Nawaiwaqt:
2025-04-22@01:29:06 GMT

کیا 9 مئی پر ادارے نے کسی کا احتساب کیا؟ جسٹس حسن اظہر رضوی

اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT

کیا 9 مئی پر ادارے نے کسی کا احتساب کیا؟ جسٹس حسن اظہر رضوی

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں زیر سماعت فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق انٹرا کورٹ اپیل میں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل مکمل کرلیے. جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کیا 9 مئی پر ادارے نے کسی کا احتساب کیا؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا اس سوال کا جواب اٹارنی جنرل دیں گے۔سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے حوالے سے وزارت دفاع کی انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔دوران سماعت وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث پیش ہوئے تو عدالت نے انہیں آج دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی۔دوران سماعت جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ پک اینڈ چوز کس طرح سے کیا گیا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پک اینڈ چوز والی بات نہیں ہے، جو جرم ہوں اس کے مطابق دیکھا جاتا ہے، کیس نوعیت مطابق انسداد دہشت گردی عدالت یا ملٹری کورٹ میں بھیجا جاتا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 8 (3) میں کیا ہے؟ کیا سویلین اس کے زمرے میں آتے ہیں؟ یہاں پر بات صرف فورسز کے ممبر کو ڈسپلن میں رکھنے کے لیے ہے.

جہاں پر کلئیر ہو کہ یہ صرف ممبرز کے لیے وہاں پر مزید کیا ہونا ہے؟ جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال اٹھایا کہ اگر کوئی سویلین فوجی تنصیبات پر حملہ کرتا ہے تو اس کا اس سے کیا تعلق ہے؟جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے یہ صرف ممبرز کے لیے ہے اور اگر اس میں سویلین کو لانا ہوتا تو پھر اس میں الگ سے لکھا جاتا. 73 کے آئین میں بہت سی چیزیں پہلے والے 2 آئینوں کی چیزیں ویسے کی ویسی ہی آ گئی ہیں، مارشل لا ادوار میں 1973 کے آئین میں بہت سی چیزیں شامل کی گئیں. آئینی ترمیم کر کے مارشل لا ادوار کی چیزیں تبدیل کرکے آئین کو اصل شکل میں واپس لایا گیا. لیکن اس میں بھی آرمی ایکٹ کے حوالے سے چیزوں کو نہیں چھیڑا گیا۔خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ اسلامی قانون میں حدود آرڈیننس کی سزا متعین کی جاتی ہے، جرم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ہوا یا نہیں، یہ بھی پک اینڈ چوز نہیں ہے. فیصل صدیقی نے اس کیس میں 1995 کے قانون کا حوالہ دیا تھا، ہمارا کیس 1995 میں فال ہی نہیں کرتا۔خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ 2 (1)(ڈی) میں جرم کی نوعیت بھی بتا دی گئی ہے. آرمی ایکٹ میں جو جرائم اسپیسیفائے ہیں وہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں آتے ہیں.جسٹس جمال مندو خیل نے استفسار کیا اگر سول جرائم بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں آئیں تو سب کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو سکتا ہے؟ اغوا کی مثال لے لیں، اگر اغوا دہشت گردی کے مقصد سے کیا گیا ہو تو ٹرائل انسداد دہشت گردی قانون کے تحت چلے گا، اگر اغوا تاوان کے مقصد سے کیا گیا ہو تو وہ تعزیرات پاکستان کے تحت چلے گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا آرمی ایکٹ میں ممبر ریلیٹیڈ ٹو آرمڈ فورسز ہے. اس کا کیا مطلب ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیےکہ جب کہہ دیا گیا کہ ممبر آف آرمڈ فورسز تو کیا بچ گیا؟خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ لا ریلیٹیڈ ٹو ممبر آف آرمڈ فورسز ایک مکمل قانون ہے. ممبر ریلیٹیڈ ٹو آرمڈ فورسز ایک پرویشن ہے مکمل قانون نہیں ہے، آئین ملٹری کورٹ کی کارروائی کی توثیق کرتا ہے، کورٹ مارشل آئینی طور پر تسلیم شدہ ہے. کورٹ مارشل زمانہ جنگ نہیں زمانہ امن میں بھی ہوتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب ایسا نہ ہو نمازیں بخشوانے آئے اور روزے گلے پڑ جائیں. جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سیکشن 2 (1) (ڈی) (ون) 1967 میں شامل کیا گیا. یہ سیکشن 1962 کے آئین کے نیچے بنایا گیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 202 کے تحت دو طرح کی عدالتیں ہیں، ہائیکورٹ اور ماتحت عدلیہ، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ ملٹری کا قانون آئین سے ٹکراتا ہے؟ ہمارا 1973 کا آئین بڑا مضبوط ہے۔خواجہ حارث نے کہا کہ فیئرٹرائل کورٹ مارشل کارروائی میں بھی ہوتا ہے، پریذائیڈنگ افسران قانونی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں. جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ ملٹری کی 12، 13 تنصیبات پر حملے ہوئے. ملٹری تنصیبات پر وہ حملے سیکیورٹی کی ناکامی تھی. اس وقت ملٹری افسران کے خلاف کارروائی کی گئی تھی. کیا 9 مئی پر کسی کا ادارے نے احتساب کیا؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا اس سوال کا جواب اٹارنی جنرل دیں گے. دوران سماعت خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے خواجہ حارث کا شکریہ ادا کیا۔عدالت نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت 28 اپریل تک ملتوی کردی. 28 اپریل کو اٹارنی جنرل دلائل دیں گے۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس حسن اظہر رضوی نے جسٹس مسرت ہلالی نے نے ریمارکس دیے کہ نے استفسار کیا خواجہ حارث نے اٹارنی جنرل آرمڈ فورسز میں سویلین ایکٹ میں میں بھی کے آئین کیا گیا کے تحت سے کیا

پڑھیں:

جسٹس منصور علی شاہ نے قائمقام چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا

سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے قائمقام چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھا لیا، سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس منیب اختر نے ان سے حلف لیا۔

حلف برداری کی تقریب میں سپریم کورٹ کے ججز، اٹارنی جنرل، لا افسران اور وکلا شریک ہوئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جسٹس منصور علی شاہ جسٹس منیب اختر حلف برداری سپریم کورٹ

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ: ججز تبادلہ اور سنیارٹی کیس، لاہور ہائیکورٹ بار کی متفرق درخواست دائر
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • سابق جج سپریم کورٹ جسٹس سرمد جلال عثمانی انتقال کر گئے
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈسرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائمقام چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • ہمیں معیشت کی بہتری کا جھوٹا بیانیہ دیا گیا، سلمان اکرم راجہ
  • سندھ کے حصے کے پانی کا ایک قطرہ بھی کم نہیں ہونے دیں گے، وفاقی وزیر
  • چیف جسٹس ایس سی او جوڈیشنل کانفرنس کیلیے آج چین جائیں گے
  • آرمی ایکٹ صرف آرمڈ فورسز کیلئے، سویلین کو لانا ہوتا تو الگ سے ذکر کیا جاتا: جسٹس نعیم