WE News:
2025-12-14@09:19:53 GMT

روس نے طالبان پر سے پابندی اٹھالی، اصل وجہ کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT

روس نے طالبان پر سے پابندی اٹھالی، اصل وجہ کیا ہے؟

روس کی سپریم کورٹ نے 17 اپریل کو طالبان پر ملک میں عائد پابندی عارضی طور پر معطل کر دی تھی جس کے لیے درخواست پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات بہتری کی طرف گامزن ہیں؟

ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ درخواست صدر ولادیمیر پوٹن کے ایک سال قبل جاری کردہ ایک صدارتی فرمان پر مبنی ہے جس میں تحریک طالبان کو دہشت گردوں کی فہرست سے ہٹانے کی اجازت دی گئی تھی۔ سنہ 2021 میں طالبان نے بین الاقوامی اتحادی افواج کے انخلا کے بعد کابل میں اقتدار دوبارہ حاصل کر لیا تھا۔

17 اپریل سے پہلے تک قانون تو یہ تھا کہ طالبان کے کسی بھی رکن کو روس میں داخلے پر گرفتار کیا جانا چاہیے اور اسے دہشتگردانہ سرگرمیوں کے الزام میں 20 سال تک قید کی سزا بھی ہونی چاہیے۔ تاہم عملی طور پر سنہ 2016 کے بعد سے کسی بھی طالبان رکن کو روس میں داخلے پر گرفتار نہیں کیا گیا۔

گرفتاریاں نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت روس نے طالبان کے ساتھ غیر رسمی مذاکرات شروع کر دیے تھے جس کے بعد طالبان کے نمائندوں نے بارہا ماسکو اور سینٹ پیٹرزبرگ کا دورہ کیا جہاں وہ عالمی اقتصادی فورم کے موقع پر بھی نظر آئے۔

دوسری جانب روسی میڈیا اس عرصے کے دوران بھی طالبان کو روس میں کالعدم دہشتگرد تنظیم کہتا رہا لیکن سنہ 2024 میں یہ صورتحال بدل گئی۔ گزشتہ برس صدر پوٹن نے طالبان کو ‘دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی قرار دینا شروع کر دیا۔

قانونی طور پر کیا بدلا ہے؟

سپریم کورٹ کا فیصلہ بظاہر افغانستان کے ساتھ براہ راست جامع معاہدوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ آزاد انسانی حقوق کے گروپ پیروی اوٹڈیل کے یوگینی سمرنوف نے میڈیا کو بتایا کہ روسی فوجداری قانون دہشتگرد قرار دی گئی تنظیموں کے ساتھ تعاون کے لیے مختلف قید کی سزائیں مقرر کرتا ہے۔

مزید پڑھیے: افغان طالبان کا وفد سفارتی دورے پر جاپان پہنچ گیا

اس کے باوجود سنہ 2024 میں روس نے طالبان کے ساتھ تیل کی مصنوعات، گندم اور آٹے کی فراہمی کے معاہدے کیے۔ اس روسی وکیل کے مطابق یہ معاہدے ممکنہ طور پر طالبان کے نمائندوں کی براہ راست شمولیت کے بغیر کاروباری اداروں کے ذریعے طے کیے گئے۔

سمرنوف نے زور دیا کہ روسی قانون میں کوئی واضح طریقہ کار موجود نہیں ہے جس کے ذریعے دہشتگرد تنظیم کی درجہ بندی کو واپس لیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ عارضی طور پر فہرست سے ہٹانے کا مطلب ہے کہ تنظیم عملی طور پر فہرست سے خارج ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد طالبان کے ساتھ تعاون کے کوئی قانونی نتائج نہیں ہوں گے۔

روس کی طرف سے سیاسی استثنیٰ

مشرقی امور کے ماہر ارسلان سلیمانوف نے بتایا ہے کہ اب تک کسی بھی ملک نے سرکاری طور پر طالبان کو افغانستان کی جائز حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کیا۔ ان کے مطابق یہ تحریک بین الاقوامی تنہائی سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر طالبان نے قزاقستان اور کرغیزستان کو بھی اپنی قومی دہشتگرد تنظیموں کی فہرست سے ان کو نکالنے پر آمادہ کیا۔

سلیمانوف کا وضاحت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ابھی تک انہیں بالواسطہ ہی تسلیم کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر چین نے طالبان کی طرف سے نامزد سفیر کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے جبکہ روس نے صرف عارضی چارج ڈی افیئر کو قبول کیا ہے۔

سلیمانوف کے خیال میں بین الاقوامی برادری کا طالبان تحریک کے حوالے سے شکوک و شبہات کا تعلق افغانستان میں اُن سخت قوانین اور پابندیوں کی واپسی سے ہے جو سنہ 1996 سے سنہ 2001 تک طالبان کی سابقہ حکومت کے دوران نافذ تھے۔ ان سخت قوانین سے افغانستان میں انسانی حقوق کی صورتحال، خصوصاً خواتین اور لڑکیوں کے لیے انتہائی خراب ہو گئی ہے۔

مغرب کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں ماسکو نے طالبان کے اعتدال پسند نمائندوں سے رابطے شروع کیے ہیں کیونکہ روس خود کو خطے میں ایک اہم کردار کے طور پر دیکھتا ہے۔ سلیمانوف کے مطابق اس پیش رفت کا تعلق طالبان کو روس کے دوروں کے لیے دیے گئے سیاسی استثنیٰ سے ہے۔

روس نے سنہ 2021 میں یہ دکھانا چاہا کہ امریکی خارجہ پالیسی ناکام ہوئی ہے۔ اس ماہر کے مطابق روسی پروپیگنڈا نے طالبان کی تائید کی جو روس میں مغرب مخالف مسلسل بیانات کے تناظر میں آج تک جاری ہے۔

