’ارشد چائے والا‘ کیجانب سے پاکستانی شہری ہونیکا دعویٰ تضادات پر مبنی ہے، نادرا رپورٹ میں انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 18th, April 2025 GMT
چائے کے ڈھاپے سے شہرت پانے والا ارشد خان عرف ارشد چائے والا سے متعلق نادرا نے عدالت میں رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق عدالت میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں ’ارشد چائے والا‘ افغان شہری بتایا گیا ہے
یہ بھی پڑھیں:ارشد چائے والا کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک، وجہ کیا بنی؟
نادرا رپورٹ کے مطابق ارشد چائے کی جانب سے پاکستانی شہریت کے ثبوت میں جمع کروائے گئے کوائف تضاد پر مبنی ہیں۔ ’ارشد چائے والا‘ نے کوائف میں اپنے والد کی جائے پیدائش سرگودھا، اپنی جائے پیدائش اسلام آباد بتائی ہے، جبکہ والدہ کے نام میں تضاد ہے۔
رپورٹ کے مطابق ارشد چائے والا کو کارآمد شناختی کارڈ پر پاسپورٹ جاری ہوا جس کی بنیاد پر 2 تصدیقی ایجنسیوں کی رپورٹ کے بعد شوکاز جاری ہوا ہے ۔
نادرا کے مطابق اس پیشرفت کے بعد درخواست گزار کے وکیل نے مہلت لے لی اور اب مزید سماعت22 اپریل کو ہوگی۔
یاد رہے کہ ارشد خان نے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک ہونے پر لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ سے رجوع کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ارشد چائے والا افغان باشندہ پاسپورٹ پاکستان راولپنڈی بینچ لاہور ہائیکورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ارشد چائے والا افغان باشندہ پاسپورٹ پاکستان راولپنڈی بینچ لاہور ہائیکورٹ ارشد چائے والا رپورٹ کے کے مطابق
پڑھیں:
وسائل کے تحفظ کیلئے آغا راحت کا بیان حقیقت پر مبنی ہے، عارف قنبری
ایم ڈبلیو ایم گلگت کے صدر نے ایک بیان میں کہا کہ سہولت کار حکومت کے کمیشن خور مشیر کی آغا راحت کے خلاف بیان بازی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے حکومتی کرپشن سے توجہ ہٹانے اور فرقہ واریت پھیلانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان کی معدنیات، جنگلات، زمینیں و دیگر وسائل کے تحفظ کے حوالے سے قائد ملت جعفریہ سید راحت حسین الحسینی کا بیان حقیقت پر مبنی ہے۔ آغا راحت نے گلگت بلتستان کے 20 لاکھ عوام کی ترجمانی کی ہے۔ ان خیالات کا اظہار عارف حسین قنبری صدر ایم ڈبلیو ایم گلگت نے اپنے ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سہولت کار حکومت کے کمیشن خور مشیر کی آغا راحت کے خلاف بیان بازی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے اسے حکومتی کرپشن سے توجہ ہٹانے اور فرقہ واریت پھیلانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