزپارٹی کی تنقید کو ہم تعمیری طور پر لیتے ہیں۔ جبکہ نہروں کے معاملے کو حل کر لیا جائے گا۔ اسلام ٹائمز۔ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے کہا ہے کہ ہم پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چودھری نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف پہلے ہی پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لینا چاہتے تھے۔ لیکن بلاول بھٹو ملک سے باہر تھے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی سے ہائی لیول پر رابطہ ہو گیا ہے۔ پہلے بھی معاملات کو حل کیا ہے اس میں کوئی ذاتی معاملہ یا ذاتی فائدے کی بات نہیں ہے، جس کا جو حق بنتا ہے وہ اس کو ملے گا۔

طلال چودھری نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی استحکام کو ہم نقصان پہنچنے نہیں دیں گے۔ اور اسی سیاسی استحکام کی وجہ سے پاکستان کی معیشت مستحکم ہوئی ہے۔ سیاسی استحکام کی وجہ سے ہم دہشتگردی کے خلاف اکٹھے ہو کر لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کی تنقید کو ہم تعمیری طور پر لیتے ہیں۔ جبکہ نہروں کے معاملے کو حل کر لیا جائے گا۔

افغانستان سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے طلال چودھری نے کہا کہ افغان وفد پاکستان میں تھا۔ جو کچھ روز قبل ہی واپس گیا ہے۔ ہماری پالیسی صرف افغانستان کے لیے نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان شہریوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے اور افغان شہریوں کی واپسی کی ڈیڈ لائن میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ دہشتگردی کے خلاف سب کو متحد ہونا ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • استحکام پاکستان کانفرنس
  • وفاقی حکومت نے پاکستان کے نوجوانوں کی سماجی و معاشی خودمختاری کے لیے درجنوں پروگرامز شروع کیے ہیں،چیئرمین یوتھ پروگرام رانا مشہود
  • معاشی استحکام کے مثبت اثرات پاکستان اسٹاک مارکیٹ پر کیسے مرتب ہورہے ہیں؟
  • پاکستان میں سیاسی استحکام کو نقصان پہنچنے نہیں دیں گے، طلال چودھری
  • حکمران عیاشیوں میں لگے ہوئے ہیں، حکومت کے پاس مینڈیٹ ہی نہیں، عمر ایوب
  • بنگلہ دیش کا شیخ حسینہ کے خلاف ریڈ نوٹس کیلئے انٹرپول سے رابطہ
  • یہ وقت جھوٹے بیانات، شعبدہ بازی کا نہیں، عوامی خدمت کا ہے: عظمیٰ بخاری 
  • سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں. اسد عمر
  • معاشی استحکام حقیقی لیکن یہ عالمی منڈی کا مرہون منت ہے: مفتاح اسماعیل 
  • مہلت ختم، اقدامات سخت، پاکستان میں مقیم غیر قانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کے انخلا کا عمل مزید تیز