کیا اب روس میں طالبان کا اثرو رسوخ بڑھے گا؟

سلیمانوف کو امید نہیں کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے طالبان کا روس میں اثر و رسوخ بڑھے گا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اگرچہ روس میں زیادہ تر مسلمان، طالبان کی طرح سنی ہیں لیکن خطوں کے درمیان نظریاتی اختلافات نمایاں ہیں۔

مزید پڑھیں: کابل فال کے وقت افغان ایئر فورس طالبان کے خلاف امریکی ایئر کرافٹس کیوں استعمال نہیں کرپائی؟

انہوں نے کہا کہ طالبان ان کے لیے اجنبی اور ناقابل فہم ہیں۔ مثال کے طور پر سنہ 2021 میں روس کی مسلم روحانی اسمبلی کے مفتی البیر کرگانوف نے طالبان کے قریب آنے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ان کے خیال میں وسطی ایشیا کے وہ لوگ، جو طالبان سے تعلق رکھتے ہیں، روس کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ‘صورتحال کو غیر مستحکم کر سکتے ہیں۔

سلیمانوف نے مزید کہا کہ روسی تاجروں کو افغانستان میں سرمایہ کاری میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں کیونکہ یہ خطہ اب بھی خطرناک اور غیر مستحکم ہے۔ انہوں نے یاد دلایان کہ سنہ 2022 میں روس اور افغانستان کے درمیان ایندھن اور گندم کی فراہمی کے معاہدے کو بھی مکمل طور پر نافذ نہیں کیا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

روس طالبان طالبان پر پابندی ختم.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: طالبان طالبان پر پابندی ختم نے طالبان کے طالبان کی طالبان کو کے طور پر فہرست سے کے مطابق انہوں نے کیا گیا کے ساتھ کے بعد کے لیے کو روس

پڑھیں:

طالبان دور میں خواتین پر بے مثال جبر، اقوام متحدہ سمیت دنیا کا شدید احتجاج

افغانستان میں طالبان حکومت کے تحت خواتین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر عالمی برداری نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔

افغان میڈیا ’’آماج نیوز‘‘ کے مطابق 56 ممالک نے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں خواتین کو منظم امتیازی سلوک، بے توقیری اور بنیادی حقوق کی شدید پابندیوں کا سامنا ہے۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ملک میں خواتین کی تعلیم، ملازمت اور آزادانہ نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد ہیں، جبکہ لڑکیوں کی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر چار سال سے مکمل پابندی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی نائب خصوصی نمائندہ برائے افغانستان جیورگیٹا گیگنن نے کہا کہ طالبان حکومت خواتین اور لڑکیوں کو عوامی زندگی کے تمام شعبوں سے باہر کر چکی ہے۔

اقوام متحدہ کے معاون سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بھوک سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ 74 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ سلووینیا کی نمائندہ ٹانجا فایون نے کہا کہ طالبان انتظامیہ میں مسائل کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دیتی۔

چین کے مستقل نمائندے فو کانگ نے افغانستان میں انسانی بحران اور دہشت گردی کے خطرات پر گہری تشویش ظاہر کی۔ کوریا کے نمائندے نے کہا کہ طالبان کے سخت اقدامات خواتین کو اقوام متحدہ اور دیگر امدادی تنظیموں میں کام کرنے سے روک رہے ہیں۔

روسی نمائندے واسلی نیبنزیا نے افغانستان میں بنیادی آزادیوں کے تحفظ کی فوری ضرورت پر زور دیا، جبکہ یونانی نمائندے کے مطابق خواتین، لڑکیوں اور اقلیتی گروہوں کیلئے حالات نہایت خطرناک ہو چکے ہیں۔ ڈنمارک کی نمائندہ کرسٹینا مارکس لسن نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر طالبان سے متعلق فیصلوں میں خواتین کے حقوق کو مرکزی اہمیت دینا ضروری ہے۔

برطانوی نمائندے نے کہا کہ طالبان کے چار سالہ دور میں خواتین پر جبر میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ پانامہ کے نمائندے ایلوی الفارو ڈی البا کے مطابق افغان خواتین اس وقت دنیا کی سب سے سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ ایرانی نمائندے نے کہا کہ تعلیم اور روزگار پر پابندیاں اسلامی تعلیمات اور انسانی وقار کے منافی ہیں۔

عالمی برداری نے مشترکہ طور پر واضح کیا کہ طالبان کی آمرانہ پالیسیاں آزادی اظہار، انسانی حقوق اور خواتین کے مستقبل کو شدید خطرات میں ڈال رہی ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • ’ایک ہزار افغان علما کی منظور کردہ قرارداد خوش آئند مگر پاکستان تحریری ضمانت چاہتا ہے‘
  • افغانستان اور دہشت گردی
  • طالبان اور روس کے درمیان زرعی مصنوعات کی برآمدات میں توسیع کا معاہدہ
  • افغان طالبان کا ایران میں ہونے والے علاقائی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
  • افغانستان سے دہشتگردی سر اُٹھا رہی ہے، دنیا طالبان رجیم پر دباؤ ڈالے: وزیراعظم
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغانستان سے اٹھ رہا ہے، عالمی برادری طالبان پر دباؤ ڈالے: وزیراعظم
  • طالبان دور میں خواتین پر بے مثال جبر، اقوام متحدہ سمیت دنیا کا شدید احتجاج
  • افغانستان: عالمی دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر
  • پاکستان اور افغان طالبان میں روایتی معنوں میں جنگ بندی نہیں، دفتر خارجہ
  • پاک افغان تجارتی کشیدگی، اصل مسئلہ سرحد نہیں، دہشتگردی ہے